نماز زیارت
دعا و مناجات |
نماز زیارت اس دو رکعتی مستحب نماز کو کہا جاتا ہے جسے چودہ معصومین کی زیارت کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ مفاتیح الجِنان کے مطابق نماز زیارت کی پہلی رکعت میں سورہ یس اور دوسری رکعت میں سورہ الرحمان پڑھنا مُستَحَب ہے۔ نماز زیارت کیلئے بہترین جگہ پیغمبر اکرمؐ کی زیارت کے موقع پر روضۃ النبی جبکہ دوسرے معصومین کی زیارت کے موقع پر متعلقہ معصوم کے روضہ اقدس میں سرہانے کی طرف والی جگہ ہے۔ دوسری مستحب اعمال کی طرح نماز زیارت کو بھی دوسروں کی نیابت میں پڑھی جا سکتی ہے۔
طریقہ
نماز زیارت دو رکعت پر مشتمل ہے جو چودہ معصومین کی زیارت کے وقت پڑھی جاتی ہے۔[1] نماز زیارت میں کسی خاص سورت کے پڑھنے کی سفارش نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود دعا اور زیارت کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کی پہلی رکعت میں سورہ یس جبکہ دوسری رکعت میں سورہ الرحمان پڑھنا بہتر ہے۔[2]
دور سے پیغمبر اکرمؐ کی زیارت کرنے کی صورت میں چار رکعت (دو رکعتی دو نمازیں) پڑھنا مستحب ہے۔[3] اسی طرح دور سے دوسرے معصومین کی زیارت پڑھنے کی صورت میں دو رکعت نماز پڑھی جا سکتی ہے۔[4]
نماز زیارت پڑھنے کی بہترین جگہ
شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں پیغمبر اکرمؐ کی زیارت کے موقع پر روضۃ النبی جبکہ دوسرے معصومین کے روضہ اقدس میں سرہانے کی جگہ کو اس نماز کیلئے بہترین جگہ قرار دیا ہے۔[5] مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق اگر متعلقہ معصوم کے قبر مطہر کو پیچھے رکھ کر نماز پڑھنا عرف عام میں صاحب قبر کی توہین شمار ہو تو اس طرح نماز پڑھنا حرام ہے۔[6]
سرہانے یا قبر کو آگے رکھ کر نماز پڑھنے کا مسئلہ
تیرہویں صدی ہجری میں نماز زیارت پڑھنے کی جگہ سے متعلق ایک کشمکش ایجاد ہوئی۔ فرقہ شیخیہ ائمہ معصومین کے حرم میں قبر مطہر کو آگے رکھ کر یعنی قبلہ اور نماز گزار کے درمیان قبر رکھ کر نماز پڑھتے تھے۔ اس کام کی وجہ سے وہ متہم ہوئے تھے کہ انہوں نے قبر کو قبلہ قرار دیا ہے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں شیعہ حضرات اس کام کو غلو قرار دیتے ہوئے قبر مطہر کے سرہانے نماز پڑھتے تھے۔ [7]
دور سے پڑھی گئی زیارت کی نماز
بعض فقہا اس بات کے معتقد ہیں کہ چنانچہ اگر زیارت متعلقہ معصوم کے روضہ اقدس یا قبر مطہر کے قریب پڑھی جارہی ہو تو نماز زیارت، زیارت کے بعد پڑھی جائے جبکہ اگر دور سے زیارت پڑھی جا رہی ہو تو زیارت پر نماز زیارت مقدم ہو گی۔[8]
امام زادوں کی نماز زیارت
احادیث میں غیر معصوم کیلئے نماز زیارت نامی کوئی نماز منقول نہیں ہوئی ہے۔ اس بنا پر اگر اس نیت سے کوئی نماز پڑھی جائے تو یہ نماز صحیح نہیں ہوگئی ہاں غیر معصوم ہستیوں کی زیارت کے بعد مستحب نمازیں پڑھ کر ان کا ثواب اس ہستی کے لئے ہدیہ کر سکتے ہیں۔[9]
نیابتی زیارت کی نماز
مستحب زیارت اور اس کی نماز کو کسی زندہ یا مردہ شخص کی طرف سے بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔[10] اسی طرح ایک ہی زیارت اور اسکی نماز کو بہت سارے لوگوں کی طرف سے بھی انجام دیا جا سکتا ہے نیز ہر شخص کیلئے علیحدہ علیحدہ بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔[11] بعض احادیث کے مطابق دوسروں کی طرف سے انجام دیئے جانے والے مستحب اعمال کا ثواب دونوں کو ملتا ہے یعنی خود اس شخص کیلئے بھی جس نے یہ عمل انجام دیا ہو نیز اس شخص کیلئے بھی جس کیلئے یہ عمل انجام دیا گیا ہے بغیر اس کے کہ خود انجام دینے والے شخص کے ثواب میں کوئی کمی آئے۔[12]
حوالہ جات
- ↑ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۷ش، ذیل «آداب زیارت»، ص۴۲۹۔
- ↑ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۷ش، ذیل «آداب زیارت»، ص۴۳۰۔
- ↑ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۷ش، ذیل «زیارت حضرت رسول»، ص۴۴۷۔
- ↑ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۷ش، ذیل «زیارت حُجَج طاہرہ در روز جمعہ»، ص۴۴۷۔
- ↑ مفاتیح الجنان، آداب زیارت، ادب ہفدہم، چاپ مشعر، ص۴۴۷
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۶۲۹تا۶۳۳۔
- ↑ حائری نیا «فرقہ شیخیہ»، وبگاہ شیعہنیوز، ۱۸ فروردین ۱۳۹۱ش، دیدہ شدہ در ۹ اردیبہشت ۱۳۹۷ش۔
- ↑ علوی عاملی، «تقدیم نماز زیارت در زیارت از بعید»، ص۳۳۹تا۳۴۵۔
- ↑ «سؤالاتی در مورد نماز زیارت»، وبگاہ گفتگوی دینی۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۱۰۴۹تا۱۰۵۱۔
- ↑ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۷ش، ذیل «آداب زیارت بہ نیابت»، ص۸۰۳۔
- ↑ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۷ش، ذیل «آداب زیارت بہ نیابت»، ص۸۰۴۔
مآخذ
- امام خمینی، توضیح المسائل مراجع مطابق با فتاوای شانزدہ نفر از مراجع معظم تقلید، تنظیم سید محمد حسن بنی ہاشمی خمینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۲ش۔
- حائری نیا «فرقہ شیخیہ»، وبگاہ شیعہ نیوز، ۱۸ فروردین ۱۳۹۱ش، دیدہشدہ در ۹ اردیبہشت ۱۳۹۷ش۔
- «سؤالاتی در مورد نماز زیارت»، وبگاہ گفتگوی دینی۔
- شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، تہران، مشعر، چاپ اول، ۱۳۸۷ش۔
- علوی عاملی، «تقدم نماز زیارت در زیارت از بعید»، تحقیق و تصحیح محمد جواد نور محمدی، میراث حوزہ اصفہان، دفتر پنجم، اصفہان، مرکز تحقیقات رایانہای حوزہ علمیہ اصفہان، چاپ اول، ۱۴۲۹ق۔