نماز میت، واجب نماز ہے جو دفن سے پہلے ہر مسلمان کے جنازہ پر پڑھی جاتی ہے۔ یہ نماز پانچ تکبیروں پر مشتمل ہے۔ اس میں پہلی تکبیر کے بعد شہادتین، دوسری تکبیر کے بعد صلوات، تیسری تکبیر کے بعد مومنین و مسلمین کے لئے طلب مغفرت، چوتھی تکبیر کے بعد اس میت کے لئے مغفرت کی دعا کی جاتی ہے اور پانچویں تکبیر کے ساتھ ہی نماز ختم ہو جاتی ہے۔

نماز میت دوسری نمازوں سے مختلف ہے اس میں حمد، رکوع، سجدہ، تشہد و سلام نہیں ہے۔ اسی طرح سے اس کیلئے طہارت شرط نہیں ہے۔ لہذا اسے وضو و غسل کے بغیر پڑھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ واجب نمازوں کے شرائط کی رعایت کرنا بہتر ہے۔

اس نماز کو جماعت کے ساتھ اور فرادا دونوں طرح سے پڑھا جاتا ہے۔ البتہ جماعت کی صورت میں ماموم کو چاہئے کہ وہ تکبیروں اور دعاوں کو خود بھی پڑھے۔

اہل سنت کے یہاں نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں اور یہ سلام کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔

تعریف

نماز میت ان دعاوں اور تکبیروں کو کہتے ہیں جس کا کسی مسلمان کے جنازہ پر غسل و کفن کے بعد اور دفن سے پہلے مسلمانوں کے لئے پڑھنا واجب ہے۔ منابع فقہی کے مطابق، نماز میت میں واجب نمازوں کے بعض شرایط جیسے طہارت کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے۔[1] اسی طرح سے اس میں سلام نہیں ہے۔[2]

نماز میت نماز نہیں ہے

شہید ثانی کے بقول، فقہاء کے درمیان مشہور نظریہ کے مطابق نماز میت کا شمار نماز میں نہیں ہے اور یہ در حقیقت میت کے لئے ایک طرح کی دعا ہے۔ اس لئے کہ بغیر رکوع و سجود کے نماز کے کوئی معنی نہیں ہیں اور طہارت ہر نماز کے لئے شرط ہے لیکن نماز میت میں ان میں سے کوئی بھی شرط نہیں ہے۔[3]

کتاب فقہ الرضا میں امام علی رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ نماز میت نماز نہیں، فقط تکبیر ہے۔ اس لئے کہ نماز وہ ہوتی ہے جس میں رکوع و سجود ہو۔[4]

کیفیت نماز

نماز میت پڑھتے وقت جنازہ کو قبلہ رخ کریں اس طرح سے کہ میت کا سر نمازیوں کی دائیں جانب اور اس کے پاؤں بائیں جانب ہوں۔[5] نماز گزار رو بقبلہ کھڑا ہو۔[6] اس کے اور میت کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو[7] اور وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے۔[8]

نماز گزار نماز میت کی نیت سے پانچ تکبیر کہے۔ پہلی چار تکبیروں کے بعد مخصوص دعاوں کو پڑھے اور پانچویں تکبیر کے ساتھ نماز کو ختم کر دے۔[9]

پہلی تکبیر کے بعد شہادتین، دوسری تکبیر کے بعد صلوات، تیسری تکبیر کے بعد تمام مؤمنین و مسلمین کی مغفرت کی دعا کرے، چوتھی تکبیر کے بعد موجود میت کی مغفرت کی دعا کرے اور پانچویں تکبیر کہہ کر اپنی نماز کو ختم کرے۔[10]

پہلی چار تکبیروں کے بعد پڑھے جانے والے اذکار و دعائیں درج ذیل ہیں:

تکبیر واجب دعا مستحب دعا
پہلی اَشْهَدُ اَنْ لا الهَ الَّا اللَّهُ وَ اَنَّ مُحَمَّداً رَسوُلُ اللَّهِ اَللَّهُ اَکبَرُ اَشْهَدُ اَنْ لا اِلهَ اللَّهُ وَحْدَهُ لاشَریک لَهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ اَرْسَلَهُ بِالْحَقِّ بَشیراً وَ نَذیراً بَینَ یدَی السّاعَةِ
دوسری اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ بارِک عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَارْحَمْ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّدٍ کاَفْضَلِ ما صَلَّیتَ وَ بارَکتَ وَ تَرَحَّمْتَ عَلی اِبْرهیمَ وَ آلِ اِبْرهیمَ اِنَّک حَمیدٌ مَجیدٌ وَ صَلِّ عَلی جَمیعِ الاَنْبِیآءِ وَالْمُرْسَلینَ
تیسری اَللَّهُمَّ اْغفِرْ لِلْمُؤْمِنینَ وَ الْمُؤْمِناتِ اَللّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنینَ وَالْمُؤْمِناتِ وَالْمُسْلِمینَ وَالْمُسْلِماتِ الاَحْیآءِ مِنْهُمْ وَالاَمْواتِ تابِعْ بَینَنا وَ بَینَهُمْ بِالْخَیراتِ اِنَّک مُجیبُ الدَّعَواتِ اِنَّک عَلی کلِّشَیئٍ قَدیرٌ
چوتھی مرد کیلئے: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِهذَا المَیت

عورت: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِهذِهِ المَیت

مرد کیلئے: اَللّهُمَّ اِنَّ هذا عَبْدُک وَابْنُ عَبْدِک وَابْنُ اَمَتِک نَزَلَ بِک وَ اَنْتَ خَیرُ مَنْزُولٍ بِهِ اَللّهُمَّ اِنّا لا نَعْلَمُ مِنْهُ اِلاّ خَیراً وَ اَنْتَ اَعْلَمُ بِهِ مِنّا اَللّهُمَّ اِنْ کانَ مُحْسِناً فَزِدْ فی اِحْسانِهِ وَ اِنْ کانَ مُسَّیئاً فَتَجاوَزْ عَنْهُ وَاغْفِرِ لَهُ اَللّهُمَّ اجْعَلْهُ عِنْدَک فی اَعْلا عِلِّیینَ وَاخْلُفْ عَلی اَهْلِهِ فِی الْغابِرینَ وَارْحَمْهُ بِرَحْمَتِک یا اَرْحَمَ الرّاحِمینَ

عورت کیلئے: اَللّهُمَّ اِنَّ هذِهِ اَمَتُک وَابْنَةُ عَبْدِک و انبنَةُ اَمَتِکَ نَزَلَتْ بِک وَ اَنْتَ خَیرُ مَنْزوُلٍ بِهِ اَللّهُمَّ اِنّا لا نَعْلَمُ مِنْها اِلاّ خَیراً وَ اَنْتَ اَعْلَمُ بِهامِنّا اَللّهُمَّ اِنْ کانَتْ مُحْسِنَةً فَزِدْ فی اِحْسانِها وَ اِنْ کانَتْ مُسیئةً فَتَجاوَزْ عَنْها وَاغْفِرْ لَها اَللّهُمَّ اجْعَلْها عِنْدَک فی اَعْلا عِلِّیینَ وَاخْلُفْ عَلی اَهْلِها فِی الْغابِرینَ وَارْحَمْها بِرَحْمَتِک یا اَرْحَمَ الرّاحِمینَ[11]

پانچویں اختتام اختتام

فقہائے اہل سنت کا نظریہ

اہل سنت کے یہاں نماز میت میں چار تکبیریں ہیں۔ پہلی تکبیر کے ساتھ نماز کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے بعد اللہ کی حمد کی جاتی ہے۔ دوسری تکبیر کے بعد صلوات پڑھی جاتی ہے۔ تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کی جاتی ہے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پڑھ کر نماز ختم ہوتی ہے۔[12] البتہ اہل سنت کے درمیان اس نماز میت کی بعض جزئیات کے سلسلہ میں اختلاف نظر ہے۔[13]

احکام

نماز میت کے بعض احکام مندرجہ ذیل ہیں:

  • نماز میت واجب کفائی ہے لہذا اگر کسی ایک نے پڑھ لی تو باقی سب پر سے اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔[14]
  • صاحب جواہر کے بقول، فقہائے مشہور کی نظر کے مطابق، ایک جنازہ پر کئی بار نماز پڑھنا مکروہ ہے۔[15] آیت اللہ سیستانی کے فتوی کے مطابق یہ کراہت ثابت نہیں ہے اور اگر میت اہل علم یا تقوی ہو تو مکروہ نہیں ہے۔[16]
  • نماز میت جماعت کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے لیکن مامومین کے لئے خود تکبیروں اور دعاوں کا پڑھنا ضروری ہے۔[17]
  • چھ سال کے مسلمان کی میت پر نماز جنازہ پڑھنا واجب ہے۔[18]
  • کافر اور ناصبی کے جنازہ پر نماز نہیں ہڑھی جائے گی۔[19]
  • نماز میت میں حدث اکبر و حدث اصغر سے پاک ہونا لازم نہیں ہے۔[20] البتہ واجب نمازوں کے شرایط کی رعایت کرنا بہتر ہے۔[21]
  • نماز میت دفن سے پہلے[22] اور غسل و کفن کے بعد پڑھی جائے۔[23]
  • اگر کسی مسلمان کا جنازہ بغیر نماز کے دفن کر دیا جائے تو نماز اس کی قبر پر پڑھی جائے گی۔[24]
  • کئی جنازوں پر ایک نماز میت پڑھی جا سکتی ہے۔[25]
  • مساجد میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے۔[26] بعض مراجع تقلید نے مسجد الحرام کو اس حکم سے مستثنی کیا ہے[27] لیکن بعض دیگر نے اس استثنی کو رد کیا ہے۔[28]
  • نماز میت جوتے پہن کر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ جوتے کے بغیر پڑھنا مستحب ہے۔[29]

ناقابل فراموش نماز میت

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا و امام خمینی کی نماز میت کئی جہات سے مورد توجہ رہی ہے۔ مورخین کے نقل کے مطابق حضرت علی نے رات کی تاریکی میں اپنی زوجہ فاطمہ کو غسل دیا[30] اور ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔[31] طبرسی کے مطابق، امام حسن، امام حسین، مقداد، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، عقیل بن ابی طالب، زبیر بن عوام، بریدہ بن حصیب اسلمی اور بعض بنی‌ ہاشم نے اس میں شرکت کی۔[32]

سبب یہ تھا کہ حضرت فاطمہ نے امام علی سے وصیت کی تھی کہ انہیں رات کی تاریکی میں دفن کیا جائے تا کہ جن لوگوں نے ان پر ظلم کیا ہے وہ ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو سکیں اور ان کی نماز میت نہ پڑھ سکیں۔[33]

امام خمینی کی نماز میت عوامی شرکت کے لحاظ سے بزرگ ترین نماز جنازہ میں شمار ہوتی ہے۔ یہ نماز 4 جون 1989ء میں آیت اللہ العظمی سید محمد رضا موسوی گلپائگانی کی اقتدا میں ادا کی گئی۔ امام خمینی کی تشییع جنازہ تاریخ کی سب سے بڑی تشییع جنازہ شمار کی جاتی ہے۔[34]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۶۰.
  2. علامہ حلی، تذکرة الفقهاء، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۷۵؛ شهید ثانی، الروضة البهیہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۲۹.
  3. شهید ثانی، روض‌ الجنان، مؤسسہ آل‌ البیت، ص۱۷۲و۱۷۳.
  4. فقہ الرضا، ۱۴۰۶ق، ۱۷۹.
  5. شهید ثانی، الروضة البهیہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۲۶.
  6. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۵۳.
  7. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۶۷.
  8. شهید ثانی، الروضة البهیہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۲۵.
  9. شهید اول، الدروس الشرعیہ، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۱۲-۱۱۳.
  10. شهید اول، الدروس الشرعیہ، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۱۳؛ شهید ثانی، الروضة البهیہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۴۲۸.
  11. نگاه کریں بنی‌ هاشمی خمینی، توضیح‌ المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۳۳۷، مسألہ ۶۰۸.
  12. ملا خسرو، درر الحكام شرح غرر الأحكام، دارإحیاء الكتب العربیة، ج۱، ص۱۶۳.
  13. نگاه کریں ابن مازه، المحيط البرهانی، ۲۰۰۴ء، ج۲، ص۱۷۸؛ ملاخسرو، درر الحكام شرح غرر الأحكام، دارإحیاء الكتب العربیة، ج۱، ص۱۶۳.
  14. معجم فقخ الجواهر، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۱۷۲.
  15. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۱۰۰.
  16. بنی‌ هاشمی خمینی، توضیح‌ المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۳۳۶، مسألہ ۶۰۶.
  17. شهید ثانی، الروضة البهیہ، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۲۰۵.
  18. شهید اول، الدروس الشرعیہ، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۱۱.
  19. شهید اول، الدروس الشرعیہ، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۱۱.
  20. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۶۰.
  21. آملی، مصباح الهدی، ۱۳۸۰ق، ج۶، ص۳۶۹.
  22. آملی، مصباح الهدی، ۱۳۸۰ق، ج۶، ص۳۹۲.
  23. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۶۸.
  24. آملی، مصباح الهدی، ۱۳۸۰ق، ج۶، ص۳۷۷.
  25. علامہ حلی، تذکرة الفقهاء، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۶۷.
  26. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۹۸-۹۹.
  27. بنی‌ هاشمی خمینی، توضیح‌ المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۳۳۹، مسألہ ۶۱۲.
  28. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۹۸-۹۹.
  29. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۸۴.
  30. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۷۳-۴۷۴.
  31. اربلی، کشف الغمة، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۱۲۵.
  32. طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۰۰.
  33. صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۸۵.
  34. سایٹ گینس

مآخذ

  • ابن‌ مازه، محمود بن احمد، المحیط البرهانی فی الفقہ النعمانی فقہ الإمام أبی‌ حنیفة رضی‌ الله عنه، تحقیق عبدالكریم سامی الجندی، بیروت، دار الكتب العلمیہ، ۲۰۰۴ء۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف‌ الغمة فی معرفةالأئمة، قم، رضی‏، چاپ اول، ۱۴۲۱ھ۔
  • بنی‌ هاشمی خمینی، سید محمد حسین، توضیح‌ المسائل مراجع مطابق با فتاوای سیزده نفر از مراجع معظم تقلید، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۲۴ھ۔
  • آملی، میرزا محمد تقی، مصباح‌الهدی فی شرح العروة الوثقی، تهران، ۱۳۸۰ھ۔
  • شهید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۱۷ھ۔
  • شهید ثانی، زین‌ الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، حاشیه محمد کلانتر، قم، کتابفروشی داوری، ۱۴۱۰ھ۔
  • شهید ثانی، زین الدین بن علی، روض‌ الجنان فی شرح ارشادالاذهان، قم، مؤسسہ آل‌ البیت، جاپ اول، بی‌تا.
  • صدوق، محمد بن علی، علل‌ الشرایع، تحقیق سید محمد صادق بحرالعلوم، النجف الاشرف، المکتبة الحیدریة، ۱۳۸۵ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری، قم، مؤسسة آل‌ البیت لاحیاء التراث، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، مؤسسة الاعلمی، ۱۴۰۳ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقهاء، قم، مؤسس آل‌ البیت علیهم‌السلام، ۱۴۱۴ھ۔
  • فقہ الرضا، مشهد، مؤسسہ آل‌ البیت علیهم‌ السلام، ۱۴۰۶ھ۔
  • ملا خسرو، محمد بن فرامرز،‌ درر الحكام شرح غرر الأحكام، بی‌جا، دار إحیاء الكتب العربیة، بی‌تا.
  • نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرائع‌الاسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔