مندرجات کا رخ کریں

جلسہ استراحت

ویکی شیعہ سے

جلسہ استراحت یا جِلْسَۃُ الاستراحۃ، نماز میں پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد اور قیام کرنے سے پہلے سکون کی حالت میں تھوڑی دیر بیٹھ جانے کو کہا جاتا ہے۔[1]

علامہ حلی اور صاحب جواہر جیسے بعض فقہاء کے مطابق یہ عمل مشہور شیعہ علماء کے یہاں مستحب ہے۔[2] لیکن سید مرتضیٰ اجماع اور اصلِ احتیاط کی بنا پر جلسہ استراحت کو واجب سمجھتے ہیں۔[3] سید محمد کاظم طباطبائی یزدی نے اپنی کتاب العروۃ الوثقی میں جلسہ استراحت کو احتیاط کے مطابق قرار دیتے ہوئے اس کے واجب ہونے کے احتمال کو قوی قرار دیا ہے؛[4] تاہم آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ علامہ حلی نے احادیث اور اصل برائت پر عمل کرتے ہوئے اس فعل کے وجوب میں مناقشہ اور اختلاف کیا ہے۔[5]

بعض شیعہ مراجع تقلید (15ویں صدی ہجری) کے فتووں کے مطابق جلسہ استراحت احتیاط واجب جبکہ بعض دوسروں کے مطابق احتیاط مستحب ہے:[6] امام خمینی، سید محمد رضا گلپایگانی، لطف اللہ صافی گلپایگانی، سید علی سیستانی اور حسین نوری ہمدانی نے جلسہ استراحت کو احتیاط واجب قرار دیا ہے۔[7] جبکہ سید ابو القاسم خوئی، مرزا جواد تبریزی، محمد فاضل لنکرانی، محمد تقی بہجت، ناصر مکارم شیرازی اور سید موسیٰ شبیری زنجانی جیسے فقہا نے اسے احتیاط مستحب قرار دیا ہے۔[8]

فقہی نصوص میں جلسہ استراحت کے دوران مردوں کے لیے تَوَرُّک[9] اور عورتوں کے لیے تَرَبُّع[10] یا عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے تربع[11] کو مستحب قرار دیا ہے۔ بعض فقہاء کے مطابق"تَرَبُّع" کا مطلب چار زانو بیٹھنا ہے، جبکہ بعض دو زانو بیٹھنے کو تربع سمجھتے ہیں۔[12] جلسہ استراحت کے دوران حالتِ اقعاء کو مکروہ سمجھا گیا ہے۔[13] "اقعاء" وہ حالت ہے جس میں پاؤں کے پشت زمین پر رکھے جاتے ہیں اور کولہوں کو پاؤں کی ایڑیوں پر رکھا جاتا ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. نجفی، جواہر الکلام، 1421ھ، ج5، ص466۔
  2. علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1413ھ، ج2، ص171؛نجفی، جواہر الکلام، 1421ھ، ج5، ص466۔
  3. سید مرتضی، الانتصار، 1441ھ، ج1، ص312۔
  4. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص576۔
  5. علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1413ھ، ج2، ص172۔
  6. بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل مراجع، 1392شمسی، ج1، ص584۔
  7. بنی‌ہاشمی خمینی و اصولی، رسالہ توضیح المسائل مراجع، 1392شمسی، ج1، ص584۔
  8. بنی‌ہاشمی خمینی و اصولی، رسالہ توضیح المسائل مراجع، 1392شمسی، ج1، ص584۔
  9. نجفی، جواہر الکلام، 1421ھ، ج5، ص463۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، 1421ھ، ج5، ص465۔
  11. خویی، المستند، 1421ھ، ج14، ص261۔
  12. موسسہ دايرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1421ھ، ج2، ص436-437۔
  13. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص575۔
  14. موسسہ دايرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ج1، ص656۔

مآخذ

  • بنی‌ہاشمی‌ خمینی، محمدحسن و احسان اصولی، توضیح المسائل مراجع (مطابق با فتاوای سیزدہ نفر از مراجع معظم تقلید)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1392ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، المستند فی شرح العروۃ الوثقی، تحقیق مرتضی بروجردی، قم: مؤسسۃ احياء آثارالامام الخوئی، 1421ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الإنتصار لما إنفردت بہ الإمامیۃ، تحقیق حسین موسوی بروجردی، مشہد، مجمع البحوث الإسلامیۃ، 1441ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1419ھ۔
  • موسسہ دايرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، موسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ فی أحکام الشریعۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم‌، 1413ھ۔
  • نجفی، محمد حسن بن باقر، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، تحقیق مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت‌(ع)، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت(ع)، 1421ھ۔