عبد المطلب بن ہاشم

ویکی شیعہ سے
(حضرت عبدالمطلب سے رجوع مکرر)
مقبرۂ حجون میں عبدالمطلب کے مدفن کی (قبل از انہدام) پرانی تصویر
شناختی معلومات
مکمل نامعَبدالمُطَّلِب بن ہاشم بن عبد مناف
القابشیبۃ الحمد، سید البطحاء
کنیتابو الحارث
میلاد/مولد127 سال قبل از ہجرت؛ مکہ
مسکنمکہ
نسبقریشی
نامور اقرباءہاشم، عبداللہ والد نبی(ص)، ابو طالب، پیغمبر اکرم(ص)، امیرالمؤمنین(ع)
وفات45 سال قبل از ہجرت
مدفن/ مقام وفاتغزہ، فلسطین
کارہائے نمایاںحضرت محمد(ص) کے جد امجد، قبیلۂ قریش کے زعیم، شہر مکہ کے بزرگ
دینی معلومات
عقیدہدین حنیف کے پابند صاحب ایمان
کردار
دینی/سماجیزمزم کی کھدائی، ابرہہ کے حملے کے وقت اہل مکہ کی قیادت، قحط میں مکیوں کی بھوک و افلاس سے حفاظت۔

عَبْدُ المُطَّلِب بن ہاشم بن عبد مناف (ولادت 127 سال قبل از ہجرت، [سنہ 500ء]، وفات 45 سال قبل از ہجرت/سنہ 575ء]) حضرت محمد کے دادا، قبیلۂ قریش کے زعیم اور عمائدین مکہ میں سے تھے۔ وہ شہر یثرب میں پیدا ہوئے اور سات سال کی عمر میں مکہ پلٹ آئے جہاں انہیں سیادت ملی۔ اصحاب فیل کا حیرت انگیز واقعہ (جس کے دوران ابرہہ نے ہاتھیوں سے مکہ پر حملہ کیا تھا) عبدالمطلب کی سیادت کے دور میں رونما ہوا۔

نسب

عبدالمطلب قبیلۂ قریش کے چشم و چراغ اور ہاشم بن عبد مناف کے فرزند تھے اور بنو ہاشم ان کے والد سے منسوب ہیں۔ ان کا سلسلۂ نسب ابراہیم خلیل اللہ تک پہنچتا ہے۔ ان کی والدہ ماجدہ سلمی بنت عمرو کا تعلق قوم خزرج بنو نجار سے ہے۔ رسول اللہ کی ہجرت مدینہ کے بعد آپ کے اصحاب و انصار میں شامل ہوئے۔[1]

ائمۂ شیعہ اور تمام طالبیین (منجملہ بنی علی، بنی جعفر اور بنی عقیل) کا سلسلۂ نسب ابو طالب بن عبدالمطلب تک پہنچتا ہے؛ بنی عباس ـ منجملہ 37 خلفائے بنی عباس (سنہ 132 تا 656 ھ) کا سلسلۂ نسب عباس بن عبدالمطلب تک پہنچتا ہے جبکہ مصر کے 17 عباسی خلفاء (سنہ 523 تا 656 ھ) کا سلسلۂ نسب عراق کے پینتیسویں عباسی خلیفہ الظاہر باللہ (سنہ 622-623 ھ) تک پہنچتا ہے۔[2]

نام اور کنیت

عبدالمطلب کا نام "شیبہ" اور کنیت "ابو حارث" ہے۔[3] جبکہ شیخ صدوق کے مطابق ان کا نام "عامر" ہے[4] منقول ہے کہ انہیں دوسرے اسماء اور القاب سے بھی پکارا جاتا تھا جیسے: عامر، سید البطحاء، ساقی الحجیج، ساقی الغیث، غیث الوری فی العام الجدب، أبو السادۃ العشرۃ، عبد المطّلب، حافر زمزم،[5]، ابراہیم ثانی[6] اور فیّاض۔

عبدالمطلب کے لقب سے ان کی شہرت کے بارے میں منقول ہے: "ہاشم کی وفات کے چند سال بعد ان کے بھائی اور عبدالمطلب کے چچا "مطلّب" انہیں یثرب سے مکہ لے کر آئے۔[7] مکہ کے لوگوں نے انہیں مطلب کے ہمراہ دیکھا تو اس گمان سے کہ انہیں مطلب نے غلام کے طور پر یثرب سے خرید لیا ہے، انہیں عبدالمطلب کے عنوان سے پکارا اور یہ لقب ہمیشہ کے لئے مستقر ہوگیا۔[8]

ولادت

عبدالمطلب کے والد ماجد ہاشم یثرب کے سفر پر گئے تو وہاں بنی نجار کی ایک خاتون "سلمی بنت عمرو بن زید" سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔[9] انھوں نے اپنے بیٹے عبدالمطلب کی پیدائش سے قبل موجودہ فلسطین کے شہر غزہ کا سفر اختیار کیا اور وہیں دنیا سے رخصت ہوکر مدفون ہوئے۔[10] مؤرخین کے درمیان اختلاف کو ملحوظ رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ عبدالمطلب سات سال یا کچھ زیادہ عرصے تک اپنی والدہ کے ساتھ یثرب میں رہے۔[11] بالآخر ان کے چچا یثرب چلے گئے اور انہیں اپنے ساتھ مکہ لے آئے۔[12]

مکہ میں صاحب مناصب

مطلّب ـ جو اپنے بھائی ہاشم کے انتقال کے بعد ان کے مناصب کو سنبھالے ہوئے تھے اور اپنے قبیلے کے سربراہ تھے ـ کچھ عرصہ بعد سرزمین یمن کے ایک علاقے "ردمان" میں دنیا سے رخصت ہوئے اور آباء و اجداد سے انہیں ورثے میں ملنے والے تمام مناصب ان کے بھتیجے عبدالمطلب کو منتقل ہوئے اور آنجناب اپنی فیاضی اور انتظام امور میں حسن تدبیر کے بدولت مکہ میں سیاست و کرامت و آقائی پر فائز ہوئے اور ان کا چرچا عام اور ان کی برتری عیاں ہوئے اور قریش نے بھی ان کی برتری تسلیم کرلی۔[13]۔[14]

عبدالمطلب کی شخصیت

یعقوبی کہتے ہیں: "عبدالمطلب" ان دنوں قریش کے سرور و سردار تھے اور ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا، کیونکہ جو عظمت و کرامت اللہ نے انہیں عطا کی تھی کسی کو عطا نہیں کی تھی، خدا نے مکہ میں چاہ زمزم سے اور طائف میں ذوالہرم سے انہیں سیراب کردیا تھا، قریش قریش اپنے اموال میں ان سے فیصلے کراتے تھے، اور وہ ہر بار قحط کے ایام میں لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے حتی کہ وہ پرندوں اور پہاڑوں کے درندوں کو بھی کھلا دیتے تھے۔

ابو طالب اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

ونطعم حتّی یأکل الطیر فضلنا *** إذا جعلت أیدی المفیضین ترعد

جب جوئے بازوں کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں (جب سخاوتمند بخل کا راستہ اپناتے ہیں) ہم لوگوں کو اس قدر کھانا کھلاتے ہیں کہ پرندے بھی اضافی طعام سے پیٹ بھر لیتے ہیں۔

"عبدالمطّلب" بتوں کی پوجا سے دور تھے اور اللہ کو وحدانیت کے ساتھ جانتے تھے اور نذر کی وفا کرتے تھے، اور ایسی سنتوں کی بانی ہوئے جن میں سے بعض کو خداوند متعال نے قرآن کریم میں نازل فرمایا۔[15]

یعقوبی اپنی سند سے رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "خداوند متعال میرے جد امجد عبدالمطلب کو تنہا ـ پیغمبروں کے چہرے اور بادشاہوں کی ہیبت دے کر ـ محشور کرے گا۔[16]

اصحاب فیل کی ایک تصویر ماخوذ از فلم حضرت محمد – ہدایت کار: مجید مجیدی

اصحاب فیل

دینی اور مقامی روایات کے مطابق مکہ پر ابرہہ کے حملے کا واقعہ ـ جو اصحاب فیل کے حملے کے نام سے مشہور ہے ـ عبدالمطلّب کے زمانے میں رونما ہوا۔ ابرہہ نے یمن سے ایک لشکر لے کر مکہ پر حملہ کیا[17] ابرہہ کے گماشتے قریش کے اونٹ چوری کرکے لے گئے۔ عبدالمطلب اور ابرہہ کے درمیان ملاقات ہوئی۔ عبدالمطلب نے صرف اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ نے کہا: "میں نے گمان کیا کہ تم کعبہ کے بارے میں گفتگو کرنے آئے ہو"۔ عبدالمطلب نے کہا: "میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا اپنا مالک ہے جس کی وہ خود حفاظت کرے گا عبدالمطلب مکہ واپس آئے اور مکیوں سے کہا کہ اپنا گھر بار چھوڑ کر پہاڑیوں میں چلے جائیں اور اپنے اموال بھی ساتھ لے جائیں۔[18]

دوسرے روز پرندوں کی ایک عظیم فوج نے ابرہہ کے لشکر پر حملہ کیا۔ اس حملے میں ابرہہ کے معدود سپاہی بچ کر فرار ہوئے۔[19]

زمزم کی کھدائی

تاریخ مکہ کے مآخذ کی روایات کے مطابق، مکہ پر عبدالمطلب کے جد امجد قصی بن کلاب سے قبل قبیلۂ جرہم اس شہر کے فرمانروا تھے۔ اس قبیلے کے مظالم کی وجہ سے دوسرے قبائل نے ان کے خلاف بغاوت کردی۔ بالآخر قبیلۂ خراعہ اور بنو جرہم کے درمیان جنگ میں بنی جرہم کو شکست ہوئی۔

بنی جرم کے آخری حکمران "عمر بن حارث"، کعبہ کے اموال کے تحفظ کی غرض سے کعبہ میں داخل ہوا اور کعبہ کے لئے لائے گئے جواہرات اور عمدہ تحائف کو چاہ زمزم میں پھینکا اور کنویں کو مٹی سے بھر کر جواہرات اور تحائف کو چھپا دیا۔

برسوں بعد عبدالمطلب نے اس کنوں کو تلاش کرنا چاہا۔ مروی ہے کہ انھوں نے خواب میں کنویں کا مقام تلاش کرلیا اور حکم ملا کہ اس کو کھود لیں۔ عبدالمطلب نے زمزم کو کھود لیا اور جواہرات کو پالیا اور کعبہ کی تعمیر اور نگہداشت کے لئے خرچ کیا اور چاہ زمزم پانی سے بھر گیا۔[20]

عبدالمطلب کی نذر

بعض روایات کے مطابق، عبدالمطلب کو چاہ زمزم کے وقت قریش کی طرف سے مخالفتوں اور رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ چنانچہ انھوں نے نذر مانی کہ اگر خداوند متعال انہیں 10 بیٹے عطا فرمائے تو ان میں سے ایک کو اللہ کی راہ میں، کعبہ کے پاس، قربان کردیں اور خداوند متعال نے ان کی یہ حاجت پوری کی۔

عبدالمطلب کے بیٹوں کی تعداد 10 تک پہنچی تو انھوں نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور قرعہ عبداللہ کے نام نکلا اور آخر کار صلاح مشوروں کے بعد انھوں نے عبداللہ کے بجائے 100 اونٹوں کی قربانی دی [اور خداوند متعال نے اونٹوں کی اسی تعداد کو ایک انسان کی دیت قرار دیا]۔

علی دوانی نے عبدالمطلب کی یکتا پرستی کے سہارے ـ نیز اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بیٹوں کی قربانی کی نذر بت پرستوں کی رسموں میں سے تھی اور یہ کہ اس ماجرا کے نقل کرنے والوں میں ضعیف اور انجانے راوی پائے جاتے ہیں ـ نذر کے اس واقعے کو جعلی افسانہ قرار دیتے ہوئے اس کو امویوں کی تشہیری مہم کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول اموی کہ اس وسیلے سے امیرالمؤمنین علی(ع) کے آباء و اجداد کا رتبہ گھٹانا چاہتے تھے اور یوں علی علیہ السلام کے فضائل اور مقام و منزلت کو مخدوش کرنا چاہتے تھے۔[21]

ایمان

روایات کے مطابق جناب عبدالمطلب دین حنیف پر تھے اور انھوں نے کبھی بھی بت کی پوجا نہیں کی ہے۔ تیسری صدی ہجری کے مؤرخ مسعودی نے عبدالمطلب کے دین کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک [مشترکہ] قول یہ ہے کہ عبدالمطلب سمیت رسول اللہ(ص) کے اجداد میں سے کسی نے بھی بتوں کی پرستش نہیں کی ہے۔[22]

شیخ صدوق نے امام صادق(ع) سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے امام علی(ع) سے مخاطب ہوکر فرمایا: "عبدالمطلب نے کبھی بھی قمار بازی (جوا) نہیں کی اور بتوں کی پوجا نہیں کی اور ۔۔۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں اپنے باپ ابراہیم خلیل (ع) کے دین پر ہوں"۔[23]

عبدالمطلب کی سنتیں

مقبرۂ حجون میں عبدالمطلب کے مدفن کی (قبل از انہدام) پرانی تصویر

شیخ صدوق اپنی کتاب الخصال میں امام صادق(ع) سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا: "عبدالمطلب نے جاہلیت کے دور میں پانچ سنتیں نافذ کردیں اور خداوند متعال نے ان سب کو اسلام میں مقرر فرمایا:

1۔ سوتیلی ماں کو بیٹے پر حرام قرار دیا اور خداوند متعال نے فرمایا:

"وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتاً وَسَاء سَبِيلا (ترجمہ: اور عورتوں میں سے ان سے شادی نہ کرو جن میں تمہارے باپ دادا تصرف ازدواجی کر چکے ہوں، سوا اس کے جو پہلے ہوچکا۔ یہ بڑا ہی سخت گناہ ہے اور ناراضگی کی بات اور بہت بُرا طریقہ ہے)[؟–22]

2۔ انھیں ایک خزانہ ملا ـ ممکن ہے خزانے سے مراد وہی اشیاء ہوں جو قبیلۂ جرہم نے چاہ زمزم کو مٹی سے بھرتے وقت اس کی تہہ میں میں پھینک دی تھیں ـ اور اس کا خمس بطور صدقہ مستحقین کے درمیان بانٹ دیا اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا:

وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ... (ترجمہ: اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو چیز بھی تم بطور غنیمت حاصل کرو تو بلا شبہ اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہو گا...)[؟؟]۔۔[24]

قبرستان ابو طالب (حجون) کی موجودہ تصویر

3۔ جب انھوں نے چاہ زمزم کو کھودا تو اس کو سقایۃ الحاج (حجاج کی نوشیدنی) کا نام دیا اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا:

أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَوُونَ عِندَ اللّهِ (ترجمہ: کیا تم نے (محض) حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی آبادی و مرمت کا بندوبست کرنے (کے عمل) کو اس شخص کے (اعمال) کے برابر قرار دے رکھا ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لے آیا اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا؟)[؟؟]۔

4۔ عبدالمطلب نے 100 اونٹوں کو ایک مرد کی دیت قرار دیا اور خداوند متعال نے اسی قاعدے کو اسلام میں نافذ کیا۔

طواف کے چکروں کی تعداد قریش میں نامعلوم تھی اور عبدالمطلب نے طواف کے لئے سات چکر قرار دیئے اور خداوند متعال نے بھی طواف کے لئے سات چکروں کے اس قاعدے کو نافذ فرمایا۔[25]

یعقوبی لکھتے ہیں: عبدالمطلب نے ایسی سنتوں کی بنیاد رکھی کہ رسول خدا(ص) نے بھی انہیں نافذ کیا اور ان کی تائید میں آیات الہی نازل ہوئیں اور یہ سنتیں کچھ یوں تھیں:

  • نذر کی وفا؛
  • دیت کے لئے سو اونٹوں کا تعین؛
  • محارم کے ساتھ نکاح کی ممانعت؛
  • چھت کے راستے گھروں میں داخلے کی ممانعت؛
  • چور کا ہاتھ منقطع کرنا؛
  • بیٹیوں کے قتل سے نہی؛
  • مباہلہ؛
  • شراب کو حرام قرار دینا؛
  • زنا کو حرام قرار دینا اور زانی اور زانیہ پر حد کا نفاذ؛
  • قرعہ؛
  • برہنگی کی حالت میں طواف کی ممانعت؛
  • مہمان کی تکریم؛
  • پاک اور جائز اموال میں سے حج کے اخراجات کی ادائیگی؛
  • حرام مہینوں کی تعظیم؛
  • ریا اور منافقت کی نفی۔[26]

وفات

مشہور روایات کے مطابق رسول خدا(ص) کی ابھی آٹھ سال کے تھے جب عبدالمطلب دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔[27] مؤرخین کے درمیان اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے، وفات کے وقت ان کی عمر 82 یا 108 برس اور بعض مؤرخین کے مطابق 140 برس تھی۔

مروی ہے کہ قبل از موت، عبدالمطلب کے اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا: میری موت سے قبل مجھ پر گریہ و بکاء کرو اور مرثیہ پڑھو تا کہ جو کچھ میری موت کے بعد کہنا چاہتے ہو موت سے قبل خود سن لوں اور بیٹیوں میں سے ہر ایک نے اپنے والد کے لئے ایک مرثیہ کہا اور سب روئیں۔

ام ایمن سے منقول ہے کہ رسول خدا(ص) اپنے دادا عبدالمطلب کے جنازے کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور روتے رہے حتی کہ ان کی میت کو مقبرہ حجون میں ان کے جد امجد قصی بن کلاب کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔[28]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. ابن اثیر، أسد الغابہ، ج6، ص151۔
  2. بنو ابی طالب کے انساب کو جمال الدین احمد بن علی حسینی نے المعروف بہ "ابن عنبہ" (متوفی سنہ 828ھ) نے اپنی کتاب "عمدۃ الطالب في انساب آل ابی طالب" میں تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے اور اسلام کی راہ میں ان کی قربانیوں کو ابوالفرج علی بن حسین اصفہانی (متوفی سنہ 356ھ) نے اپنی کتاب "مقاتل الطالبیین" میں بیان کیا ہے۔ (بنی حارث اور بنی ابی لہب کا سلسلۂ نسب بھی عبدالمطلب تک پہنچتا ہے)۔ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص46۔
  3. ابن عبد البرّ، الاستیعاب، ج1، ص27۔
  4. صدوق، امالي؛ ص 700۔
  5. مجلسی، بحار الانوار، ج15، ص128۔
  6. تاریخ یعقوبی، ج2، ص11، بیروت، 1379 هجری قمری۔
  7. تاریخ‏ الطبری/فارسی ترجمہ، ج‏3، ص802۔
  8. رسولی محلاتی، سید هاشم؛ زندگانی محمد(ص)، ج1، ص91۔
  9. بلاذری، أنساب ‏الأشراف، ج‏1، ص65۔
  10. بلاذری، وہی ماخذ، ج‏1، ص65۔
  11. ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج1، ص137۔
  12. رسولی محلاتی، سید هاشم، زندگانی محمد(ص)، ج1، ص91۔
  13. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص77۔
  14. تاریخ‏ ابن‏ خلدون/ترجمہ‏ متن، ج‏1، ص386۔
  15. رجوع کریں: ترجمہ فارسی تاریخ یعقوبی، ج1، ص363۔
  16. رجوع کریں: وہی ماخذ۔
  17. اخبار الطوال/فارسی ترجمہ، ص92۔
  18. آفرینش‏ و تاریخ/ترجمہ، ج‏1، ص532۔
  19. ابن ہشام؛ السیرة النبویہ، ج1، ص47۔
  20. ابن کثیر الدمشقی؛ البدایہ و النہایہ، ج2، ص244۔
  21. رجوع کریں: دوانی، علی؛ تاریخ اسلام ازآغاز تاهجرت، ص54۔
  22. مسعودی، مروج‏ الذهب، ج‏2، ص109۔
  23. صدوق، خصال، ج‏1، ص455۔
  24. غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، ج‏1، ص206۔
  25. صدوق، خصال، ج‏1، ص455۔
  26. غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، ج‏1، ص207۔
  27. ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج2، ص282۔
  28. ابن اثیر؛ اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، ج1، ص23۔

مآخذ

  • ابن عبد البر، الاستيعاب فى معرفة الأصحاب، تحقيق على محمد البجاوى، دار الجيل، ط الأولى، بيروت، 1412 هجری قمری/1992 عیسوی۔
  • تاریخ یعقوبی، دار صادر، بیروت، 1379 هجری۔
  • ابن ہشام، عبدالملک بن هشام الحمیری؛ السیرة النبویہ، تحقیق مصطفی السقا، بیروت، دارالمعرفہ۔
  • رسولی محلاتی، سید هاشم؛ زندگانی محمد(ص) (ترجمه السیرة النبویہ ابن هشام)، تهران، انتشارات کتابچی، 1375 هجری شمسی۔
  • ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع بن هاشمی بصری؛ الطبقات الکبری، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارات فرهنگ و اندیشہ، 1374 هجری شمسی۔
  • ابن هشام، عبدالملک بن ہشام الحمیری؛ السیرة النبویہ، تحقیق مصطفی السقا، بیروت، دارالمعرفہ۔
  • ابن اثیر، عزالدین ابو الحسن علی بن محمد؛ الکامل فی التاریخ، ترجمہ ابو القاسم حالت، تہران، موسسہ مطبوعاتی علمی، 1371 هجری قمری۔
  • قره چانلو، حسین؛ حرمین الشریفین (تاریخ مکہ و مدینہ)، تهران، انتشارات سپہر۔
  • الدمشقی، ابو الفدا، اسماعیل بن عمر بن کثیر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفکر، 1407 هجری قمری۔
  • دوانی، علی؛ تاریخ اسلام از آغاز تا هجرت، قم، دفترانتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، 1373 هجری شمسی۔
  • ابن الجوزی، أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد (م 557)، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ط الأولی، 1412 هجری قمری۔
  • ابن اثیر، ابو الحسن علی بن محمدبن عبدالکریم، اسد الغابہ فی معرفہ الصحابہ، بیروت، دار الفکر، 1409 هجری قمری۔
  • البلاذری، انساب الأشراف، تحقیق محمد باقر المحمودی، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، ط الأولی، 1394 هجری قمری /1974 عیسوی۔
  • تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری (م 310)، ترجمہ ابو القاسم پاینده، تہران، اساطیر، چ پنجم، 1375 هجری شمسی۔
  • العبر تاریخ ابن خلدون، ترجمہ عبد المحمد آیتی، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چ اول، 1363 هجری شمسی۔
  • آيتي، محمد ابراہيم، تاريخ پيامبر اسلام، ناشر: دار الفكر، نوبت ط اولی، 1386 هجری شمسی۔
  • دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود، اخبار الطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، ط چهارم، 1371 هجری شمسی۔
  • مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، مقدسی، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، ط اول، 1374 هجری شمسی۔
  • المسعودی، أبو الحسن علی بن الحسین بن علی، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجرة، ط الثانیہ، 1409 هجری قمری۔
  • غروی، محمد هادی یوسفی، تاریخ تحقیقی اسلام، مترجم حسین‏ علی عربی، ‏ قم، موسسہ آموزشی امام خمینی (ره)۔
  • شیخ صدوق، ‏ الخصال‏، ترجمہ جعفری، قم، جامعہ مدرسین، 1362 هجری شمسی‏۔
  • شیخ صدوق، امالي؛ قم، اول، مؤسسہ البعثہ، 1417 هجری قمری۔

بیرونی روابط