مندرجات کا رخ کریں

کافر

ویکی شیعہ سے

کافر سے مراد وہ شخص ہے جو خدا، اس کی وحدانیت، رسالتِ حضرت محمدؐ، یوم آخرت یا کلی طو پر ضروریات دین کا انکار کرتا ہے۔ کافر کی بعض اقسام یہ ہیں: کافر کتابی (اہل کتاب کافر)، کافر ذمی، کافر حربی، مرتد اور کافر تَبَعی۔ ان میں سے ہر ایک قسم کے اپنے مخصوص فقہی احکام ہیں نیز فقہا نے تمام قسم کے کفار کے مشترک احکام بیان کیے ہیں۔ مثال کے طور پر فقہاء مجموعی طور پر کافر کو نجس سمجھتے ہیں۔ ایک اور حکم یہ کہ مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد سے شادی نہیں کرسکتی اسی طرح مسلمان مرد کسی غیر مسلم عورت سے شادی نہیں کر سکتا۔

فقہا، قرآنی اصول یعنی قاعدہ نفی سبیل سے استناد کرتے ہوئے اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا حکم تشریع نہیں کیا ہے جس کے ذریعے کافر مسلمان پر غلبہ حاصل کرسکے۔ انہوں نے اس قاعدے سے کچھ اور تفصیلی احکام بھی اخذ کیے ہیں۔ منجملہ یہ کہ مسلمان باکرہ لڑکی کا نکاح اس کے کافر والد کی اجازت کے بغیر جائز ہے؛ کیونکہ کافر باپ کی اجازت لینا مسلمان پر اس کے تسلط کی ایک قسم ہے۔ نیز کافر قاضی دو مسلمانوں کے درمیان عدالتی فیصلہ نہیں کر سکتا؛ کیونکہ فیصلہ کرنا فریقین پر غلبہ حاصل کرنے کی ایک شکل ہے اور اسلام نے اس کی نفی کی ہے۔

مفہوم‌ شناسی اور اہمیت

کافر سے مراد وہ شخص ہے جو خدا، اس کی وحدانیت، یا حضرت محمدؐ کی رسالت، یا قیامت یا کلی طور پر دین کی ضرویات کا انکار کرتا ہے۔[1] "کافر کا لفظ "کفر" سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی چھپانے کے ہیں؛[2] اس لیے جو کوئی ان مذکرہ چیزوں میں سے کسی ایک یا تمام چیزوں کا انکار کرے اسے کافر کہا جاتا ہے۔[3] دوسرے لفظوں میں جو شخص خدا کے وجود کی نشانیوں اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی آیات کو چھپاتا ہے وہ کافر کہلاتا ہے۔[4] لفظ "کافر" معنی کے لحاظ سے ملحد،[5] زندیق،[6] دہری،[7] اور مشرک جیسے الفاظ سے متعلق ہے۔[8]

کہا جاتا ہے کہ لفظ "کفر" اور اس کے مختلف مشتقات جیسے "کافر" وغیرہ قرآن مجید میں پانچ سو سے زیادہ مرتبہ آئے ہیں[9] اور اس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔[10] فقہ کے مختلف ابواب میں معاملات اور اور دیگر شرعی امور کے حوالے سے کفار کے شرعی احکام اوران کے ساتھ میل جول کے بارے میں مسلمانوں کے فرائض بھی بیان کیے گئے ہیں۔[11]

کافر کی قسمیں

اسلامی فقہ میں کافر کی کئی قسمیں بیان ہوئی ہیں اور ہر ایک کا شرعی حکم بیان ہوا ہے:

کتابی کافر

کافر کتابی یا اہل کتاب ان ادیان کے پیروکار وں کوکہتے ہیں جن کے پاس آسمانی کتاب ہے۔ جیسے یہودی اور عیسائی۔[12] فقہاء کے نزدیک وہ تمام لوگ جن کے بارے میں شک ہے کہ آیا ان کے پاس آسمانی کتاب ہے یا نہیں؛ وہ اہل کتاب میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے مجوسیوں یا زرتشتیوں کو اہل کتاب میں شمار کیا جاتا ہے۔[13]

کافر اصلی

کافر اصلی وہ ہے جس کے والدین کافرہوں اور شروع ہی سے کافر ہو اور اس کی اسلام کی کوئی سابقہ ​​تاریخ نہ ہو۔[14] شیعہ فقہاء کے اجماع کے مطابق،[15] کافر اصلی اگر مسلمان ہوجائے تو اس کے مسلمان ہونے کے بعد نماز اور روزہ جیسی عبادتیں قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔[16]

کافر اصلی کی دو قسمیں ہیں:[17]

  1. کافر ذمی: وہ اہل کتاب جو اسلامی سرزمین میں رہتے ہیں اور انہوں نے کسی اسلامی حکمران کے ساتھ "ذمّہ" کا معاہدہ کیا ہے انہیں کافر ذمی کہا جاتا ہے۔[18] "ذمّہ" ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں اہل کتاب کو اپنے دین پر قائم رہنے اور جزیہ ادا کرنے کے عوض اسلامی حکومت کی طرف سے انہیں تحفظ فراہم ہوتا ہے۔[19]
  2. کافر حربی: وہ کافر جن کے پاس "ذمہ"، امان یا صلح جیسا کوئی معاہدہ نہ ہو، چاہے وہ اہل کتاب ہوں یا نہ ہوں، انہیں کافر حربی کہا جاتا ہے۔[20]

فقہاء کے مطابق کافر حربی کی جان و مال محترم نہیں ہے۔ البتہ اگر مسلمانوں کے ساتھ "ذمہ" کا معاہدہ (جو صرف اہل کتاب کے لیے ہے) یا صلح و امن یا جنگ بندی کا معاہدہ (جو کہ غیر اہل کتاب کے لیے ہے) کیا جائے تو اس کی جان و مال کا احترام کیا جائے گا۔[21]

کافر تَبَعی

فقہاء کے مطابق کافر کا بچہ بلوغت کو پہنچنے سے پہلے اپنے کافر والدین کی متابعت میں کافر سمجھا جاتا ہے اور وہ کافر تَبَعی کہلاتا ہے۔[22] فقہاء کے نزدیک نجاست اور پاکی کے لحاظ سے کافر تبعی کے احکام اور کچھ دوسرے احکام وہی ہیں جو اس کے والدین پر عائد ہوتے ہیں۔[23]

مرتد

مرتد وہ ہے جو دائرہ اسلام سے خارج ہوچکا ہو۔[24]فقہاء کے نزدیک مرتد کی دو قسمیں ہیں؛[25] مرتد فطری ور مرتد ملی؛ مرتد فطری سے مراد وہ مرتد ہے جو مسلمان پیدا ہوا ہو؛[26] یعنی اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہو۔[27] پھر اس نے اسلام چھوڑ دیا ہو۔[28] مرتد ملی سے مراد وہ کافر ہے جو ابتدا میں کافر تھا پھر اسلام قبول کیا پھر اس کے بعد دوبارہ کفر اختیار کیا ہو۔[29]

ہر قسم کے کفار کے لیے مشترک احکام

کچھ احکام ہیں جو ہر قسم کے کفار کے لیے مشترک ہیں وہ یہ ہیں:

  • مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد سے شادی نہیں کر سکتی اسی طرح مسلمان مرد غیر مسلم عورت سے شادی نہیں کرسکتا؛ [32] تاہم، بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ مسلمان مرد غیر مسلم عورت کے ساتھ نکاح موقت کر سکتا ہے۔[33]
  • کافر کے ہاتھوں ذبح شدہ جانور کا گوشت کھانا حرام ہے اور اس معاملے میں کافروں کی قسموں میں کوئی فرق نہیں ہے۔[34] شیخ بہائی کے مطابق، فقہاء کا ایک گروہ اہل کتاب کے ذبح شدہ جانوروں کو کھانا جائز سمجھتا ہے۔[35]

اللہ نے مسلمانوں پر کفار کی ہر قسم کے تسلط کی نفی کی ہے

فقہاء نے قاعدہ نفی سبیل سے استناد کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے کوئی ایسا حکم تشریع نہیں کیا ہے جس کے ذریعے کافر مسلمان پر غلبہ حاصل کر سکے؛[36] لہٰذا:

  • کافر کو اپنے نابالغ مسلمان بچے پر سرپرستی کا کوئی حق نہیں ہے۔[37] کنواری لڑکی کا نکاح اگر اس کا باپ کافر ہو تو اس کے باپ کی اجازت کے بغیر جائز ہے؛[38] کیونکہ یہ تسلط کی ایک قسم ہے اور خدا نے اس کی نفی کی ہے۔[39]
  • فقہائے امامیہ کے نزدیک کافرقاضی دو مسلمانوں کے درمیان فیصلہ نہیں کر سکتا؛ کیونکہ فیصلہ کرنا جھگڑے کے فریقین پر غلبہ حاصل کرنے کی ایک شکل ہے۔[40]
  • امامیہ فقہا کے اجماع کے مطابق مسلمان کے خلاف کافر کی وکالت، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ وکالت ایک قسم کا غلبہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے نفی کی ہے۔[41]

متعلقہ موضوع

حوالہ جات

  1. سبحانی، الإیمان والكفر فی الكتاب و السنۃ، 1416ھ، ص49۔
  2. جوہری، الصحاح، 1404ھ، ذیل واژہ «کفر»۔
  3. راغب اصفہانی، مفردات راغب، 1412ھ، ذیل واژہ «کفر»۔
  4. ابن‌منظور، لسان العرب، 1414ھ، ذیل واژہ «کفر»۔
  5. طباطبایی، المیزان، 1363شمسی، ج17، ص397۔
  6. مطہری، خدمات متقابل ایران و اسلام، 1390شمسی، ص399۔
  7. طباطبایی، المیزان، 1363شمسی، ج18، ص174۔
  8. طباطبایی، المیزان، 1363شمسی، ج17، ص397۔
  9. روحانی، المعجم الاحصائی، 1368شمسی، ج1، ص530۔
  10. ملاحظہ کیجیے: سورہ فاطر، آیہ 36؛ سورہ نساء، آیہ 151؛ طباطبایی، المیزان، 1363شمسی، ج20۔
  11. ملاحظہ کیجیے: نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج6، ص41 و ج21، ص48 و ج29، ص207 و ج39، ص15۔
  12. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص228۔
  13. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص228۔
  14. صندوقدار، «احکام کافران و مرتدان در فقہ اسلامی»، ص3۔
  15. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج1، ص443؛ ابن‌زہرہ، غنیة النزوع، 1417ھ، ص100۔
  16. روحانی، فقہ الصادق، 1392شمسی، ج8، ص422۔
  17. بحرانی، الحدائق الناضرة، 1405ھ، ج22، ص192؛ صندوقدار، «احکام کافران و مرتدان در فقہ اسلامی»، ص3۔
  18. مشکینی، مصطلحات‌الفقہ، 1392شمسی، ص470۔
  19. مشکینی، مصطلحات‌الفقہ، 1392شمسی، ص280-281۔
  20. جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، 1387شمسی، ج1، ص763۔
  21. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص103 و ج38، ص8۔
  22. خوئی، موسوعۃ الامام الخوئی، مؤسسۃ إحیاء آثار الامام الخوئی، ج8، ص312۔
  23. خوئی، موسوعۃ الامام الخوئی، مؤسسۃ إحیاء آثار الامام الخوئی، ج8، ص312۔
  24. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، 1427ھ، ج4، ص44-46۔
  25. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج4، ص170-171۔
  26. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ق، ج4، ص170۔
  27. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج41، ص602۔
  28. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج4، ص170۔
  29. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج4، ص171۔
  30. ملاحظہ کیجیے: نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج6، ص41-42۔
  31. جناتی، طہارة الکتابی فی فتوی السید الحکیم، 1390ھ، ص20۔
  32. محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج12، ص391۔
  33. ملاحظہ کیجیے: وحید خراسانی، توضیح المسائل، 1421ھ، ص660؛ سیستانی، توضیح المسائل، 1415ھ، ص501۔
  34. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج7، ص208۔
  35. شیخ بہایی، حرمة ذبائح اہل الکتاب، 1410ھ، ص60۔
  36. موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، 1377شمسی، ج1، ص187-188۔
  37. نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج29، ص206؛ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ھ، ج5، ص624۔
  38. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج7، ص166-167۔
  39. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج7، ص166-167۔
  40. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1417ھ، ج6، ص417؛ سبحانی، نظام القضاء و الشہادة فی الشریعۃ الاسلامیۃ الغراء، 1376شمسی، ج1، ص34۔
  41. شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج5، ص270۔

مآخذ

  • ابن‌ زہرہ، حمزۃ بن علی، غنیۃ النزوع، تحقیق ابراہیم بہادری، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1417ھ۔
  • ابن‌ منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، 1414ھ۔
  • بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1405ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، کویت، دارالسلاسل، 1404-1427ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • جناتی، محمدابراہیم، طہارۃ الکتابی فی فتوی السید الحکیم، نجف، مطبعۃ القضاء، 1390ھ۔
  • جوہری، ابونصر، الصحاح‌ تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، بیروت، چاپ چہارم، 1404ھ۔
  • خویی، ابوالقاسم، موسوعۃ الامام الخوئی قم، احیاء الاثار الامام الخویی، 1418ھ۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، بیروت، دار القلم، 1412ھ۔
  • روحانی، سید محمدصادق، فقہ الصادق، قم، انتشارات آیین دانش، 1392ہجری شمسی۔
  • روحانی، محمود، المعجم الاحصائی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1414ھ۔
  • سبحانی، جعفر، الإیمان والكفر فی الكتاب و السنۃ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1416ھ۔
  • سبحانی، جعفر، نظام القضاء و الشہادۃ فی الشریعۃ الاسلامیۃ الغراء، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1376ہجری شمسی۔
  • سیستانی، سیدعلی، توضیح المسائل، قم، انتشارات مہر، 1415ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تعلیقہ سیدمحمد کلانتر، قم، انتشارات داوری، 1410ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
  • شیخ بہایی، محمد بن حسین، حرمۃ ذبائح اہل الکتاب، بیروت، موسسۃالاعلمی للمطبوعات، 1410ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1407ھ۔
  • صندوقدار، زمان، «احکام کافران و مرتدان در فقہ اسلامی»، کنفرانس ملی اندیشہ‌ہای نوین و خلاق در مدیریت، حسابداری، مطالعات حقوقی و اجتماعی، 1397ہجری شمسی۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ اول، 1417ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح المقاصد، قم، مؤسسہ آل البیت، 1414ھ۔
  • مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، نشر الہادی، 1392ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، خدمات متقابل ایران و اسلام، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • موسوی اردبیلی، سید عبدالکریم، فقہ الحدود و التعزیرات، قم، جامعۃ المفيد، مؤسسۃ النشر، 1427ھ۔
  • موسوی بجنوردی، سیدحسن، القواعد الفقہیۃ، قم، نشر الہادی، 1377ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔
  • وحید خراسانی، حسین، توضیح المسائل، قم، مدرسہ باقر العلوم، 1421ھ۔