اصحاب فیل

ویکی شیعہ سے
اصحاب فیل کی نقاشی اسفندیار احمدی کی نقاشی

اصحاب فیل اس لشکر کو کہا جاتا ہے جو ابرہہ کی سرکردگی میں خانۂ کعبہ خراب کرنے کیلئے یمن سے مکہ کی طرف آیا اور اللہ تعالی نے پرندوں کے توسط کنکریوں سے مار کر اس لشکر کو نابود کر دیا۔ قرآن پاک میں سورہ فیل اسی واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ کہتے ہیں اس سال کے بعد جزیرۂ عرب کے لوگوں کا خانۂ کعبہ کے بارے میں محکم اعتقاد پیدا ہو گیا۔

وجہ تسمیہ

اصحاب فیل یمن کے بادشاہ 'اَبرَہَہ بن صَبّاح اَشرَم'‏ اور اسکے لشکریوں کو کہا جاتا ہے کہ جو 570 عیسوی میں خانۂ کعبہ کو ویران کرنے کے قصد سے مکہ آئے۔[1] محمد حسین طباطبائی واقدى کے حوالے سے ابرہہ کو یمن کے بادشاہ نجاشی کا جد کہتے ہیں جو رسول اللہ کے زمانے میں یمن کا فرمانروا تھا۔[2] اور بعض ابرہہ کو بادشاہ کے جد کا وزیر کہتے ہیں نہ کہ بادشاہ کا جد سمجھتے ہیں۔[3] پس اس واقعے کے بعد عرب میں یہ سال عام الفیل کے نام سے مشہور ہو گیا۔ [4] اور جاہلیت عرب کے سال کا آغاز قرار پایا۔[5] محمد(ص) اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد پیدا ہوئے۔ [6]

اصحاب فیل اور قرآن

قرآن پاک کے جس سورہ میں اس واقعہ کا تذکرہ آیا ہے اسے سورہ فیل کہا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

أَ لَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصحْابِ الْفِيل

اصحاب فیل اور روایات

احادیثی کتابوں میں اس واقعے کو معجزات پیامبر (ص)،[7] امامت مہدی (ع)،[8] عالمی حالات سے مربوط مسائل [9] اور کعبہ کی برتری[10] کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

کعبہ پر لشکر کشی

طبرسی اور مفسرین نے اس موضوع کے متعلق اشارہ کیا ہے کہ ابرہہ نے یمن میں ایک [[کعبہ] بنایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ یہاں حج اور طواف انجام دیں۔ لیکن لوگوں نے اس کا استقبال نہیں کیا۔ اس دوران بنی‌ کنانہ کا ایک شخص یمن آیا اور اس نے اس جگہ کو گندہ کر دیا۔ ابرہہ اس فعل سے غضبناک ہوا اور اپنے مسیح کی قسم اٹھاتے ہوئے کہا: میں مکہ میں موجود کعبہ ویران کر دونگا تا کہ وہاں کوئی اسکی زیارت کیلئے جا نہ کر سکے۔اس نے حکم دیا ہاتھی لائے جائیں اور لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ روانہ ہوا۔[11] ابرہہ نے راستے میں بنی سلیم قبیلے کے ایک شخص کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو بناوٹی طور پر کعبہ کی زیارت کیلئے دعوت دے لیکن وہ شخص قتل ہو گیا اس قتل نے ابرہہ کے کینہ میں مزید اضافہ کر دیا اور اس نے مکہ کے سفر کی تیزی اختیار کی تا کہ جلد پہنچ سکے۔[12]

اہل مکہ کا رد عمل

کہا گیا ہے کہ جب لشکر طائف پہنچا تو ابرہہ نے اہل طائف سے درخواست کی کہ سفر کی راہنمائی کیلئے ایک شخص اس کے ہمراہ بھیجیں۔انہوں نے ہذيل کا ایک شخص اس کے ہمراہ کیا۔ جب لشکر مکہ کے نزدیک پہنچا تو مکہ کے قریش گروہوں کی صورت میں پہاڑ کی بلندی پر چڑھ کر لشکر دیکھتے اور کہتے: ہم اس لشکر سے مقابلے کی توان نہیں رکھتے ہیں۔ سب لوگ مکہ سے چلے گئے۔ مکہ میں عبدالمطلب اور شيبہ بن عثمان کے علاوہ مکہ میں کوئی باقی نہ رہا۔[13] اس موقع پر عبدالمطلب نے کعبہ کے دروازے کو دونوں طرف سے پکڑ کر یہ دعا کی:

بار الہا! جو کوئی بھی اس سے دفاع کرے تو اپنے اس گھر سے کہ جو مظہر جلالت ہے، سے دفاع کر۔ تو بناوٹی کعبہ اور صلیب کو مہلت نہ دے کہ وہ تیرے کعبہ پر تجاوز کریں اور اس کی حرمت کو پامال کریں۔ انہیں مکہ میں ہر گز داخلے کی اجازت نہ دے۔ یہ میرا ارادہ ہے لیکن جس چیز کا تو نے ارادہ کیا ہے وہی ہو کر رہے گا۔[14]

عبدالمطلب کی ابرہہ سے ملاقات

ابرہہ کے لشکر نے مکہ کے نزدیک قریش کے اونٹ دیکھے تو انہیں غنیمت سمجھ کر پکڑ لیا۔ یہ عبدالمطلب کے دو سو اونٹ تھے جنہیں لشکر نے پکڑ لیا تھا۔ اس کی خبر عبدالمطلب کو پہنچی تو مکہ سے باہر نکلے اور لشکر کی اقامت گاہ پر پہنچے۔ ابرہہ نے پوچھا کیا درخواست لائے ہو؟ عبدالمطلب نے کہا: میں تم سے ان دو سو اونٹوں کی واپسی کی درخواست کرتا ہوں جو تمہارے لشکر نے میرے پکڑ لئے ہیں۔ ابرہہ نے اظہار تعجب کرتے ہوئے کہا:

میں آیا ہوں کہ تمہارے اس گھر کو ویران کرنے آیا ہوں عزت، شرف آبرومند گھر ہے اور تم اعراب کی فضیلت اور تمہارے مذہبی مقدس معبد کو برباد کرنے آیا ہوں کہ جس کی تم پرستش کرتے ہو لیکن تم ہو کہ ایک حرف بھی اس کے بارے میں نہیں کہا اور نہ ہی کسی قسم کا دفاع کیا اور تم اپنے اونٹوں کی بات کرتے ہو اور اپنے شخصی مال کی بات کرتے ہو۔[15]

عبدالمطلب نے جواب دیا:

«اى مَلِک! میں تم سے اس مال کے بارے میں بات کرتا ہوں جو میرے اختیار میں ہے اور میری ذمہ داری ہے کہ میں اس کا دفاع کروں، اس گھر کا ایک مالک و صاحب ہے وہ خود اس سے دفاع کرے گا پس اُس گھر کا دفاع میرے ذمہ نہیں ہے۔ کہتے ہیں اس گفتگو نے ابرہہ کو اس قدر ڈرا دیا کہ اس نے فورا اونٹوں کی واپسی کا حکم دے دیا۔[16]

ابابیلوں کا حملہ اور لشکر کی شکست

مفسرین جیسے طبرسی اور طباطبائی نقل کرتے ہیں کہ طلوع آفتاب کے وقت لشکر ابرہہ نے جس قدر اپنے ہاتھیوں کو مکہ کی جانب حرکت دینے کی کوشش کی وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے یہاں تک کہ افق کی طرف سے منہ میں سنگریزے لئے ابابيل ظاہر ہوئے، ابابیلوں نے ان سنگریزوں کو ان لشکریوں پر پھینکا۔ کوئی کنکری اپنے ہدف میں سوراخ کئے بغیر نیچے نہیں گر رہی تھی۔[17] ابرہہ کے جسم پر بھی چند کنکریاں لگی، اس نے راہ فرار اختیار کی اور اپنے آپ کو یمن پہنچایا لیکن وہ یمن پہنچنے سے پہلے ہی قتل ہو گیا بلکہ لشکر کا کوئی فرد یمن نہیں پہنچ پایا اور سب راستے میں ہی مر گئے۔[18]

شکست کے بعد

محمد حسین طباطبائی المیزان فی تفسیر القرآن میں نقل کرتے ہیں: بعض مفسرین سورہ فیل اور قریش کو ایک ہی سورہ قرار دیتے ہیں اور اس بنا پر کہتے ہیں کہ خداوند نے اصحاب فیل کے متعلق فرمایا:

ہم نے جو کچھ اصحاب فیل کے ساتھ کیا یہ ہماری قريش پر نعمت تھی اور اصحاب فیل پر یہ مصیبت نازل ہوئی اور قریش کہ جو ابرہہ کے خوف کی بنا پر شہر سے فرار کر چکے تھے دوبارہ اپنے شہر میں واپس آ کر آباد ہوں، اس کی وجہ سے قریش کا پہلے سے زیادہ مکہ اور کعبہ کے بارے میں محکم اعتقاد پیدا ہو گیا۔[19] اگرچہ مفسرین نے ان دو سورتوں کے مستقل اور علیحدہ سورت ہونے کے بارے میں مفصل توضیحات دی ہیں ہیں ۔[20]

اس کی تفصیل جاننے کیلئے سورہ فیل اور سورہ قریش دیکھیں۔

نتائج

منابعی کتابوں کے مطابق اس واقعہ عام الفیل کے بعد جزیره العرب کے تمام لوگوں کا کعبہ کے بارے میں محکم اعتقاد پیدا ہو گیا۔قریش اس واقعے کو اپنی خصوصیات میں سے جاننے لگے۔ [21]

شہید مطہری نقل کرتے ہیں: اس واقعے کے بعد قريش میں عجیب غرور پیدا ہو گیا اور لوگوں میں ایک طرح کی جزیرة العرب کی اطاعت پیدا ہو گئی ۔ بازار مکہ پُر رونق ہو گیا۔ وہ لوگوں کو حکم دیتے تو نفسیاتی اور ان سے خاص قسم کے اعتقاد کی وجہ سے وہ اس فرمان و دستور کی پیروی کرتے تھے۔[22]

مربوط روابط

حوالہ جات

  1. طبرسی، مجمع البيان، ۱۳۷۲ش، ج‏ ۱۰، ص ۸۲۲؛ طباطبائی، الميزان، ۱۴۱۷ق، ج‏ ۲۰، ص ۳۶۲.
  2. طباطبائی، الميزان، ۱۴۱۷ق، ج‏ ۲۰، ص ۳۶۲.
  3. مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج‏ ۵، ص ۲۴۰
  4. عبده، رسالہ التوحيد، ۲۰۰۵م، ص ۹۷.
  5. خاتمی،احمد، فرہنگ علم کلام، ۱۳۷۰ش، ص ۱۵۶.
  6. بیہقی، ترجمہ دلائل النبوة، ۱۳۶۱ش، ج‏ ۱، ص ۷۳.
  7. راوندى، ترجمہ الخرائج و الجرائج، ۱۳۷۸ش، ص ۸۶.
  8. مجلسی، شيعہ در پيشگاه قرآن (ترجمہ جلد ۶۵ بحار الأنوار)، ۱۳۹۷ق، ص ۶۵.
  9. مجلسی، ترجمہ بحار الأنوار (جلد ۵۴)، ۱۳۵۱ش، ج‏ ۸، ص ۴.
  10. مجلسی، لوامع صاحبقرانى، ۱۴۱۴ق، ج‏ ۷، ص ۲۴۴.
  11. طباطبائی، الميزان، ۱۴۱۷ق، ج‏ ۲۰، ص ۳۶۲؛ طبرسی، مجمع البيان، ۱۳۷۲ش، ج ‏۱۰، ص ۸۲۲.
  12. طبرسی، مجمع البيان، ۱۳۷۲ش، ج‏ ۱۰، ص ۸۲۲؛ طباطبائی، الميزان، ۱۴۱۷ق، ج ‏۲۰، ص ۳۶۲.
  13. بیہقی، ترجمہ دلائل النبوة، ۱۳۶۱ش، ج ۱، ص ۷۵.
  14. طباطبائی، الميزان، ۱۴۱۷ق، ج‏ ۲۰، ص ۳۶۳؛ طبرسی، مجمع البيان، ۱۳۷۲ش، ج‏ ۱۰، ص ۸۲۲.
  15. طباطبائی، الميزان، ۱۴۱۷ق، ج ‏۲۰، ص ۳۶۳.
  16. طبرسی، مجمع البيان، ۱۳۷۲ش، ج‏ ۱۰، ص ۸۲۳؛ طباطبائی، الميزان، ۱۴۱۷ق، ج‏ ۲۰، ص ۳۶۳.
  17. طبرسی، مجمع البيان، ۱۳۷۲ش، ج‏ ۱۰، ص ۸۲۳؛ طباطبائی، الميزان، ۱۴۱۷ق، ج‏ ۲۰، ص ۳۶۳.
  18. طبرسی، مجمع البيان، ۱۳۷۲ش، ج‏ ۱۰، ص ۸۲۳؛ طباطبائی،الميزان، ۱۴۱۷ق، ج‏ ۲۰، ص ۳۶۳.
  19. طباطبائی، ترجمہ تفسير الميزان،۱۳۷۴ش، ج ۲۰، ص ۶۳۰.
  20. طباطبائی، ترجمہ تفسير الميزان، ۱۳۷۴ش، ج ۲۰، ص ۶۳۰.
  21. مطہرى، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج‏ ۴، ص ۸۹۲.
  22. مطہرى، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ج‏ ۴، ص ۸۹۲.

مآخذ

  • بيہقى، ابو بكر، ترجمہ دلائل النبوة، ترجمہ دكتر دامغانى، تہران‏، انتشارات علمى فرهنگی، ‏چاپ اول‏، ۱۳۶۱ش‏.
  • خاتمى، ‏احمد، فرہنگ علم كلام‏، تہران‏، انتشارات صبا،چاپ اول‏، ۱۳۷۰ش‏.
  • دیوان شمس، غزلیات،
  • شہيدى، جعفر، شرح مثنوى (شہيدى)، تہران، شركت انتشارات علمى فرہنگى، چاپ اول، ۱۳۷۳ش.
  • طبرسى فضل بن حسن، مجمع البيان فى تفسير القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش، چاپ سوم.
  • عبده‏، محمد، رسالہ التوحيد، مكتبہ الأسرة، ۲۰۰۵م‏.
  • علامہ طباطبايى، الميزان في تفسير القرآن‏، قم‏، مكتبہ النشر الإسلامی، ‏چاپ پنجم‏،۱۴۱۷ق.
  • قطب الدين راوندى، سعيد بن ہبۃ اللہ، جلوه ‏ہاى اعجاز معصومين عليہم السلام (ترجمہ الخرائج و الجرائج)، قم، دفتر انتشارات اسلامى، چاپ دوم، ۱۳۷۸ش.
  • مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، آسمان و جہان (ترجمہ كتاب السماء و العالم بحار الأنوار جلد ۵۴)، تہران، اسلاميہ، چاپ اول، ۱۳۵۱ش.
  • مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، شيعہ در پيشگاه قرآن و اہل بيت عليہم السلام (ترجمہ جلد ۶۵ بحار الأنوار)، تہران، كتابخانہ مسجد حضرت ولى عصر، چاپ اول، ۱۳۹۷ق.
  • مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، تہران، دار الكتب الإسلاميہ، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق.
  • مجلسى، محمد تقى بن مقصود على، لوامع صاحبقرانى مشہور به شرح فقيہ، قم، مؤسسہ اسماعيليان، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
  • مطہرى مرتضی، ‏مجموعہ آثار استاد شہيد مطہرى‏، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۷۷ش.