غدیریہ

ویکی شیعہ سے

غدیریہ‌، واقعہ غدیر کے بارے میں لکھے گئے اشعار کو کہا جاتا ہے۔ واقعہ غدیر کے دن حَسّان بن ثابت کے اشعار کو جس میں اس واقعے کی عکاسی کی گئی ہے پہلا غدیریہ کا عنوان دیا جاتا ہے۔ مضامین کے اعتبار سے واقعہ غدیر اور پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے امام علیؑ کے فضائل کے علاوہ حدیث اخوت، حدیث منزلت اور لَیْلَۃُ الْمَبیت کے واقعات کو بھی غدیریہ‌ کے لئے انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

علامہ امینی (متوفی: 1390ھ) نے 100 سے زیادہ اشخاص کی حالات زندگی اور ان کے اشعار کو اپنی کتاب کتاب الغدیر میں ذکر کیا ہے جنہوں نے غدیر کے بارے میں اشعار کہے ہیں۔ اسی طرح چوتھی صدی ہجری سے چودہویں صدی ہجری تک فارسی میں غدیریہ لکھنے والے شعراء کا تعارف بھی اس سلسلے کی مختلف کتابوں میں ملتا ہے۔

تعریف

غدیریہ ان اشعار کو کہا جاتا ہے جو واقعہ غدیر، امام علیؑ کے فضائل اور امامت کے بارے میں خاص طور پر غدیر یا غدیر خم کا نام لے کر کہے گئے ہوں۔[1] ان اشعار کو عموما قصائد کی شکل میں لکھے جاتے ہیں۔[2] بعض کا خیال ہے کہ غدیریہ صرف ان اشعار پر صدق آتا ہے جنہیں واقعۂ غدیر اور امام علیؑ کی جانشینی کے بارے میں لکھے گئے ہوں جبکہ وہ اشعار جنہیں امام علیؑ کے فضائل اور مناقب کے بارے میں ہو لیکن اس کے ضمن میں واقعہ غدیر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہو، غدیریہ نہیں کہ جاتا ہے۔[3]

شیعہ مصنف اور شاعر عالم دین جواد محدثی کے مطابق کتاب الغدیر میں علامہ امینی نے عصر پیغمبر اکرمؐ سے لے کر خود مؤلف کے زمانے تک، غدیر کے بارے میں اشعار لکھنے والے شعراء کا تعارف کیا ہے۔[4]

بعض کے مطابق غدیریہ فقط ایک واقعے کی عکاسی نہیں کرتا؛ بلکہ ایک حقیقت اور معرفت کی عکاسی کرتا ہے جو دوسرے تمام تعلیمات کا سرچشمہ اور ایک زندہ اور اصلی ثقافت کی منظر کشی کرتا ہے۔[5]

عربی غدیریہ‌ کے شعراء

واقعہ غدیر کے بارے میں حسان بن ثابت کا غدیریہ

ینادیہم یوم الغدیر نبیہم//بخم و أسمع بالرسول منادیا
فقال فمن مولاکم و ولیکم//فقالوا و لم یبدوا ہناک التعادیا
إلہک مولانا و أنت ولینا//و لم‌تر منا فی المقالۃ عاصیا
فقال لہ قم یا علی فإننی//رضیتک من بعدی إماما و ہادیا
فمن کنت مولاہ فہذا ولیہ//فکونوا لہ أنصار صدق موالیا
ہناک دعا اللہم وال ولیہ//و کن للذی عادی علیا معادیا[6]
پیغمبر خداؐ نے غدیر کے دن ان کو دعوت دی، کتنی قیمتی دعوت تھی۔ آپ نے فرمایا: تمہارا مولا اور سرپست کون ہے؟ انہوں نے فورا کہا: آپ کا خدا ہمارا مولا ہے اور آپ ہمارا سرپرست اور ولیِّ‌ امر ہے۔ ہم کبھی بھی آپ کے فرمان سے روگردانی نہیں کریں گے۔ اس وقت پیغمبر اکرمؐ نے علیؑ سے فرمایا: اٹھو۔ میں نے تمہیں انتخاب کیا ہے تاکہ تم میرے بعد اس امت کا امام اور رہبر ہو۔ اس کے بعد فرمایا: جس جس کا میں مولا اور رہبر ہوں یہ مرد اس کا بھی مولا اور رہبر ہو گا۔ پس تم سب سچے دل سے ان کی پیروی کرو۔ بارالہا اس شخص کو دوست رکھ جس نے اس شخص کو دوست رکھا اور اس شخص کے ساتھ دشمنی کر جس نے اس شخص کے ساتھ دشمنی کی۔

حَسّان بن ثابت تاریخ کا پہلا غدیریہ‌ لکھنے اور پڑھنے والا ہے جس نے پیغمبر اکرمؐ کی اجازت سے غدیر کے دن اس واقعہ کو شعر کی صورت میں پیش کیا۔[7]

اس کے بعد دوسرے شعرا نے غدیر کی فضیلت میں اشعار لکھنے اور پڑھنے کے ذریعے امام علیؑ کے ساتھ اپنی عقدیت کا اظہار کیا منجملہ ان میں کُمَیْت بن زید اَسَدی (متوفی: 126ھسید اسماعیل حِمیَری (متوفی: 173ھ)، العبدی، ابوتمام حبیب ابن اوس الطاعی (متوفی: 231ھ) اور دِعْبِل بْن عَلی خُزاعی (متوفی: 246ھ) ہیں۔ علامہ امینی نے کتاب الغدیر کی دوسری جلد سے ساتویں جلد تک میں پہلی صدی ہجری سے گیارہویں صدی ہجری تک کے 100 سے زیادہ شعراء کا نام اور تعارف پیش کیا ہے جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں غدیریہ لکھا یا پڑھا ہے۔[8]

امام علیؑ سے اس مضمون کے ساتھ ایک غدیریہ‌ نقل ہوا ہے

مُحَمَّدٌ النَّبِی أَخِی وَ صِنْوِی//وَ حَمْزَۃُ سَیدُ الشُّہَدَاءِ عَمِّی
و جعفرٌ الّذی یُضحی و یُمسی//یطیرُ مع الملائکۃ ابنُ اُمّی
وَ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَکَنِی وَ عِرْسِی//مَنوطٌ لَحْمُہَا بِدَمِی وَ لَحْمِی
و سبطا أحمد وَلَدای منہا//فَأیّکمُ لہ سَہْمٌ کسہمی
وَ أَوْجَبَ لِی وَلَایتَہُ عَلَیکُمْ//رَسُولُ اللَّہِ یوْمَ غَدِیرِ خُمٍ
فَوَیلٌ ثُمَّ وَیلٌ ثُمَّ وَیلٌ‌//لِمَنْ یلْقَی الْإِلَہَ غَداً بِظُلْمِی‌[9]
محمد پیغمبر اور میرا بھائی اور رشتہ دار ہے اور حمزہ سید شہداء میرا چچا اور جعفر کہ جو صبح و شام ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتا ہے میرا بھائی ہے۔ اور پیغمبر کی بیٹی فاطمہ(س) میری زوجہ اور میری تسکین روح ہے جس کا گوشت اور خون میرے خون اور گوشت کے ساتھ عجین ہے۔ حسن اور حسین پیغمبر کے دو نواسے فاطمہ سے میری اولاد ہیں۔ پس تم میں سے کون مجھ جیسی فضلیت کے حامل ہو؟ میں فضائل میں تم سب پر سبقت لے گیا ہوں۔ پیغمبر نے میری ولایت اور امامت کو غدیر کے دن تم پر واجب کیا ہے۔ پس وای ہو، پس وای ہو، پس وای ہو اس شخص کی حالت پر جو کل قیامت کے دن خدا سے اس حالت میں ملاقات کرے جبکہ اس نے مجھ پر ظلم کیا ہو۔

اس کتاب میں امام علیؑ کے بعض دشمنوں کا نام بھی غدیریہ‌ پڑھنے والوں میں ذکر ہوا ہے؛ جیسے عَمْرِو بْن عاص (متوفی: 43ھ) جس کا قصیدہ جُلجُلیۂ اس حوالے سے شہرت پا گیا ہے۔[یادداشت 1]

شیعہ محقق زہرہ فتح‌ اللہ‌ نوری نے چودہویں اور پندرہویں صدی ہجری کے 8 برجستہ غدیریہ‌ پڑھنے والے جیسے نظیر پولس سلام، سعید عقل، جرج شکور اور ویکتور اِلْکِک کے غدیرہ کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد لکھا ہے کہ عربی غدیریوں میں سے جو غدیریہ انسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتا ہے وہ لبنان کے معاصر عیسائی شعراء «جوزف عون» اور «جرج زکی الحاج» کے اشعار ہیں جنہیں سادہ لبنانی لب و لہجے میں پڑھا ہے۔[10]

مضامین

کبریٰ صالحی اپنے تھیسز میں «عباسی دور کے ابتدائی ایام کی غدیریوں کا اسلوب» کے عنوان سے غدیریوں کو درج ذیل مضامین کا حامل قرار دیتی ہے:[11]

فارسی غدیریہ‌ گو شعراء

کتاب غدیریہ‌ ہای فارسی (از قرن چہارم تا چہاردہم)، تحریر: محمد صحتی سردرودی، نشر وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی

شیعہ عالم دین محمد صحتی سردرودی اپنی کتاب «غدیریہ‌ہای فارسی از قرن چہارم تا قرن چہاردہم» میں کتاب الغدیر سے اقتباس کرتے ہوئے اسی طرز پر 179 فارسی غدیریہ گو افراد کا نام اور تعارف پیش کیا ہے۔[12]

ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے بعض فارسی غدیریہ‌ گو شعراء درج ذیل ہیں:

افضل چو ز علم و فضل آگاہ علی استدرمسند عرفان ازل، شاہ علی است
ز بعد نبی امام خلق دو جہانبا اللہ علی است، ثُم بااللہ علی است
علم و فضل میں افضل علی ہیں اور عرفان کی مسند پر ازل سے بیٹھا ہوا بادشاہ علی ہیں، نبی کے بعد دو جہاں میں لوگوں کا امام، خدا کی قسم علی ہیں خدا کی قسم علی ہیں۔
ازین سبب پیغمبر با اجتہادنام خودوآن علی مولا نہاد
گفت: ہرکو را منم مولا و دوستابن عم من، علی، مولای اوست
اس بنا پر پیغمبر اکرم پہلے اپنا نام اور اس کے بعد علیؑ کا نام مولا رکھا ہے، کہا: جس جس کا میں مولا ہوں میرا چچا زاد بھائی علی اس کا مولا اور دوست ہے۔
سرو بستان امامت، دُرّ دریای ہدیٰشمع ایوان ولایت، نور چشم اولیا
قلعہ‌گیر کشور دین، حیدر درندہ حیدستہ‌بند لالۂ عصمت، وصی مصطفی
رہ بہ منزل برد، ہر کو مذہب حیدر گرفتآب حیوان یافت، آن کو خضر را رہبر گرفت
بوستان امامت کا سرسبر درخت اور دریائے ہدایت کی قیمتی موتی، ایوان ولایت کا چراغ اور اولیاء کے آنکھوں کا نور، دین کے قلعہ کو فتح کرنے والا حیدر جو اژدہا کو مارنے والا ہے، عصمت کا دست بند اور مصطفی کا وصی، ہر وہ شخص منزل مقصود تک پہنچا جس نے حیدر کا مذہب اختیار کیا، اس نے آب حیات پا لیا اور خضر کو اپنا رہبر اور راہنما بنایا۔

بعض کے مطابق اہل‌ سنت حکمرانوں کی طرف سے شیعہ عقائد کے اظہار پر سخت پابندی کی وجہ سے غدیریوں کی تعداد کے حوالے سلسلہ صفویہ سے پہلے اور بعد میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر فردوسی جو کہ غزنوی دربار سے مطرود ہوا تھا، امیر معزّی ملک شاہ و سلطان سنجر کے دربار میں اپنی تمام تر اختیارات کے باوجود جب بھی کسی بیت میں لفظ «وصی» استعمال کیا جاتا تو فورا دوسرے بیت میں اس حوالے سے معذرت خواہی کرتا تاکہ بادشاہ اور بعض اہل سنت علماء کے غیض و غضب کا نشانہ نہ بنے کیونکہ اہل تشیع اس لفظ کو امام علیؑ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔[13]

کتابیات

  • الغدیر، تحریر: علامہ امینی اور ترجمہ: محمد باقر بہبودی، نشر کتابخانہ بزرگ اسلامی۔
  • غدیر در شعر فارسی، تحریر: مصطفی موسوی گرمارودی، نشر دلیل۔
  • غدیریہ‌ہای فارسی (از قرن چہارم تا چہاردہم)، تحریر: محمد صحتی سردرودی، نشر وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی۔
  • گلبانگ غدیر، تحریر: محمدمہدی بہداروند، تہران، نشر پیام آزادی۔
  • در ساحل غدیر، تحریر: احمد احمدی‌بیرجندی، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی۔
  • خلوتی با غدیر، تحریر: محمدمہدی بہداروند، تہران، نشر حرّ۔

حوالہ جات

  1. محدثی، فرہنگ غدیر، 1384ہجری شمسی، ص444۔
  2. نقش شیعیان در گسترش غدیریہ‌ہا
  3. نقش شیعیان در گسترش غدیریہ‌ہا
  4. محدثی، فرہنگ غدیر، 1384ہجری شمسی، ص336۔
  5. نمکی آرانی، «مدحت کن و بستای کسی را۔۔۔»، ص109۔
  6. سید رضی، خصائص الائمۃ، 1406ھ، ص42
  7. محدثی، فرہنگ غدیر، 1384ہجری شمسی، ص336؛ ہلالی، کتاب سُلیم‌بن قیس الہلالی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص828–829۔
  8. ملاحظہ کریں: امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2–7؛ ج11۔
  9. طبرسی، الإحتجاج علی أہل اللجاج، ج1، ص180
  10. فتح‌اللہ نوری، غدیریہ‌سرایان معاصر عرب و معرفی غدیریہ آنہا، 1391ہجری شمسی، ص28۔
  11. ملاحظہ کریں: صالحی، نگاہی سبک‌شناسانہ بہ غدیریہ‌ہای عصر اول عباسی، 1394ہجری شمسی۔
  12. صحتی سردرودی، غدیریہ‌ہای فارسی (از قرن چہارم تا چہاردہم)، 1379ہجری شمسی۔
  13. ملاحظہ کریں: نقش شیعیان در گسترش غدیریہ‌ہا، سایت آیین رحمت۔

نوٹ

  1. غدیریہ عمروبن عاص قصیدۂ «جُلجُلیہ» [زنگولہ] کے نام سے معروف ہے اور اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ معاویہ نے عمروعاص کو جو کہ مصر کا حاکم تھا، خراج نہ بھیجنے پر دھمکی دی تھی۔ عمروعاص نے معاویہ کے جواب میں 66 ابیات پر مشتمل ایک نظم لکھا جو قصیدۂ جُلجُلیہ کے نام سے معروف ہوا۔ اس قصیدے میں اس وقت کے بعض تاریخی حقائق کی طرف اشاره کیا گیا تھا۔ یہ قصیدہ اس بیت کے ستھ شروع ہوتا ہے: معـاويـۃ الفضل لا تنس لي * وعـن نہـج الحـق لا تعـدل... اور اس بیت فـإن كـنت فيـہا بلغت المنى * فـفي عـنقي عـلق الجُلجُل کی وجہ سے یہ قصیدہ جلجلیہ کے نام سے مشہور ہوا ہے (امینی، الغدیر، 1368ہجری شمسی، ج3، ص213)۔

آخذ

  • امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، چاپ اول، 1416ھ/1995ء۔
  • امینی، عبدالحسین، ترجمہ الغدیر، ترجمہ محمدباقر بہبودی، تہران، کتابخانہ بزرگ اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
  • خواجوی کرمانی، محمودبن علی، دیوان اشعار، تصحیح احمد سہیلی خوانساری۔ تہران، پاژنگ، 1369ہجری شمسی۔
  • جوینی خراسانی، إبراہیم بن محمد، فرائدالسمطین فی فضائل المرتضی و البتول و السبطین، بتحقیق محمدباقر المحمودی، بیروت، مؤسسہ المحمودی، 1978ء۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، خصائص الائمۃ، مشہد، آستان مقدس رضوی، مجمع البحوث الاسلامیۃ، 1406ھ۔
  • صالحی، کبری، نگاہی سبک‌شناسانہ بہ غدیریہ‌ہای عصر اول عباسی، پایان‌نامہ کارشناسی ارشد، دانشکدہ الہیات و معارف اسلامی، اہواز، دانشگاہ شہید چمران، 1394ہجری شمسی۔
  • صحتی سردرودی، محمد، غدیریہ‌ہای فارسی (از قرن چہارم تا چہاردہم)، تہران، نشر وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1379ہجری شمسی۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج علی أہل اللجاج، مشہد، نشر مرتضی، 1403ھ۔
  • فتح‌اللہ نوری، زہرہ، غدیریہ‌سرایان معاصر عرب و معرفی غدیریہ آنہا، پایان‌نامہ کارشناسی ارشد، ادبیات و علوم انسانی، تہران، دانشگاہ آزاد اسلامی واحد تہران مرکزی، 1391ہجری شمسی۔
  • محدثی، جواد، فرہنگ غدیر، قم، معروف، 1384ہجری شمسی۔
  • مرقی کاشانی، بابا افضل، رباعیات، تہران، نشر فارابی، 1363ہجری شمسی۔
  • مولوی، جلال الدین محمد بلخی، کلیات دیوان شمس تبریزی، تہران، نگاہ، 1377ہجری شمسی۔
  • نقش شیعیان در گسترش غدیریہ‌ہا، سایت آیین رحمت، تاریخ اخذ: 3 اسفند1403ہجری شمسی۔
  • نمکی آرانی، میثم، «مدحت کن و بستای کسی را۔۔۔»، ماہنامہ کیہان فرہنگی، شمارہ 170، 1379ہجری شمسی۔
  • ہلالی، سُلیم‌بن قیس، کتاب سُلیم‌بن قیس الہلالی، قم، چاپ محمدباقر انصاری زنجانی، 1384ہجری شمسی۔