مندرجات کا رخ کریں

آیت اولو الامر

علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(آیت اطاعت سے رجوع مکرر)
آیت اولی الامر
آیت کی خصوصیات
آیت کا ناماولی الامر
سورہنساء
آیت نمبر59
پارہ5
صفحہ نمبر87
محل نزولمدینہ
موضوععقیدتی
مضمونعصمت اور ائمہؑ کی امامت


آیت اولو الامر یا آیت اطاعت (سورہ نساء آیت نمبر 59) میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو اللہ، رسول خداؐ اور اولو الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ شیعوں اور بعض اہل سنت علما جیسے فخر رازی کے مطابق یہ آیت، اولو الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔

شیعیان، ائمہؑ سے منقول روایات کے مطابق اولو الامر سے مراد ائمہ معصومینؑ ہیں اور اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ آیت ائمہؑ کی عصمت اور ان کی اطاعت واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے؛ لیکن اہل سنت کے ہاں اولو الامر کے سلسلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں خلفائے راشدین، ہر عادل حکمران، علمائے دین اور پوری امت اسلامی اولو الامر کے مصادیق میں سے شمار کیے جاتے ہیں۔

آیت کا متن اور ترجمہ

"یا أَیُّها الَّذِینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللّهَ وَأَطیعُوا الرَّسُول وَأُولی الأمرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی شَیء فَرُدُّوهُ إِلی اللّهِ وَالرَّسُول إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْیَومِ الآخر ذلِکَ خَیرٌ وَأَحْسَنُ تَأْویلاً"


اے ایمان لانے والو!فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں اولو الامر (فرماں روائی کے حق دار) ہیں لہذا اگر کسی بات میں تم میں جھگڑا ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی اچھا ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہے۔



سورہ نساء: آیت59

عصمت اور اولو الامر کی اطاعت کے وجوب پر دلالت

شیعہ مفسرین کی نظر میں آیت اولو الامر عصمت اولو الامر پر دلالت کرتی ہے۔[1] علامہ طباطبائی کے مطابق، اس آیت کریمہ میں اولو الامر کو فعل "اطیعوا" کو دہرائے بغیر "رسول خداؐ" پر عطف کیا گیا ہے؛ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس طرح بغیر کسی شرط و قید کے رسول خداؐ کی اطاعت واجب ہے بعینہ اولو الامر کی اطاعت بھی بلا شرط و قید واجب ہے۔[2] اگر اللہ تعالیٰ کسی کی غیر مشروط اطاعت کا حکم دیتا ہے تو لازماً وہ شخص معصوم ہوگا؛ کیونکہ اگر وہ معصوم نہ ہو اور گناہ کے ارتکاب کا حکم دے تو یہ تضاد گوئی اور اجتماع نقیضین ہے؛ بالفاظ دیگر ایک طرف سے اس کی اطاعت واجب ہے کیونکہ اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے اور دوسری طرف سے اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ گناہ کے ارتکاب کا حکم دے رہا ہے۔ [3] حالانکہ ایسا عقلی اعتبار سے درست نہیں۔ اہل سنت مفسر قرآن، فخر رازی کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ آیت اولو الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔ البتہ وہ ائمہ معصومینؑ کو اولو الامر کے مصادیق نہیں مانتے۔[4]

سلفیوں کے رہنما ابن تیمیہ[5] اور وہابی عالم دین ناصر القفاری[6] کا عقیدہ ہے کہ آیت اولو الامر کے ذیل میں یہ جملہ: «فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِی شَیْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَی اللهِ وَ الرَّسُولِ؛ پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع (یا جھگڑا) ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹاؤ۔» اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسول خداؐ کے علاوہ کوئی اور معصوم نہیں ہے؛ کیونکہ اس آیت میں مومنین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اختلاف کی صورت میں خدا اور رسولؑ کی طرف رجوع کریں۔ ان کے نقطہ نظر سے اگر رسول خداؐ کے علاوہ کوئی اور معصوم ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتا۔سلفی اور وہابی علما کے جواب میں کہا گیا ہے کہ آیت میں اختلاف سے مراد اسلام کے مجموعی احکام و قوانین میں اختلاف ہے جن کی تشریع خدا اور اس کے رسولؐ کے اختیار میں ہے اور ائمہ معصومینؑ ہمیشہ خدا اور رسول خداؐ کے احکام کو نافذ کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔[7] سورہ نساء کی آیت نمبر 83 کے مطابق ائمہ علیہم السلام کی طرف رجوع کرنا گویا خدا اور پیغمبرؐ کی طرف رجوع کرنے کے مترادف ہے؛ کیونکہ ائمہؑ شریعت کی حفاظت کرنے میں پیغمبر اکرمؐ کی طرح ہیں۔[8]

اولوالامر سے مراد کون لوگ ہیں؟

اولو الامر کے مصادیق کے سلسلے میں شیعہ سنی علما کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے: شیعہ علما کے مطابق اولو الامر سے مراد ائمہ معصومینؑ ہیں؛ جبکہ اہل سنت کے نزدیک خلفائے راشدین، کوئی بھی عادل حکمران اور عام علما اولو الامر کے مصادیق میں سے ہیں۔

ائمہ معصومینؑ

شیعہ منابع حدیثی میں[9] بکثرت روایات پائی جاتی ہیں جن سے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اولو الامر سے مراد ائمہ معصومینؑ ہیں؛[10] نیز اہل سنت کی کتب روائی میں بھی ایسی احادیث ملتی ہیں۔[11] شیعہ علما انہی روایات کی بنیاد پر اولو الامر سے بارہ امام مراد لیتے ہیں۔[12] ان میں سے بعض روایات یہ ہیں:

  1. جابر بن عبد اللہ انصاری نے اولو الامر کے بارے میں رسول اکرم(ص) سے سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا: وہ میرے جانشین اور میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں جن میں پہلا امام علیؑ ہیں؛ اس کے بعد پیغمبر خداؐ نے بارہویں امام تک ہر امام کا نام لیا۔[13]
  2. امام باقر(ع) آیت اولوالامر کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اولو الامر سے مراد ‌علی اور فاطمہ کی نسل سے آنے والے ائمہؑ ہیں، یہاں تک کہ روز قیامت بپا ہوجائے" امام باقرؑ نے ایک موقع پر فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے اولوالامر سے ہم ائمہؑ کو مراد لیا ہے اور تمام مؤمنین کو حکم دیا ہے کہ قیامت تک ہماری پیروی کریں"۔[14]
  3. امام صادق(ع) نے فرمایا: وہ یعنی اولوالامر سے مراد علی بن ابی طالب، حسن، حسین، علی بن الحسین، محمد بن علی اور جعفر یعنی میں، ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرو جس نے تمہارے ائمہ(ع) اور پیشواؤں کی شناخت ایسے وقت تمہیں عطا کی جبکہ لوگ ان کا انکار کرتے ہیں۔[15]

علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں کہ اولوالامر سے مراد وہ لوگ ہیں جو عصمت اور ان کے احکام پر عمل کرنا واجب ہونے کے اعتبار سے پیغمبرخداؐ کےمانند ہیں اور یہ امر ااس بات کے منافی نہیں ہے کہ اس کا مفہوم وسیع اور عام ہو لیکن اس کے مصادیق متعین اور محدود ہوں؛ جیسا کہ اسی آیت اولو الامر میں لفظ "رسول" کا مفہوم وسیع ہے؛ حالانکہ اس کا مد نظر صرف حضرت محمدؐ ہیں۔[16]

خلفائے راشدین اور ہرعادل حکمران

علمائے اہل سنت کے ہاں اولوالامر کے مصادیق کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ اولوالامر سے مراد خلفائے راشدین ہیں، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اولو الامر سے مراد دینی علما ہیں۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اولوالامر سے مراد سریہ کے سپہ سالار ہیں۔[17] اہل سنت مفسر زَمخشَری کے مطابق، اولوالامر سے مراد ہر وہ عادل حکمران ہے جو دینی معیارات کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے؛ جیسے خؒفائے راشدین اوروہ حکمران جو ان کی طرح عمل کرتے ہیں۔[18] فخر رازی ارباب حل و عقد کو اولوالامر کا مصداق سمجھتے ہیں جو اجماع امت کے ذریعے قانونی طور پر برسر اقتدار آتے ہیں۔[19]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن،‌ داراحیاء التراث العربی، ج3، ص236؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج3، ص100؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص391۔
  2. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص391۔
  3. مظفر، دلائل الصدق، مکتبة الذجاج، ج2، ص17۔
  4. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ہ، ج10، ص113-114۔
  5. ابن‌تیمیه، منهاج السنة النبویة، 1406ھ، ج3، ص381۔
  6. قفاری، ‌اصول مذهب الشیعة الامامیه، 1431ھ، ج2،‌ ص792۔
  7. ملاحظہ کیجیے: مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371شمسی، ج‏3، ص441؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج‏4، ص388 و 389۔
  8. طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج3، ص236؛ طبرسی، مجمع البيان، 1372شمسی، ج‏3، ص100۔
  9. ملاحظہ کیجیے: بحرانی، غایة المرام، 1422ھ، ج3، ص109-115۔
  10. مکارم شیرازی، آیات ولایت در قرآن، 1386شمسی، ص116۔
  11. ابن‌مردویه، مناقب علی بن ابی‌ طالب، 1424ھ، ص236؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص190 و 191۔
  12. طوسی، التبیان،‌ داراحیاء التراث العربی، ج3، ص236؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج3، ص100؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص399۔
  13. خزاز رازی، کفایه الاثر، 1401ھ، ص54-55؛ قندوزی، ینابیع الموده، 1422ھ، ج1، ص341۔
  14. بحرانی، البرهان، ص383 - 386۔
  15. عیاشی، تفسیر عیاشی، 1363شمسی، ص252، ح174۔
  16. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1390ھ، ج4، ص401۔
  17. ملاحظہ کیجیے: فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج10، ص113، 114۔
  18. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص524۔
  19. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج10، ص113۔

مآخذ

  • ابن‌ تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، چاپ اول، 1406ھ-1986ء۔
  • ابن‌ مردویہ اصفہانی، أبوبکراحمد بن موسی، مناقب علی بن ابی‌طالب(ع) و ما نزل من القرآن فی علی، تحقیق عبدالرزاق محمدحسین حرزالدین، قم، دارالحدیث، چاپ دوم، 1424ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، اسماعیلیان، بی‌تا۔
  • بحرانی، سید ہاشم، غایۃ المرام و حجۃ الخصام فی تعیین الامام، تحقیق سیدعلی عاشور، بیروت، مؤسسہ تاریخ اسلامی، چاپ اول، 1422ھ۔
  • حاکم حسکانى، عبیداللہ بن عبد اللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تہران، وزارۃ الثقافۃ و الإرشاد الإسلامی، چاپ اول، 1411ھ۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ الاثنی عشر، تصحیح: عبداللطیف حسینی کوہکمری، قم، بیدار، 1401ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت،‌ دار الکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ اعلمی،‌ چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن‌ حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح فضل اللہ یزدی و ہاشم رسولی محلاتی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن،‌ بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ اول، بی‌تا۔
  • عیاشی، محمد بن‌ مسعود، تفسیر عیاشی، تحقیق و تصحیح ہاشم رسولی محلاتی، تہران، مکتبہ علمیہ اسلامیہ، 1363ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • قفاری، ناصر عبداللہ بن علی، ‌اصول مذہب الشیعہ الامامیہ الاثنی عشریۃ؛ عرض و نقد، جیزہ، دارالرضا، چاپ چہارم، 1431ھ-2010ء۔
  • قندوزی، سلیمان بن ابرہیم، ینابیع المودۃ لذوی القربی، قم، اسوہ، 1422ھ۔
  • مظفر، محمدحسن، دلائل الصدق، تہران، مکتبۃ الذجاج، بی‌تا۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، آیات ولایت در قرآن، قم، انتشارات نسل جوان، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔