احمد بن علی نجاشی
| کوائف | |
|---|---|
| مکمل نام | احمد بن علی بن احمد بن عباس نَجاشی أسدی |
| لقب/کنیت | نجاشی |
| تاریخ ولادت | صفر 372 ہجری |
| آبائی شہر | کوفہ |
| تاریخ وفات | 463 ہجری کے بعد |
| علمی معلومات | |
| اساتذہ | شیخ مفید، شیخ صدوق، سید مرتضی، سید رضی و ابن غضائری |
| تالیفات | فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، الجمعہ و ما ورد فیہ من الاعمال، الکوفہ و ما فیہا من الآثار و الفضائل، انساب بنی نضر بن قُعَین و ایامہم و اشعارہم، مختصر الانوار و مواضع النجوم التی سمتہا العرب، تفسیر النجاشی، اخبار بنی سنسن |
| خدمات | |
احمد بن علی نَجاشی (372-450 یا 463 ھ) معروف شیعہ علم رجال کی برجستہ شخصیت ہیں جنہوں نے فہرست اسماء مصنفی الشیعہ نامی کتاب تحریر کی۔ یہ کتاب «رجال نجاشی» کے نام سے مشہور ہے۔ احمد نجاشی رجال شناسی میں سب سے بڑا شیعہ دانشور سمجھا جاتا ہے اور رجالی مآخذ میں ان کی وثاقت، سچائی اور اعتماد زبان زد عام ہے۔
کہتے ہیں کہ نجاشی نے 30 سے 50 محدثین سے احادیث نقل کی ہیں، جن میں شیخ مفید اور ابن غضائری جیسے بزرگ علما بھی شامل ہیں۔ ان میں سے پانچ افراد کو نجاشی نے صراحت کے ساتھ ثقہ (قابلِ اعتماد) قرار دیا ہے۔
نجاشی نے اپنے زمانے کے علما سے کئی کتابیں طریقہ قرائتِ حدیث (جو حدیث اخذ کرنے کے طریقوں میں سے ایک ہے) کے مطابق پڑھی اور ان کتابوں کا اجازہ روایت بھی حاصل کیا۔ بعض محدثین جیسے ابوصمصام اور علی بن احمد (ان کے فرزند) نے ان سے حدیث روایت کی ہے۔ نجاشی کے بارے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ابو صمصام اور علی بن احمد جیسے محدثین نے ان سے احادیث نقل کی ہیں نیز انہوں نے پانچ تصنیفات تحریر کیں اور بعض اہم کتابوں کی نقل (نسخہبرداری) بھی خود نے کی ہے۔
شخصیت اور مقام
احمد بن علی بن احمد، یا احمد بن عباس نجّاشی اسدی[1] صیرفی،[2] علم رجال کی معروف کتاب فہرست اسماء مصنفی الشیعہ کے مصنف ہیں۔ اس کتاب کو رجالِ نجاشی بھی کہا جاتا ہے۔ نجاشی ابن الکوفی کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے،[3] جب کہ اہل سنت کے درمیان ابن النجاشی کے نام سے معروف ہیں۔[4] نجاشی کے مطابق، ان کے آٹھویں جدّ، عبد اللہ بن نجاشی، امام جعفر صادقؑ کے زمانے میں منصور دوانیقی کی خلافت کے دوران اہواز کے گورنر تھے۔ امام جعفر صادقؑ نے ان کے ایک خط کا مکتوب جواب بھیجا جو رسالۃ الاہوازیہ کے نام سے معروف ہے۔[5]
کہا جاتا ہے کہ نجاشی کی سنہ 372ھ کے ماہ صفر میں پیدائش ہوئی[6] اور ماہ جمادی الاولی سنہ 450ھ میں مطیرآباد (سامرا کے نزدیک ایک گاؤں)[7]میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کا محل زندگی بغداد[8] یا کوفہ[9] بتایا جاتا ہے۔
اعتبار اور وثاقت
علمِ رجال کی کتابوں میں نجاشی کو ثِقہ (قابلِ اعتماد)،[10] فاضلِ جلیل القدر،[11] أضبط الجماعۃ (روایت نقل کرنے میں سب سے زیادہ دقیق اور محتاط شخص)،[12] علما کے موردِ اعتماد،[13] مخالف و موافق سب کے ہاں راستگو،[14] نقاد اور بصیر عالم[15] جیسے القابات سے یاد کیا گیا ہے۔ انہیں شیعہ علما میں سب سے بڑے[16] اور مشہور ترین رجالی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔[17]
سید محمد مہدی بحرالعلوم (1155–1212ھ) کے مطابق، نجاشی جرح و تعدیل کے بنیادی اراکین میں سے ایک ہیں۔[18]مزید یہ کہ شہید ثانی اور بحرالعلوم جیسے رجالی علما نے راویوں کے جرح و تعدیل کے سلسلے میں جہاں شیخ طوسی اور نجاشی کے اقوال میں اختلاف پایا، وہاں نجاشی کے قول کو ترجیح دی ہے۔[19]
اساتذہ اور شاگرد
علامہ بحرالعلوم نے اپنی کتاب الفوائد الرجالیۃ میں لکھا ہے کہ نجاشی نے 30 محدّثین سے روایت نقل کی،[20] جبکہ بعض دیگر کے مطابق یہ تعداد 50 اساتذہ تک پہنچتی ہے۔[21] بحرالعلوم کے مطابق، نجاشی نے شیخ مفید،[22] تلعکبری،[23] ابن نوح سیرافی،[24] ابو الفرج قنائی[25] اور حسن بن ہیثم عجلی[26] جیسے اپنے پانچ اساتذہ کو صراحت کے ساتھ ثقہ (قابلِ اعتماد) قرار دیا ہے اور باقی اساتذہ کے بارے میں انہوں نے مدح و تعظیم کے کلمات استعمال کیے ہیں۔[27] نجاشی نے سب سے زیادہ روایات شیخ مفید، حسین بن عبید اللہ، ابنعبدون، ابن جندی، ابن نوح سیرافی اور ابوا لفرج قنائی سے نقل کی ہیں۔[28]
نجاشی کے اپنے بیان کے مطابق، انہوں نے متعدد کتابیں اپنے ہم عصر علما کے سامنے طریقۂ قرائتِ حدیث (جو روایتِ حدیث کے اخذ کرنے کی ایک صورت ہے) سے پڑھی تھیں،[29] نیز شیخ صدوق کی بعض کتب کو اپنے والد (علی بن احمد نجاشی) سے،[30] جبکہ ابن قولویہ کی اکثر کتب کو شیخ مفید اور حسین بن عبید اللہ غضائری کے سامنے قرائت کیں ہیں۔[31]
سید محمد باقر خوانساری کی کتاب روضات الجنات کے مطابق، نجاشی نے زیادہ تر کتب سید مرتضی کے سامنے قرائت کیں ہیں۔[32] اسی طرح بعض بزرگ علما نے نجاشی کو اپنی تمام یا بعض کتابوں کی اجازتِ روایت دی ہے، جن میں ابن غضائری،[33] ابن شاذان قمی،[34] محمد بن علی بن ابی قرہ،[35] ابوعبد اللہ بن خمری[36] اور ابوشجاع ارجانی[37] جیسے علما شامل ہیں۔
کہتے ہیں کہ ابو صمصام (ذو الفقار بن معبد)[38] اور علی بن احمد (فرزند نجاشی)،[39] نجاشی کے شاگرد تھے اور ان سے روایت نقل کی۔ بحرالعلوم کے مطابق، نجاشی، شیخ طوسی کے اساتذہ میں سے تھے،[40] تاہم محمد تقی شوشتری نے اس رائے کو قبول نہیں کیا ہے۔[41]
آثار و تألیفات

نجاشی کے مطابق، ان کی پانچ تصانیف تھیں،[42] جن میں سے صرف ایک یعنی کتاب رجال کی طباعت ہوئی ہے۔[43]
- فہرست اسماء مصنفی الشیعہ المعروف رجال نجاشی، نجاشی کی سب سے معروف ہے۔ نجاشی نے خود لکھا ہے کہ اس کتاب کو انہوں نے اہل سنت کے اس اعتراض کے جواب میں تصنیف کیا کہ شیعوں کے یہاں کوئی مؤلف یا مصنف نہیں ہے۔ اس میں انہوں نے شیعہ مصنفین کے حالات و کتب کو حروفِ تہجی کے مطابق مرتب کیا ہے۔[44]
- الجمعة وما ورد فیها من الاعمال،
- الکوفة وما فیها من الآثار والفضائل،
- انساب بنی نضر بن قعین وأیامهم وأشعارهم،
- مختصر الأنوار ومواضع النجوم التی سمتها العرب۔[45]
آقا بزرگ تہرانی نے ان کے آثار کی فہرست میں ایک تفسیر کا بھی ذکر کیا ہے۔[46] نجاشی نے بعض کتابوں کی نسخہ برداری بھی کی تھی، جیسے؛ کتاب الحج؛ مولف: علی بن عبد اللہ میمونی (پانچویں صدی ہجری کے محدث)،[47] کتاب مسند أبی نؤاس وحجى وأشعب وبہلول وجعیفران وما رووا من الحدیث از ابوشجاع ارجانی۔[48]
حوالہ جات
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص101۔
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، مطبعۃ المرتضویۃ، ج1، ص69۔
- ↑ زرکلی، الاعلام، 1989ء، ج1، ص172۔
- ↑ ذہبی، سیر اعلامالنبلاء، 1414ھ، ج17، ص328۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص101۔
- ↑ علامہحلی، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، 1417ھ، ص73؛ شبیری زنجانی، «ابوالعباس نجاشی و عصر وی (2)»، ص25۔
- ↑ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363شمسی، ج2، ص36، پانویس محمد صادق و حسین بحرالعلوم۔
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، 1368شمسی، ج1، ص523۔
- ↑ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363شمسی، ج2، ص49۔
- ↑ علامہحلی، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، 1417ھ، ص72؛ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363شمسی، ج2، ص35۔
- ↑ میرداماد، الرواشح السماویۃ فی شرح احادیث الامامیۃ، 1380شمسی، ص127۔
- ↑ شہید ثانى، مسالک الأفہام إلى تنقیح شرائع الإسلام، 1413ھ، ج7، ص467۔
- ↑ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363شمسی، ج2، ص35 و 46؛ جزایری، حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال، 1418ھ، ج4، ص438۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1362شمسی، ج91، ص32۔
- ↑ محدثنوری، خاتمۃ مستدرك الوسائل، 1429ھ، ج3، ص146۔
- ↑ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363شمسی، ج2، ص35؛ محدث نوری، خاتمۃ مستدرك الوسائل، 1429ھ، ج3، ص146۔
- ↑ شبیری زنجانی، «ابوالعباس نجاشی و عصر وی»، ص11۔
- ↑ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363شمسی، ج2، ص35 و 46۔
- ↑ شہید ثانى، مسالک الأفہام إلى تنقیح شرائع الإسلام، 1413ھ، ج7، ص467؛ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363شمسی، ج2، ص46۔
- ↑ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363شمسی، ج2، ص50-85۔
- ↑ ملکیان، «مقدمہ»، ص33-39۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص399۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص439۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص86۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص398۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص65۔
- ↑ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363شمسی، ج2، ص84-85۔
- ↑ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363ش، ج2، ص86۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص31 و 48 و 63 و 68 و 75 و 145 و 297 و 310 و 451۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص392۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص124۔
- ↑ خوانساری، روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، 1349شمسی، ج1، ص63۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص71۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص88۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص398۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص68۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص310۔
- ↑ خوانساری، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، 1349شمسی، ج1، ص63۔
- ↑ صفدی، الوافی بالوفیات، 1420ھ، ج7، ص124۔
- ↑ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، 1363شمسی، ج2، ص38۔
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، 1368شمسی، ج1، ص520۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص101۔
- ↑ ملکیان، «مقدمہ»، ص45۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص3۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1365شمسی، ص101۔
- ↑ آقابزرگ، الذریعۃ، 1403ھ، ج4، ص317۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص268۔
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، 1376شمسی، ص310۔
منابع
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دار الاضواء، 1403ھ۔
- بحرالعلوم، سید محمدمہدی، الفوائد الرجالیہ، قم، مکتبۃ الصادق(ع)، 1363ہجری شمسی۔
- جزایری، عبدالنبی، حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال، قم، ریاض الناصری، 1418ھ۔
- خوانساری، محمدباقر، روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، قم، اسماعیلیان، 1349ہجری شمسی۔
- ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، 1414ھ۔
- زرکلی، خیرالدین، الاعلام: قاموس تراجم لأشہر الرجال والنساء من العرب والمستعربین والمستشرقین، بیروت، دار العلم للملایین، 1989ء۔
- شبیری زنجانی، سید موسی، «ابوالعباس نجاشی و عصر وی»، مجلہ نور علم، شمارہ 11، مرداد 1364ہجری شمسی۔
- شبیری زنجانی، سید موسی، «ابوالعباس نجاشی و عصر وی (2)»، مجلہ نور علم، شمارہ 12، مرداد 1364ہجری شمسی۔
- شہید ثانى، زینالدین بن على، مسالک الأفہام إلى تنقیح شرائع الإسلام، تحقیق گروہ پژوہش مؤسسہ معارف اسلامى، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، چاپ اول، 1413ھ۔
- شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
- صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، شیراز، مرکز حافظشناسی، 1417ھ۔
- مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف، مطبعۃ المرتضویۃ، بیتا۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔
- محدث نوری، حسین، خاتمۃ مستدرك الوسائل، تحقیق مؤسسۃ آل البيت(ع) لإحياء التراث، قم، مؤسسۃ آل البيت(ع) لإحياء التراث، چاپ اول، 1429ھ۔
- ملکیان، محمدباقر، «مقدمہ»، رجال النجاشی، تالیف احمد بن علی نجاشی، قم، بوستان کتاب، 1394ہجری شمسی۔
- میرداماد، محمدباقر، الرواشح السماویۃ فی شرح احادیث الامامیۃ، قم، دارالحدیث، 1380ہجری شمسی۔
- نجاشی، احمد بن على، رجال النجاشی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1376ہجری شمسی۔
- نجاشی، احمد بن على، رجال النجاشی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ ششم، 1365ہجری شمسی۔