حنوط

فاقد تصویر
غیر سلیس
ویکی شیعہ سے

حنوط کا مطلب مسلمان میت کے سات (7) اعضاء سجدہ پر کافور مَلنا ہے۔ یہ عمل واجب ہے اور حنوط کو تربت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مخلوط کرنا مستحب ہے۔

مفہوم کی وضاحت

حنوط ہر قسم کی خوشبو کو کہتے ہیں کہ جو میت کے بدن یا کفن کو، خوشبودار کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن فقہی کتب میں، صرف کافور ملنے کے معنی میں آیا ہے۔ میت کے بدن پہ کافور ملنے کےعمل کو اصطلاح میں تحنیط (حنوط کرنا) کہا جاتا ہے [1] اور اس کی تفصیل، فقہ کے باب طہارت میں بیان ہوئی ہے۔

احکام

مسلمان میت کے بدن پر کافور لگانا واجب ہے،[2] لیکن مُحرم میت کو حنوط کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ محرم شخص (جو شخص حالت احرام میں ہو) کے لیے کسی بھی قسم کی خوشبو کا استعمال حرام ہے۔ البتہ وہ خاتون جوعدّہ وفات میں ہو اور معتکف (اعتکاف کی حالت میں ہو) کے لیے اگرچہ خوشبو کا استعمال حرام ہے لیکن اس مسئلہ میں مُحرم شخص کی طرح نہیں ہیں بلکہ ان کا حنوط واجب ہے۔[3]

  • بعض فقہاء نے میت کے اعضاء بدن پر کافور ملنے کو واجب قرار دیا ہے اور بعض نے صرف اعضاء سے مس کرنا کافی بتایا ہے اور ملنے کے عمل کو مستحب جانا ہے۔[4]
  • اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ میت کو حنوط کفن سے پہلے دیا جائے یا کفن کے بعد، یا لنگ پہنانے کے بعد اور پیراہن پہنانے سے پہلے، یا پھر ان تمام صورتوں میں جائز ہے، اگرچہ بہتر یہ ہے کہ حنوط، کفن سے پہلے انجام دیا جائے.[5]
  • اگر کافور مہیا نہ ہو سکے، تو میت کو بغیر حنوط کے دفن کردیا جائے، اگرچہ جسم کو ذریرہ(خوشبو کا مادہ) کے ذریعہ بھی معطر کرنا جاِئز ہے لیکن حنوط میں شمار نہیں ہوگا۔ ذریرہ اور کافور کے علاوہ، میت کے جسم کو کسی اور چیز سے خوشبو لگانے کے سلسلے میں کراہت یا حرمت (مکروہ یا حرام) کے مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ حنوط میں، کافور کو ذریرہ کےساتہ مخلوط کرنا جائز ہے۔[6]
  • کافور کی مقدار کم ہو، اگرغسل میت اور حنوط، دونوں میں استعمال کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں، غسل کو ترجیح دی جائیگی اوراسی طرح پیشانی اور جسم کے دوسرے اعضاء کے درمیان، پیشانی کا حنوط مقدم ہے.[7]

مقامات حنوط

حنوط کے واجب مقامات، سات اعضاء سجدہ ہیں یعنی پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور پیروں کے انگوٹھے، اور بعض فقہاء کے نظریہ کے مطابق، ناک کا اگلا حصہ بھی شامل ہے۔[8]

بعض فقہاء، ناک کے اگلے حصہ کے حنوط کو مستحب جانتے ہیں جیسے کہ بعض فقہاء نے زیربغل اور گلے کی خالی جگہوں، زیر زانو، جوڑوں پر، پیروں کے تلووں پر، ہتھیلی کی پشت پہ اور جسم کے ہر اس عضو پرکہ جہاں پسینہ آتا ہے اور بدبو کرتا ہے مستحب جانا ہے۔[9] مستحب ہے کہ اضافی (ضرورت کے بعد بچنے کی صورت میں) حنوط کو میت کے سینہ پر رکھ دیا جائے۔[10] میت کی آنکھ، کان اور ناک کے اندر کافور ڈالنا مکروہ ہے۔[11]

مقدارحنوط

مشہور نظریہ، یہ ہے کہ حنوط کی واجب مقدار اتنی ہے کہ حنوط کہا جائے۔ اس کے مقابل بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایک درہم کے اندازہ کے مطابق ہونا چاہیے اور اس سے کم مقدار نا کافی ہے۔[12] مشہور نظریہ کہ حنوط کی مقدار اتنی کافی ہے کہ حنوط کہا جا سکے البتہ مستحب ہے کہ کافور کی مقدار، ایک درہم سے کم نہ ہو اور ایک نظریہ کے مطابق، ایک مثقال سے کم نہ ہو اور بہتر ہے کہ چار درہم کے برابر ہو یا ایک نظریہ کے مطابق چار مثقال کے برابر ہو اور اس سے بہتر تیرہ اور ایک سوم درہم ہے.[13]

آداب حنوط

حنوط کو تربت امام حسین کے ساتھ مخلوط کرنا مستحب ہے، لیکن ان جگہوں نہیں ملنا چاہیے جو احترام کے منافی ہوں۔[14] بعض فقہاء کی صراحت کے مطابق، مستحب ہے کہ حنوط کا آغاز پیشانی سے کیا جاِئے۔ بعض نظریات کے ظاہر سے پتہ چلتا ہے کہ واجب ہے۔[15]

حوالہ جات

  1. لسان العرب و مجمع البحرین، اصطلاحات «حنط»؛ حکیم، مستمسک العروۃ، قم، ج۴، ص۱۸۵؛ جامع المقاصد، ج۱، ص۳۵۸.
  2. نجفی، جواہر الکلام، تہران، ج۴، ص۱۷۶؛ حکیم، مستمسک العروۃ، قم، ج۴، ص۱۹۰.
  3. نجفی، جواہر الکلام، تہران، ج۴، ص۱۸۲-۱۸۴، ج۱۸، ص۴۲۱.
  4. نجفی، جواہر الکلام، تہران، ج۴، ص۱۷۷.
  5. نجفی، جواہر الکلام، تہران، ج۴، ص۱۷۵۱۷۶.
  6. حکیم، مستمسک العروۃ، قم، ج۴، ص۱۹۵-۱۹۷؛ نجفی، جواہر الکلام، تہران، ج۴، ص۱۸۸-۱۹۰.
  7. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، قم، ج۲، ص۸۲-۸۳؛ حکیم، مستمسک العروۃ، قم، ج۴، ص۲۰۰.
  8. المقنعۃ، ص۷۸؛ المھذّب، ج۱، ص۶۱-۶۲؛ علامہ حلی، منتہی المطلب، مشہد، ج۷، ص۲۲۹.
  9. نجفی، جواہر الکلام، تہران، ج۴، ص۱۷۹-۱۸۰؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، قم، ج۲، ص۷۹-۸۰؛ حکیم، مستمسک العروۃ، قم، ج۴، ص۱۸۶-۱۹۰.
  10. نجفی، جواہر الکلام، تہران، ج۴، ص۱۸۰-۱۸۱؛ حکیم، مستمسک العروۃ، قم، ج۴، ص۱۹۸.
  11. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، قم، ج۲، ص۸۲؛ حکیم، مستمسک العروۃ، قم، ج۴، ص۱۹۷.
  12. نجفی، جواہر الکلام،تہران، ۴،ص۱۸۱.
  13. نجفی، جواہر الکلام، تہران، ج۴، ص۱۸۴-۱۸۷.
  14. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، قم، ج۲، ص۸۲؛ حکیم، مستمسک العروۃ، قم، ج۴، ص۱۹۹.
  15. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، قم، ج۲، ص۸۲؛ حکیم، مستمسک العروۃ، قم، ج۴، ص۱۹۹؛ آملی، مصباح الہدی، مطبعۃ الفردوسی، ج۶، ص۲۵۱.

مآخذ

  • فرہنگ فقہ مطابق مذھب اہل بیت علیہم السلام، ج۳، ص۳۸۱-۳۸۲.
  • طباطبایی یزدی، محمد کاظم، العروۃ الوثقی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۷-۱۴۲۰ھ۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ و المکتبۃ الاسلامیۃ، ۱۳۶۲-۱۳۶۹ہجری شمسی۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، قم، نشر ادب حوزہ، ۱۳۶۳ش.
  • حکیم، محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، ۱۳۸۸-۱۳۹۱ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، قم، موسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجامعہ المدرسین، ۱۴۱۰ھ۔
  • ابن براج، عبدالعزیز، المہذّب، قم، موسسۃ النشر اسلامی التابعۃ لجامعہ المدرسین، ۱۴۰۶ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب فی تحقیق المذھب، مشھد، مجمع البحوث الاسلامیہ، ۱۴۱۲-۱۴۲۴ھ۔
  • آملی، محمد تقی، مصباح الہدی فی شرح العروۃ الوثقی، تہران، مطبعۃ الفردوسی، ۱۳۷۷-۱۳۹۰ھ۔