نکاح متعہ
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
مُوَقّتی نکاح یا نکاح مُتعَہ متعین مدت اور غیر دائمی شادی کو کہتے ہیں۔ تمام مسلمانوں کے مابین اس بات پر اتفاق ہے کہ اس طرح کی شادی عصر حضرت محمدؐ میں مشروع تھی۔ اہل سنت و جماعت، زیدیہ، اسماعیلیہ اور اباضیہ کا نظریہ ہے کہ اس نوعیت کی شادیاں رسول خداؐ کے زمانے میں کچھ مدت کے لیے رائج تھیں لیکن خود رسول اللہؐ کے زمانے میں ہی اس کا حکم منسوخ اور ایسا کرنا حرام قرار پایا ہے؛ لیکن امامیہ کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرخداؐ نے اس حکم کو کبھی منسوخ نہیں کیا، اپنے زمانے میں بھی اسی طرح ابو بکر کے دور خلافت میں بھی نکاح متعہ ایک مشروع عمل کی حیثیت سے باقی رہا۔ اہل سنت کے منابع روائی میں منقول کچھ احادیث کے مطابق پہلی بار عُمَر بن خَطّاب نے نکاح متعہ کو حرام قرار دیا۔ شیعہ فقہاء متعہ سے متعلق آیت قرآنی اور اہل بیتؑ کی احادیث کی بنیاد پر نکاح متعہ کو مشروع عمل سمجھتے ہوئے اس سے متعلق فقہی احکام بیان کیے ہیں۔
فقہائے امامیہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ نکاح متعہ میں مدت (دورانیہ) اور حق مہر کی مقدار معلوم ہونا ضروری ہے۔ نکاح متعہ میں نکاح دائمی کے برخلاف طلاق نہیں ہوتی بلکہ متعین مدت ختم ہونے یا مرد کی طرف باقی مدت کو بخش دینے سے میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ ختم ہوجائے گا۔
نکاح متعہ کے بعد مجامعت محقق ہونے کی صورت میں مدت کے اختتام یا مرد کی طرف سے باقی مدت کے بخشے جانے کے بعد عورت پر واجب ہے کہ دو حیض کی مدت عدت گزارے۔
مفہوم اوراہمیت
موقتی نکاح، مرد اور عورت کی طرف سے دائمی مدت کے بغیر محدود اور معتین مدت کے لیے شادی کرنے کو کہتے ہیں۔[1] نکاح متعہ ان موارد میں سے ہے جن کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔[2] اس نوعیت کا نکاح تمام شیعہ فقہاء کی نظر میں مشروع ہے۔[3] انہوں نے فقہی ابواب میں باب نکاح میں اس سے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔[4]
ائمہ معصومینؑ سے منقول احادیث کے مطابق نکاح متعہ کرنے والے کو ثواب ملنے کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔[5] البتہ بعض روایات میں نکاح متعہ پر زیادہ اصرار کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔[6] شیعہ فقہاء نے معصومینؑ کی احادیث کی بنیاد پر نہ صرف نکاح متعہ کے حلال ہونے کا فتوا دیا ہے بلکہ اسے مستحب بھی گردانا ہے۔[7]
نکاح متعہ کے فوائد کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ معاشرے میں موجود جنسی مسائل کا بہترین حل ہے۔ خصوصا جوانوں اور ان لوگوں کے لیے جو دائمی نکاح کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں۔[8] نیز یہ معاشرے میں رائج منکر و فحشاء اور دیگر سماجی برائیوں کے سد باب کا مناسب طریقہ بھی شمار ہوتا ہے۔[9]
نظام جمہوری اسلامی ایران کے دیوانی قانون (مدنی قانون) میں نکاح متعہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس ملک کے آئینی دستور کی چھٹی فصل نکاح متعہ سے متعلق قانون کے لیے مختص کی گئی ہے۔[10]
نکاح متعہ اسلامی فرقوں کی نگاہ میں
مسلمان دانشور حضرات نکاح متعہ کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں: شیعہ فقہاء کی نظر میں نکاح متعہ ایک مشروع عمل ہے؛ لیکن دیگر فِرَق منجملہ اہل سنت،[11] زیدیہ،[12] اسماعیلیہ[13] اور اباضیہ[14] اسے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔
شہید ثانی کے مطابق تمام شیعہ فقہاء نکاح متعہ کو جائز سمھجتے ہیں۔[15] شیعہ فقہاء نکاح متعہ کے اثبات کے سلسلے میں قرآن کی آیات منجملہ آیت متعہ سے استناد کرتے ہیں۔[16] نیز اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ سے تواتر کی حد تک اس کی مشروعیت کے بارے میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔[17] دیگر فِرَق اسلامی کے علما کا کہنا ہے کہ نکاح متعہ عصر رسول خداؐ میں رائج تھا پھر اس کا حکم منسوخ ہونے کی وجہ سے حرام ہوچکا ہے۔[18]
کیا نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوچکا ہے؟
تمام مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ نکاح متعہ پیغمر اسلامؐ کے دور میں مشروع تھا۔[19] اہل سنت کے بعض منابع حدیثی میں خلیفہ دوم عُمَر بن خَطّاب سے کچھ روایتوں کو نقل کیا گیا ہے۔ ان احادیث کے مطابق حضرت عمر نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خود انہوں نے اس سے نہی کی ہے۔[20] ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ انہوں نے کہا دو قسم کے متعے پیغمبر خداؐ کے زمانے میں جائز تھے؛ لیکن میں ان دونوں سے نہی کرتا ہوں اور اس کے ارتکاب کرنے والے کو سزا دیتا ہوں، ان میں سے ایک نکاح متعہ ہے اور دوسرا مُتعہ حج۔[21]
شیعہ حضرات چند احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ کو سب سے پہلے حضرت عمر نے حرام قرار دیتے ہوئے اس کی ممانعت کی ہے۔[22] ان کے مطابق حضرت عمر کا یہ عمل دین میں بدعت اور نص کے مقابلے میں اجتہاد ہے۔ نیز پیغمبر خداؐ کی جانب سے رائج شدہ ایک مشروع عمل کی مخالفت بھی ہے۔[23] اہل سنت عالم دین عَسقلانی (773–852ھ) بھی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ کی زندگی کے پورے دوران، دوران خلافت ابو بکر اور خود حضرت عمر کے دور خلافت میں بھی کچھ مدت تک نکاح معتہ ایک جائز اور مشروع عمل کے طور پر رائج رہا؛ عمر بن خطاب نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس کی ممانعت کی اور اسے حرام قرار دیا۔[24]
لیکن اہل سنت کے اکثر علما اپنے منابع حدیثی[25] میں سے کچھ احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ پیغمبراسلامؐ کے دور میں ہی منسوخ ہوچکا تھا۔[26] علمائے اہل سنت کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عصر پیغمبر خداؐ میں سورہ مومنون کی آیات نمبر5 سے 7 تک جب نازل ہوئی تو نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوگیا۔[27] یہ گروہ ان دو آیات سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ مومنین پاکدامن ہوتے ہیں وہ اپنی جنسی خواہشات کو صرف اپنی بیویوں اور کنیزوں سے تسکین کرتے ہیں اور جو لوگ ان دو چیزوں کے علاوہ کسی تیسرے طریقے سے اپنی جنسی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں گویا انہوں نے حدود الہی کو توڑ ڈالا ہے۔ چونکہ نکاح متعہ مذکورہ دو طریقوں سے ہٹ کر کوئی تیسرا طریقہ ہے لہذا اس پر عمل کرنا حدود الہی کی رعایت نہ کرنے کے مترادف ہے۔[28]
اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ سورہ مومنون کی 5ویں اور 7ویں آیت مکہ میں نازل ہوئی ہیں اور جس آیت کے ذریعے نکاح متعہ کی مشروعیت ثابت کی جاتی ہے وہ ان آیات کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور نسخ کرنے والی پہلے نازل ہو اور نسخ شدہ آیت بعد میں نازل ہو، ایسا ممکن نہیں۔[29] اس پر مستزاد یہ کہ نکاح متعہ میں عاقدین کی جانب سے مدت متعین ہوتی ہے اور شرعی طور پر عورت مرد کی بیوی شمار ہوتی ہے لہذا اس طریقے سے ان دونوں کا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا حدود الہی کی مخالفت محسوب نہیں ہوتی۔[30]
فقہی احکام
عورت کہے: زَوَّجْتُکَ نَفْسی عَلَی المَہْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّۃِ المَعْلُومَۃ؛ میں نے خود کو معین حق مہر اور مدت کے لیے تمہارے نکاح میں قرار دیا
مرد کہے: «قَبِلْتُ التَّزْویجَ عَلَی المَہْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّۃِ المَعْلُومَۃ؛ میں نے معین حق مہر اور مدت کے مطابق قبول کیا۔
بنیہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج2، ص453.
شیعہ فقہاء کے فتوا کے مطابق نکاح متعہ کے چند فقہی احکام مندرجہ ذیل ہیں:
- نکاح متعہ کی مدت اور مہریہ کی مقدار صیغہ عقد میں معلوم و مشخص ہونا چاہیے۔[31] شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق اگر نکاح متعہ میں مدت کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ خود بخود دائمی نکاح میں تبدیل ہوجائے گا۔[32]
- بعض فقہاء کی رائے کے مطابق اگر عاقدین عربی زبان میں صیغہ جاری نہیں کرسکتے ہیں تو دونوں کی طرف سے عربی زبان سے آشنا کسی کو وکیل بنانا ممکن ہونے کے باوجود وہ کسی دوسری زبان میں عقد جاری کرسکتے ہیں۔[33] بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ بہر صورت صیغہ عقد کسی بھی زبان میں جاری کرسکتے ہیں۔[34]
- مسلمان مرد اور اہل کتاب عورت کے مابین نکاح متعہ صحیح اور جائز ہے؛[35] لیکن مسلمان عورت اہل کتاب مرد کے ساتھ نکاح متعہ نہیں کرسکتی۔[36] نیز مسلمان مرد اور عورت کا کسی غیر اہل کتاب (یعنی کافر) سے نکاح متعہ جائز نہیں ہے اور حرام ہے۔[37]
- باکرہ لڑکی کے ساتھ نکاح متعہ مکروہ ہے اور نکاح متعہ کرنے کی صورت میں اس کی بکارت کو زائل کرنا مکروہ ہے۔[38]
- نکاح متعہ کے نتیجے میں اگر مجامعت متحقق ہوچکی ہے تو نکاح متعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد عورت کو چاہیے کہ عدت پوری کرے، یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو یائسہ نہ ہوں، (یائسہ کی عدت نہیں ہوتی) وہ عورت جو حیض کی عمر میں ہو اور یائسہ نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ 45 دن عدت پوری کرے اور اگر با قاعدہ سے حیض آتا ہو تو بعض فقہاء کے فتوا کے مطابق دو حیض عدت پوری کرنی ہوگی۔[39]
- اگر مجامعت متحقق ہونے سے پہلے عقد کی مدت پوری ہوجائے یا مرد اس متعین مدت کو معاف کردے تو اس صورت میں عدت پوری کرنا ضروری نہیں۔[40]
- اگر نکاح متعہ کے دوران مرد وفات پائے تو مجامعت متحقق نہیں پانے کی صورت میں بھی عورت کو چاہیے کہ عدت وفات پوری کرے جو کہ 4 مہینے 10دس ہے۔[41]
- نکاح متعہ میں طلاق نہیں ہوتی؛ بلکہ یہاں مدت پوری ہوجانے یا مرد کی طرف سے متعین مدت کو معاف کرنے سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔[42]
کتابیات
شیعہ علما نے نکاح متعہ کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں اور رسالے تدوین کیے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم کے استاد نجم الدین طبسی نے اسی موضوع پر ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا فارسی زبان میں "ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابہ" کے عنوان سے ترجمہ ہوا ہے۔ اس کتاب کے کتاب نامہ والے حصے میں شیعہ علما کی طرف سے نکاح متعہ اور اس کی مشروعیت سے متعلق لکھی گئی 46 کتابوں کا تعارف کیا گیا ہے۔[43] چند آثار یہ ہیں:
- خلاصۃ الایجاز فی المتعۃ: یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں نکاح متعہ کی مشروعیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کی فضیلت، کیفیت اور دوسرے دیگر احکام کو اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔[44] بعض علما نے اس کتاب کو شیخ مفید کی طرف نسبت دی ہے۔[45] جبکہ بعض دیگر علما نے اسے شہید اول[46] سے منسوب کیا ہے اور کچھ علما نے اسے محقق کرکی کی طرف نسبت دی ہے۔[47]
- زواج المتعۃ: اس کتاب کو سید جعفر مرتضی عاملی نے 3 جلدوں میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت اور اس کے بعض دیگر احکام کو بیان کرنے کے علاوہ اہل سنت علما کی اس کے بارے میں آراء کو بیان کیا ہے؛ ساتھ ہی ان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔[48]
- الزواج الموقت فی الاسلام: کے مصنف سید مرتضی عسکری ہیں۔ سید مرتضی نے اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت کو قرآن و سنت کے تناظر میں بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں شیعہ اور اہل سنت علما کے نظریات کا جائزہ بھی لیا ہے۔[49]
متعلقہ مضمون
حوالہ جات
- ↑ مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ہجری شمسی، ج1، ص399.
- ↑ کلانتر، «حاشیہ»، در کتاب الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج5، ص245.
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ الفقہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1412ھ، ج2، ص103.
- ↑ مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ہجری شمسی، ج1، ص399.
- ↑ ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج21، ص13-17.
- ↑ ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1430ھ، ج11، ص18-19.
- ↑ ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج21، ص13-17؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج13، ص8.
- ↑ کاشف الغطاء، این است آئین ما، 1370ہجری شمسی، ص386-385؛ سبحانی، متعۃ النساء فی الکتاب و السنۃ، 1423ھ، ص9-11.
- ↑ کاشف الغطاء، این است آئین ما، 1370ہجری شمسی، ص387.
- ↑ «قانون مدنی»، سایت مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی.
- ↑ جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ھ، ج41، ص333-334؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج13، ص7.
- ↑ ملاحظہ کریں: احمد بن عیسی، رأب الصدع، 1428ھ، ج2، ص876-877.
- ↑ ملاحظہ کریں: نعمان مغربی، دعائم الاسلام، 1385ہجری شمسی، ج2، ص229.
- ↑ مالحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، موسوعۃ الفقہ الاباضی، 1438ھ، ج7، ص353-354.
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ الفقہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1412ھ، ج2، ص103.
- ↑ ملاحظہ کریں: فاضل مقداد، کنز العرفان فی فقہ القرآن، 1373ہجری شمسی، ج2، ص149-153؛ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج25، ص79-80؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج5، ص10.
- ↑ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج25، ص79؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ھ، ج5، ص15.
- ↑ ملاحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ھ، ج41، ص333-334؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج13، ص7؛ احمد بن عیسی، رأب الصدع، 1428ھ، ج2، ص876-877؛ نعمان مغربی، دعائم الاسلام، 1385ہجری شمسی، ج2، ص229؛ جمعی از نویسندگان، موسوعۃ الفقہ الاباضی، 1438ھ، ج7، ص353-354.
- ↑ قرطبی، تفسیر القرطبی، 1384ھ، ج5، ص132؛ سبحانی، متعۃ النساء فی الکتاب و السنۃ، 1423ھ، ص15.
- ↑ ملاحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، 1415ھ، ج1، ص352؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، 1419ھ، ج9، ص328؛ سرخسی، المبسوط، 1414ھ، ج4، ص27.
- ↑ قرطبی، تفسیر قرطبی، 1384ھ، ج2، ص392؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج10، ص43.
- ↑ ماحظہ کریں: عاملی، زواج المتعۃ، 1423ھ، ج3، ص75؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج10، ص44.
- ↑ شرف الدین، النص و الاجتہاد، 1404ھ، ص207-208؛ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج6، ص213؛ عاملی، زواج المتعۃ، 1423ھ، ج3، ص10.
- ↑ عسقلانی، فتح الباری، 1379ھ، ج9، ص174.
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج5، ص135؛ نووی، شرح النووی علم مسلم، 1392ھ، ج9، ص180.
- ↑ ملاحظہ کریں: ابنرشد، بدایۃ المجتہد، 1425ھ، ج3، ص80.
- ↑ ملاحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، 1415ھ، ج2، ص187 و ج3، ص330؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، 1419ھ، ج9، ص329.
- ↑ جصاص، احکام القرآن، 1415ھ، ج2، ص187 و ج3، ص330؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، 1419ھ، ج9، ص329.
- ↑ عاملی، زواج المتعۃ، 1423ھ، ج1، ص212.
- ↑ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج3، ص177؛ عاملی، زواج المتعۃ، 1423ھ، ج1، ص214.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج30، ص162 و ص172.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج30، ص172.
- ↑ خمینی، تحریر الوسیلہ، 1434ھ، ج2، ص264.
- ↑ شیخ انصاری، کتاب النکاح، 1430ھ، ص79؛ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج16، ص215 و ج24، ص215؛ خویی، کتاب النکاح، دار العلم، ج2، ص164.
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج2، ص529؛ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1406ھ، ج24، ص4.
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج2، ص529.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج30، ص27.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج30، ص160.
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج2، ص532.
- ↑ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج25، ص101.
- ↑ محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج2، ص532؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1412ھ، ج2، ص107.
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1412ھ، ج2، ص105.
- ↑ ملاحظہ کریں: طبسی، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابہ، ترجمہ محمدحسین شیرازی، 1391ہجری شمسی، ص136-139.
- ↑ شیخ مفید، خلاصۃ الایجاز فی المتعۃ، 1414ھ، ص18.
- ↑ شیخ مفید، خلاصۃ الایجاز فی المتعۃ، 1414ھ، ص18.
- ↑ افندی، ریاض العلماء، 1401ھ، ج5، ص188.
- ↑ زمانینژاد، «مقدمہ»، در کتاب خلاصۃ الایجاز فی المتعۃ، 1414ھ، ص11.
- ↑ ملاحظہ کریں: عاملی، زواج المتعۃ، 1423ھ، ج1، ص42.
- ↑ عسکری، الزواج الموقت فی الاسلام، ص7.
مآخذ
- ابنرشد، محمد بن احمد، بدایۃ المجتہد، قاہرہ، دار الحدیث، 1425ھ۔
- احمد بن عیسی، رأب الصدع، بیروت، دار المحجۃ البیضاء، 1428ھ۔
- امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، 1416ھ۔
- بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1406ھ۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دمشھ، دار طوق النجاۃ، چاپ اول، 1422ھ۔
- بنیہاشمی خمینی، محمدحسن، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، بیتا.
- جصاص، ابوبکر احمد بن علی، احکام القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
- جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، کویت، دارالسلاسل، 1427ھ۔
- جمعی از نویسندگان، موسوعۃ الفقہ الاباضی، عمان، وزارۃ الاوقاف و الشؤون الدینیۃ، چاپ اول، 1438ھ۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1416ھ۔
- خمینی، سید روحاللہ، تحریر الوسیلہ، تہران، مؤسسۃ تنظیم ونشر آثار امام الخمینی، چاپ اول، 1434ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، کتاب النکاح، قم، دار العلم، بیتا.
- زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
- سبحانی، جعفر، متعۃ النساء فی الکتاب و السنۃ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1423ھ۔
- سبزواری، سید عبدالاعلی، مہذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بیتا.
- سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفۃ، 1414ھ۔
- شرف الدین، عبدالحسین، النص و الاجتہاد، بیروت، ابومجتبی، 1404ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تعلیقہ: سلطان العلماء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1412ھ۔
- شیخ انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1430ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، خلاصۃ الایجاز فی المتعۃ، بیروت، دار المفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
- طبسی، نجم الدین، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابہ، ترجمہ محمدحسین شیرازی، قم، انتشارات دلیل ما، 1391ہجری شمسی۔
- عاملی، سیدجعفر مرتضی، زواج المتعۃ، بیروت، المرکز الإسلامی لدراسات، 1423ھ۔
- عسکری، سیدمرتضی، الزواج الموقت فی الاسلام، بیجا، بینا، بیتا.
- عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، بیروت، دار المعرفۃ، 1379ھ۔
- فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، تہران، انتشارات مرتضوی، 1373ہجری شمسی۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
- «قانون مدنی»، سایت مرکز پژوہشہای مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: 15 شہریور 1402ہجری شمسی۔
- قرطبی، شمس الدین، تفسیر القرطبی، قاہرہ، دار الکتب المصریۃ، چاپ دوم، 1384ھ۔
- کاشف الغطاء، محمد حسین، این است آئین ما، ترجمہ ناصر مکارم، مدرسہ امام امیرالمؤمنین(ع)، قم، 1370ہجری شمسی۔
- کلانتر، سیدمحمد، «حاشیہ»، در کتاب الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تألیف شہید ثانی، قم، انتشارات داوری، 1410ھ۔
- ماوردی، علی بن محمد، الحاوی الکبیر، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1419ھ۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تعلیقہ: سیدصادق شیرازی، تہران، انتشارات استقلال، چاپ دوم، 1409ھ۔
- محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ دوم، 1414ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسۃ الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1424ھ۔
- مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، 1404ھ۔
- نعمان مغربی، محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام عن اہل بیت رسول اللہ علیہ و علیہم افضل السلام، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیضی، قاہرہ، دارالمعارف، 1383ھ۔
- نووی، ابوزکریا، شرح النووی علی مسلم، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1392ھ۔