سقایۃ الحاج

ویکی شیعہ سے

سِقایَۃ الحاج، یعنی حاجیوں کو پانی پلانا، اسلام سے پہلے اور صدر اسلام میں کعبہ کی کلید برداری کے علاوہ حاجیوں کو پانی پلانا بھی اہم مناصب میں سے ایک تھا اور یہ پانی آب زمزم سے پلایا جاتا تھا۔ آٹھویں ہجری کو مسلمانوں کے ہاتھوں فتح مکہ سے پہلے تک حجاج کو شراب سے سیراب کیا جاتا تھا۔ اسلام کے ظہور کے وقت حجاج کو پانی پلانے کا عہدہ پیغمبر اکرمؐ کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے ذمے تھا اور آنحضرتؐ نے آپ کو اسی عہدے پر باقی رکھا۔

قرآن کریم میں ایمان اور جہاد کا مقام حاجیوں کو پانی پلانے کے عہدے سے بالاتر قرار دیا ہے۔

تعارف

سقایۃ الحاج، یعنی حاجیوں کو پانی پلانا۔[1] مکہ میں خشکسالی اور کم آبی کے باعث کعبہ کی کلیدبرداری کے علاوہ یہ عہدہ بھی اہمیت کے حامل تھا اور سقایت کی وجہ سے اس عہدے پر فائز شخص کی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔[2]

حاجیوں کو صرف آب زمزم سے سیراب نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ بعض مصادر کے مطابق زمزم کا کنواں کافی عرصے تک نامعلوم تھا اور آخرکار عبدالمطلب نے ایک خواب کے مطابق کنویں کو ڈھونڈ نکالا اور اسے احیا کیا۔[3] 8 ہجری کو فتح مکہ سے پہلے پانی کے ساتھ ساتھ شراب سے بھی حاجیوں کو سیراب کیا جاتا تھا۔[4]

سقایت کے متولی

مکہ میں ظہور اسلام کے وقت اور آیہ سقایۃ الحاجّ[5] کے نزول کے وقت حاجیوں کو سیراب کرنے کی ذمہ داری پیغمبر اکرمؐ کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے ذمے تھی۔[6]ان سے پہلے ابوطالب سقایت کے عہدے پر فائز تھے، لیکن کچھ عرصہ بعد مالی مشکلات کی وجہ سے سقا کا عہدہ عباس بن عبدالمطلب کے حوالے کردیا۔[7] لیکن ابن ہشام نے اپنی کتاب السیرۃ النبویۃ میں عبدالمطلب کے بعد سقایت کے متولی عباس بن عبدالمطلب کو ذکر کیا ہے اور ابوطالب کا نام نہیں لیا ہے۔[8]چنانچہ کتاب انساب الاشراف میں ذکر ہوا ہے کہ سقایت ایک ایسا منصب تھا جو عبدمناف کی اولاد میں ہی رہا اور یوں ہاشم بن عبدالمناف کو ملا اور ان کے بعد بالترتیب مطلب بن عبدالمناف، عبدالمطلب، زبیر بن عبدالمطلب اور پھر ابوطالب کو ملا ہے۔[9]

پیغمبر اسلام نے فتح مکہ کے بعد کعبہ کی کلیدبرداری اور سقایت حجاج کے دو عہدوں کو باقی رکھا[10] اور ان دونوں عہدوں کو وہی سابقہ عہدہ داروں کے سپرد کیا۔[11]

ایمان کی سقایت حجاج پر برتری

قرآن مجید میں ایمان اور جہاد کو حاجیوں کو پانی پلانے سے زیادہ اہم قرار دیا گیا ہے۔[12] اہل سنت کے عظیم مفسر فخر رازی کا کہنا ہے کہ یہ آیت سقایت کے مقام کو گھٹانے کے بارے میں نہیں بلکہ حاجیوں کو پانی پلانے کے مقام کو ایمان اور جہاد کے مقابلے میں کم قرار دیا ہے۔[13] شیعہ مفسرین جیسے امین الاسلام طبرسی اور مکارم شیرازی نے اس آیت کے نزول کی وجہ کو امام علیؑ کے ایمان کی توصیف قرار دیا ہے۔[14] پانچویں صدی ہجری کے اہل سنت محدثین میں سے حاکم حسکانی اپنی کتاب شواہد التنزیل میں اس بارے میں دس سے زیادہ روایات نقل کیا ہے کہ جب شیبۃ بن عثمان اور عباس بن عبدالمطلب نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد کی مجاوری کرنے پر فخر کیا تو ان کے جواب میں امام علیؑ نے اپنے ایمان اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کو بیان کیا۔[15]

حوالہ جات

  1. ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۲۱.
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۳۲۳.
  3. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج۱، ص۱۴۲.
  4. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۱۶، ص۱۳؛ حائری تہرانی، مقتنیات الدرر، ۱۳۷۷شمسی، ج۵، ص۱۲۰.
  5. سوره توبہ، آیہ ۱۹.
  6. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۴۸۷؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۳۲۴-۳۳۰.
  7. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۵۷.
  8. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج۱، ص۱۷۸.
  9. بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۵۷.
  10. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج۲، ص۴۱۲.
  11. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۳۰۱.
  12. سورہ توبہ، آیہ ۱۹۔
  13. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۱۶، ص۱۲.
  14. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۲۳؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۳۲۳.
  15. حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۳۲۰-۳۳۰.

مآخذ

  • ابن اثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ ہجری قمری۔
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۰۷ ہجری قمری۔
  • ابن ہشام، عبد الملک، السیرۃ النبویۃ، تحقیق: مصطفی السقا، ابراہیم الأبیاری، عبد الحفیظ شلبی، بیروت،‌ دار المعرفۃ، چاپ اول، بی‌تا.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: سہیل زکار، ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، ۱۴۱۷ ہجری قمری۔
  • حائری تہرانی، میر سید علی، مقتنیات الدرر و ملتقطات الثمر، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۷ ہجری قمری۔
  • حاکم حسکانی، عبید اللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، ج۱، تحقیق محمد باقر محمودی، طہران، وزارۃ الثقافۃ والإرشاد الإسلامی، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۰م.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمد جواد بلاغی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ ہجری شمسی۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، زیر نظر محمود ہاشمی شاہرودی، ج۴، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت، ۱۳۸۹ ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، ابو عبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ ہجری قمری۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ ہجری شمسی۔