آمین

ویکی شیعہ سے

آمین کے معنی "اے اللہ میری دعا قبول فرما" کے ہیں جو معمولا دعاؤں کے آخر میں بولا جاتا ہے۔ بعض اوقات "الہی آمین" بھی کہا جاتا ہے۔ فقہی اعتبار سے شیعوں کے نزدیک مبطلات نماز میں سے ایک سورہ حمد کی قرأت کے بعد آمین کہنا ہے۔

عبرانی زبان میں

عبرانی زبان میں یہ لفظ "ایسا ہی ہو" اور "صحیح ہے" کے معنی میں "ا م ن" کے مادے سے آتا ہے۔ اسی طرح قدیم سامی زبان میں ثابت اور استوار کے معنی میں آتا ہے لیکن دنیا میں اس لفظ کی ترویج عبرانی زبان سے ہوئی ہے۔

مسیحیت میں

یہودیوں کی سنت عیسائیوں کے کلیسا تک جا پہنچی اور لفظ آمین 119 دفعہ عہد جدید میں تکرار ہوا ہے۔ جس میں سے 52 جگہوں پر اس لفظ کا استعمال یہودیوں کے یہاں رائج استعمال سے قدرے مختلف ہے۔ اس کے بعد یہ لفظ کتاب مقدس کے ذریعے دنیا کے تقریباً تمام زندہ زبانوں میں منتشر ہوا[1]

کتاب مقدس میں لفظ آمین کے استعمال کا جائزہ لینے سے 4 معانی میں اس کے استعمال کا پتہ چلتا ہے:

  1. اقرار اور اپنی رضایت مندی کے اظہار نیز دعا اور عہد و پیمان کے ساتھ موافقت یا مشارکت کے لئے
  2. خدا سے دعاؤں کی قبولیت کی درخواست
  3. دعا اور عہد و پیمان کی تأیید اور تأکید کے لئے (آج کل دعا کے آخر میں اس لفظ کا استعمال اسی معنی میں ہے)
  4. حضرت عیسی کی ایک صفت یا نام کے طور پر[2]

عربی زبان میں

چونکہ پورے جزیرۃ العرب میں اپنے اپنے زمانے میں یہودیت اور عیسائیت پھیل گئی تھی اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعراب خاص کر مکہ اور مدینہ کے باسی اس لفظ سے آشنا تھے۔ اگرچہ زمان جاہلیت کے اشعار میں اس لفظ کی کوئی نشانی دکھائی نہیں دیتی اور دوسری طرف سے قرآن کریم میں بھی اس لفظ کا کوئی تذکرہ نہیں آیا ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ صدر اسلام کے مسلمان اس لفظ سے خوب واقف تھے[3] یہاں تک کہ پیغمبر اسلامؐ بھی اس لفظ کو استعمال کرتے تھے۔[4] البتہ تازہ مسلمان اس لفظ کے استعمال یا اس کے صحیح مفہوم سے کسی حد تک نامانوس تھے؛ اسی بنا پر پیغمبر اکرمؐ انہیں اس لفظ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں (آمین مؤمن بندوں پر خدا کا مُہر ہے) اور ابن عباس نے اس لفظ کی نحوی ترکیب بیان کی ہیں[5]

قرآن کی تفسیر میں اس لفظ کا تذکرہ

سورہ یونس کی آیت نمبر 88 اور 89 میں پہلی تفسیر میں اس لفظ کا تذکرہ آیا ہے: تقریباً تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ جب حضرت موسی نے فرعون کے لئے بد دعا کی تو آپ اور آپ کے بھائی حضرت ہارون نے آمین کہا تھا۔[6]

نماز میں آمین کہنا

اہل سنت نماز میں سورہ حمد کے بعد "اِهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقیمَ...[؟؟](ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت فرما) کے جواب میں آمین کہتے ہیں۔ اگر فرادا نماز پڑھ رہا ہو تو متعلقہ شخص تنہا اور اگر جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو تو امام جماعت کی طرف سے سورہ حمد ختم ہوتے ہی تمام مامومین ایک ساتھ آمین کہتے ہیں۔

شیعہ فقہاء کے مطابق اس مقام پر اس لفظ کے ادا کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے؛ کیونکہ یہ چیز پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے ہم تک نہیں پہنچی تو گویا یہ چیز نماز میں تبدیلی لانے کے مترادف ہے جس سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔[7]

لفظ آمین کے معنی اور اس کا مادہ

لفظ آمین سے بعض نئے الفاظ مشتق کئے گئے ہیں جیسے: "آمّینَ"، یا "الآمینَ" وغیرہ۔ ان دو الفاظ کو عرف عام میں لفظ آمین کے طبیعی تبدیلی کی نشانی قرار دی جا سکتی ہے؛ أمینَ غیر مانوس ترکیب ہے جو ممکن ہے ضرورت شعری کی بنا پر وجود میں آیا ہو۔ اسی طرح لفظ آمین کو باب تفعیل میں لے جا کر لفظ تأمین (= آمین کہنا) بنایا گیا ہے۔ [8]

اس لفظ کے نامانوس مادے کی وجہ سے لغت کے بہت سارے ماہرین اس باب میں غیر ضروری توجیہات کی طرف جانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ البتہ ان کی اکثریت نے اس لفظ کو اسم فعلی مبنی بر فتح قرار دیا ہے اور اس کا معنا کتاب مقدس کے مشہور معانی یعنی دوسرا اور تیسرا معنا قرار دیا ہے۔ چونکہ لفظ آمین کو خدا کے اسماء حسنی میں بھی شمار کیا گیا ہے،[9] اس بنا پر اس کے معنی کو عبرانی زبان کے چوتھے معنی سے اقتباس کیا گیا ہے۔

فارسی زبان میں بھی لفظ آمین اسی ترکیب اور معانی یعنی "اے اللہ میری دعا قبول فرما" میں رائج ہے۔[10]

حوالہ جات

  1. نک‌: جودائیکا، II/803؛ قاموس کتاب مقدس
  2. مکاشفۀ یوحنا، ۳: ۴
  3. ونسینک، یان، المعجم المفہرس، ذیل امن
  4. ونسینک، یان، المعجم المفہرس، ذیل امن
  5. ابن منظور، لسان العرب، ذیل امن؛ الموسوعہ الفقہیہ، ج۱، ص ۱۱۰ بہ بعد
  6. طبری، تفسیر، ج ۱۱، ص ۱۱۰
  7. طوسی، استبصار، ج ۱، ص ۳۱۸-۳۱۹؛ طوسی، تبیان، ج ۱، ص ۴۶؛ طبرسی، مجمع البیان،‌ج۱، ص ۶۵
  8. ابن منظور، لسان العرب، ذیل امن
  9. مثلاً ابن منظور، لسان العرب، ذیل امن
  10. دہخدا، لغت‌نامہ، ذیل آمین

مآخذ

  • ابن منظور، لسان العرب.
  • بستانی، فؤاد افرم، دایرة المعارف، بیروت، دار المعرفة، ۱۹۵۶ء
  • دهخدا، لغت‌ نامہ
  • طبرسی، مجمع البیان، بیروت، ۱۳۸۰ھ
  • طبری، محمد بن جریر، تفسیر، بیروت، ۱۴۰۴ق، ۱۱/۱۱۰.
  • طوسی، محمد بن حسن، استبصار، تهران، ۱۳۹۰ھ
  • طوسی، التبیان، بیروت، دار احیاء التراث العربی.
  • الموسوعہ الفقهیة، وزارة الاوقاف و الشؤون الاسلامیة، کویت، ۱۹۸۰ء
  • ونسینک، یان، المعجم المفهرس، لیدن، ۱۹۳۶م، ذیل «امن».
  • Americana
  • Britannica
  • Judaica