سلام
سلام سلامتی ، امنیت اور صلح کے معنا میں ہے ۔اسلامی احکام میں اسے تحیت اور درود بھیجنے کیلئے انتخاب کیا گیا ہے۔ قرآن اور روایات میں سلام کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اسے مستحبات مؤکد میں سے کہا گیا ہے ۔کسی کے سلام کا جواب دینا فورا واجب ہے یہانتک کہ نماز گزار کیلئے بھی اسکا جواب دینا ضروری ہے ۔اگر کچھ لوگوں کو سلام کیا جائے تو ان میں سے ایک شخص کے جواب دینے سے دوسروں پر جواب دینا واجب نہیں ہے ۔اسلام میں اس کے مخصوص آداب اور احکام بیان ہوئے ہیں نیز قرآن اور روایات میں اس کے متعدد استعملات ذکر ہوئے ہیں۔
معنا اور سلام کرنے کے الفاظ
معنا
سلام لغت میں سلامتی، امنیت اور صلح کے معنا میں ہے ۔[1] اردو میں آداب، کورنش، تحیت،... کے معنا میں استعمال ہوتا ہے [2] اسلامی تعلیمات میں سلام آداب و تحینت بجا لانے کیلئے انتخاب ہوا ہے کیونکہ دینی اور جسمی آفات سے بچاؤ کیلئے دعا کے معنا میں ہے ، اسی طرح مسلمانوں کا باہمی ایک دوسرے کو سلام کرنا جان و مال اور آبرو کی حفاظت کیلئے ان کے درمیان ایک عہد کی مانند ہے ۔[3] قرآن کریم بھی سلام کرنے کو خدا کی جانب سے مؤمنوں پر پر برکت اور پاکیزہ تحیت سمجھتا ہے : فَسَلِّمُوا عَلىٰ أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰارَكَةً طَيِّبَةً[4].
سلام کے الفاظ
فقہا کے درمیان سلام کرنے کیلئے درج ذیل چار جملے معروف ہیں :
سلام (خدا کا صفاتی نام)
سلام خدا کے اسما میں سے ایک نام ہے جو تین معنا میں استعمال ہوتا ہے :
- صفات سلبیہ میں سے ہے اور اسکا معنا ذات باری تعالی کا نقائص سے پاک ہوناہے ۔[11].اس صورت میں سلام کی صفت اس معنا میں ہے کہ حق تعالی مخلوق کو عارض ہونے والی صفات مرگ ،زوال،انتقال، موت جیسی صفات سے مبرا و منزہ ہے ۔[12]. شیخ صدوق اس معنا کی تائید اور توضیح میں اس آیت : لَهُمْ دٰارُ السَّلٰامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [13] ؛کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: سلام سے مراد خدا ہے اور دار السلام بہشت ہے۔بہشت کو اس اعتبار سے دار السلام کہتے ہیں کہ وہ دنیاوی آفات (مرض و موت،..) سے محفوظ ہے ۔[14].
- خدا کی صفات فعلیہ میں ہے اور اس کا معنا سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ [15].
- اسی طرح ایک اور معنا صفت خدا کے طور پر ذکر ہوا ہے کہ سلامتی دینے والے کے معنا میں صفت ثبوتی ہے نیز ذات حق کی صفات میں سے بھی شمار ہوتا ہے ۔[16].
اہمیت
قرآن سلام کو بہشتیوں کی تحنیت سمجھتا ہے ۔[17] اور اس کا حکم دیتا ہے [18] روایات میں سلام کو رسول خدا(ص) کی سنت میں سے اور مستحبات مؤکد سے شمار کیا ہے رسول کی روایت میں آیا ہے :سلام کئے بغیر جو گفتگو کرے اسے جواب مت دو [19]
آداب
- واضح طور پر سلام کہنا:
- امام باقر(ع): خدا واضح طور پر سلام کرنے کو دوست رکھتا ہے ۔ [20] فیض کاشانی واضح کہنے کی توضیح میں لکھتے ہیں : اس مراد یہ کہ جس کے پاس بھی پہنچو اسے سلام کرو جیسا بھی شخص ہو اس پر سلام بھیجو ۔ [21]
- مراتب کا لحاظ کرنا:
- امام صادق(ع): چھوٹا بڑے کو ،مختصر جماعت بڑی جماعت کو ،راستہ چلنے والا شخص بیٹھے شخص کو سلام کریں۔ [22]
- سلام میں پہل کرنا:
- اچھے طریقہ سے سلام کہنا:
- امام صادق(ع): جو شخص بھی السلام عليكم کہے اس کے لئے دس نیکیاں ، جو السلام عليكم و رَحْمَةُ اللَّـه کہے اس کے لئے بیس نیکیاں اور جو السلام عليكم و رَحْمَةُ اللَّـه و بركاته کہے اسکے لئے تیس نیکیاں ہیں ۔ [24]
آداب اسلامی میں سلام کا جواب سلام کے مطابق یا اس سے کامل تر ہونا چاہئے۔ خداوند قرآن میں فرماتا ہے : وَ إِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ حَسيباً ترجمہ: جب بھی تمہیں سلام کہیں تم اس سے بہتر جواب دو یا کم سے کم اسی طرح کا جواب دو کیونکہ خدا ہر چیز کا حساب رکھتا ہے ۔ [25]
اسی طرح سلام کے وقت غیر مسافر سے ہاتھ سے ملانا اور مسافر سے بغل گیر ہونا مستحب ہے.[26]
احکام
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
سلام کرنا
مسلمانوں کو سلام کرنے میں پہلا کرنا مستحب مؤکّد اور اسے ترک کرنا مکروه ہے،[27] مگر نمازی کیلئے سلام کرنے میں پہل کرنا جائز نہیں ہے ۔ [28] جب کوئی گھر میں موجود نہ ہو تو گھر میں داخل ہوتے وقت اس طرح سلام کرے : السّلامُ عَلَینا مِنْ عِنْدِ رَبِّنا[29] کسی محفل آئیں تو حاضرین کو سلام کرنا اور اٹھتے ہوئے حاضرین سے خدا حافظی کرنا مستحب ہے؛[30] لیکن سلام کے جواب دینے کے واجب ہونے یا مستحب ہونے اختلاف نظر پایا جاتاہے [31]
اگر گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مرد کا غیر محرم کو سلام کرنا جائز ہے [32] البتہ بعض نے کہا ہے :مرد کا غیر محرم جوان عورت کو سلام کرنا مکروہ ہے [33]
سلام کا جواب
سلام کرنا مستحب ہے لیکن اسکا جواب دینا حتاکہ نماز کی حالت میں بھی واجب ہے .[34] پاسخ سلام واجب فوری است؛[35] یعنی فورا جواب دینے میں جلدی کرے [36]
سلام کا جواب دینا کفائی ہے یعنی ایک گروہ میں سے اگر ایک شخص جواب دے دے تو دوسروں سے جواب دینا ساقط ہو جاتا ہے ۔[37] مشہور قول کی بنا پر سلام کا جواب اس طرح دے کہ سلام کرنے والا سنے؛[38] لیکن بعض فقہاء جواب کے وجوب میں تردید رکھتے ہیں ؛[39] بلکہ بعض فقہا حالت نماز میں آہستہ جواب دینے کو جائز سمجھتے ہیں ۔[40]
واسطے کے ذرہعے پہنچنے والا سلام کا جواب دینا [41] واجب نہیں لیکن مستحب ہے ۔ اسی صورت میں اس طرح جواب دینا چاہئے :علیک و علیهالسلام تم پر اور اس پر سلام ہو[42].تحریری صورت میں لکھے ہوئے سلام کا جواب دینا بھی واجب نہیں بلکه مستحب ہے[43].
حالت نماز میں سلام کہنا
- نماز گزار کیلئے سلام میں پہل کرنا جائز نہیں ہے [44] لیکن سلام کا جواب دینا اس پر واجب ہے ۔[45] مشہور قول کی بنا پر نماز میں سلام کا جواب اسی طرح دیا جائے جس طرح نماز گزار کو سلام کیا گیا ہے مثلا کوئی سلام علیکم کہے تو اسکے جواب میں بھی نمازگزار کیلئے ضروری ہے کہ وہ سلام علیکم کہے ۔دوسرے الفاظ میں جواب دینا مثلا علیکم السلام کہنا جائز نہیں ہے ۔ [46]
کافر کو سلام کرنا
بعض کی تصریح کے مطابق ضرورت کے علاوہ کافر کو سلام کرنا جائز نہیں ہے [47] کافر کے سلام کے جواب کا جواب دینا واجب ہے یا نہیں،اس میں اختلاف نظر ہے ۔ [48] قول مشہور کے مطابق میں کافر کے سلام کے جواب میں صرف علیک کہا جائے ۔ [49] لیکن اسے جواب دیتے ہوئے لفظ سلام کہنے میں اختلاف ہے ۔ [50]
لیکن علامہ طباطبائی نے اس حکم کی علت بیان کرنے کے بعد کچھ استثنائی موارد بیان کئے ہیں :
- بعض اوقات مصلحت اقتضا کرتی ہے کہ ستمکاروں کے تقرب کی خاطر انہیں سلام کیا جائے تا کہ وہ دين خدا کی تبلیغ کر سکیں ، اس طرح سے اگر انہیں سلام نہ کریں تو وہ سلام کرنے والے کو لوگوں میں تبلیغ دین کی اجازت نہیں دیں گے یا وہ حق کی بات سننے کیلئے راضی نہیں ہونگے ۔ پس اسی وجہ سے رسول خدا کو بھی اسی روش کی پابندی کا حکم دیا گیا تھا : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَ قُلْ سَلامٌ ترجمہ:پس ان سے در گزر کرو اور انہیں سلام کہو۔ [51]، اسی طرح مومنین کی صفات میں اللہ بیان کرتا ہے : وَ إِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً ترجمہ: جب جاہل ان سے مخطاب ہوتے ہیں تو وہ انہیں سلام کہتے ہیں۔ [52]. [53]
قرآن میں سلام
س-ل-م کا مادہ اور اسکے مشتقات ایک سو چالیس مرتبہ قرآن پاک میں آئے ہیں ۔ [54]. کتاب «السلام فی القرآن و الحدیث میں غروی معتقد ہے کہ قرآن پاک میں سلام مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے اور انہیں مجموعی طور پر درج ذیل چار اصلی معانی میں بیان کیا جا سکتا ہے [55]:
- خدا کے نام کے معنا میں : هُوَ اللَّهُ الَّذِى لَا إِلَاهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ وہ خدا وحدہ لا شریک ہے کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، سلطان مقتدر عالم،نقص و آلائش سے پاک ، ہر عیب و ناشائستہ چیز سے منزّہ ہے اور وہ خوفزدہ دلوں کو سلامتی بخشنے والا ہے [56].
- ترک جنگ اور صلح: وَ لَا تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنً ترجمہ:اور جو تمہیں سلام کرے (اظہار اسلام کرنا) تم اسے نہ کہو تم مومن نہیں ہو [57]
- ابتدائی صلح : يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ ادْخُلُواْ فىِ السِّلْمِ كَافَّةً اے صاحبان ایمان!تم سب صلح و آشتی والے دین میں داخل ہو جاؤ[58]
- تحیت و درود:[59] سلام بہت سی آیات میں تحیت کے معنا میں آیا ہے ممکن ہے کہ یہ معنا دیگر معانی کے ساتھ اکٹھا پو جائے کیونکہ سلام لغت میں ایک عام معنا رکھتا ہے جو ہر طرح کی صحت اور عافیتی کو شامل ہے ۔[60] غروی معتقد ہے کہ قرآن کی دس آیات میں سلام تحنیت کے معنا میں استعمال ہوا ہے [61].
سلام نماز
سَلام: (تسلیم) نماز کا آخری جزو ہے کہ جسے نماز کی آخری تشہد کے بعد پڑھا جاتا ہے ۔ سلام نماز کے غیر رکنی واجبات میں سے ہے اور نماز میت کے علاوہ تمام نمازوں میں پڑھا جاتا ہے ۔ نماز کے آخر میں تین سلام پڑھے جاتے ہیں :
- «اَلسَّلامُ عَلَیک اَیهَا النَّبِی وَ رَحْمَةُ اللَّـه وَبَرَکاتُهُ؛ یعنی اے نبی اکرم! آپ پر سلام اور اللہ کی برکت اور رحمت ہو
- «اَلسَّلامُ عَلَینا وَ عَلی عِبادُ اللَّـه الصّالِحینَ؛ یعنی ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر سلام ہو۔
- «اَلسَّلامُ عَلَیکمْ وَ رَحْمَةُ اللَّـه وَ بَرَکاتُهُ؛ یعنی تم پر سلام اور اللہ کی رحمت اور برکت نازل ہو۔[62]
حوالہ جات
- ↑ معجم الوسیط، ذیل سلم
- ↑ اردو لغت
- ↑ معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہیہ، ج۲، ص۲۸۴
- ↑ سورۂ نور آیت ۶۱.
- ↑ علیکَ(ایک مرد کیلئے)علیکِ(ایک خاتون کیلئے)
- ↑ (علیکَ ایک مرد کیلئے)السلام علیکِ(ایک خاتون کیلئے)
- ↑ (دو سے زیادہ مردوں کیلئے)سلام علیکُنَّ(دو سے زیادہ خواتین کیلئے)
- ↑ جواہر الکلام، ج ۱۱، ص ۱۰۳
- ↑ الحدائق الناضرة، ج ۹، ص ۷۲
- ↑ مختلف الشیعہ، ج ۲، ص ۲۰۴ ؛ جواہر الکلام، ج ۱۱، ص ۱۰۴
- ↑ روح الأرواح، ۲۱
- ↑ التوحید، ۲۰۴
- ↑ الانعام، ۱۲۷
- ↑ التوحید، ۲۰۵
- ↑ التویحد، ۲۰۴؛ مصباح کفعمی، ۳۱۸
- ↑ لوامع البینات، ۱۸۸
- ↑ سوره یونس، آیت ۱۰.
- ↑ سوره نور، آیت ۶۱.
- ↑ مَنْ بدأ بالكلامِ قَبْلَ السّلامِ فَلاتُجیبُوهُ (کلینی، اصول كافی، ج۴، ص۴۵۹).
- ↑ كلينى، الکافی، ج۲، ص۶۴۵
- ↑ فيض كاشانى، الوافی، ج۵، ص۵۹۶
- ↑ مصطفوى، ترجمہ أصول الکافی، ج۴، ص۴۶۲.
- ↑ مصطفوى، ترجمہ أصول الكافي، ج۴، ص۴۶۰
- ↑ مصطفوى، ترجمہ اصول الکافی، ج۴، ص۴۶۱
- ↑ سوره نساء، آیت ۸۶.
- ↑ وسائل الشیعہ، ج ۱۲، ص ۷۳
- ↑ وسائل الشیعہ ج ۱۲، ص ۵۷
- ↑ العروة الوثقی، ج ۳، ص ۱۵
- ↑ وسائل الشیعہ، ج ۱۲، ص ۸۰ـ۸۱
- ↑ وسائل الشیعہ، ج ۱۲، ص ۸۳
- ↑ تذکرة الفقہاء، ج ۹، ص ۲۳ ؛ بحار الأنوار، ج ۸۴، ص ۲۷۶ ؛ غنائم الأیام، ج ۳، ص ۲۳۶ ؛ صراط النجاة، ج ۳، ص ۲۹۱
- ↑ الحدائق الناضرة، ج ۹، ص ۸۳ ؛ مستند الشیعہ، ج ۷، ص ۷۳؛ العروة الوثقی، ج ۳، ص ۲۵
- ↑ غنائم الأیام، ج ۳، ص ۲۳۷
- ↑ مفتاح الکرامہ، ج ۴، ص ۹۷۳ ؛ مستند الشیعہ، ج ۷، ص ۶۷
- ↑ مفتاح الکرامہ، ج ۴، ص ۹۶۹ ؛ جواہر الکلام، ج ۱۱، ص ۱۱۱
- ↑ ذخیرة المعاد، ص ۳۶۷ ؛ الحدائق الناضرة، ج ۹، ص ۸۱
- ↑ جواہر الکلام، ج ۱۱، ص ۱۰۶
- ↑ ذخیرة المعاد، ص ۳۶۶ ؛ جواہر الکلام، ج ۱۱، ص ۱۰۸
- ↑ مجمع الفائدة، ج ۳، ص ۱۱۹ـ۱۲۰
- ↑ المعتبر، ج ۲، ص ۲۶۴
- ↑ یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کی جانب سے سلام پہنچائے
- ↑ الحدائق الناضرة، ج ۹، ص ۸۲
- ↑ جواہر الکلام، ج ۱۱، ص ۱۱۰ـ۱۱۱
- ↑ العروة الوثقی، ج ۳، ص ۱۵
- ↑ مفتاح الکرامہ، ج ۴، ص ۹۷۳ ؛ مستند الشیعہ، ج ۷، ص ۶۷
- ↑ جواہر الکلام، ج ۱۱، ص ۱۰۱
- ↑ الحدائق الناضرة، ج ۹، ص ۸۴ـ۸۵ ؛ مستند الشیعہ، ج ۷، ص ۷۴
- ↑ مفتاح الکرامہ، ج ۴، ۹۷۲ـ۹۷۳ ؛ مستند الشیعہ، ج ۷، ص ۷۴
- ↑ مستند الشیعہ، ج ۷، ص ۷۴
- ↑ مستند الشیعہ، ج ۷، ص ۷۴ ؛ مفتاح الکرامہ، ج ۴، ص۹۷۳ ؛ مستمسک العروة، ج ۶، ص ۵۶۹ ـ۵۷۰
- ↑ زخرف: ۸۹
- ↑ فرقان: ۶۳
- ↑ موسوی ہمدانی، سید محمد باقر، ترجمہ تفسیر المیزان، انتشارات جامعہ مدرسین، قم، ۱۳۷۴، چاپ پنجم، ج۵، ص۵۲
- ↑ روحانی، المعجم الإحصائی، ج۱، ص۴۸۵
- ↑ الغروی، السلام فی القران و الحدیث، ص۲۸-۲۹
- ↑ الحشر: ۲۳
- ↑ النساء: ۹۴
- ↑ البقرة: ۲۰۸
- ↑ الصافات: ۷۹ و ۱۰۹ و ۱۲۰ و ۱۳۰ و ۱۸۱؛ هود: ۴۸؛ النمل: ۵۹؛ الأنعام: ۵۴؛ الذاریات: ۲۵؛ الرعد: ۲۳-۲۴
- ↑ الغروی، السلام فی القران و الحدیث، ص۲۹
- ↑ الغروی، السلام فی القران و الحدیث، ص۱۹ و ص۵۶
- ↑ ترجمہ تشہد و سلام نماز
منابع
- قرآن.
- ابنادریس، محمد بن احمد، کتاب السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، موسسہ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم المشرفه، ۱۴۱۰ق.
- انصاری، مرتضی بن محمدامین، صراط النجاة، کنگره جہانی بزرگداشت دویستمین سالگرد تولد شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ق.
- بروجردی، مرتضی، مستند العروة (الصلاة)، تقریر: خوئی، ابوالقاسم، نشر لطفی، ۱۴۱۴ق.
- بحرانی، یوسف بن احمد، الحدایق الناضره فی احکام العتره الطاهره، موسسہ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم المشرفه، ۱۴۰۵ ۱۴۱۶ق.
- حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، ۱۴۱۴ق.
- حسینی عاملی، محمدجواد بن محمد، مفتاح الکرامہ فی شرح قواعد العلامہ، دارالتراث، بیروت، ۱۴۱۷ ۱۴۱۸ق.
- حکیم، محسن، مستمسک العروه الوثقی، مکتبہ آیة الله مرعشی نجفی، ۱۳۸۸ ۱۳۹۱ق.
- خمینی، روح الله، تحریر الوسیله، دارالکتب العلمیہ، اسماعیلیان، ۱۴۰۸ق.
- رضی بہابادی، بی بی سادات، عوامل سلام و لعن در قرآن کریم، «تحقیقات قرآن و حدیث»، زمستان ۹۳، شماره ۴،
- روحانی، محمود، المعجم الإحصائی، مشہد، نشر الاستانہ الرضویہ المقدسہ، چاپ دوم،
- سمعانی، احمد بن منصور، روح الارواح فی شرح اسماء الملک الفتاح، شرکت انتشارات علمی و فرهنگی، تہران، ۱۳۸۴ ش.
- شیخ صدوق، ابن بابویه محمد بن علی، التوحید، جامعہ مدرسین، قم-ایران، ۱۳۸۹ق.
- طباطبائی یزدی، محمد کاظم، العروة الوثقی، مؤسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین، قم، ۱۴۱۷ ۱۴۲۰ق.
- عبدالاعلی، موسوی سبزواری، مہذب الاحکام فی بیان الحلال و الحرام، موسسہ المنار، ۱۴۱۳ ۱۴۱۷ق.
- علامه حلی، حسن بن یوسف، تذکره الفقہاء، موسسہ آل البیت (علیہم السلام) لإحیاء التراث، قم، ۱۴۱۴ ۱۴۲۰ق.
- علامه حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، موسسہ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم المشرفه، ۱۴۱۲ ۱۴۱۹ق.
- الغروی، محمد، السلام فی القران و الحدیث، دارالاضواء بیروت، ۱۴۱۱ق،
- فرہنگ فقہ مطابق مذهب اہل بیت علیہم السلام، ج۴، ص ۵۱۴-۵۱۷.
- فخر رازی، محمد بن عمر، شرح أسماء الحسنی (لوامع البیّنات)، مکتب الکلیات الازہریہ، قاهر.
- فيض كاشانى، محمد محسن بن شاه مرتضى، الوافی، کتابخانہ امیرالمومنین علیہ السلام، اصفہان، ۱۴۰۶ق.
- كفعمى، ابراہيم بن على، المصباح، دار الرضی، قم-ایران، ۱۴۰۵ق.
- كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق، الکافی، محقق علی اکبر غفاری، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۴۰۷ ق.
- مصطفوى، سيد جواد، أصول الكافي/ترجمہ مصطفوی، علميہ اسلاميہ، تہران، چاپ اول، ۱۳۶۹ ش.
- محقق سبزواری، محمد باقر بن محمد مومن، ذخیره المعاد فی شرح الارشاد، موسسہ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، (طبع حجری).
- محقق حلی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر النافع، موسسه سید الشہداء(ع)، قم، ۱۳۶۴ش.
- مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار، موسسہ الوفا، بیروت، ۱۴۰۳ق.
- محمود عبد الرحمن، معجم المصطلحات و الألفاظ الفقہيہ، دارالفضیلہ، قاہره.
- محمد بن یعقوب كلینی، اصول كافی، ترجمہ و شرح: سید جواد مصطفوی، تہران، انتشارات وفا، ۱۳۸۲ش.
- مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفایده و البرهان فی شرح ارشاد الاذهان، موسسہ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم المشرفه، ۱۴۰۳ ۱۴۱۶ق.
- میرزای قمی، ابو القاسم بن محمد حسن، غنایم الایام فی مسایل الحلال و الحرام، مکتب الاعلام الاسلامی، فرع خراسان، ۱۴۱۷ ۱۴۲۰ ق.
- نراقی، احمد بن محمد مہدی، مستند الشیعہ فی احکام الشریعہ، موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ۱۴۰۸ ۱۴۰۹ ق.
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، دارالکتب الاسلامیہ و المکتبہ الاسلامیہ، تہران، ۱۳۶۲ ۱۳۶۹ش.