غسل میت

ویکی شیعہ سے

غُسل مَیِّت سے مراد وہ غسل ہے جو مسلمان میت کو مخصوص شرائط کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ اس غسل میں میت کو بالترتیب آب سِدر (وہ پانی جس میں بیری کے پتے ملے ہوئے ہوں)، آب کافور (وہ پانی جس میں کافور ملا ہوا ہو) اور خالص پانی سے تین دفعہ غسل دیا جاتا ہے۔اور اگر سدر اور کافور میسر نہ ہو تو میت کو آبِ خالص سے غسل دیناہوگا اور اگر آب خالص بھی نہ ملے تو تیمم کرنا ضروری ہے۔ چار مہینے یا اس سے زیادہ عمر کے میت کو غسل دینا واجب ہے البتہ اس حکم میں شہید شامل نہیں کیونکہ اسے بغیر غسل کے دفن کیا جاتا ہے۔ میت کو غسل دینا واجب کفائی ہے جس کو انجام دینے کے لئے مزدوری لینا حرام ہے۔

غسل میت کی اہمیت

غسل میت کفائی واجبات میں سے ایک ہے اور کسی مسلمان کی موت کے بعد دوسروں پر واجب ہے کہ اسے غسل دیں اور غسل سے پہلے دفن کرناجائز نہیں ہے۔[1] اسی لئے مختلف قبرستانوں میں میت کو غسل دینے کی مخصوص جگہ ہوا کرتی ہے۔[2] فارسی میں اس جگہے کو غَسَّالخانہ کہا جاتا ہے۔[3]

احادیث اور فقہ کی کتابوں میں اس بحث کو احکام اموات کے باب میں ذکر کیا جاتا ہے۔[4] کتاب وسائل الشیعہ کے ابواب غسل میت میں 175 حدیث غسل میت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔[5] احادیث میں کہا گیا ہے کہ میت کو غسل دینے والےسے جہنم کی آگ دور ہوتی ہے اور ایک نور اس کے ساتھ ہوتا ہے جو اسےبہشت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔[6] اسی طرح امام محمد باقرؑ سے منقول ایک روایت میں میت کو غسل دیناایک سال کے گناہ صغیرہ کے معاف ہونے کا سبب قرار دیاگیا ہے۔[7]

غسل سے پہلے میت نجس ہے اور اس کے سرد ہونے سے پہلے چھونے سے غُسل مَسِّ مَیت واجب ہوتا ہے۔ لیکن غسل میت کے بعد نجاست زائل ہوتی ہے اور اس کو چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔[8]

غسل میت کی کیفیت

مشہور مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق میت کو تین غسل دینا واجب ہے: سب سے پہلے بیری کے پتے ملے ہوئے پانی سے اس کے بعد کافور ملا ہوا پانی سے اور آخر میں خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔ غسل میت میں مذکورہ ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے.[9]غسل میت میں دوسرے واجب غسلوں کی طرح نیت اور قصد قربت کے بعد سب سے پہلے سر اور گردن پھر دائیں طرف اور آخر میں بائیں طرف کو دھونا ضروری ہے۔[10]

اگر بیری کے پتے یا کافور نہ ملے تو ہر ایک غسل کے بدلے خالص پانی سے غسل دینا کافی ہے۔ اس صورت میں بعض فقہاء صرف ایک غسل کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ہر غسل کے بدلے آب خالص سے ایک غسل دینا ہوگا۔[11]

چنانچہ میت کو پانی سے غسل دینا ناممکن ہو تو غسل کے بدلے اسے تیمّم کرنا ضروری ہے لیکن کیا غسل کی طرح تیمم بھی تین دفعہ انجام دیا جائے گا یا صرف ایک بار تیمم کافی ہے، مورد اختلاف ہے۔[12]

اگر جنین چار مہینے سے پہلے سقط ہوجائے تو اس کا غسل میت واجب نہیں ہے لیکن اگر حمل ٹھہرے ہوئے چار مہینوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو تو ایسے جنین کے سقط ہونے پر غسل میت واجب ہوگا۔[13]

میدان جنگ کے شہید کا غسل

شیعہ فقہا کے فتوؤں کے مطابق جنگ کے میدان میں شہید ہونے والے شخص کے لئے غسل میت دینا ضروری نہیں ہے؛[14] لیکن اگر کوئی شخص جنگ کے میدان میں زخمی ہوجائے اور جنگ ختم ہونے کے بعد شہید ہوجائے تو اسے غسل دینا ضروری ہے۔[15] \

بعض دیگر احکام

  • جو شخص کسی میت کو غسل دینا چاہتا ہو اسے غَسّال کہا جاتا ہے۔ غسال کیلئے مسلمان، شیعہ اثنا عشری، بالغ اور عاقل ہونا ضروری ہے۔[16] اسی طرح مرد میت کو مرد اور عورت میت کو عورت غسل دینا ضروری ہے[17] البتہ محارم اور میاں بیوی اس حکم سے خارج ہیں لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ایسی حالت میں غسل دے سکتے ہیں کہ جب میت کے ہمجنس میں سے کوئی غسل دینے کے لئے موجود نہ ہواور ایسی حالت میں بھی میت کو کپڑوں میں ہی غسل دینگے۔[18]
  • اکثر مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق غسل میت کی اجرت لینا حرام ہے اور بعض کے فتوؤں کے مطابق اجرت لینا قصد قربت کے ساتھ سازگار نہیں ہے جس کی وجہ سے غسل بھی باطل ہوتا ہے۔ لیکن غسل کے مقدماتی امور اور صفائی وغیرہ کو انجام دینے کیلئے اجرت لینا جائز ہے۔[19]
  • اگر حاکم شرع کسی مجرم کو پھانسی دینے کا حکم سنائے تو یہ شخص سولی پر چڑھنے سے پہلے اپنے آپ کو غسل میت دے سکتا ہے اس صورت میں پھانسی کے بعد دوبارہ اسے غسل دینا ضروری نہیں ہے۔[20]
  • غسل میت کو ارتماسی طریقے سے انجام دینا بھی صحیح ہے۔[21]
  • غسل سے پہلے میت کا بدن نجاسات سے پاک ہونا ضروری ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ غسل سے پہلے ہر عضو کو دھونے سے پہلے اسے پاک کرنا کافی ہے۔[22]
  • میت کو غسل دینے والے کو میت کے ولی سے اجازت مانگنا ضروری ہے۔.[23]
  • کافر کو غسل میت دینا جائز نہیں ہے۔[24]

ائمہ معصومینؑ کا غسل

متعدد احادیث کے مطابق ہر امام کو صرف بعد والا امام ہی غسل دے سکتا ہے۔[25] اور احادیث کی کتابوں میں «أَنَّ الْإِمَامَ لَا يُغَسِّلُہُ إِلَّا إِلامَام» (ترجمہ: بتحقیق امام کو صرف امام ہی غسل دے سکتا ہے)کے عنوان سے ایک باب موجود ہے جو اس موضوع کی احادیث پر مشتمل ہے۔[26]اس بنا پر امام مہدی(عج) کی رحلت کے بعد امام حسینؑ رجعت فرمائیں گے اور امام زمانہؑ کو غسل اور ان کی نماز میت کی ذمہ داری نبھائیں گے۔[27]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی،1491ھ، ج2 ص30۔
  2. بہرامی، «غسالخانہ».
  3. دہخدا، لغت‌نامہ، لفظ مردہ‌شورخانہ کے ذیل میں.
  4. ملاحظہ کریں: حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج2، ص477-544؛ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22.
  5. ملاحظہ کریں: حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج2، ص477-544.
  6. شیخ مفید، الاختصاص، 1413ھ، ص40.
  7. شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، 1406ھ، ص 195.
  8. طباطبائی حکیم، مستمسک العروة الوثقی، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص336.
  9. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص46-47.
  10. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص46-47.
  11. بحرانی، الحدائق الناضرة، مؤسسة النشر الاسلامی، ج3، ص455.
  12. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص48.
  13. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص32.
  14. شیخ انصاری، کتاب الطہارہ، 1415ھ، ج4، ص399.
  15. علامہ حلی، نہایة الاحکام، 1419ھ، ج2، ص235.
  16. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص38-39.
  17. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص32.
  18. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص33-35.
  19. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح‌المسائل مراجع، دفتر نشر اسلامی، ج1، ص222-223.
  20. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص41.
  21. خویی، موسوعة الامام الخویی، مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ج9، ص9.
  22. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص47.
  23. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22.
  24. طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص30.
  25. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص384.
  26. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص384.
  27. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص206.

مآخذ

  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرہ، تصحیح محمدتقی ایروانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا.
  • بنی‌ہاشمی خمینی، محمدحسن، رسالہ توضیح المسایل مراجع، قم، دفتر نشر اسلامی، بی‌تا.
  • بہرامی، فرشتہ، «غسالخانہ»، در دایرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دایرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی.
  • حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل‌البیت، 1409ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الامام الخوئی، مؤسسۃ احیاء آثار الامام الخوئی، بی‌تا.
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغتنامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی.
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب الطہارۃ، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، 1415ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم، دارالشریف الرضی للنشر، چاپ دوم، 1406ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمود محرمی زرندی، قم، المؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • طباطبائی حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم،‌ دار التفسیر، اسماعیلیان، چاپ پنجم، 1419ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہایۃ الاحکام فی معرفۃ الاحکام، قم، مؤسسہ آل‌البیت، 1419ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔