جعل حدیث

ویکی شیعہ سے
(جعل حديث سے رجوع مکرر)

جَعْل‌حدیث یا وَضْع‌حدیث کسی حدیث کو اپنی طرف سے بنانا اور اسے پیغمبر اسلامؐ یا ائمہ معصومین کی طرف نسبت دینے کو کہا جاتا ہے۔ جعل‌حدیث کبھی پوری حدیث کو بنانے کے ذریعے انجام پاتا ہے اور کبھی کسی صحیح حدیث کے اندر بعض عبارتوں میں اضافہ کرنے یا اس کی تعبیر میں تبدیلی لانے کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اس کام کا آغاز خود پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں ہوا لیکن معاویہ کے دور میں اس میں مزید اضافہ ہوا۔

فضائل امام علیؑ کو کم کرنا، معاویہ کی سلطنت کو مشروعیت بخشنا اور بعض فرقوں کی نسبت تعصب، جعل حدیث کے اغراض و مقاصد میں شمار کئے جاتے ہیں۔ امت کو اہل بیتؑ سے محروم کرنا، بعض صحیح احادیث کی نفی اور صحیح احادیث تک دسترسی میں سختیوں کا پیش آتا جعل حدیث کے نقصانات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ شیعہ علماء کے مطابق ابوہریرہ، کعب الاحبار، اُبَیّ بن کَعب اور ابن‌ ابی‌العوجاء وغیرہ جعلی احادیث کے راویوں میں سے ہیں۔

جعل‌ حدیث کے بارے میں بعض کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ابن‌جوزی(متوفی: 597ھ) کی کتاب "الموضوعات" اس سلسلے میں لکھی گئی سب سے پہلی کتاب ہے اس کے علاوہ شیخ محمد تقی شوشتری (متوفی: 1374ھ) کی کتاب"اَلْاَخْبارُ الدَّخیلَۃ"، سید ہاشم معروف الحسنی کی کتاب "الموضوعات فی الآثار و الأخبار" اور علامہ مرتضی عسکری (1293-1386ہجری شمسی) کی کتاب "ایک سو پچاس جعلی اصحاب" اس سلسلے میں لکھی گئی دیگر کتابیں ہیں۔

مفہوم‌ شناسی

تفصیلی مضمون: حدیث موضوع

جعل حدیث، کسی حدیث کو اپنی طرف سے بنانے کو کہا جاتا ہے۔ حدیثی مآخذ میں اس عمل کو "وَضع حدیث" سے تعبیر کی گئی ہے[1] اور جعلی حدیث کو "حدیث موضوع" کا نام دیا جاتا ہے۔[2] حدیث موضوع یا جعلی حدیث اس حدیث کو کہا جاتا ہے جسے ارادتاََ یا سہوا بنایا گیا ہو اور اسے پیغمبر اکرمؐ یا کسی معصوم امام کی طرف نسبت دی گئی ہو۔[3] خود حدیث بنانے والے کا اس کے جعلی ہونے کا اعتراف، جعلی ہونے کے بارے میں قرائن و شواہد کا پایا جانا،[4] حدیث کے مضامین کا عقل، قرآن یا ضروریات مذہب[5] کے مخالف ہونا جعلی حدیث کی پہچان کی علامتوں میں سے ہیں۔

طریقہ

جعل حدیث مختلف طریقوں کے ذریعے انجام پاتا ہے: کبھی ایک مکمل حدیث کو بنایا جاتا ہے پھر اسے پیغمبر اکرمؐ یا ائمہ معصومین میں سے کسی ایک کی طرف نسبت دی جاتی ہے؛ کبھی کسی حدیث میں بعض الفاظ کا اضافہ کیا جاتا ہے؛ اور بعض اوقات کسی حدیث کی تعبیر میں تبدیلی لائی جاتی ہے۔[6]

مذکورہ طریقوں میں سے پہلا طریقہ جس میں مکمل حدیث گھڑی جاتی ہے، اکثر اوقات عقیدتی، اخلاقی، تاریخی، طبی موضوعات نیز فضایل اور دعاؤوں میں استفادہ کیا جاتا ہے۔[7] کسی حدیث میں بعض الفاظ کا اضافہ کرنا جیسے بنی عباس کے دوسرے خلیفہ منصور دوانیقی نے امام زمانہؑ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث میں ایسا کیا ہے۔ اس حدیث میں آیا تھا کہ خدا میرے اہل‌ بیتؑ میں سے ایک شخص کو ظاہر کرے گا جس کا نام میرے نام پر ہوگا؛[8] لیکن منصور دوانیقی نے اپنے بیٹے کو اس حدیث کا مصداق بنانے کے لئے اس حدیث میں جملہ: "اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہوگا" کا اضافہ کیا؛ کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کے والد گرامی کا نام بھی منصور تھا۔[9]

الفاظ اور تعبیرات میں تبدیلی کی مثال بھی پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں ہے جسے بعض نے معاویہ کی مدح میں نقل کی ہے۔ اس حدیث میں آیا ہے: جب بھی یہ دیکھوں کہ معاویہ منبر پر بیٹھ کر بولنے لگے تو اس کی باتوں کو قبول کرو؛ کیونکہ وہ ایک نیک اور معتمد انسان ہے۔[10] کہا جاتا ہے کہ حقیقت میں یہ حدیث معاویہ کی مذمت میں آئی تھی اور اس میں "فاقْتُلُوہ" یعنی اسے قتل کرو کی تعبیر آئی تھی جسے تبدیل کر کے "فاقبَلِوہ" یعنی اسے قبول کرو بنایا گیا تھا۔[11]

احادیث کی چوری (یعنی کسی اور راوی کی حدیث کو اس کے نام کی جگہ اپنا نام یا کسی اور کا نام نقل کرنا)، محدثین کی کتابوں میں ہیرا پھیری کرنا اور ان کی جعلی اشاعت کو بھی جعل حدیث کے طریقوں میں شمار کیا گیا ہے۔[12]

تاریخ

بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ جعل حدیث کی تاریخ خود پیغمبر اکرمؐ کی حیات طیبہ تک پہنچتی ہے۔ ان کے بقول پیغمبر کی وہ حدیث جس میں آپؐ کی طرف جھوٹی احادیث کی نسبت دینے والے کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا گیا ہے،[13] اس بات پر گواہ ہے۔[14] پیغمبر اکرمؐ کی زندگی میں ہی آپ کی طرف جھوٹی نسبت دینے کے بہت سارے نمونے ذکر ہوئے ہیں۔[15] ایک حدیث کے مطابق خود امام علیؑ نے بھی پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں احادیث کے جعل ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔[16]

البتہ ہاشم معروف حسنی کے مطابق اہل‌ سنت کے بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ جعل‌ حدیث خلفائے راشدین کے زمانے میں انجام نہیں پایا تھا اور امام علیؑ کی شہادت کے بعد آغاز ہوا ہے۔ اس دوران بعض فرقے اور مذاہب وجود میں آگئے جنہوں نے اپنے اعتقادات کو قرآن و سنت سے مستند کرتے تھے اور جب ان کے لئے قرآن و سنت میں کوئی مستند نہ ملتا تو یہ لوگ جھوٹی احادیث بنا کر احادیث میں تحریف کرتے تھے۔[17]

کہا جاتا ہے کہ جعل حدیث میں معاویہ کے دور حکومت میں وسعت آگئی۔[18] ساتویں صدی ہجری میں نہج‌ البلاغہ کے شارح ابن ابی‌ الحدید معتزلی کے مطابق معاویہ عثمان اور دیگر اصحاب کی فضیلت اور امام علیؑ کی مذمت میں احادیث گھڑتے تھے اور ان کی حمایت کرتے تھے۔[19] اسی طرح بِکریہ جو اس بات کے معتقد تھے کہ ابوبکر بن ابی‌ قحافہ نص کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کا جانشین بنا ہے، امام علیؑ کے فضائل کے مقابلے میں ابوبکر کی فضیلت میں حدیث جعل کرتے تھے۔[20]

جعل حدیث سے مقابلہ کی تاریخ

احمد پاکتچی کے مطابق پانچویں صدی ہجری کے اواخر میں جھوٹی احادیث کے بارے میں کتابیں لکھنا شروع ہوا؛ اگرچہ چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں شیعہ علم رجال میں صریح طور پر جھوٹی احادیث کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جس کے نمونے ابن‌عقدہ[21] اور ابن‌ولید[22] نیز پانچویں صدی ہجری میں ابن‌غضائری[23] کے اظہار نظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ان کے بقول احادیث کے باب میں اہل‌ سنت علمائے رجال میں سے مکتب بغداد پہلی بار جھوٹی احادیث کے بارے میں اظہار نظر کیا ہے۔[24]

اغراض و مقاصد

جعل‌حدیث مختلف اغراض و مقاصد کی خاطر انجام پاتا تھا؛ ذیل میں ان کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

  • خلفاء اور بنی امیہ کے حاکموں کی خلافت کو مشروعیت بخشنا: چودہویں صدی ہجری کے لبنانی محقق ہاشم معروف حسنی کے مطابق بنی‌امیہ اور بنی‌عباس کی حکومتیں اپنی حکومت کو مشروعیت بخشنے کے لئے اپنی شخصیات کی شان میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ ان کی خلافت کو منسوب کر کے حدیث جعل کرتے تھے۔[28] بنی‌ عباس کی طرف سے جعل کردہ ایک حدیث جسے وہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف نسبت دیتے تھے اس میں آیا ہے کہ "پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا خلافت میرے چچا [عباس] کی اولاد میں قرار دی گئی ہے۔" [29]
  • اپنے فرقے کی حقانیت اور دوسرے فرقے کو بطلان کو ثابت کرنا: ہر فرقے کے حامی اپنے فرقے کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث سے استناد کرتے تھے اور جب قرآن و حدیث سے کوئی مستند نہیں پاتے تو اپنی طرف سے حدیث جعل کرتے تھے۔[30]

حکمرانوں کی قربت حاصل کرنا، معاشرے کی اصلاح،[31] لوگوں کا قرآن کی طرف متوجہ ہونا،[32] فضیلت‌ گھڑنا،[33] ثواب حاصل کرنا[34] پیغمبر اکرم کی جانشینی میں اختلاف اور فرقہ‌گرایی جعل‌ حدیث کے دیگر اغراض و مقاصد میں شمار کئے جاتے ہیں۔[35]

نتائج

جعل حدیث کے نقصانات اور منفی نتائج درج ذیل ہیں:

  • صحیح احادیث کی دستیابی میں مشکلات: جعل حدیث کی وجہ سے صحیح احادیث کو جعلی احادیث سے فرق کرنا مشکل ہوگیا۔[36]
  • بعض صحیح احادیث کی نفی: جھوٹی احادیث سے چھٹارا حاصل کرنے کے بہانے بعض صحیح احادیث کو بھی نظر انداز کیا جاتا تھا۔ مثلا ابن‌تیمیہ کے شاگرد سنی عالم دین ابن‌قَیِّم جوزیہ (متوفی 751ھ) غدیر خم میں حضرت علیؑ کی امامت کے اعلان کو جعلی قرار دیتے ہیں؛[37] حالانکہ علامہ امینی کے مطابق حدیث غدیر شیعہ اور سنی ماخذ میں متواتر طور پر نقل ہوئی ہے۔[38] اسی طرح ایک اور سنی عالم ابن‌جوزی (متوفی: 597ھ) اپنی کتاب "الموضوعات" میں امام علیؑ کی فضیلت پر مبنی بعض صحیح احادیث کو بھی جعلی احادیث میں شمار کرتے ہیں۔[39]
  • لوگوں کو اہل‌ بیت سے دور کرنا؛ ائمہ معصومین کی طرف ایسی احادیث کی نسبت دی جاتی تھی جس سے لوگوں میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہوتی تھی۔ اکثر ایسی احادیث کو شیعہ فرقے جیسے زیدیہ، فطحیہ اور غالی حضرات جعل کرتے تھے۔[40]
  • رجالی کتب کی تدوین: جعل‌ حدیث کی وجہ سے راویوں، احادیث کی اقسام اور جعلی احادیث کے بارے میں کتابیں لکھی گئی[41] اور علم رجال کے وجود میں آنے کی ایک دلیل جعلی حدیث اور جعلی راویوں کی پہچان قرار دی گئی ہے۔[42]

حدیث جعل کرنے والے

علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں تقریبا 700 جاعلان حدیث کا نام ان کی جعل کردہ بعض احادیث کے ساتھ لیا ہے۔ ان میں سے بعض کی طرف 100 جعلی احادیث سے بھی زیادہ کی نسبت دی گئی ہے۔[43] کتاب الغدیر کا یہ حصے "الوضّاعون و احادیثہم الموضوعۃ" (حدیث جعل کرنے والے اور ان کی جعلی احادیث) کے عنوان سے مستقل طور پر منظر عام پر آگئی ہے۔[44] ان میں سے بعض اشخاص درج ذیل ہیں:

  • ابوہریرہ: حدیث کی کتابوں میں 5374 سے بھی زیادہ احادیث ان کے ذریعے نقل ہوئی ہیں؛[45] حالانکہ وہ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ صرف تین سال کا عرصہ رہا تھا۔ اس بنا پر بعض صحابہ من جملہ حضرت علیؑ، حضرت عمر، حضرت عثمان اور خاص کر حضرت عایشہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے ان کے توسط سے بہت زیادہ حدیث نقل کرنے پر معترض تھے۔ حضرت عایشہ کہتی تھی ابوہریرہ پیغمیر اکرمؐ سے ایسی احادیث نقل کرتے ہیں جن کو میں نے نہیں سنا۔[46]
  • کعب الاَحبار: علامہ سید مرتضی عسکری کے مطابق یہودیوں کے بارے میں اکثر احادیث،‌ اہل کتاب کی مدح و ثنا اور بیت‌المقدس کے بارے میں نقل ہونے والی اکثر احادیث اسلامی مآخذ میں ان کے توسط سے نقل ہوئی ہیں۔[47]
  • نوح بن ابی‌ مریم مَرْوْزی: انہوں نے بھی فضایل سور کے بارے میں کئی احادیث جعل کی ہیں۔ اس کام کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ لوگ قرآن کی طرف مائل رہیں اور فقہ ابوحنیفہ اور مغازی ابن‌اسحاق سے منصرف ہوجائیں۔[48]
  • ابن ابی‌العَوجاء: کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 4000 احادیث جعل کی ہیں۔[49]

کتابیات

جعل‌ حدیث کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے اکثر کتابوں میں جعلی احادیث کو جمع کر کے ان کے جعل کرنے والوں کا نام لیا گیا ہے۔ ابن‌جوزی(متوفی:597ھ)، کی کتاب "الموضوعات"، جلال الدین سیوطی (متوفی: 911ھ) کی کتاب "الئالی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعہ"، شیخ محمدتقی شوشتری (متوفی: 1376ھ) کی کتاب "اَلْاَخْبارُ الدَّخیلَةسید ہاشم معروف الحسنی کی کتاب "الموضوعات فی الآثار و الأخبار" اور علامہ مرتضی عسکری (1293-1386ہجری شمسی) کی کتاب "ایک سوپچاس جعلی اصحاب" من جملہ ان کتابوں میں سے ہیں۔

اسی طرح بعض کتابوں میں جعل‌ حدیث کے موضوع کی چھان بین کی گئی وہ درج ذیل ہیں:

  • عمر بن حسن فلاتہ کی کتاب "الوضع فی الحدیث" یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے جو سنہ1401ھ میں مکتبۃالغزالی نے دمشق میں شائع کیا ہے۔[50]
  • ناصر رفیعی محمدی کی کتاب "درسنامہ وضع حدیث" فارسی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں وضع حدیث (جعل‌ حدیث) کا مفہوم اس کی تاریخ اور اس کے علل و اسباب نیز طریقوں اور نتائج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[51] اس کتاب کے آخر میں جعل حدیث سے مربوط کتابوں کا تعارف بھی کیا گیا ہے۔[52]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، رجال، 1402ھ، ص255۔
  2. ملاحظہ کریں: مامقانی، مقباس‌الہدایۃ، 1385ہجری شمسی، ج1، ص292؛ شہید ثانی، شرح البدایۃ فی علم الدرایۃ، بی‎تا، ج1، ص155۔
  3. مامقانی، مقباس الہدايۃ، 1385ہجری شمسی، ج1، ص292؛ شہید ثانی، شرح البدايۃ فی علم الدرايۃ، بی‎تا، ج1، ص155
  4. مامقانی، مقباس الہدايۃ، 1385ہجری شمسی، ج1، ص293۔
  5. مدیرشانہ چی، علم الحدیث، 1381ہجری شمسی، ص131-132۔
  6. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ہجری شمسی، ص162-166۔
  7. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ہجری شمسی، ص163۔
  8. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج51، ص82۔
  9. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ہجری شمسی، ص165؛ شوشتری، الأخبار الدخیلہ، 1415ھ، ص229۔
  10. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، دار الکتب العلمیہ، ج1، ص275۔
  11. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ہجری شمسی، ص166؛ شوشتری، الأخبار الدخیلہ، 1415ھ، ص230-231۔
  12. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ہجری شمسی، ص167-172۔
  13. ملاحظہ بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج1، ص33۔
  14. احمد امین، فجر الاسلام، 2012ھ، ص231۔
  15. ملاحظہ کریں: ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج7، ص44-45۔
  16. صدوق، الاعتقادات الامامیہ، 1414ھ، ص118۔
  17. معروف حسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1407ھ، ص90-91۔
  18. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ہجری شمسی، ص60۔
  19. ملاحظہ کریں: ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج11، ص45۔
  20. ملاحظہ کریں: ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج11، ص49۔
  21. ملاظحہ کریں علامہ حلی، رجال، 1402ھ، ص214۔
  22. ملاحظہ کریں: نجاشی، رجال، 1365ہجری شمسی، ص338؛ علامہ حلی، رجال، 1402ھ، ص255۔
  23. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، رجال، 140ھ، ص214۔
  24. پاکتچی، «حدیث»، ص260۔
  25. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج8، ص55-56۔
  26. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج4، ص63۔
  27. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج11، ص45۔
  28. معروف حسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1407ھ، ص138-141۔
  29. معروف حسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1407ھ، ص141۔
  30. معروف حسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1407ھ، ص90-91۔
  31. ہاشمی خویی، منہاج البراعۃ، 1400ھ، ج14، ص36۔
  32. شہید ثانی، الرعایہ، 1367ھ، ص157۔
  33. ملاحظہ کریں: ابن‌حجر، لسان‌المیزان، 1390ھ، ج1، ص13۔
  34. ہاشمی خویی، منہاج البراعۃ، 1400ھ، ج14، ص37۔
  35. احمد امین، فجرالاسلام، 2012ھ، ص233۔
  36. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ہجری شمسی، ص270۔
  37. ابن قیم، المنار المنیف، 1390ھ، ص57۔
  38. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج1، ص19۔
  39. ابن‌جوزی، الموضوعات، ج1، ص338۔
  40. معروف حسنی، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، 1407ھ، ص148-151۔
  41. ملاحظہ کریں: پاکتچی، «حدیث»، ص260۔
  42. سبحانی، کلیات فی علم الرجال، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ص25-26۔
  43. مصباح یزدی، آموزش عقائد، 1387ہجری شمسی، ص305۔
  44. «الوضاعون و احادیثہم الموضوعہ»۔
  45. ابن حزم، جوامع السیرۃ و خمس رسائل اخری، 1900ء، ص275۔
  46. ابن‌قتیبہ، تأویل مختلف الحدیث، 1406ھ، ص41۔
  47. عسکری، نقش ائمہ در احیای دین، 1382ہجری شمسی، ج1، ص484۔
  48. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ہجری شمسی، ج1، ص78-79۔
  49. بلاذری، انساب الاشراف، 1398ھ، ج4، ص96۔
  50. «ال‍وضع فی الحدیث»
  51. ملاحظہ کریں: رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ہجری شمسی، ص7-11.
  52. رفیعی، درسنامہ وضع حدیث، 1384ہجری شمسی، ص281-294.

مآخذ

  • ابن‌حزم، علی بن احمد، جوامع السیرۃ و خمس رسائل اخری لابن حزم، تحقیق احسان عباس، مصر، دارالمعارف، 1900ء۔
  • ابن‌قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم، تأویل مختلف الحدیث، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1406ھ/1985ء۔
  • ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃاللہ، شرح نہج‌البلاغۃ، تصحیح محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیۃاللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، الموضوعات، تحقیق عبدالرحمان محمد بن عثمان، مدینہ، محمد عبدالمحسن صاحب المکتبۃ السلفیہ بالمدینہ المنورہ، 1386ھ/1966ء۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، تحقیق دائرۃ المعرف ہند، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ/1971ء۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1410ھ/1990ء۔
  • ابن‌قیم جوزیہ، محمد بن ابی‌بکر، المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف، تحقیق عبدالفتاح ابوغدہ، مکتبۃ المبطوعات الاسلامیہ، 1390ھ/1970ء۔
  • احمد امین، فجر الاسلام یبحث عن الحیاۃ العقلیۃ فی صدر الإسلام إلى آخر الدولۃ الأمویۃ، قاہرہ، مؤسسۃ ہنداوی للتعلیم والثقافۃ، 2012ق۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر، 1416ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح‌البخاری، تحقیق محمدزہیر بن ناصر الناصر، دار طوق النجاۃ، 1422ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌الاشراف، تحقیق عبد العزیز الدوری، بیروت، جمعیۃ المستشرقین الالمانیہ،1398ھ/1978ء۔
  • پاکتچی، احمد، «حدیث» در دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج20، تہران، 1391ہجری شمسی۔
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد او مدینۃ السلام، تحقیق عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، بی‌تا۔
  • رفیعی محمدی، ناصر، درسنامہ وضع حدیث، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، کلیات فی علم الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا۔
  • شوشتری، محمدتقی، الاخبار الدخیلہ، تعلیق علی‌اکبر غفاری، تہران، مکتبۃ الصدوھ، 1415ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، شرح البدایۃ فی علم الدرایۃ، بی‎‌نا، بی‌تا۔
  • صدوھ، محمد بن علی، اعتقادات الامامیہ، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1414ھ۔
  • عسکری، سیدمرتضی، نقش ائمہ در احیای دین، تہران، مرکز فرہنگی انتشاراتی منیر، 1382ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، رجال العلامۃ الحلی، تصحیح محمدصادق بحرالعلوم، قم، الشریف الرضی، 1402ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، انتشارات ناصرخسرو، 1364ھ۔
  • «الوضّاعون واحادیثہم الموضوعۃ من كتاب الغدیر للشیخ الامینی تألیف السید رامی یوزبكی»، کتابخانہ مدرسہ فقاہت، مشاہدہ: 16 آذر 1398ہجری شمسی۔
  • «ال‍وضع فی الحدیث»، کتابخانہ دانشگاہ امام صادھ، مشاہدہ: 13 آذر 1398ہجری شمسی۔
  • مامقانی، عبداللہ، مقباس الہدایۃ فی علم الدرایۃ، قم، دلیل ما، 1385ہجری شمسی۔
  • مدیرشانہ‌چی، کاظم، علم الحدیث، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1381ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقائد، قم، دارالثقلین، 1378ہجری شمسی۔
  • معروف الحسنی، ہاشم، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1987ء/1407ھ۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال‌النجاشی، تحقیق موسی شبیری زنجانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1365ہجری شمسی۔
  • ہاشمی خویی، میرزاحبیب‌اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج‌البلاغہ، تہران، مکتبہ الاسلامیہ، 1400ھ۔