مندرجات کا رخ کریں

آمین

ویکی شیعہ سے

آمین کے معنی ہیں "قبول فرما"۔ یہ ایک دینی لفظ ہے جو دعا کی قبولیت کی درخواست کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت فقہ میں نماز کے دوران اس لفظ کے کہنے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اہل سنت فقہا کا عقیدہ ہے کہ نماز میں سورہ حمد کی قرائت کے بعد آمین کہنا واجب یا مستحب ہے؛ لیکن شیعہ فقہا کے فتوے کے مطابق نماز میں یہ لفظ کہنا حرام ہے اور اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ شیعہ روایات میں ائمہ معصومینؑ سے منقول ہے کہ نمازِ جماعت میں سورہ حمد کے بعد "آمین" کہنے کے بجائے "الحمد للہ" کہنا چاہیے۔

آمین کا مفہوم اور اس کی اہمیت

عربی زبان میں یہ لفظ "قبول کر" کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔[1] فارسی[2] اور دیگر زبانوں میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ عبرانی زبان سے عربی میں آیا ہے اور دونوں زبانوں میں اس کا استعمال دینی پہلو رکھتا ہے۔[3] یہ لفظ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے معانی میں سے ایک دعا کی قبولیت کی درخواست ہے۔[4]

نماز میں "آمین" کے استعمال کا مسئلہ شیعہ اور اہل سنت کے فقہی مذاہب کے درمیان اختلافی ہے۔ فقہ امامیہ میں سورہ حمد کے آخر میں لفظ "آمین" کہنا نماز کو باطل کرنے والی چیزوں میں شمار ہوتا ہے۔[5]

آمین کتب تفسیر میں

لفظ "آمین" قرآن میں استعمال نہیں ہوا؛ لیکن بعض تفسیری کتب میں سورہ یونس کی آیت 88 اور 89 کے ذیل میں آیا ہے کہ جب حضرت موسیؑ نے فرعون کے لیے بددعا کی تو انہوں نے اور ان کے بھائی ہارون نے "آمین" کہا۔[6] اسی طرح حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت منقول ہے کہ حضرت موسیٰ کی دعا کے بعد صرف ہارون ہی نہیں بلکہ فرشتوں نے بھی "آمین" کہا۔ اسی وقت خداوند نے فرمایا: تم دونوں (موسیٰ اور ہارون) کی دعا قبول ہوگئی۔[7]

نماز میں آمین کہنے کا فقہی حکم

نماز کے سلسلے میں ایک شرعی حکم آمین کہنا ہے۔ اہل سنت سورہ حمد کی قرائت کے بعد آمین کہتے ہیں۔ فرادی نماز میں خود مصلی اس لفظ کو ادا کرتا ہے جبکہ نماز جماعت کی صورت میں سب مامومین مل کر آمین کہتے ہیں۔ البتہ کہتے ہیں کہ اہل سنت کے بعض فرقوں کے ہاں آمین کہنا واجب یا مستحب نہیں ہے۔[8]

اہل سنت کے مقابلے میں شیعہ فقہاء کا نظریہ یہ ہے کہ چونکہ آمین کہنے کا عمل پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے ہم تک نہیں پہنچا ہے لہذا یہ چیز نماز میں تبدیلی لانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ فقہاء نماز میں آمین کہنے کو حرام سمجھتے ہوئے اسے بطلانِ نماز کا سبب قرار دیتے ہیں۔[9] تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ صاحبْ‌ جواہر کا کہنا ہے کہ مشہور بلکہ فقہائے امامیہ کے نزدیک اجماعی رائے یہ ہے کہ نماز میں "آمین" کہنا حرام ہے اور یہ نماز کو باطل کر دیتا ہے۔[10] اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ سورہ حمد کے ختم ہونے کے بعد "آمین" نمازِ واجب میں کہا جائے یا نمازِ مستحب میں؛ نیز چاہے امام جماعت کہے یا مأموم۔[11] اسی طرح اس میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ "آمین" اس نیت سے کہا جائے کہ یہ نماز کا حصہ ہے یا صرف دعا کی نیت سے۔[12] البتہ اگر بھول کر یا غلطی سے "آمین" کہہ دیا جائے یا تقیہ کی وجہ سے کہا جائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں؛ بلکہ تقیہ ضروری ہونےکی صورت میں اس کا کہنا واجب ہوجاتا ہے۔[13]

بعض روایات میں آمین کہنے کی سفارش

شیعہ بعض روایات میں "آمین" کہنے کی سفارش آئی ہے۔[14] اس کے مقابلے میں کچھ روایات میں آیا ہے کہ نمازِ جماعت میں سورہ حمد کے بعد "آمین" کہنے کے بجائے "الحمد للہ" کہا جائے۔[15] فقہائے امامیہ نے نماز میں آمین ترک کرنے پر اجماع کے پیش نظر کہا ہے کہ پہلی قسم کی روایات تقیہ کی بنیاد پر بیان کی گئی ہیں۔[16]

حوالہ جات

  1. جمعی از نویسندگان، موسوعۃ الفقہ الإسلامی طبقا لمذہب أہل البیت(ع)، 1381شمسی، ج1، ص280۔
  2. دہخدا، لغت‌نامہ، ذیل آمین۔
  3. معصومی و ابن الرسول، «بررسی تطبیقی واژہ آمین در دو زبان عربی و عبری»، پژوہش‌ہای زبان‌شناسی۔
  4. آذرنوش، «آمین»، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی
  5. سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج1، ص219؛ شہید اول، الدروس الشرعیہ، قم، جامعہ مدرسین، 1417ھ، ج1، ص174۔
  6. طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن (تفسیر الطبری)، 1404ھ، ج 11، ص110۔
  7. کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص510۔
  8. ابن قدامہ، المغنی، 1388ھ، ج1، ص352_353۔
  9. طوسی، استبصار، 1390ھ، ج1، ص318-319؛ عاملی، مفتاح الکرامہ، 1419ھ، ج7، ص119؛ نجفی، جواہرالکلام، 1363شمسی، ج10، ص6۔
  10. نجفی، جواہرالکلام، 1363شمسی، ج10، ص2۔
  11. علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج1، ص249۔
  12. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج1، ص151۔
  13. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج1، ص151۔
  14. ملاحظہ کیجیے: طوسی، استبصار، 1390ھ، ج1، ص319۔
  15. کلینی، کافی، 1407ھ، ج3، ص313؛ حرّ عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج6، ص67_68۔
  16. ملاحظہ کیجیے: طوسی، استبصار، 1390ھ، ج1، ص319۔

مآخذ

  • آذرنوش، آذرتاش، «آمین»، دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی۔ فایل مقالہ
  • ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، المغنی، قاہرہ، مکتبۃ القاہرہ، 1388ھ۔
  • جمعی از پژوہشگران زیر نظر محمود ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، قم، نشر مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ۔
  • جمعی از پژوہشگران زیر نظر محمود ہاشمی شاہرودی، موسوعۃ الفقہ الإسلامی طبقا لمذہب أہل البیت(ع)، قم، نشر مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، 1381ہجری شمسی۔
  • حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1409ھ۔
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامہ دہخدا۔
  • رضی‌الدین استرآبادی، محمد بن حسن، شرح الرضی علی الکافیہ، تہران، مؤسسۃ الصادق للطباعۃ و النشر، 1384ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، رسائل الشریف المرتضی، قم، دار القرآن الکریم، 1405ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1417ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تفسیر طبری، تحقیق: احمد محمد شاکر، بیروت، موسسہ الرسالہ، 1420ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الاستبصار فیما اختلف من الاخبار، تہران، دار الکتاب الاسلامیہ، 1363ہجری شمسی۔
  • عاملی، سید جواد بن محمد، مفتاح الکرامہ فی شرح قواعد العلامہ، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1419ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیہ علی مذہب الامامیہ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1420ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • معصومی، امیرصالح و ابن الرسول، سید محمدرضا، «بررسی تطبیقی واژہ آمین در دو زبان عربی و عبری»، پژوہش‌ہای زبان‌شناسی، شمارہ4، مرداد 1390ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام، بیروت، دار إحياء التراث العربی، 1262ہجری شمسی۔