جعفر بن ابی طالب

ویکی شیعہ سے
جعفر بن ابی طالب
اردن میں جعفر بن ابی طالب کے مزار کی تصویر
اردن میں جعفر بن ابی طالب کے مزار کی تصویر
کوائف
مکمل نامجعفر بن ابی طالب
لقبجعفر طیار، ذو الجناحین
جائے پیدائشمکہ
مہاجر/انصارمہاجر
نسب/قبیلہبنی ہاشم
اقاربپیغمبر اکرمؐ و امام علیؑ
شہادتجمادی الاول سنہ 8 ہجری موتہ، اردن
کیفیت شہادتجنگ موتہ
مدفنموتہ، اردن
دینی معلومات
اسلام لاناحضرت علی کے بعد بعد اسلام لانے والے دوسرے انسان
جنگوں میں شرکتجنگ موتہ
ہجرتحبشہ، مدینہ
نمایاں کارنامےحبشہ ہجرت، حبشہ جانے والے قافلہ کے سالار، جنگ موتہ میں لشکر اسلام کی سرداری و شہادت


جعفر بن ابی طالب بن عبد المطلب، جعفر طیار اور ذو الجناحین کے نام سے معروف، حضرت ابو طالب کے تیسرے بیٹے، رسول خداؐ کے چچا زاد بھائی، امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے بڑے بھائی اور پیغمبر خداؐ کے مشہور صحابی تھے۔

آپ رسول خداؐ کے ہاں اعلی مقام و منزلت رکھتے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی سربراہی کا عہدہ جعفر طیار کو سونپا۔ حبشہ سے واپسی پر رسول خداؐ نے آپ کو ایک نماز کی تعلیم دی جو نماز جعفر طیار کے عنوان سے مشہور ہے۔

جنگ موتہ میں آپ نے پیغمبر خداؐ کے حکم پر سپاہ اسلام کی قیادت سنبھالی اور اسی جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ ان کا مزار اردن میں مسلمانوں کی زیارت گاہ کے طور پر مشہور ہے۔

ولادت اور نسب

قول مشہور یہ ہے کہ جعفر طیار بعثت سے 20 سال قبل قبیلۂ قریش کے نامور خاندان بنی ہاشم میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ابو طالب، قریش کے زعماء میں سے تھے اور ان کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہیں۔ آپ طالب اور عقیل کے بعد ابو طالب کے تیسرے فرزند ہیں جبکہ ابو طالب کے چوتھے فرزند حضرت علیؑ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان چار بھائیوں میں سے ہر ایک کا دوسرے سے عمر میں 10 سال کا فرق ہے۔[1]

کنیات و القاب

جعفر کو اپنے بیٹے عبداللہ کی نسبت ابو عبداللہ کی کنیت سے پکارا جاتا تھا۔[2] جعفر کی دوسری کنیت "ابو المساکین" تھی۔ وہ غرباء اور مساکین کے ساتھ مسلسل تعلق اور ان پر احسان کی بنا پر اس کنیت سے مشہور تھے۔[3] جعفر "طیار" اور "ذوالجاحین" جیسے القاب سے مشہور ہیں۔

رسول اکرمؐ نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا: "میں ایک رات جنت میں داخل ہوا تو دیکھا جعفر ملائکہ کے ساتھ پرواز کر رہے تھے۔"[4]

امام باقرؑ نے فرمایا: "خداوند عالم دوران جاہلیت میں جعفر کی چار خصلتوں کی تکریم فرماتا ہے"؛ کسی نے پوچھا وہ کون سی چار خصلتیں ہیں؟؛ امامؑ نے فرمایا: "جعفر شراب نوشی سے پرہیز کرتے تھے، جھوٹ نہیں بولتے تھے، فحاشی سے اجتناب کرتے تھے اور بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے؛ اور رسول اکرمؐ نے بھی ان کے حق میں دعا کی اور فرمایا: حق ہے کہ خداوند متعال تم (جعفر) کو دو پر عطا فرمائے تاکہ ملائکہ کے ساتھ جنت میں پرواز کرو۔"[5] ان کے دیگر القاب میں "ذوالہجرتین" شامل ہے جس کا سبب ان کی ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ ہے۔[6]

زوجہ اور اولاد

جعفر طیار کی زوجہ اسماء بنت عمیس بن نعمان تھیں جو ان کے چاروں بیٹوں عبداللہ، عون، محمد اور احمد کی والدہ ہیں۔[7] ابن عنبہ کی روایت کے مطابق جعفر کے آٹھ فرزند تھے اور ان سب کی والدہ اسماء تھیں:[8] عبداللہ، عون، محمد الاکبر، محمد الاصغر، حمید، حسین، عبداللہ الاصغر اور عبداللہ الاکبر۔

اپنے چچا کی کفالت میں

مکے میں قحط سالی کی وجہ سے جب ابوطالب فقر اور تنگدستی کا شکار ہوئے تو ان کے بھائی حمزہ[9] جبکہ ایک اور قول کے مطابق عباس بن عبدالمطلب[10] نے جعفر کو اپنی کفالت میں لے لیا اور اسلام لانے اور مستغنی ہونے تک آپ اپنے چچا کے زیر کفالت رہے۔

آپ کا اسلام قبول کرنا

اپنے بھائی حضرت علیؑ کے بعد جعفر طیار دوسرے شخص تھے جو رسول خداؐ پر ایمان لے آئے اور مسلمان ہوئے۔ ابو طالب نے بیٹے علیؑ کو مسجد میں رسول اللہؐ کے دائیں جانب، نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو جعفر سے فرمایا: "جاؤ اور پیغمبرؐ کے بائیں جانب کھڑے ہوکر نماز ادا کرو۔[11] بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ جعفر طیار چھبیسویں یا بتیسویں مرد تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔[12] ابن سعد کا کہنا ہے کہ جعفر طیار رسول خداؐ کے ارقم کے گھر میں داخل ہونے سے قبل مسلمان ہوئے۔[13]

جعفر کی منزلت

دینی متون و مآخذ میں منقولہ روایات کے مطابق جعفر طیار بہت اعلی مرتبت و منزلت کے مالک ہیں۔ مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: لوگ مختلف درختوں سے خلق ہوئے ہیں لیکن میں اور جعفر ایک ہی درخت کی مانند ہیں اور ہم ایک طینت سے خلق ہوئے ہیں۔[14]۔[15] اور ایک حدیث میں فرمایا کہ {{حدیث|اے جعفر! تم چہرے اور اخلاقیات کے لحاظ سے میری مانند ہو۔۔[16]

یہ شباہت کچھ ایسی تھی کہ جعفر کو دیکھنے والے پہلی نگاہ میں السلام علیک یا رسول اللہؐ کہہ کر انہیں سلام کرتے تھے اور جعفر کو وضاحت کرنا پڑتی تھی کہ میں رسول اللہؐ نہیں ہوں؛ میں جعفر ہوں۔[17]

رسول اللہؐ جعفر سے شددید محبت کرتے تھے؛ آپؐ نے غزوہ بدر سے ملنے والے مال غنیمت میں سے جعفر کا حصہ الگ کرلیا، حالانکہ جعفر اس جنگ میں شریک نہیں تھے[18] اور حبشہ میں قیام پذیر تھے۔

رسول خداؐ نے غزوہ خیبر میں یہودیوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے کے بعد خیبر سے مدینہ تشریف فرما ہوئے تو جعفرنے آپؐ کا استقبال کیا، جو حبشہ سے پلٹ کر آئے تھے؛ ان سے معانقہ کیا، ان کی دو آنکھوں کے درمیان پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا: خدا کی قسم! سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے فتح خیبر پر زیادہ خوش ہونا چاہئے یا جعفر کی ملاقات پر؟۔[19]۔[20]۔[21] اور بعدازاں انہیں ایک نماز کی تعلیم دی جو نماز جعفر طیار کے نام سے مشہور ہے۔[22] ایک روایت کے مطابق رسول خداؐ نے انہیں خیبر کی غنیمت سے حصہ دیا اور مسجد نبوی کے پہلو میں گھر بنانے کے لیے جگہ عنایت فرمائی۔[23]۔[24]

جعفر سے بھائی علی(ع) کی محبت کا حال یہ تھا کہ عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ جب بھی اپنے چچا علی(ع) سے کسی چیز کی درخواست کرنا چاہتا اور آپ(ع) کو اپنے والد جعفر کے حق کی قسم دلاتا تھا تو آپ(ع) میری درخواست قبول فرماتے تھے۔[25]

جعفر طیار قرآنی آیات کا مصداق

جعفر بن ابی طالب کی عظمت و فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ بعض آیات قرآنی ان کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔

سورہ احزاب میں ارشاد رب متعال ہے:

مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ﴿23﴾ (ترجمہ: ایمان والوں میں کچھ مرد ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا اسے جو انہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا تھا تو ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنا وقت پورا کر لیا [اور شہید ہوئے] اور ان میں سے کچھ [شہادت کا] انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے عقیدے میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی)[؟–23]

علی بن ابراہیم قمی مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر میں امام باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا: اس آیت میں وفائے عہد کرنے والے افراد سے مراد حمزہ بن عبدالمطلب اور جعفر بن ابی طالب ہیں۔[26]

نیز یہ آیت ـ جہاں ارشاد ہوتا ہے: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴿39﴾ (ترجمہ: (جہاد کی) اجازت دی جاتی ہے انہیں جن پر جنگ مسلط کی گئی اس لئے کہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر بہت زیادہ قادر ہے)[؟–39] ـ علی(ع) اور جعفر کی شان میں نازل ہوئی ہے۔[27]

مہاجرین حبشہ کے سربراہ

سنہ 5 بعثت میں کفار کے ہاتھ مسلمانوں کی اذیت و آزار میں شدت آئی تو مسلمانوں کی ایک جماعت نے رسول خداؐ کے حکم پر حبشہ کی طرف ہجرت کی اور مہاجرین کی اس جماعت کے سربراہ جعفر بن ابی طالب تھے۔[28]۔[29] مروی ہے کہ یہ قافلہ 82 مردوں اور متعدد بچوں اور خواتین پر مشتمل تھا۔[30]

رسول اکرمؐ نے مہاجرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: حبشہ کی طرف ہجرت کرو کیونکہ حبشہ کا بادشاہ ایک صالح اور عادل شخص ہے اور کسی پر بھی ظلم روا نہیں رکھتا؛ وہاں چلے جاؤ یہاں تک کہ خداوند متعال مسلمانوں کے کام میں کشادگی فرما دے۔[31]

نجاشی نے مسلمان مہاجرین کی حبشہ آمد پر انہیں اپنے دربار میں بلوایا تو جعفر بن ابی طالب نے نجاشی سے مخاطب ہوکر کہا: جو کچھ میں نے اپنے راہنما اور پیغمبر سے سنا ہے وہ آپ کو سنا دیتا ہوں۔ بعد ازاں جعفر نے اسلام کے ترجمان کی حیثیت سے کہا: ہمارے ہاں ایک پیغمبر آئے ہیں جنہوں نے ہمیں بتوں کی پوجا اور سودخوری ترک کرنے کا حکم دیا ہے، ہمیں غیر حق قتل اور خونریزی اور ظلم و جبر، فحاشی اور پلیدی سے منع کیا ہے اور پابند کردیا ہے کہ ہم نماز بجا لائیں، زکوۃ ادا کریں، عدل و انصاف برتیں، اپنوں کے ساتھ احسان کریں۔

بعد ازاں نجاشی نے پوچھا: جو کچھ تمہارے پیغمبر خدا کی طرف سے لائے ہیں کیا اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟

جعفر نے سورہ مریم کی بعض آیات کریمہ کی تلاوت کی جن میں حضرت مریم اور حضرت عیسی علیہما السلام کی شان و منزلت بیان ہوئی ہے۔ نجاشی نے قرآنی آیات سن کر شدید گریہ کیا۔[32]

نجاشی نے جعفر کا خطاب سننے کے بعد عطیات لاکر مسلمانوں کے حبشہ سے نکالے جانے کی درخواست کے لئے آنے والے مشرکین کی درخواست کو مسترد کردیا اور انہیں حبشہ سے نکال باہر کیا چنانچہ مسلمانوں نے پورے امن و سلامتی کے ساتھ حبشہ میں قیام کیا۔[33]

مسلمان سنہ 6 ہجری کے اواخر تک حبشہ میں قیام پذیر تھے۔ رسول خداؐ نے غزوہ خیبر سے قبل نجاشی سے تقاضا کیا کہ مسلمان مہاجرین کو وطن لوٹا دے۔ نجاشی نے بھی تعمیل کی، اور مسلمان ہوئے اور جعفر اور دوسرے مسلمانوں کو رسول اللہؐ کے سفیر عمرو بن امیہ ضمری کے ہمراہ دو کشتیوں کے ذریعے مدینہ روانہ کیا۔[34]

سپاہ اسلام کے سپہ سالار

جعفر بن ابی طالب کی قبر اور ضریح کا ایک منظر

فتح خیبر اور جعفر کی حبشہ سے واپسی کے بعد رسول اکرمؐ نے جمادی الاول سنہ 8 ہجری میں جعفر کو سپاہ اسلام کے امیر اول کی حیثیہ سے موتہ کی طرف روانہ کیا تا کہ مشرقی روم کی فوج کا مقابلہ کریں۔ آپؐ نے فرمایا: اگر جعفر شہید ہو جائیں تو زید بن حارثہ سپاہ اسلام کی کمان سنبھالیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ امیر ہونگے۔[35]

بایں حال کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ زید بن حارثہ امیر اول تھے اور جعفر امیر ثانی۔[36]۔[37]

شہادت

جعفر بن ابی طالب نے جمادی الاول سنہ 8 ہجری میں لڑی جانے والی جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔[38]

ابوالفرج اصفہانی، کا کہنا ہے کہ اولاد ابو طالب میں اسلام کے سب پہلے شہید جعفر بن ابی طالب تھے۔[39]

الطبری کا بیان ہے: زید کی شہادت کے بعد پرچم جعفر نے سنبھالا اور لڑنے لگے؛ جب دیکھا کہ دشمن نے انہیں گھیر لیا ہے تو گھوڑے سے اترے اور اس کو پے کر ڈالا اور لڑے حتی کہ ان کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اور جام شہادت نوش کیا۔[40] قول مشہور کے مطابق جعفر کی عمر بوقت شہادت 41 سال تھی اور وہ دسویں فرد تھے جو اس جنگ میں شہید ہوئے۔[41]۔[42]

شیخ صدوق نے روایت کی ہے کہ جعفر شہید ہوئے تو رسول اللہؐ ان کے اہل خانہ کے پاس تشریف فرما ہوئے اور بہت گریہ کیا[43] جعفر کے بچوں کو آغوش میں لیا اور ان پر شفقت فرمائی۔[44]

مروی ہے کہ اسماء بنت عمیس، کعب بن مالک اور حسان بن ثابت نے جعفر بن ابی طالب کے سوگ میں مرثیے کہے۔[45]۔[46]۔[47]۔[48]۔[49]۔[50]

مدفن

جعفر بن ابی طالب اور دیگر شہدائے موتہ کا مدفن اردن کے شہر موتہ کے قریب مزار نامی مقام پر واقع ہوا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے لئے عقیدت و احترام کے قائل ہیں۔ جعفر بن ابی طالب، عبد اللہ بن رواحہ اور زید بن حارثہ ایک قبر میں مدفون ہوئے اور قبر کو خفیہ رکھا گیا۔[51] وہابیوں نے اس مقبرے کو حالیہ برسوں میں نذر آتش کیا۔[52]

حوالہ جات

  1. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص3۔
  2. الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص3۔
  3. العسقلاني، الاصابۃ، ج7، ص309، ابن اثیر، اسد الغابۃ، ج1، ص288، ابن عنبۃ، عمدۃ الطالب، ص35۔
  4. المجلسی، بحار الانوار، ج22، ص277۔
  5. صدوق، علل الشرایع، ج2، ص558۔
  6. ابن عنبۃ، عمدۃ الطالب، ص35۔
  7. العسقلاني، الاصابۃ، ج1، ص325۔
  8. ابن عنبۃ، عمدۃ الطالب، ص36۔
  9. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۳۸۵ ق، ص۱۵
  10. ابن ہشام، سیرہ ابن ہشام، ۱۳۸۳ ق، ج ۱، ص ۱۶۲، طبری، تاریخ طبری، ۱۴۰۳ ق، ج ۲، ص ۵۸.
  11. ابن اثیر، اسد الغابہ، ج1، ص287۔
  12. العسقلاني، الاصابۃ، ج1، 592۔
  13. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج4، ص34۔
  14. الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص10
  15. القاضي المغربي، شرح الاخبار، ج3، ص205۔
  16. المجلسی، بحار الانوار، ج22، ص276۔
  17. امین العاملي، اعیان الشیعۃ، ج4، ص125۔
  18. الواقدی، المغازی، ج1، ص156۔
  19. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج4، ص35۔
  20. البخاری، الصحیح، ج2 ص35۔
  21. الحاكم النيسابورى، ج3، ص251
  22. حر العاملی، وسائل الشیعہ، ج8، ص49۔
  23. البخاری، الصحیح، ح2699۔
  24. إبن حنبل، المسند، ح770۔
  25. امین العاملي، اعیان الشیعۃ، ج4، ص126۔
  26. القمی، تفسیر القمی، ج2، ص188.
  27. القمی، وہی ماخذ، ج2، ص84۔
  28. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج1، ص323۔
  29. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج4، ص34۔
  30. المجلسی، بحار الانوار، ج18، ص412۔
  31. المجلسی، بحار الانوار، ج18، ص412۔
  32. المجلسی، بحار الانوار، ج18، ص415۔
  33. امین العاملي، اعیان الشیعۃ، ج4، ص123۔
  34. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج45، ص430۔
  35. الطوسي، الأمالي، ص141؛الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص6۔
  36. ابن ہشام، السیرة النبویۃ، ج3، 829۔
  37. ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج4، ص275۔
  38. امین العاملي، اعیان الشیعۃ، ج4، ص118۔
  39. الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص3۔
  40. الطبري، تاریخ الطبری، ج2، ص321۔
  41. المجلسی، بحار الانوار، ج22، ص126۔
  42. ابن عبد البر، الإستیعاب، ج1، ص245۔
  43. من لا یحضره الفقیہ، ج1، ص177۔
  44. مغازی واقدی، ج2، ص766۔
  45. تہذیب الکمال، ج5، ص63۔
  46. الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص8 و 9۔
  47. ابن‌ کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ج1، ص98ـ 99۔
  48. ابن‌ کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج1، ص295‌۔
  49. ابن‌ کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج1، ص323‌۔
  50. ابن‌ ہشام‌، السیرة النبویۃ ج4، ص27ـ 28۔
  51. ابن عنبۃ، عمدة الطالب، ص36۔
  52. خبرگزاری فارس.

مآخذ

  • الاصفہانی، ابو الفرج، مقاتل الطالبیین، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، 1385 ه‍
  • العسقلاني، ابن حجر، الاصابہ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1415 ه‍
  • المجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403 ه‍
  • ابن اثیر، علی، اسد الغابہ، بیروت، دار الکتاب العربی.
  • ابن عنبۃ، جمال الدين أحمد بن علي الحسيني (المتوفى سنہ 828 ه‍)، عمدة الطالب في أنساب آل أبى طالب، المصحح: محمد حسن آل الطالقاني منشورات المطبعۃ الحيدريۃ في النجف، الطبعۃ الثانيۃ 1380 ه‍ / 1961 ع‍
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، 1385 ه‍
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، دار صادر بیروت
  • ابن قدامہ، عبدالله، التبیین فی انساب القرشیین، بیروت، 1408 ه‍
  • إبن حنبل، أحمد بن محمد الشیبانی المروزی البغدادی، مسند الإمام أحمد بن حنبل
  • الحاكم النيسابورى، محمد بن عبد الله، المستدرك على الصحيحين، ت مقبل بن ہادي الوادعي، دار الحرمين القاہرة 1417 ه‍ / 1997 ع‍
  • ذہبی، محمد، سیر أعلام النبلاء، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1413 ه‍
  • القاضي نعمان المغربي، أبو حنيفۃ النعمان بن محمد التميمي المغربي، شرح الأخبار في فضائل الأئمۃ الأطہار، قم، جامعہ مدرسین، 1414 ه‍
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف.
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بیروت، اعلمی، 1409 ه‍
  • الحر العاملي، الشيخ محمد بن الحسن (المتوفى سنہ 1104 ه‍)، وسائل الشيعۃ الى تحصيل مسائل الشريعۃ، تحقيق: مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث قم 1414 ه‍ / 1372 ه‍ ش
  • قمی، علی بن إبراہیم، تفسیر القمی، قم، مؤسسۃ دار الکتاب، 1404 ه‍
  • ابن ہشام، عبد الملک، السیرة النبویۃ، قاہره، مدنی، 1383 ه‍
  • ابن عساکر، علی، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، دار الفکر، 1415 ه‍
  • البخاری، محمد بن اسماعیل الجعفی (194 - 256 ه‍)، الجامع المسند الصحیح
  • طوسی، محمد بن حسن، الأمالي، قم، دارالثقافہ، 1414 ه‍
  • ابن کثیر، اسماعیل، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1408 ه‍
  • الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير، تاريخ الامم والملوك، [قوبلت هذه الطبعۃ على النسخۃ المطبوعۃ] بمطبعۃ بريل بمدينۃ ليدن في سنہ 1879 ع‍ ۔ مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان 1403 ه‍
  • ابن عبد البر، احمد، الاستیعاب، بیروت، دارالجیل، 1412 ه‍
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیہ، قم، جامعہ مدرسین.
  • مزی، جمال الدين أبو الحجاج يوسف، تہذيب الكمال في أسماء الرجال، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1406 ه‍

بیرونی روابط