طواف

ویکی شیعہ سے
طواف کعبہ، مسجدالحرام

طَواف سے مراد خانہ کعبہ کے گرد سات بار چکر لگانا ہے جو حج اور عمرہ کے واجب اعمال میں سے ہے۔ ہر بار چکر لگانے کو اصطلاح میں "شَوط" کہا جاتا ہے۔ عمرہ تمتّع کے علاوہ حج و عمرہ کی تمام اقسام میں دو قسم کے طواف موجود ہیں ایک طواف زیارت اور دوسری طواف نساء۔ طواف واجب کیلئے احرام کی حالت میں ہونا شرط ہے لیکن مستحب طواف کو بغیر احرام کے بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ ہر طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے جسے نماز طواف کہا جاتا ہے۔

اہل سنت کے ہاں طواف نساء نامی کوئی عمل نہیں ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

طواف لغت میں احاطہ کرنے[1] اور پیدل کسی چیز کے گرد چکر لگانے[2] کو کہا جاتا ہے اس طرح طائف اس شخص کو کہا جاتاہے جو کسی گھر کے گرد چکر لگائے۔[3]فقہی اصطلاح میں "طواف" خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانے کو کہا جاتا ہے۔[4]

اسلام میں "طواف کعبہ" حج کے واجبات میں سے ہے۔ جس میں حاجی مخصوص شرائط کے ساتھ سات مرتبہ خانہ کعبہ کا چکر لگاتا ہے۔[5] خانہ کعبہ کے گرد ایک چکر یعنی ایک "شوط" مکمل ہونے کیلئے اسے حجرالاسود سے شروع اور دوبارہ اسی پر ختم کرنا ضروری ہے۔[6] فقہ میں طواف کا دوسرا نام "شوط" ہے،[7] اس تفاوت کے ساتھ کہ طواف پورے سات چکر کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جبکہ شوط ہر بار چکر لگانے پر بھی اطلاق آتا ہے۔[8]

تاریخچہ

طواف کی تاریخ حضرت آدم کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ جب حضرت آدم کو بہشت سے نکالا گیا تو خانہ کعبہ کے قریب زمین پر اتر آئے اور آپ نے خانہ کعبہ کا طواف شروع کیا جس طرح ملائکہ عرش الہی کا طواف کرتے ہیں۔[9] طواف بیت اللہ الحرام پوری تاریخ میں حج کے ارکان میں سے ایک اہم رکن کے طور پر انجام پاتے رہے ہیں یہاں تک کہ دور جاہلیت اور اسلام سے پہلے بھی جب بھی کوئی شخص حرم میں داخل ہوتے یا مکے سے کسی جگہ مسافرت کی قصد سے باہر جانا چاہتے تو سب سے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرتا اور خداوں کے ساتھ تقرب حاصل کرنے کا سب سے اہم شمار کیا جاتا تھا۔ زمان جاہلیت میں طواف کیلئے کوئی خاص زمان یا مکان مخشص نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ یہ لوگ جہاں کہیں بھی کسی معبد میں داخل ہوتے جہاں بت رکھے جاتے تھے، تو اس معبد کے گرد سات مرتبہ چکر لگاتے تھے، فقراء ننگے پیر جبکہ امراء جوتوں سمیت طواف کرتے تھے۔[10]

برہنہ طواف کرنا

زمانہ جاہلیت میں بعض افراد برہنہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے۔ تاریخی منابع میں اس کام کی مختلف علتیں بیان ہوئی ہیں:

  • چاہتے تھے جس لباس میں گناہ اور معصیت انجام پائی ہے اس میں طواف نہ کیا جائے۔[11]
  • طواف کیلئے مخصوص لباس ہوا کرتا تھا جو صرف قریش کے پاس ہوا کرتا تھا لہذا جس کے پاس یہ مخصوص لباس نہ ہوتا وہ برہنہ طواف کرتے تھے۔[12]
  • جو شخص پہلی بار حج یا عمرہ کیلئے آئے اسے ایسے لباس میں طواف انجام دینا چاہئے تھا جسے "حمس" سے کرایے پر لیا گیا ہو اگر اس لباس کے علاوہ کسی اور لباس میں طواف انجام دے تو اسے پھینک دینا ضروری تھا بنا براین اگر کوئی اپنے لباس سے ہاتھ دھو بیٹھنا نہیں چاہتے تھے وہ برہنہ طواف کرتے تھے، بہ طواف "طواف عریان" کے نام سے مشہور تھا۔[13]
  • امام صادق(ع) سے ایک راویت نقل ہوئی ہے جس میں آیا ہے کہ اس زمانے میں لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ اگر کوئی اپنی لباس میں طواف انجام دے تو اسے صدقہ دینا ضروری ہے، اس بنا پر کوئی اور لباس قرض یا اجارہ پر لیتے تھی اور اگر ایسا کوئی لباس پیدا نہ کرتا تو برہنہ طواف کرتے تھے یہاں تک کہ عورتیں بھی برہنہ طواف کرتی تھیں۔[14]

اہمیت اور فضیلت

قرآن

قرآن کریم میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۵ اور سورہ حج کی آیت نمبر ۲۶ اور ۲۹ میں طواف اور اس کے بعض احکام کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ [15][16][17] ان آیات سے روشن ہوتا ہے کہ "طواف" ایک قدیمی عبادت ہے جسے حضرت ابراہیم کے دور میں بھی انجام دی جاتی تھی۔[18]

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 158 میں صفا اور مروہ کے درمیان انجام دی جانے والی "سعی" کو بھی طواف کہا گیا ہے: إِنَّ الصَّفا وَ الْمَرْوَة مِنْ شَعائِرِ اللَّه فَمَنْ حَجَّ الْبَیتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَیه أَنْ یطَّوَّفَ بِهما وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیراً فَإِنَّ اللَّه شاكِرٌ عَلیمٌ (ترجمہ: بے شک صفا اور مروہ دونوںپہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں ہیںلہٰذاجو شخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوںکا چکر لگائے اور جو مزید خیر کرے گا تو خدا اس کے عمل کا قدر دان اوراس سے خوب واقف ہے)، بعض آیات میں "ط‌و‌ف" لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے: فَطافَ عَلَیہا طائِفٌ مِنْ رَبِّكَ وَ ہمْ نائِمُونَ  (ترجمہ: تو خدا کی طرف سے راتوں رات ایک بلا نے چکر لگایا جب یہ سب سورہے تھے۔) [19]

حدیث

قال امیر المؤمنین علی علیہ السلام:

إِنَّ لِلَّه مِائَة وَ عِشْرِینَ رَحْمَة عِنْدَ بَیتِه الْحَرَامِ سِتُّونَ لِلطَّائِفِینَ وَ أَرْبَعُونَ لِلْمُصَلِّینَ وَ عِشْرُونَ لِلنَّاظِرِین‌.
ترجمہ:امام علی(ع) فرماتے ہیں: خداوند نے کعبہ کے اطراف میں ایک سو بیس(120) رحمت قرار دیا ہے، جس میں سے 60 رحمت طواف کرنے والوں سے مخصوص ہے، 40 نماز پڑھنے والوں کے ساتھ اور 20 رحمت کعبے کی طرف نگاہ کرنے والوں کے ساتھ مخصوص ہے۔

مآخذ، محاسن برقی، ج۱، ص۶۹

احادیث میں طواف کیلئے بہت ساری فضیلیتں بیان ہوئی ہیں۔ایک روایت میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: إِنَّ لِلَّه مِائَة وَ عِشْرِینَ رَحْمَة عِنْدَ بَیتِه الْحَرَامِ سِتُّونَ لِلطَّائِفِینَ وَ أَرْبَعُونَ لِلْمُصَلِّینَ وَ عِشْرُونَ لِلنَّاظِرِین‌. (ترجمہ: امام علی(ع) فرماتے ہیں: خداوند نے کعبہ کے اطراف میں ایک سو بیس(120) رحمت قرار دیا ہے، جس میں سے 60 رحمت طواف کرنے والوں سے مخصوص ہے، 40 نماز پڑھنے والوں کے ساتھ اور 20 رحمت کعبے کی طرف نگاہ کرنے والوں کے ساتھ مخصوص ہے۔[20])

احادیث میں طواف کی جن فضیلتوں کا بیان آیا ہے ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:

  • طواف کعبہ کی زینت ہے۔[21]
  • خدا طواف کرنے والوں پر فخر کرتا ہے۔[22]
  • طواف خدا کے ساتھ ایک عہد و پیمان ہے۔[23]
  • طواف عذاب کی برطرفی کا وسیلہ ہے۔[24]
  • طواف گناہوں کی بخشش کا وسیلہ [25]
  • درجات کی بلندی کا سبب ہے۔[26]
  • ایک غلام یا کنیز آزاد کرنے کے ثواب[27] سے ستر ہزار غلام یا کنیز آزاد کرنے کا ثواب[28]
  • حاجتوں پوری ہونگی۔[29]

مستحب ہے جوشخص مکہ جائے وہ 360 طواف، اگر ممکن نہ ہو تو 360 شوط اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو جب تک مکے میں ہوں جتنا ہو سکے طواف انجام دیا جائے۔[30]

بعض احادیث میں طواف کا سات چکروں پر مشتمل ہونے کی علت کو حضرت آدم کی خلقت کے بارے میں فرشتوں کی سات ہزار سال توبہ اور عبادت بیان کی گئی ہے یعنی ہر چکر ہزار سال کے مقابلے میں ہے۔ [31]

کتاب وسائل الشیعہ میں حدیث نمبر ۴۴۵ میں طواف کے احکام کی جزئیات بیان ہوئی ہیں۔[32]

اقسام

طواف واجب کی دو قسم ہیں: طواف زیارت اور طواف نساء؛ طواف کی یہ دو قسمیں حج اور عمرہ کی تمام اقسام میں پائی جاتیں ہیں سوائے عمرہ تمتّع کہ جس میں طواف نساء موجود نہیں ہوتا ۔ طواف‌ کی یہ دو قسمیں صرف نیت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

طواف زیارت حج و عمرہ کے ارکان میں سے ہے لیکن طواف نساء گرچہ واجب ہے لیکن اس کے انجام نہ دینے سے حج یا عمرہ باطل نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر عورتوں سے ہمبستری جائز نہیں ہے یہاں تک کہ خود یا اگر ممکن نہ ہو تو کوئی اور اس کی طرف سے طواف النساء اور اس کی دو رکعت نماز پڑھی جائے۔ [33]

طواف کی مذکورہ دو واجب قسموں کے علاوہ مستحب طواف بھی انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ ہر طواف کے بعد دو رکعت نماز طواف پڑھی جاتی ہے، واجب طواف میں مقام ابراہیم کے پیچھے جبکہ مستحب طواف میں مسجدالحرام میں کسی بھی جگہ یہ نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں۔ مکے میں داخل ہوتے وقت "طواف ورود" اور مسجد الحرام سے واپس جاتے وقت "طواف وداع" انجام دینا بھی مستحب ہے۔[34]

حجاج کرام کا مکہ مکرمہ میں پہنچنے کے بعد انجام دینے والے پہلے طواف کو "طواف قُدوم" کہا جاتا ہے۔[35]

طواف زیارت

طواف زیارت سے مراد وہ طواف ہے جو حج اور عمرہ کا واجب رکن ہے۔ اسے "طواف اول"، "طواف فَرض"، "طواف فَریضہ" اور "طواف رُکن" نیز کہا جاتا ہے۔ یہ طواف:

  • عمرہ مفردہ کے مناسک میں احرام کے بعد طواف دوسرے نمبر پر آتاہے اور اسے انجام دینے کو کوئی مخصوص وقت نہیں ہے بلکہ پورے سال میں کسی بھی وقت انجام دے سکتے ہیں۔
  • عمرہ تمتع میں بھی احرام کے بعد سب سے پہلے انجام پانے والا عمل ہے لیکن اس کیلئے مخصوص وقت ہے اور وہ شوال کی پہلی تاریخ سے لے کر روز عرفہ یعنی ذی الحجہ کی نویں تاریخ تک ہے۔
  • حج میں یہ عمل ساتویں نمبر پر آتا ہے۔ حج (تمتع اور قران) میں حلق یا تقصیر کے بعد عید قربان کے دن منا سے مکہ جانے کے بعد انجام دیا جاتا ہے اور اسے ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کو بھی انجام دیا جا سکتا ہے لیکن عید کے دن ہی انجام دینا مستحب ہے۔ یہ طواف احرام کے بغیر انجام دیا جاتا ہے کیونکہ حلق یا تقصیر کے بعد حجاج احرام سے خارج ہوتے ہیں [36] اس طواف کو "طواف زیارت" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ حجاج منا کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد عید قربان کے دن خانہ کعبہ کی زیارت کیلئے مکہ جاکر اسے انجام دیتے ہیں اس لئے اسے "طواف زیارت" کہا جاتا ہے۔[37] اس طواف کے بعد حاجیوں پر عطر بھی حلال ہو جاتا ہے۔

طواف نساء

طواف نساء اور اسکی نماز عمرہ مفردہ کا آخری عمل ہے اسی طرح یہ عمل "حج" کے اعمال میں مکے میں انجام پانے والا آخری عمل بھی شمار ہوتا ہے۔ یہ طواف حج یا عمرہ انجام دینے والے تمام حجاج پر واجب ہے اس کے انجام دینے کے بعد میاں بیوی کیلئے ایک دوسرے سے استمتاع حلال ہو جاتی ہے۔ طواف نساء "متعہ" کی طرح شیعوں سے مختص ہے اور فقہ اہل سنت میں طواف نساء کا کوئی وجود نہیں ہے نہ حج میں اور نہ عمرے میں۔[38]

کیفیت طواف

طواف میں سب سے پہلے نیت شرط ہے جس میں طواف کی مختلف اقسام (طواف زیارت، طواف نساء، طواف نیابتی، طواف مستحبی) میں سے مورد نظر طواف کو معین کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد خانہ کعبہ کے گرد بائیں سے دائیں کی طرف سات چکر (شوط) کاٹی جاتی ہے۔ طواف کا آغاز اور اختتام حجر الاسود پر ہونا ضروری ہے موجودہ دور میں اسے سیاہ سنگ مرمر کے ذریعے انتہائے مسجدالحرام تک مشخص کیا ہوا ہے۔ طواف کے دوران نماز کی طرح طہارت کی حالت میں ہونا ضروری ہے۔ بنابراین طائف کیلئے ضروری ہے کہ اس پر کوئی غسل واجب نہ ہو۔ اسی طرح اس کا لباس بھی نجاست سے پاک ہونا ضروری ہے۔ طواف کے دوران بائیں کاندھا خانہ کعبہ کی طرف ہونا چاہئے اور حجر اسماعیل کے باہر باہر سے انجام دینا ضروری ہے اسی طرح مرد حضرات کیلئے طواف سے پہلے ختنہ (اگر نہ کیا ہوا ہو) کرنا بھی ضروری ہے۔

طواف کو سواری کی حالت میں بھی انجام دیا جا سکتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات بارش اور سیلاب کی وجہ سے تیراکی کی حالت میں بھی طواف انجام دیا گیا ہے۔[39]

مقام طواف

مطاف موقت

طواف واجب کو جس حصے میں انجام دینا ضروری ہے اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے مقام ابراہیم تک قرار دیتے ہیں جو خانہ کعبہ سے 13 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[40] جبکہ بعض اسے پورا مسجدالحرام قرار دیتے ہیں۔ پہلے گروہ کے نظریے کے مطابق مقررہ حدود حجر اسماعیل کے پاس سے صرف 3 میٹر رہ جاتی ہے۔ اس بنا پر زیادہ رش کی وجہ سے اس حدود میں طواف کرنا نہایت سخت اور کبھی کبھار ناممکن ہو جاتا ہے اس لئے یہ نظریے کے حامی فقہاء جس قدر ممکن ہو نزدیک ترین فاصلے کی رعایت کو ضروری قرار دیتے ہیں۔[41]

اہل سنت کے ہاں طواف کی حالت میں کسی خاص فاصلہ کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے۔[42]

نئے بنائے گئے راستوں پر طواف کرنے کا حکم

اگر طواف کی جگہ مسجدالحرام قرار دی جائے یا رش کی وجہ سے طواف مقام ابراہیم سے بھی زیادہ فاصلے کے بغیر ممکن نہ ہو تو اس صورت میں یہ سوال پیش آتا ہے کہ موجودہ زمانے میں طواف کیلئے بنائے گئے عارضی اور مخصوص راستوں خاص طور پر دوسری منزل میں طواف کا کیا حکم ہے؟ بعض شیعہ اور اہل سنت فقہاء اسے صحیح قرار دیتے ہیں لیکن بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر دوسری منزل میں بنائی گئی مخصوص جگہ کی بلندی خانہ کعبہ کی چھت سے زیادہ بلند ہو تو طواف باطل ہے۔[43][44]

2015 عیسوی کی اخباری رپورٹس کے مطابق مسجد الحرام کی نیا تعمیر شدہ دوسری منزل اور عارضی تعمیر شدہ دوسری منزل خانہ کعبہ کی چھت سے بلند اور جبکہ پہلی منزل کعبہ اس کی چھت سے نیچے ہیں۔[45]

حوالہ جات

  1. فراہیدی، خلیل بن احمد؛ کتاب العین، تحقیق مہدی مخزمی، ایران، دارالہجرۃ، ۱۴۰۹ق، ج۷، ص۴۵۸.
  2. جوہری، اسماعیل؛ الصحاح، تحقیق احمد عبدالغفور، بیروت، دارالعلم للملایین، ۱۴۰۷ق، چاپ چہارم، ج۴، ص۱۳۹۶ و ابن منظور، محمدبن مکرم؛ لسان العرب، قم، ادب، ۱۴۰۵ق، چاپ اول، ج۹، ص۲۲۵.
  3. راغب اصفہانی، حسین بن محمد؛ مفردات الفاظ القرآن، تحقیق صفوان عدنان، قم، طلیعۃ نور، ۱۴۲۶ق، چاپ اول، ص۵۳۱.
  4. ابن منظور، محمدبن مکرم؛ لسان العرب، قم، ادب، ۱۴۰۵ق، چاپ اول، ج۹، ص۲۲۵.
  5. فاضل ہندی، محمد؛ کشفاللثام، تحقیق مؤسسۃ نشر اسلامی، قم، مؤسسۃ نشر اسلامی، ۱۴۱۶ھ، چاپ اول، ج۵، ص۴۱۳ و شیخ صدوق، محمد بن علی؛ الہدایہ، تحقیق مدرسۃ الامام المہدی، قم، مدرسۃ الامام المہدی، ۱۴۱۸ق، چاپ اول، ص۲۲۵.
  6. شیخ مفید، محمد بن محمد؛ المقنعہ، ص۴۰۰ و نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ، ج۱۹، ص۲۸۷.
  7. شیخ صدوق، محمد بن علی؛ الہدایۃ، ص۲۲۵.
  8. نجفی، محمدحسن؛ جواہر الکلام، ج۱۹، ص۲۸۶.
  9. شیخ صدوق، ج۲، ص۴۰۷.
  10. جواد علی؛ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۶، ص۳۵۵.
  11. سیوطی، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، ج۳، ص۷۸،
  12. اسلام کوئست
  13. فرہنگ اصطلاحات حج،حریری، ص۱۱۱
  14. قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی
  15. وَ إِذْ جَعَلْنَا الْبَیتَ مَثابَة لِلنَّاسِ وَ أَمْناً وَ اتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهیمَ مُصَلًّی وَ عَهدْنا إِلی إِبْراهیمَ وَ إِسْماعیلَ أَنْ طَهرا بَیتِی لِلطَّائِفینَ وَ الْعاكِفینَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُودِ (ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے خانہ کعبہ کو ثواب اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دے دیا کہ مقام ابراہیم کو مصّلی بناؤ اور ابراہیم علیھ السّلام و اسماعیل علیھ السّلام سے عہد لیا کہ ہمارے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوںاو ر رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنائے رکھو)
  16. وَ إِذْ بَوَّأْنا لِإِبْراهیمَ مَكانَ الْبَیتِ أَنْ لاتُشْرِكْ بی‌شَیئاً وَ طَهرْ بَیتِی لِلطَّائِفینَ وَ الْقائِمینَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُودِ (ترجمہ: اور اس وقت کو یاد دلائیں جب ہم نے ابراہیم علیھ السّلامکے لئے بیت اللہ کی جگہ مہیا کی کہ خبردار ہمارے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والے ,قیام کرنے والے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنادو ۔)
  17. ثُمَّ لْیقضُوا تَفَثَهمْ وَ لْیوفُوا نُذُورَہمْ وَ لْیطَّوَّفُوا بِالْبَیتِ الْعَتیقِ (ترجمہ: پھر لوگوں کو چاہئے کہ اپنے بدن کی کثافت کو دور کریں اور اپنی نذروں کو پورا کریں اور اس قدیم ترین مکان کا طواف کریں ۔)
  18. ابن عاشور، محمد بن طاہر؛ التحریر و التنویر، بیروت، مؤسسۃ التاریخ، ۱۴۲۰ق، چاپ اول، ج۱۷، ص۱۷۴.
  19. سورہ قلم/ آیت ۱۹
  20. محاسن برقی، ج۱، ص۶۹
  21. المستدرک الوسائل: ج۹، ص۳۷۵
  22. الشفاء الغرام: ج۱، ص۲۹۲
  23. شرح من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۲۰۳، ح۲۱۳۸
  24. شرح من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۲۰۳، ح۲۱۳۸
  25. محمد بن قیس کہتا ہے: امام باقر(ع) مکے میں لوگوں کے درمیان فرما رہے تھے: جب خانہ کعبہ کے گرد ساتھ مرتبہ طواف کرتے ہو تو اس کے ذریعے خدا سے ایک عہد و پیمان وجود میں آجاتا ہے جس کے بعد خدا تمہیں عذاب کرنے سے شرم محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد امام نے فرمایا: جب خانہ خدا کا ساتہ مرتبہ طواف اس کے بعد مقام ابراہیم(ع) پر دو رکعت نماز طواف ادا کریں تو ایک فرشتہ‌ تمہارے کندے پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے: وہ سارے گناہ جو اس سے پہلے تم سے سر زد ہوئی ہے اسے خدا نے بخش دی ہے ان چار مہینوں میں عمل کو دوبارہ سے شروع کرو فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیتِ أُسْبُوعاً لِلزِّیارَة وَ صَلَّیتَ عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَینِ ضَرَبَ مَلَكٌ كَرِیمٌ عَلَی كَتِفَیكَ فَقَالَ أَمَّا مَا مَضَی فَقَدْ غُفِرَ لَكَ فَاسْتَأْنِفِ الْعَمَلَ شرح من لایحضرہ الفقیہ، ناشر: دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم‌، ج۲، ص۲۰۳، ح۲۱۳۸
  26. حسین بن سعید اہوازی کہتا ہے: امام صادق(ع) نے فرمایا: جو شخص خانہ کعبہ کے گرد سات مرتبہ چکر لگائے، خدا اسے چھ ہزار حسنہ عطا فرماتا ہے، چھ ہزار گناہ معاف کرتا ہے اور چھ ہزار درجہ اس کے مقام کو بلند کرتا ہے۔ المستدرک الوسائل: ج۹، ص۳۷۶
  27. المستدرک الوسائل: ج۹، ص۳۷۶
  28. کافی، چاپ اسلامیہ، ج۴، ص۴۱۱
  29. کافی، چاپ اسلامیہ، ج۴، ص۴۱۱
  30. المستدرک الوسائل: ج۹، ص۳۷۷ و ۳۷۸
  31. عَنِ الثُّمَالِی عَنْ عَلِی بْنِ الْحُسَینِ(ع) قَالَ: قُلْتُ لِأَبِی لِمَ صَارَ الطَّوَافُ سَبْعَة أَشْوَاطٍ قَالَ لِأَنَّ اللَّه تَبَارَكَ وَ تَعَالَی قَالَ لِلْمَلَائِكَة- إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَة فَرَدُّوا عَلَی اللَّه تَبَارَكَ وَ تَعَالَی وَ قالُوا أَ تَجْعَلُ فِیها مَنْ یفْسِدُ فِیها وَ یسْفِكُ الدِّماءَ قَالَ اللَّه إِنِّی أَعْلَمُ ما لاتَعْلَمُونَ وَ كَانَ لَا یحْجُبُهمْ عَنْ نُورِه فَحَجَبَهمْ عَنْ نُورِه سَبْعَة آلَافِ عَامٍ فَلَاذُوا بِالْعَرْشِ سَبْعَة آلَافِ سَنَة فَرَحِمَهمْ وَ تَابَ عَلَیهمْ وَ جَعَلَ لَهمُ الْبَیتَ الْمَعْمُورَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ الرَّابِعَة فَجَعَلَه مَثَابَة وَ أَمْناً وَ وَضَعَ الْبَیتَ الْحَرَامَ تَحْتَ الْبَیتِ الْمَعْمُورِ فَجَعَلَه مَثَابَة لِلنَّاسِ وَ أَمْناً فَصَارَ الطَّوَافُ سَبْعَة أَشْوَاطٍ وَاجِباً عَلَی الْعِبَادِ لِكُلِّ أَلْفِ سَنَة شَوْطاً وَاحِد بحار الأنوار (ط - بیروت)، ج‌۱۱، ص: ۱۱۱، ح۲۵
  32. وسائل الشیعہ، ج۱۳، ابواب الطواف
  33. مناسک حج، م۵۵۱ و م۱۱۸۸
  34. فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم‌السلام، آیت‌اللہ محمود ہاشمی‌شاہرودی، ج۵، ص۲۳۰
  35. فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم‌السلام، آیت‌اللہ محمود ہاشمی‌شاہرودی، ج۵، ص۲۲۷
  36. فرہنگ اصطلاحات حج،حریری، ص۱۱۰
  37. تذکرۃ الفقہاء، ج۸، ص۳۴۷
  38. بدایہ المجتہد و نہایہ المقصد. قرطبی، ابن رشد. منشورات الشریف الرضی، قم، ۱۴۰۶ ہ‍.ق ج۱ ص۳۵۷
  39. رسالہ مفرحۃ الأنام فی تأسیس بیت اللّہ الحرام رسول جعفریان میقات حج: ش۵، ص۱۶۳
  40. تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، اصغر قائدان، ص۸۷
  41. طواف و محدودہ آن از دیدگاہ فقیہان مسلمان
  42. الفقہ علی المذاہب الاربعہ، عبدالرحمن جزیری، ج۱، صص۸۵۹-۸۶۰
  43. مجلہ میقات حج، تابستان ۸۹،شمارہ ۷۲، مقالہ طواف از طبقہ دوم مسجدالحرام
  44. پژوہشی فقہی دربارہ طواف از طبقہ اوّل مسجدالحرام
  45. حج و زیارت

مآخذ

  • مجلہ میقات حج، شمارہ ۷، صص۲۰ تا ۴۰
  • مجلہ میقات حج، تابستان ۸۹،شمارہ ۷۲، مقالہ طواف از طبقہ دوم مسجدالحرام
  • تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، اصغر قائدان، نشر مشعر
  • آثار اسلامی مکہ و مدینہ، رسول جعفریان، نشر مشعر
  • کلینی، محمد بن یعقوب، کافی،‌دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ق
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۹ق
  • شیخ صدوق، شرح من لایحضرہ الفقیہ، ناشر: دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم
  • بحارالانوار، محمد باقر مجلسی (م. ۱۱۱۰ ق.)، سوم، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ ق.
  • فرہنگ فقہ فارسی، زیر نظر آیت اللہ سید محمود شاہرودی، انتشارات مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی
  • فرہنگ اصطلاحات حج، محمدیوسف حریری، انتشارات دارالحدیث، قم، ۱۳۸۴ش
  • تفسیر قمی، علی بن ابراہیم، ‌دار الکتاب، قم، چاپ سوم، ۱۴۰۴ق
  • مناسک حج مطابق فتاوای امام خمینی و مراجع معظم تقلید، محمدرضا محمودی، مرکز تحقیقات حج بعثہ مقام معظم رہبری، نشر مشعر، چاپ چہارم، ۱۳۸۷ش