ام سلمہ (زوجہ پیغمبر اکرم)

ویکی شیعہ سے
ام سلمہ
کوائف
مکمل نامہند بنت ابو امیہ بن مغیرہ
لقبام المؤمنین
محل زندگیحبشہ، مدینہ
مہاجر/انصارمہاجر
اقاربابو امیہ بن مغیرہ، عبد اللہ بن عبد الاسد، عمر بن ابی سلمہ۔
وفاتسنہ 62 ہجری (84 سال)، مدینہ
مدفنجنت البقیع
دینی معلومات
اسلام لانابعثت کی ابتداء میں
وجہ شہرتزوجۂ پیغمبر اکرمؐ، مدافع اہل بیت (ع)، راوی حدیث۔


ہند بنت ابو امیہ بن مغیرہ، أُمّ سَلَمہ کے نام سے مشہور، پیغمبر اکرمؐ کی زوجہ اور ام المومنین ہیں۔ ان کا شمار پیغمبر اکرمؐ کی بعثت کے ابتدائی ایام میں اسلام لانے والی شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے جعفر بن ابی طالب کی سرپرستی میں کچھ دیگر مسلمانوں کے ساتھ حبشہ مہاجرت کی۔[1] پیغمبر اکرم سے شادی سے پہلے بھی ان کی شادی ہو چکی تھی، [2] لیکن پہلے شوہر کی وفات کے بعد ہجرت کے چوتھے سال پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ ام سلمہ ہمیشہ اہل بیت (ع) کے ساتھ ہمراہی کی کوشش کرتی تھیں اور آنحضرت (ص) کی وفات کے بعد بھی ان کا شمار اہل بیت کا دفاع کرنے والوں میں ہوتا تھا۔ جیسے کہ انہوں نے میراث پیغمبر اکرم (ص) کے سلسلہ میں حضرت فاطمہ کے حق کا دفاع کیا۔ اکثر مورخین نے ام سلمہ کی وفات کو واقعہ عاشورا کے بعد قرار دیا ہے۔

حسب و نسب

ازواج رسول خدا
خدیجہ بنت خویلد (ازدواج: 25 عام الفیل)
سودہ بنت زمعہ (ازدواج: قبل از ہجرت)
عائشہ بنت ابوبکر (ازدواج: 1 یا 2 یا 4 ہجری)
حفصہ بنت عمر (ازدواج: 3 ہجری)
زینب بنت خزیمہ (ازدواج: 3 ہجری)
ام سلمہ بنت ابوامیہ (ازدواج: 4 ہجری)
زینب بنت جحش (ازدواج: 5 ہجری)
جویریہ بنت حارث (ازدواج: 5 یا 6 ہجری)
رملہ بنت ابوسفیان (ازدواج: 6 یا 7 ہجری)
ماریہ بنت شمعون (ازدواج: 7 ہجری)
صفیہ بنت حیی (ازدواج: 7 ہجری)
میمونہ بنت حارث (ازدواج: 7 ہجری)

ان کا نام ہند تھا لیکن چونکہ ان کا سلمہ نامی کوئی بیٹا تھا، اس کی وجہ سے ان کی کنیت ام سلمہ رکھی گئی تھی۔

ان کے والد کا نام ابو امیہ بن مغیرہ[3] اور والدہ کا نام عاتکہ تھا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ عاتکہ حضرت عبد المطلب کی بیٹی تھیں،[4] لیکن اکثر مورخین نے ان کی والدہ کو عاتکہ بنت عامر ابن ربیعہ کنانی قرار دیا ہے۔[5] تاریخی منابع میں ان کی تاریخ ولادت کے حوالے سے کوئی دقیق اور واضح بات مذکور نہیں ہے۔

اسلام لانا اور حبشہ کی طرف ہجرت

بعثت کے ابتدائی ایام میں ام سلمہ نے اپنے سابق شوہر جو کہ حضرت محمدؐ کے رضاعی بھائی ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی تھے،[6] کے ہمراہ مکہ میں اسلام قبول کیا۔

مشرکین مکہ کی اذیت و آزار سے تنگ آکر ام سلمہ نے بھی اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کی طرح پیغمبر اکرمؐ کے حکم پر حبشہ کی طرف ہجرت کی۔[7] حبشہ میں نجاشی کے سامنے قریش کے وفد کے جعفر بن ابی طالب کے ساتھ ہونے والے مناظرے کے بارے میں جتنی احادیث وارد ہوئی ہیں وہ سب کے سب "ام سلمہ" سے منقول ہیں۔ ابن ہشام نے مسلمان مہاجرین کا حبشہ میں داخلہ اور نجاشی کا مہمانوں کے ساتھ اچھے برتاؤ اور حسن سلوک کی داستان بھی "ام سلمہ" سے ہی نقل کیا ہے۔[8]

مدینہ کی طرف ہجرت

پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے حوالے سے حکم صادر ہونے کے بعد "ام سلمہ" کے شوہر ابو سلمہ ان اشخاص میں سے تھے جنہوں نے اس حکم کے فورا بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی، اس موقع پر ام سلمہ اور ان کے بیٹے "سلمہ" بھی ان کے ہمراہ تھے۔ لیکن بنی مغیرہ جو "ام سلمہ" کے رشتہ دار تھے ان کے مدینہ جانے میں مانع بنے یوں وہ اپنے شوہر اور بیٹے سے بچھڑ گئیں اس حوالے سے آپ فرماتی ہیں کہ بیٹے اور شوہر کی جدائی میں، میں دن رات روتی رہتی تھیں اور ہر روز مدینے کے راستے میں بیٹھتی تھی اور مدینہ سے آنے والے ہر شخص سے ان کے بارے میں دریافت کرتی رہتی تھی۔ جب میرے رشتہ داروں نے میری بے تابی دیکھی تو مجھے بھی مدینہ جانے کی اجازت دے دی یوں شوہر اور بیٹے سے جدائی کے ایک سال بعد میں بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر کے چلی گئی۔[9]

مدینہ کی زندگی

پیغمبر اکرمؐ سے شادی

ام سلمہ پیغمبر اکرمؐ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد کی عقد میں تھیں۔ ابو سلمہ ہجرت کے چوتھے سال جنگ احد میں زخمی ہونے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ شوہر کی وفات کے بعد پیغمبر اسلامؐ نے "ام سلمہ" سے شادی کی۔ اس حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ شوہر کی وفات اور عدہ کی مدت گزرنے کے بعد پہلے ابوبکر پهر عمر نے ان سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا لیکن ام سلمہ نے ان دونوں سے شادی کرنے سے انکار کیا۔ اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے بھی شادی کا پیغام بھیجا جس پر انہوں نے آپؐ سے شادی کر لی۔[10] شیخ صدوق نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ "ام سلمہ" حضرت خدیجہ (س) کے بعد پیغمبر اکرمؐ کی ازواج میں بافضیلت‌ ترین زوجہ تھیں۔ [11] "ام سلمہ" بہت سارے فضائل اور کمالات کی حامل تھیں جن کی وجہ سے آپ ہمیشہ حضرت عایشہ کیلئے مایہ حسد و اندوہ بنی رہتی تھیں۔[12]

جنگوں میں شرکت

ام سلمہ نے مختلف غزوات اور سریوں جیسے غزوہ مُرَیسیع، خیبر، حدیبیہ، خندق، فتح مکہ اور حنین میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شرکت کی۔[13] اس کے علاوہ آپ ہر ماہ "جنگ احد" کے مقام پر تشریف لے جاتیں اور شہداء احد کے اوپر سلام بھیجتی تھیں۔ [14]

ام سلمہ اور اہل بیت

ام سلمہ نے ہمیشہ اہل بیت(ع) کا ساتھ دیا۔ احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد ام سلمہ اہل بیت(ع) کے مدافعین میں سے تھیں، چنانکہ انہوں نے ابوبکر کی جانب سے حضرت فاطمہ(س) کو پیغمبر اکرمؐ کی میراث سے محروم رکھنے کے واقعے میں، حضرت زہرا(س) کی حمایت کی۔ جس کی وجہ سے وہ خود بھی اس سال بیت المال کے اپنے حصے سے محروم رہیں۔[15]

جنگ جمل

عثمان کی قتل کے بعد جب طلحہ اور زبیر نے مکہ میں جا کر عایشہ سے ملاقات کی اور انہیں حضرت علی(ع) کے ساتھ جنگ کرنے پر تیار کیا۔ اس موقع پر عایشہ نے ام سلمہ کو بھی اس جنگ میں اپنے ساتھ رکھنے کا ارادہ کیا لیکن انہوں نے عایشہ کی بات نہ مانی اور انہیں اس کام سے دور رہنے کی سفارش کی۔ [16]

جب وہ عایشہ سے مایوس ہوئیں تو امام علی(ع) کو اصحاب جمل کے ارادے سے آگاہ کیا اور اپنے بیٹے عمر بن ابی سلمہ کو آپ(ع) کی خدمت میں بھیجا۔ امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) نے اپنے دور حکومت میں بعد میں ان کے بیٹے کو پہلے بحرین پهر فارس اور ایک قول کے مطابق حلوان یا ماہ یا ماسبذان کا گورنر بنایا۔ [17]

امام حسین سے محبت

اہل بیت(ع) سے انہیں اس قدر شدید محبت اور عقیدت تھی کہ امام حسین(ع) کے بچپن میں ہی آپ کی تربت ان کو دی گئی تھی۔ [18] اس کے علاوہ انہوں نے حضرت امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد حتی یزید کے دور حکومت میں بھی امام حسین(ع) پر عزاداری کرتی تھیں۔[19]

واقعہ کربلا میں ام سلمہ کا کردار

امام حسین(ع) نے کربلا کی طرف سفر کرنے سے پہلے ‏‏پیغمبرؐ کی تلوار سمیت بعض اسرار امامت کو ام سلمہ کی سپرد کیا تاکہ یہ چیزیں محفوظ رہ سکیں۔[20]

بعض روایات کے مطابق یغمبر اکرمؐ نے ام سلمہ کو کربلا کی مٹی میں سے ٹھوڑی مقدار ام سلمہ کو دیا اور انہوں نے اسے کسی شیشے کی بوتل میں محفوظ رکھا۔ اس مٹی کے حوالے سے حضورؐ نے فرمایا تھا کہ جب بھی یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لو کہ میرا بیٹا حسین(ع) شہید ہوا ہے۔ ایک دن ام سلمہ نے خواب میں پیغمبر اکرمؐ کو غمگین اور خاک آلود دیکھا، اس وقت آپؐ نے ام سلمہ سے فرمایا: میں کربلا سے شہداء کو دفن کر کے آیا ہوں۔ اس وقت اچانک ام سلمہ کی آنکھ کھل گئی اس شیشے پر نظر دوڑائی جس میں کربلا کی مٹی رکھی ہوئی تھی، تو دیکھا مٹی خون میں تبدیل ہو گئی ہے اس وقت وہ سمجھ گئی کہ امام حسین(ع) شہید ہو گئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے گریہ و زاری کرنا شروع کیا اور جب ہمسایے آئے تو ماجرا سے ان کو با خبر کیا۔ [21] یہ ماجرا احادیث میں "حدیث قارورہ‏‌" کے عنوان سے معروف ہے۔

معاویہ کی مخالفت

امام حسن مجتبی علیہ السلام کے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کے بعد ام سلمہ نے جابر بن عبداللہ انصاری اور اپنے بھتیجے سے کہا کہ اپنی جان کی حفاظت کی خاطر معاویہ کی بیعت کریں۔ [22] لیکن خود معاویہ کے مقابلے میں خاموش نہیں رہیں، انہوں نے معاویہ کی طرف سے ممبروں سے امام علی(ع) کی شان میں گستاخی کرنے کا حکم صادر ہونے کے بعد ان کو ایک خط لکھا جس میں اس حوالے سے ان کی نہایت سرزنش کی۔ [23]

وفات

ام سلمہ کی وفات کی تاریخ کے حوالے سے مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ اسے سنہ 59 ہجری سے سنہ 62 ہجری تک ذکر کیا گیا ہے۔[24] لیکن سنہ 62 ہجری زیادہ مناسب دکھائی دیتا ہے کیونکہ آپ امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد تک زندہ تھیں۔[25] یوں ام سلمہ حضرت محمدؐ کی ازواج میں سب سے آخر میں فوت ہوئی ہیں۔

ام سلمہ کی عمر کے بارے میں ان کے بیٹے سے نقل ہوا ہے کہ وفات کے وقت ان کی عمر تقریبا 84 سال تھی۔[26] ام سلمہ کا مقبرہ جنت البقیع میں صدر اسلام کے بزرگان کے ساتھ ہے۔[27]

مسند ام‌ سلمہ

ام‌ سلمہ نے پیغمبر اکرم ؐ سے بہت ساری احادیث نقل کی ہیں جنہیں فریقین کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ان سے منقول احادیث کی تعداد 378 حدیث تک پہنچتی ہیں جنہیں مسند ام سلمہ نامی کتاب میں جمع کی گیا ہے۔[28] بد بختی سے ام سلمہ سے منقول احادیث کی ایسی کوئی فہرست شیعہ منابع میں منتشر نہیں ہوئی ہے۔ شیعہ منابع میں ام سلمہ سے منقول احادیث میں سے درج ذیل کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:

  1. شأن نزول آیت تطہیر؛[29]
  2. حدیث کساء؛[30]
  3. وقایع کربلا اور امام حسین (ع) کی شہادت کے بارے میں منقول احادیث نبوی۔[31]

اسی طرح ام سلمہ نے ابو سلمۃ بن عبد الاسد اور حضرت فاطمہ(س) سے بھی احادیث نقل کی ہیں اسی طرح راویوں کے ایک گروہ نے ان سے حدیث نقل کی ہیں جن کے نام منابع میں مذکور ہیں۔[32]

ام سلمہ کی توثیق

جب امام حسین(ع) مدینہ سے مکہ کی روانہ ہوئے تو آپ نے اپنے پاس موجود بعض قیمتی اشیاء منجملہ بعض اسرار امامت کو ام سلمہ کے سپرد کیا، جب امام سجاد(ع) شام سے واپس آئے تو ام سلمہ نے حضرت علی(ع) سے منسوب بعض علمی کتابیں اور پیغمبر اکرمؐ کی بعض نشانیاں اور امامت کی بعض مخصوص امانتوں کو جنہیں امام حسین (ع) نے ان کے پاس امانت کے طور پر رکھا تھا، امام سجاد کے حوالے کیا۔ یہاں سے ائمہ کے نزدیک ام سلمہ کی وثاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ ان کی وثاقت کسی اور چیز کی محتاج نہیں ہے۔[33]

حوالہ جات

  1. بخاری محمد، التاریخ الصغیر، ج۱، ص۲۸.
  2. ذہبی محمد، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۲۰۲.
  3. ذہبی محمد، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۲۰۱-۲۰۲،
  4. ریاحین الشریعہ ، محلاتی، ج ۴ص۳۷۵
  5. ابن سعد محمد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۸۶،.ابن حبیب محمد، المحبر، ج۱، ص۸۳
  6. ذہبی محمد، سیراعلام النبلاء، ج۲، ص۲۰۲
  7. بخاری محمد، التاریخ الصغیر، ج۱، ص۲۸
  8. ابن ہشام سیرہ النبویہ، ج ا، ص ۳۳۴
  9. ابن ہشام، سیرۃ النبویہ، ج۱ص ۴۶۹
  10. ذہبی محمد، سیراعلام النبلاء، ج۲، ص۲۰۳-۲۰۴
  11. صدوق، الخصال، ج۲، ص۴۱۹
  12. ذہبی محمد، سیراعلام النبلاء، ج۲، ص
  13. واقدی محمد، المغازی، ج۲، ص۴۶۷
  14. واقدی محمد، المغازی، ج۱، ص۳۱۴
  15. ابن رستم طبری محمد، دلائل الامامۃ، ج۱، ص۳۹
  16. یعقوبی احمد، تاریخ، ج۲، ص۷۸والامامۃ و السیاسۃ،ابن قتیبہ، ج۱، ص۵۷ - ۵۸و ابن ابی طاہر طیفور احمد، بلاغات النساء، ج۱، ص۱۵-۱۶وابن عبد ربہ احمد، العقد الفرید، ج۴، ص۳۱۶-۳۱۷و ابن بابویہ محمد، معانی الاخبار، ج۱، ص۳۵۷
  17. بلاذری احمد، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۳۰طبری، تاریخ، ج۴، ص۴۵۱-۴۵۲
  18. ابن حمزہ عبداللہ، الثاقب فی المناقب، ج۱، ص۳۳۰
  19. ابن اثیر علی، اسد الغابہ، ج۲، ص۲۲
  20. بحار الانوار، ج۲۶، ص۲۰۹، اصول کافی، ج۱، ص۲۳۵، اثبات الہداۃ، ج۵، ص۲۱۶.
  21. بحار، ج۴۵، ص۸۹، ۲۲۷ و ۲۳۲، ج۴۴، ص۲۲۵، ۲۳۱، ۲۳۶ و ۲۳۹، اثبات الہداۃ، ج۵، ص۱۹۲، امالی ‏صدوق، ص۱۲۰.
  22. بخاری محمد، التاریخ الصغیر، ج۱، ص۱۴۱و ثقفی ابراہیم، الغارات، ج۱، ص۴۱۵والاختصاص، منسوب بہ شیخ مفید، ج۱، ص۱۱۳-۱۱۶
  23. ابن عبد ربہ احمد، العقد الفرید، ج۴، ص۳۶۶ و خطیب بغدادی احمد، تاریخ بغداد، ج۷، ص۴۰۱
  24. واقدی محمد،المغازی، ج۱، ص۳۴۴ و ابن سعد محمد، الطبقات الکبری، ج۴، ص۳۴۱و ابن عبد البر یوسف، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۴، ص۱۹۲۱ و ذہبی محمد، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۲۰۷وص۲۱ ابن جوزی عبد الرحمان، صفۃ الصفوۃ، ج۲، ص۴۲
  25. حر عاملی محمد، وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۱۴۳ و ذہبی محمد، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۲۰۷
  26. ابن سعد محمد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۹۶ و ذہبی محمد، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۲۰۲
  27. ذہبی محمد، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۲۰۹ و ابن عبد البر یوسف، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۴، ص۱۹۲۱
  28. ذہبی محمد، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۲۱۰ و احمد بن حنبل، مسند، ج۶، ص۲۸۹- ۳۲۴،
  29. احزاب(۲۲): آیہ۳۳
  30. کتاب سلیم بن قیس، بہ کوشش علوی حسنی نجفی، ج۱، ص۵۹ -۶۰ و احمد بن حنبل، مسند، ج۶، ص۲۹۲-۲۹۶-۲۹۸ و طبرانی سلیمان، المعجم الکبیر، ج۳، ص۴۶-۴۹، حاکم نیشابوری محمد، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۴۶
  31. خصیبی حسین، الہدایۃ الکبری، ج۱، ص۲۰۳- ۲۰۴، مسعودی علی، اثبات الوصیہ، ج۱، ص۱۴۱، قم، ۱۴۰۴ق، ابن عبد ربہ احمد، العقد الفرید، ج۴، ص۳۸۳ یعقوبی احمد، تاریخ، ج۲، ص۱۸۲-۱۸۳
  32. ابن حجر عسقلانی احمد، تہذیب التہذیب، ج۱۲، ص۴۵۶ و حکیمی محمد رضا، اعیان النساء، ج۱، ص۶۲۷ - ۶۲۸ابن عساکر عبد الرحمان، کتاب الاربعین فی مناقب امہات المؤمنین، ج۱، ص۷۱وص۷۴،وص۱۰۴
  33. حر عاملی محمد، وسائل الشیعہ، ج۲۰، ص۱۴۳

مآخذ

  • ابن ابی طاہر طیفور احمد، بلاغات النساء، بیروت، دارالنہضۃ الحدیثہ.
  • ابن اثیر علی، اسد الغابۃ، تہران، المطبعۃ الاسلامیہ.
  • ابن بابویہ محمد، معانی الاخبار، بہ کوشش محمد مہدی حسن خرسان، قم، منشورات مکتبۃ المفید.
  • ابن بابویہ، محمد بن علی، الخصال، علی اکبر غفاری، قم، جماعۃ المدرسین، ۱۴۰۳ ق.
  • ابن جوزی عبدالرحمان، صفۃ الصفوۃ، بہ کوشش محمود فاخوری و محمد رواس قلعہ جی، بیروت، ۱۴۰۶ق.
  • ابن حبیب محمد، المحبر، بہ کوشش ایلزہ لیشتن اشتتر، حیدرآباد دکن، ۱۳۶۱ق /۱۹۴۲م.
  • ابن حجر عسقلانی احمد، تہذیب التہذیب، حیدرآباد دکن، ۱۳۲۷ق.
  • ابن حمزہ عبداللہ، الثاقب فی المناقب، بہ کوشش نبیل رضا علوان، قم، ۱۴۱۲ق.
  • ابن رستم طبری محمد، دلائل الامامۃ، نجف، ۱۳۸۳ق /۱۹۶۳م.
  • ابن سعد محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر.
  • ابن عبدالبر، یوسف، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، ۱۳۸۰ق /۱۹۶۰م.
  • ابن عبدربہ احمد، العقد الفرید، بہ کوشش احمد امین و دیگران، بیروت، ۱۴۰۲ق /۱۹۸۲م.
  • ابن عساکر عبدالرحمان، کتاب الاربعین فی مناقب امہات المؤمنین، بہ کوشش محمد مطیع حافظ و غزوہ بدیز، بیروت، دارالفکر.
  • ابن قتیبہ عبداللہ، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۹۶۰م.
  • ابن ہشام عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، بہ کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاہرہ، ۱۳۷۵ق/ ۱۹۵۵م.
  • احمد بن حنبل، مسند، بیروت، دارصادر.
  • الاختصاص، منسوب بہ شیخ مفید، بہ کوشش محمد مہدی حسن خرسان، قم، مکتبہ بصیرتی.
  • اسحاق بن محمد ہمدانی، ترجمہ و انشای سیرۃ النبی (سیرت رسول اللہ)، بہ کوشش اصغر مہدوی، تہران، ۱۳۶۱ش.
  • الامامۃ و السیاسۃ، منسوب بہ ابن قتیبہ، قاہرہ، ۱۳۵۶ق /۱۹۳۷م.
  • بخاری محمد، التاریخ الصغیر، بہ کوشش محمود ابراہیم زاید، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶م.
  • بلاذری احمد، انساب الاشراف، بہ کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، ۱۹۵۹م.
  • ثقفی ابراہیم، الغارات، بہ کوشش عبدالزہرا حسینی، بیروت، ۱۴۰۷ق /۱۹۸۷م.
  • حاکم نیشابوری محمد، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، ۱۳۹۸ق /۱۹۷۸م.
  • حر عاملی محمد، وسائل الشیعۃ، بہ کوشش محمد رازی، بیروت، ۱۳۸۹ق.
  • حکیمی محمدرضا، اعیان النساء، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م.
  • خصیبی حسین، الہدایۃ الکبری، بیروت، مؤسسۃ البلاغ.
  • خطیب بغدادی احمد، تاریخ بغداد، قاہرہ، ۱۳۴۹ق.
  • ذہبی محمد، سیراعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۵ق.
  • زبیری مصعب، نسب قریش، بہ کوشش لوی پرووانسال، قاہرہ، ۱۹۵۳م.
  • طبرانی سلیمان، المعجم الکبیر، بہ کوشش حمدی عبدالمجید سلفی، بغداد، الدارالعربیۃ للطباعہ.
  • طبری، تاریخ.
  • قرآن کریم.
  • کتاب سلیم بن قیس، بہ کوشش علوی حسنی نجفی، بیروت، ۱۴۰۰ق /۱۹۸۰م.
  • مسعودی علی، اثبات الوصیۃ، قم، ۱۴۰۴ق.
  • واقدی محمد، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م.
  • یعقوبی احمد، تاریخ، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، ۱۳۵۶ش.