عصر غیبت میں نماز جمعہ

ویکی شیعہ سے

عصر غیبت میں نماز جمعہ شیعہ فقہا کے مابین زیادہ اختلاف والے مسائل میں سے ایک ہے۔ اس بارے میں اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ امام کی غیبت میں نماز جمعہ ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور کیا جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے امام معصوم کی موجودگی یا اجازت ضروری ہے؟ شیعہ فقہاء کی آراء کو آیت اللہ بروجردی نے چار نظریات میں اور آیت اللہ مرتضی حائری یزدی نے سات نظریات میں تقسیم کیا ہے۔ بعض فقہاء نے اسے حرام، بعض نے وجوب تعیینی اور بعض نے وجوب تخییری کا فتوا دیا ہے۔ وجوب تخییری کے نظرئے نے 13ویں صدی ہجری کے بعد سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے اور اسے ایک رائج نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق جمعہ کے دن نماز جمعہ یا نماز ظہر میں سے ایک کا پڑھنا کافی ہے۔

عصر غیبت میں نماز جمعہ کے حکم کے بارے میں اختلاف

عصر غیبت میں نماز جمعہ ادا کرنے کا مسئلہ شیعہ فقہاء کے درمیان متنازعہ مسائل میں سے ایک ہے، جن میں سے بعض نے اس کی حرمت پر، بعض نے اس کے واجب ہونے پر اور بعض نے اسے وجوب تعیینی اور بعض نے وجوب تخییری کا فتوا دیا ہے۔[1]

عصر غیبت میں نماز جمعہ کے بارے میں شیعہ فقہا کے آراء

چودہویں صدی ہجری کے فقیہ آیت اللہ بروجردی نے اپنی کتاب میں اس بارے میں چار مختلف اقوال نقل کیے ہیں:

  1. تمام مسلمانوں کے لیے جمعہ کی نماز پڑھنا جائز بلکہ واجب کفایی ہے۔
  2. نماز جمعہ پڑھنے کے لیے امام یا اس کے مقرر کردہ شخص کی موجودگی شرط ہے، اس لیے عصر غیبت میں جمعہ کی نماز حرام ہے۔
  3. معصوم امام کی اجازت شرط ہے اور یہ اجازت فقہاء کو دی گئی ہے۔
  4. معصوم امام کی اجازت شرط ہے اور یہ اجازت تمام مومنین کو دی گئی ہے۔[2]

مرتضی حائری (متوفی: 1364شمسی) نے شیعہ فقہاء کے سات نظریات مرتب کیے ہیں[3] جو مندرجہ ذیل ہیں:

  1. امام کی غیبت میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے اور نماز باطل ہے۔[4]
  2. جمعہ کی نماز واجب تخییری ہے، لیکن اگر نماز پڑھی جائے تو اس میں شرکت کرنا واجب ہے۔[5]
  3. جمعہ کی نماز پڑھنا واجب تخییری ہے، لیکن اس میں شرکت واجب نہیں ہے، اور مکلف نماز ظہر پڑھ سکتا ہے۔[6]
  4. مجتہدوں کے لیے جمعہ کی نماز قائم کرنا واجب تخییری ہے۔[7]
  5. جمعہ کی نماز قائم کرنا فقیہ کے لیے واجب اور دوسروں کے لیے حرام ہے۔[8]
  6. اگر امام جمعہ عادل ہو تو نماز جمعہ ہر ایک پر واجب تعیینی ہے۔[9]
  7. عصرِ غیبت میں جمعہ کی نماز پڑھنا حرام اور نماز باطل ہے۔[10]

محقق کرکی نے سنہ 921 ہجری میں امام معصوم کی غیبت میں نماز جمعہ پڑھنا جائز ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ایک کتاب لکھی، جو دراصل ولایت فقیہ کے موضوع پر لکھا جانے والا ایک رسالہ شمار ہوتا ہے۔ کرکی کے کچھ ہم عصر فقہا اور بعض شاگردوں نے ان کے نظریہ پر نقد کرتے ہوئے غیبت کے دور میں نماز جمعہ کی حرمت یا وجوب عینی کے رد کو ثابت کرتے ہوئے رسالے لکھے ہیں۔[11]

شیخ جواد تبریزی نے اپنے درس خارج میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اس بحث میں دو مسائل میں فرق کیا جانا چاہیے؛ ایک یہ کہ واجب نماز جمعہ کا کیا حکم ہے؟ دوسرا یہ کہ نماز جمعہ قائم ہونے کی صورت میں عام مسلمانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟[12]

حرمت

سَلاّر دیلمی[13] اور ابن ادریس حلّی[14] جیسے چند متقدم شیعہ فقہاء اور ان کی پیروی کرتے ہوئے فاضل ہندی جیسے متاخر فقہا، جمعہ کی نماز کے جائز ہونے کو معصوم امام کی موجودگی یا اس کے مقرر کردہ شخص کی موجودگی سے مشروط سمجھتے ہیں۔[15] نماز جمعہ حرام ہونے کے بارے میں فتویٰ دینے والوں کا استدلال ہے کہ امام کی موجودگی یا اجازت اس کی نماز جمعہ صحیح ہونے کے لیے شرط ہے اور عصر غیبت میں ایسی کوئی اجازت نہیں ہے اور اسی لئے وہ نماز جمعہ کو اس عصر میں جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[16]

نیز بعض نے کہا ہے کہ نماز جمعہ قائم کرنے اور جہاد کا حکم دینے جیسے امور انجام دینے کے لئے ولی فقیہ کو معصوم کی طرف سے وسیع اختیارات (بَسطِ ید) کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسی نیابت امامؑ کی طرف سے فقیہ کو نہیں دی گئی ہے۔[17] جو لوگ اسے حرام سمجھتے ہیں ان کے دلائل میں ایسی احادیث ہیں جن میں "امام" اور "امام عادل تقی" جیسے الفاظ مذکور ہیں، اور کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کے سلسلے میں امام کی مخالفت ہلاکت کا باعث بنتی ہے، یا امامِ عادل اور پرہیزگار کی موجودگی کے بغیر نماز جمعہ درست نہیں ہے۔[18] امام سجادؑ نے بھی صحیفہ سجادیہ[19] میں نماز جمعہ کی امامت کو خدا کے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے۔ بعض متاخر فقہاء نے ان احادیث میں مذکور تعبیروں سے مراد معصوم امام نہیں لیا ہے اور اس کو عام مفاہیم سے تفسیر کیا ہے جن میں امام جماعت بھی شامل ہوسکتا ہے۔ ان کے نزدیک ان احادیث میں سب سے زیادہ تاکید نماز کو جماعت کے ساتھ قائم کرنا ضروری ہونے پر تھی۔[20]

وجوب تعیینی

عصر غیبت میں نماز جمعہ کے بارے میں ایک اور نظریہ، اس نماز کا واجب تعیینی ہونا ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک اگر جمعہ کی نماز کی شرائط موجود ہوں، جیسے امامؑ کی موجودگی کا دور ہو تو اس صورت میں نماز قائم کرنا واجب ہے، اور اس کے لیے امام معصوم کی جانب سے نصبِ عام یا نصبِ خاص کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیبت کے زمانے میں فتوا دینے اور قضاوت کرنے کی طرح نماز جمعہ کا قیام بھی فقہاء کے فرائض اور ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔[21] عصر غیبت میں نماز جمعہ کے وجوب کے اکثر قائلین اور طرفداروں کا جھکاؤ اخباری مسلک کی طرف ہے، اگرچہ شہید ثانی اور بعض دیگر نامور اصولی علما بھی اس نظرئے کے طرفداروں میں سے ہیں۔[21]

شیعہ فقہ کے زیادہ تر قدیم مآخذ جو اس وقت دستیاب ہیں، ان میں اگرچہ بعض احادیث کی بنیاد پر نماز جمعہ کے واجب ہونے پر تاکید کی گئی ہے، لیکن معصوم امام یا اس کے نائب کی امامت شرط ہونے کی تصریح نہیں ہوئی ہے۔[22] ان تمام باتوں کے باوجود، بعد کی صدیوں کے امامیہ فقہاء نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے ایک عادل حاکم کی موجودگی یا ان کی اجازت[23] یا عادل امام[24] کی موجودگی کو شرط قرار دیا ہے۔ امام جمعہ کے لیے عدالت کی شرط صرف شیعہ فقہاء نے بیان کی ہے اور اہل سنت اس کے قائل نہیں ہیں۔[25]

اگرچہ غیبت کبری کے آغاز سے ہی فقہا کے درمیان نماز جمعہ کے بارے میں واجب تعیینی کا فتوا کم و بیش زیر بحث رہا ہے،[26] لیکن اس رائے کو شہید ثانی نے دسویں صدی ہجری سنجیدگی سے اٹھایا۔[27] بعض فقہاء بشمول ان کی نسل سے صاحب مدارک نے بھی ان کی پیروی کی ہے۔[28] اور یہ رائے صفوی دور میں خاص طور پر اس دور کی سماجی اور سیاسی صورت حال کے پیش نظر رائج ہوئی۔[29]

وجوب تخییری

شیعہ فقہا میں سے بہت سارے متاخرین اور درمیانی ادوار کے فقہا کا کہنا ہے کہ عصر غیبت میں نماز جمعہ واجب تخییری ہے۔ مُحقق حلّی،[30] علامہ حِلّی،[31] ابن فہد حلّی،[32] شہید اول،[33] اور محقق کرکی کا شمار ان فقہا میں ہوتا ہے۔[34] نماز جمعہ کا واجب تخییری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کی دوپہر کو ضروری ہے کہ نماز ظہر یا نماز جمعہ سے کوئی ایک نماز پڑھی جائے۔[35] واجب تخییری کے طرفداروں میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اگرچہ نماز پڑھنا اختیاری ہے، لیکن اگر جمعہ کی نماز قائم ہو تو اس میں شرکت کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کہا گیا ہے کہ ان تمام فقہاء کا قول یہ ہے کہ نماز جمعہ تشکیل پانے کی صورت میں بھی اس میں شرکت کرنا واجب نہیں ہے۔[36]

وجوب تخییری کا نظریہ فقہائے متاخر (13ویں صدی کے بعد سے) کے درمیان مقبول ہوگیا ہے۔[37] اور کلی طور پر اصولی فقہا کا رجحان نماز جمعہ کے واجب تخییری ہونے کی طرف زیادہ ہے اگرچہ ان میں سے بعض حرام کے بھی قائل ہوئے ہیں۔[38] ائمہ کے اصحاب اور متقدم فقہا کا جمعہ قائم نہ کرنے کی سیرت کو نماز جمعہ واجب تعیینی نہ ہونے پر دلیل قرار دی گئی ہے۔[39]

نماز جمعہ کے قیام کا جواز

عصر غیبت میں نماز جمعہ قائم کرنے کے بارے میں چوتھا نظریہ یہ ہے کہ اس دوران جمعہ پڑھنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور جس نے جمعہ کی نماز پڑھی اس نے بدعت یا حرام کام نہیں کیا۔ . لیکن یہ نماز، ظہر کی نماز کی جگہ نہیں لے سکتی، اور جو لوگ جمعہ پڑھتے ہیں انہیں ظہر کی نماز بھی پڑھنی چاہیے۔[40]

14ویں اور 15ویں صدی ہجری کے فقہا کے فتوے

14ویں اور 15ویں صدی ہجری میں، اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل اور عراق میں بعثی حکومت کے زوال کی وجہ سے دو اہم شیعہ ممالک کی حیثیت سے نماز جمعہ کے قیام پر زیادہ توجہ دی گئی۔

وجوب تعیینی نماز جمعہ

مرتضیٰ حائری یزدی ان چند مشہور فقہاء میں سے ایک ہیں جو متاخرین کے دور میں نماز جمعہ کو واجب عینی اور تعیینی سمجھتے ہیں۔[41] سید محمد باقر صدر (1359) کا بھی عقیدہ ہے کہ سلطان عادل کی موجودگی میں جمعہ کی نماز واجب تعیینی ہے اور سلطان عادل کے بغیر یہ واجب تخییری ہے، لیکن اس صورت میں بھی اگر جمعہ کی نماز کوئی عادل شخص قائم کرے تو مکلف پر نماز میں شرکت واجب ہے۔[42] سید باقر صدر کے شاگرد سید کاظم حائری بھی اپنے استاد کے نظرئے کے موافق ہیں اور جمعہ کی نماز کو سلطان عادل کی موجودگی میں واجب سمجھتے ہیں۔[43] سید محمد صدر کا کہنا ہے کہ اگر کوئی معصوم امام، عادل حکمران یا کوئی فقیہ نماز جمعہ کا حکم دے تو جمعہ کی نماز واجب ہوگی۔[44]

وجوب تخییری

امام خمینی، اراکی، فاضل لنکرانی، جواد تبریزی، حسین نوری، ناصر مکارم شیرازی،[45] سید علی خامنہ ای،[46] سیستانی،[47] حسین مظاہری،[48] جوادی آملی،[49] وحید خراسانی[50] نماز جمعہ قائم کرنے کو واجب تخییری سمجھتے ہیں۔ یعنی مکلف کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جمعہ کی نماز پڑھے یا نمازِ ظہر بجا لائے۔[51] محمدتقی بہجت بھی واجب تخییری ہونے کو مانتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امام جمعہ کے لیے فقیہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگرچہ احتیاط یہ ہے کہ کسی فقیہ کی اقتدا میں پڑھائی جائے۔[52]

نماز جمعہ کا احتیاط واجب ہونا

معاصر مرجع تقلید جواد تبریزی نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ اگر جمعہ کی نماز اس کی شرائط کے ساتھ ادا کی جائے تو احتیاط کی بنا پر اس میں شرکت واجب ہے۔[53] [[سید موسی شبیری زنجانی] کا بھی عقیدہ ہے کہ اگر نماز جمعہ اس کی شرائط کے ساتھ ادا کی جائے تو ظہر کی نماز ادا کرنا احتیاط کے خلاف ہے۔ اسی طرح جو لوگ نماز میں شریک ہوتے ہیں انہیں احتیاط کے طور پر ظہر کی نماز بھی پڑھنی چاہئے۔[54] حسین علی منتظری کا بھی خیال ہے کہ اگر نماز جمعہ کی شرائط موجود ہوں تو احتیاط کے طور پر نماز جمعہ قائم کرنا واجب ہے اور اسی طرح اس میں شرکت بھی واجب ہے۔[55] ہاشمی شاہرودی کا بھی یہی فتوی ہے۔[56]

نماز جمعے کا جواز

آیت اللہ گلپایگانی اور صافی گلپائگانی کا عقیدہ ہے کہ عصر غیبت میں نماز جمعہ قائم کرنا جائز ہے، لیکن نماز کسی عادل فقیہ کی اجازت سے پڑھی جائے اور جو لوگ نماز میں شرکت کرتے ہیں احتیاط واجب کی بنا پر وہ نماز ظہر بھی پڑھیں۔[57]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: رضانژاد، صلاۃ الجمعہ، 1415ق، ص28.
  2. بروجردی، البدر الزاہر، 1362ش، ص32.
  3. حائری، صلاۃ الجمعہ، 1377ش، ص121-122.
  4. حائری، صلاۃ الجمعہ، 1377ش، ص121.
  5. حائری، صلاۃ الجمعہ، 1377ش، ص122.
  6. حائری، صلاۃ الجمعہ، 1377ش، ص122.
  7. حائری، صلاۃ الجمعہ، 1377ش، ص122.
  8. حائری، صلاۃ الجمعہ، 1377ش، ص122.
  9. حائری، صلاۃ الجمعہ، 1377ش، ص122.
  10. حائری، صلاۃ الجمعہ، 1377ش، ص122.
  11. جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، 1372ش، ص37-38؛ جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، 1379ش، ج3، ص251.
  12. تبریزی، «حکم نماز جمعہ در عصر غیبت»، ص82-83.
  13. رضانژاد، صلاۃ الجمعہ، 1415ق، ص77.
  14. ابن ادریس حلی، السرائر، قم، ج1، ص304.
  15. فاضل ہندی، کشف اللثام، تہران، ج1، ص246-248؛ طباطبائی، ریاض المسائل، بیروت، ج4، ص73-75؛ نراقی، مستند الشیعۃ، 1415ق، ج6، ص60؛ خوانساری، جامع المدارک، 1355ق، ج1، ص524.
  16. فاضل ہندی، کشف اللثام، تہران، ج1، ص246-248؛ طباطبائی، ریاض المسائل، بیروت، ج4، ص73-75؛ نراقی، مستند الشیعۃ، 1415ق، ج6، ص60؛ خوانساری، جامع المدارک، 1355ق، ج1، ص524.
  17. بروجردی، البدر الزاہر، 1362ش، ص57-58.
  18. قاضی نعمان، دعائم الاسلام، 1416ق، ج1، ص234؛ نوری، مستدرک الوسائل، قم، ج6، ص13-14.
  19. الصحیفۃ السجادیۃ، 1380ش، ص474.
  20. ملاحظہ کریں:حرعاملی، وسائل الشیعہ، قم، ج7، ص310.
  21. 21.0 21.1 برای دیگر قائلان و تفاصیل ادلہ: شہید ثانی، الروضۃ البہیہ، 1403ق، ج1، ص299-301؛ فیض کاشانی، الشہاب الثاقب فی وجوب صلاۃ الجمعۃ العینی، 1401ق، ص47-102؛ آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، 1403ق، ج15، ص63، 67، 73؛ جابری، صلاۃ الجمعہ: تاریخیاً و فقہیاً، 1376ش، ص54-55.
  22. ملاحظہ کریں:کلینی، کافی، 1401ق، ج3، ص418-419؛ شیخ صدوق، الامالی، 1417ق، ص573.
  23. شیخ مفید، المقنعۃ، 1410ق، ص676؛ سید مرتضی، مسائل الناصریات، 1417ق، ص265؛ شیخ طوسی، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، 1387ش، ج1، ص143.
  24. سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، قم، ج1، ص272، ج3، ص41.
  25. محقق حلی، المعتبر فی شرح المختصر، 1364ش، ج2، ص279-280.
  26. رضانژاد، صلاۃ الجمعہ، 1415ق، ص29-65.
  27. شہید ثانی، رسائل، قم، ص197.
  28. موسوی عاملی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، 1410ق، ج4، ص25.
  29. یزدی، الحجۃ فی وجوب صلوۃ الجمعۃ، چاپ جواد مدرسی، ص53-54.
  30. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1409ق، ج1، ص76.
  31. علامہ حلی، مختلف الشیعہ، قم، ج2، ص238-239.
  32. ابن فہد حلی، المہذب البارع فی شرح المختصر النافع، قم، ج1، ص414.
  33. شہید اول، الدروس الشرعیہ، قم، ج1، ص186.
  34. محقق کرکی، رسائل المحقق الکرکی، قم، ج1 ص158-171.
  35. نراقی، مستند الشیعۃ، 1415ق، ج6، ص59؛ توضیح المسائل مراجع، 1378ش، ج1، ص871 -872؛ علامہ حلی، تذکرۃ الفقہا، 1414ق، ج4، ص27؛ محقق کرکی، رسائل المحقق الکرکی، قم، ص163؛ حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، قم، ج8، ص216.
  36. بروجردی، البدر الزاہر، 1362ش، ص122.
  37. کاشف الغطا، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ، 1380ش، ج3، ص248؛ نجفی، جواہر الکلام، 1981م، ج11، ص151؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، بیروت، ج1، ص205؛ برای آگاہی از دیگر قائلان رک: دانش پژوہ، فہرست کتابخانہ مرکزی دانشگاہ تہران، ج14، ص3604.
  38. جعفریان، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی، 1372ش، ص37.
  39. برای تفاصیل ادلہ رک: مبلغی، «عناصر تأثیرگذار در وجوب تعیینی نماز جمعہ در روش اخباریان»، 1383ش، ص211-216.
  40. تبریزی، «حکم نماز جمعہ در عصر غیبت»، ص77.
  41. حائری، صلاۃ الجمعہ، 1377ش، ص155.
  42. صدر، الفتاوی الواضحہ، 1403ق، ص381.
  43. حائری، «نماز جمعہ در حکومت اسلامی»، ص66.
  44. صدر، ماوراء الفقہ، 1420ق، ج1، ص462.
  45. بنی ہاشمی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص842.
  46. بنی ہاشمی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص876.
  47. بنی ہاشمی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص861.
  48. مظاہری، رسالہ توضیح المسائل، 1389ش، ص183. مسئلہ1157.
  49. جوادی آملی، رسالہ توضیح المسائل، ص548.
  50. وحید خراسانی، رسالہ توضیح المسائل، 1388ش، ص136. مسئلہ 739.
  51. تبریزی، «حکم نماز جمعہ در عصر غیبت»، ص76.
  52. بنی ہاشمی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص872.
  53. بنی ہاشمی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص842.
  54. شبیری زنجانی، رسالہ توضیح المسائل، 1388ش، ص162، مسئلہ 742.
  55. منتظری، رسالہ توضیح المسائل، ص239، مسئلہ 1346.
  56. ہاشمی شاہرودی، توضیح المسائل، 1390ش، ص168.
  57. بنی ہاشمی، توضیح المسائل مراجع، ج1، ص862.

مآخذ

  • الصحیفۃ السجادیۃ، قم، چاپ محمدجواد حسینی جلالی، 1380ہجری شمسی۔
  • آقابزرگ طہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، بیروت، چاپ علینقی منزوی و احمد منزوی، 1403ق/1983م.
  • امام خمینی، سید روح اللّہ، تحریر الوسیلہ، بیروت، 1407ق-1987م.
  • بروجردی، سید حسین، البدر الزاہر فی صلاۃ الجمعۃ و المسافر، تقریرات: حسینعلی منتظری، قم، دفتر آیت اللہ منتظری، 1362ہجری شمسی۔
  • تبریزی، جواد، «حکم نماز جمعہ در عصر غیبت»، در مجلہ حکومت اسلامی، شمارہ 32، تابستان 1383ہجری شمسی۔
  • بنی ہاشمی خمینی، محمدحسن، توضیح المسائل مراجع: مطابق با فتاوای دوازدہ نفر از مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1378ہجری شمسی۔
  • جابری، کاظم، صلاۃ الجمعہ: تاریخیاً و فقہیاً، قم، 1376ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، نماز جمعہ: زمینہ ہای تاریخی و آگاہی ہای کتابشناسی، تہران، شورای سیاستگذاری ائمہ جمعہ، 1372ہجری شمسی۔
  • حائری، سید کاظم، «نماز جمعہ در حکومت اسلامی»، در مجلہ حکومت اسلامی، شمارہ 32، تابستان 1383ہجری شمسی۔
  • حائری یزدی، مرتضی، صلاۃ الجمعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1377ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، 1409-1412ھ۔
  • حسینی عاملی، محمدجواد بن محمد، مفتاح الکرامۃ فی شرح قواعد العلامۃ، قم، چاپ افست، موسسہ آل البیت.
  • ابن ادریس حلی، محمد بن احمد، السرائر الحاوی لتحریرالفتاوی، قم، 1410-1411ھ۔
  • ابن فہد حلی، احمد بن محمد المہذب البارع فی شرح المختصر النافع، قم، چاپ مجتبی عراقی، 1407-1413ھ۔
  • خوانساری، احمد، جامع المدارک فی شرح المختصر النافع، تعلیق علی اکبر غفاری، ج1، تہران، 1355ہجری شمسی۔
  • دانش پژوہ، محمدتقی، فہرست کتابخانہ مرکزی دانشگاہ تہران، ج14، تہران، 1340ہجری شمسی۔
  • رازی قزوینی، عبدالجلیل، نقض، تحقیق: میرجلال الدین محدث ارموی، قم، دار الحدیث، 1391ہجری شمسی۔
  • رضانژاد، عزالدین، صلاۃ الجمعہ: دراسۃ فقہیۃ و تاریخیۃ، قم، 1415ھ۔
  • سلاّر دیلمی، حمزہ بن عبدالعزیز، المراسم العلویۃ فی الاحکام النبویۃ، بیروت، چاپ محسن حسینی امینی، 1414ق/1994ء.
  • سید مرتضی، علی بن حسین، رسائل الشریف المرتضی، قم، چاپ مہدی رجائی، 1405-1410ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، مسائل الناصریات، تہران، 1417ق/ 1997ء.
  • شبیری زنجانی، سید موسی، رسالہ توضیح المسائل، قم، سلسبیل، 1388ہجری شمسی۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، قم، 1412-1414ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، بیروت، چاپ محمد کلانتر، 1403ق/1983ء.
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، رسائل الشہید الثانی، قم، 1379-1380ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، قم، 1417ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، ج1، تہران، چاپ محمدتقی کشفی، 1387ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، 1410ھ۔
  • صدر، سید محمد، ماوراء الفقہ، بیروت، دار الاضواء، 1420ھ۔
  • صدر، سید محمدباقر، الفتاوی الواضحہ وفقا لمذہب اہل البیت، بیروت، دار التعارف، 1403ھ۔
  • طباطبایی، علی بن محمدعلی، ریاض المسائل فی بیان الاحکام بالدّلائل، بیروت، 1412-1414ق/1992-1993ء.
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، 1414ھ۔
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، قم، 1412ق- 1420ھ۔
  • فاضل ہندی، محمد بن حسن، کشف اللثام، تہران، چاپ سنگی، 1271ق- 1274ق چاپ افست، قم، 1405ھ۔
  • فیض کاشانی، محمدبن شاہ مرتضی، الشہاب الثاقب فی وجوب صلاۃ الجمعۃ العینی، قم، 1401ھ۔
  • قاضی نعمان، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام، بیروت، چاپ عارف تامر، 1416ق/1995م.
  • كلینی، محمد بن یعقوب، الكافی، تصحیح: علی اكبر غفاری، بیروت، 1401ھ۔
  • کاشف الغطاء، جعفر بن خضر، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغراء، قم، بوستان کتاب، 1380ہجری شمسی۔
  • مبلغی، احمد، «عناصر تأثیرگذار در وجوب تعیینی نماز جمعہ در روش اخباریان»، در مجلہ حکومت اسلامی، شمارہ 2، تابستان 1383ہجری شمسی۔
  • محقق حلّی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، 1364ہجری شمسی۔
  • محقق حلّی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تہران، چاپ صادق شیرازی، 1409ھ۔
  • محقق کرکی، علی بن حسین، رسائل المحقق الکرکی، تحقیق محمد حسون، قم، 1409ھ۔
  • مظاہری، حسین، رسالہ توضیح المسائل، مؤسسہ اصفہان، فرہنگی الزہرا، 1389ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، رسالہ توضیح المسائل، تہران، انتشارات سرایی، 1381ہجری شمسی۔
  • موسوی عاملی، محمد بن علی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، قم، 1410ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، ج11، بیروت، چاپ عباس قوچانی، 1981م.
  • نجفی کازرونی، سید محمدباقر، «مقدمہ ہمپای انقلاب»، ہمپای انقلاب: خطبہ ہای نماز جمعہ حضرت آیت اللہ العظمی موسوی اردبیلی، قم، دانشگاہ مفید، 1385ہجری شمسی۔
  • نراقی، احمد بن محمدمہدی، مستند الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، قم، ج6، 1415ھ۔
  • نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، 1407-1408ھ۔
  • وحید خراسانی، حسین، رسالہ توضیح المسائل، قم، مدرسۃ الامام باقر العلوم(ع)، 1388ہجری شمسی۔
  • ہاشمی شاہرودی، سید محمود، رسالہ توضیح المسائل، قم، بنیاد فقہ و معارف اہل بیت، 1390ہجری شمسی۔
  • یزدی، محمدمقیم بن محمدعلی، الحجۃ فی وجوب صلوۃ الجمعۃ فی زمن الغیبۃ، چاپ جواد مدرسی.