حوض کوثر

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے

حَوْض کوثر، قیامت کے مواقف میں سے ایک ہے۔ حدیث ثقلین اور دیگر احادیث کی روشنی میں قیامت کے دن قرآن و اہل بیتؑ اسی حوض کے کنارے پیغمبر اکرمؐ کے حضور وارد ہونگے اور پیغمبر اکرمؐ اپنی امت میں سے ہر مؤمن کے ساتھ اسی حوض کے کنارے ملاقات فرمائیں گے۔ شیعہ اور اہل سنّت احادیث کے مطابق حضرت علیؑ اسی حوض کے ساقی ہیں اسی لئے آپ کا ایک لقب بھی ساقی کوثر ہے۔

حوض کا معنی اور اس کا استعمال

"حوض" عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا معنی پانی کے اکھٹے کرنے کی جگہ کے ہیں جسے پانی کو محفوظ کرنے کیلئے زمین کے اندر کھود کر یا زمین کے اوپر دیواریں کھڑی کر کے بنایا جاتا ہے۔ [1] جدید منابع میں اسے برکہ یا تالاب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔[2]

ذوالحوضین

ظہور اسلام سے پہلے حج کے مراسم میں چمڑے کے قابل حمل حوضوں کا سراغ ملتا ہے جسے ہاشم اور حاجیوں کو پانی پلانے کے ذمہ دار لوگ بناتے تھے۔ [3] شاید اسی وجہ سے ہاشم کے بیٹے عبدالمطلب کو ذوالحوضین کا لقب دیا جاتا تھا۔[4]

حوضِ پیغمبر اکرم

لفظ حوض کو پیغمبر اکرمؐ کے نام مبارک کے ساتھ مختلف تاریخی منابع میں دیکھا جا سکتا ہے۔[5] تاریخی منابع میں نقل ہوئی ہے کہ رسول اکرمؐ قیامت کے دن اپنی امت کے مؤمنین سے اسی حوض کے کنارے ملاقات فرمائیں گے۔[6]

قرآن اور تفاسیر میں حوض کا تذکرہ

لفظ "حوض" اور اس کے دیگر مشتقات قرآن مجید میں نہیں آیا ہے۔لیکن بعض مفسرین نے سورہ کوثر کی پہلی آیت میں لفظ کوثر کو حوض کوثر یا حوض پیغمبرؐ سے تعبیر کیا ہے،[7] جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا اور گوارا ہے۔[8]

  • إِنَّا أَعْطَینَاک الْکوْثَرَ[9]

احادیث میں حوض کا تذکرہ

علماء نے حوض سے متعلق احادیث کو متواتر اور حوض کوثر کے وجود پر اعتقاد رکھنے کو ایمان کی شرائط میں سے شمار کیا ہے۔[10]

ابن بابویہ (شیخ صدوق[11] نے حوض کوثر کے وجود پر ایمان رکھنے کو شیعہ امامیہ کے اعتقادات میں سے شمار کیا ہے۔

بَقی بن مَخلد قُرطبی (متوفی ۲۷۶) نے حوض کوثر سے متعلق روایا کو اپنی کتابوں میں "مارُوی فی الحوض و الکوثر" کے عنوان سے جمع کیا ہے۔ ابوالقاسم ابن بَشکوال (متوفی ۵۷۸) نے بھی اس کتاب پر حاشیہ لکھا ہے۔

عبدالقادربن محمد عطا صوفی نے ان دو کتابوں کو "حوض اور کوثر" سے متعلق احادیث کو "مرویات الصحابہ رضی اللّہ عنہم فی الحوض و الکوثر" کے عنوان سے (مدینہ ۱۴۱۳) منتشر کیا ہے۔

حوض کوثر کی وسعت

اس حوض کی وسعت اور اس کے کنارے مؤمنین کو پلائے جانے والے جاموں کی تعداد کے بارے میں قدیم اسلامی منابع میں تفصیلات آئی ہیں۔[12] پیغمبر اکرمؐ سے مروی بعض روایات میں اس حوض کی وسعت کو "عَدَن" سے "عَمان" یا کعبہ سے بیت المقدس یا صنعا سے بُصری اور اس کے کنارے پلائے جانے والے جاموں کی تعداد کو ستاروں سے زیادہ بتائی گئی ہے۔[13]

حوض کوثر کے ساقی اور یہاں آنے والے لوگ

شیعہ اور اہل سنّت روایات کے مطابق حضرت علیؑ ہی ساقی کوثر ہیں، [14] اور پیغمبرؐ کے اعوان و انصار [15] آپ کے ساتھ اس حوض کے کنارے موجود ہوتے ہیں۔

حدیث ثقلین کے مطابق قرآن و عترت پیغمبرؐ قیامت کے دن پیغبر اکرمؐ کے حضور وارد ہونگے۔[16]

اسلامی منابع میں امام علی علیہ‌السلام حوض کوثر کے کنارے پیغمبر اکرم کے حضور وارد ہونے والوں میں سب سے پہلی شخصیت جانا گیا ہے۔[17] اور آپؑ منافقوں کو یہاں آنے سے روکیں گے۔[18]

حوض کوثر سے محروم افراد

حدیثی نبوی کے مطابق وہ افراد جو پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد دین میں بدعت گزاری کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں حوض کوثر پر آنے نہیں دی جائے گی۔[19] اسی طرح احادیث میں آیا ہے کہ ہر وہ شخص جس نے حضورؐ پر ایمان نہیں لایا وہ بھی قیامت کے دن حوض کوثر سے محروم رہیں گے۔[20]

حوالہ جات

  1. محمد بن محمد زَبیدی، تاج العروس من جواہرالقاموس، ذیل واژہ حوض؛ عبدالرحیم بن عبدالکریم صفی پوری، منتہی الارب فی لغہ العرب، ذیل واژہ حوض،
  2. دہخدا، ذیل واژہ
  3. احمد بن عبدالوہاب نویری، نہایہ الارب فی فنون الادب، ج۱۶، ص۳۶؛مجلسی، بحار الانوار، ج۱۵، ص۳۸
  4. محمد بن محمد زَبیدی، تاج العروس من جواہرالقاموس، ذیل واژہ حوض؛ عبدالرحیم بن عبدالکریم صفی پوری، منتہی الارب فی لغہ العرب، ذیل واژہ حوض،
  5. طوسی، التبیان فی التفسیر القرآن، ذیل کوثر، آیہ۱؛ محمد بن احمد قرطبی، تفسیر القرطبی، ذیل کوثر: آیہ ۱
  6. احمد بن محمد میبدی، کشفالاسرار و عدہالابرار، ذیل کوثر، آیہ۱؛ محمد بن شاہ مرتضی فیض کاشانی، تفسیرالصافی، ذیل کوثر، آیہ ۱
  7. احمد بن محمد میبدی، کشف الاسرار و عدۃالابرار، ذیل آیہ؛ حسین بن علی ابوالفتوح رازی، تفسیر روح الجِنان و روح الجَنان، ذیل آیہ؛ محمد بن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل آیہ؛ محمد بن شاہ مرتضی فیض کاشانی، تفسیرالصافی، ذیل آیہ،
  8. عبدالرحمان بن ابیبکر سیوطی، ذیل کوثر، آیہ۱، الدرالمنثور فی التفسیر بالمأثور، سیوطی، ذیل کوثر، آیہ۱
  9. سورہ کوثر، آیت 1
  10. محمد بن محمد غزالی، احیاءعلوم الدین، ج۱، ص۱۲۵؛ یحیی بن شرف نووی، صحیح مسلم بشرح النووی، ج۱۵، ص۵۳،؛ محمد عبدالرووف بن تاج العارفین مُناوی، فیض القدیر: شرح الجامع الصغیر من احادیث البشیرالنذیر، ج۳، ص۵۲۸
  11. ابن بابویہ، الاعتقادات، ج۱، ص۶۵،
  12. ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۲، ص۱۶۲ـ۱۶۳؛ ابن بابویہ، الاعتقادات، ج۱، ص۶۵؛ ہ مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح، ج۷، ص۶۵؛ عبدالرحمان بن ابی بکر سیوطی، الجامع الصغیر فی احادیث البشیرالنذیر، ج۱، ص۵۸۱
  13. ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۲، ص۱۶۲ـ۱۶۳؛ بَقی بن مَخلد، ماروی فی الحوض و الکوثر، ج۱، ص۸۰ـ۸۱، و ص۸۸، مرویات الصحابۃ رضیاللّہ عنہم فی الحوض و الکوثر کے عنوان سے
  14. موفق بن احمد اخطب خوارزم، المناقب، ج۱، ص۲۹۴؛ احمد بن عبداللّہ طبری، ذخائرالعقبی فی مناقب ذویالقربی، ج۱، ص۸۶
  15. ابن بابویہ، کتاب الخصال، ج۲، ص۵۵۹ـ۵۶۰؛ احمد بن عبداللّہ ابونعیم اصفہانی، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ج۱۰، ص۲۱۱
  16. ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۵، ص۱۸۲؛ محمد بن عبداللّہ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۰۹؛ علی بن ابوبکر ہیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج۱، ص۱۷۰، وج ۹، صص۱۶۳ـ۱۶۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۲۳، ص۱۳۴ـ۱۳۶
  17. محمد بن عبداللّہ حاکم نیشابوری، المستدرک علیالصحیحین، ج۳، ص۱۳۶؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۳، ص۱۰۹۰
  18. احمد بن عبداللّہ طبری، ذخائرالعقبی فی مناقب ذویالقربی، ج۱، ص۹۱
  19. مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح، ج۷، ص۶۵ـ۶۹
  20. علی بن عیسی بہاءالدین اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃالائمۃ، ج۳، ص۷۹؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۸، ص۱۹، ص۳۴

مآخذ

  • ابن بابویہ، الاعتقادات، چاپ عصام عبد السید، قم ۱۳۷۱ش
  • ہمو، کتاب الخصال، چاپ علی اکبر غفاری، قم ۱۳۶۲ش
  • ابن حنبل، مسندالامام احمد بن حنبل، بیروت: دار صادر، (بی تا.)
  • ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفہ الاصحاب، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲
  • حسین بن علی ابو الفتوح رازی، تفسیر روح الجِنان و روح الجَنان، چاپ ابوالحسن شعرانی و علی اکبر غفاری، تہران ۱۳۸۲ـ۱۳۸۷
  • احمد بن عبداللّہ ابو نعیم اصفہانی، حلیہ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، چاپ محمدامین خانجی، بیروت ۱۳۸۷/۱۹۶۷
  • موفقبن احمد اخطب خوارزم، المناقب، چاپ مالک محمودی، قم ۱۴۱۴
  • محمد حسین بن خلف برہان، برہان قاطع، چاپ محمد معین، تہران ۱۳۶۱ش
  • بَقی بن مَخلد، ماروی فی الحوض و الکوثر، در مرویات الصحابہ رضی اللّہ عنہم فی الحوض و الکوثر، چاپ عبدالقادر صوفی، مدینہ: مکتبہ العلوم و الحکم، ۱۴۱۳
  • علی بن عیسی بہاءالدین اربلی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵
  • محمد بن عبداللّہ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، چاپ یوسف عبد الرحمان مرعشلی، بیروت ۱۴۰۶
  • محمد بن محمد زَبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴
  • محمود بن عمر زمخشری، اساس البلاغہ، چاپ عبد الرحیم محمود، بیروت (بیتا)
  • عبد الرحمان بن ابی بکر سیوطی، الجامع الصغیر فی احادیث البشیرالنذیر، بیروت ۱۴۰۱
  • ہمو، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، چاپ نجدت نجیب، بیروت ۱۴۲۱/۲۰۰۱
  • عبد الرحیم بن عبد الکریم صفی پوری، منتہی الارب فی لغہ العرب، چاپ سنگی تہران ۱۲۹۷ـ۱۲۹۸، چاپ افست ۱۳۷۷
  • احمد بن عبداللّہ طبری، ذخائرالعقبی فی مناقب ذوی القربی، قاہرہ ۱۳۵۶، چاپ افست بیروت (بیتا.)
  • محمد بن محمد غزالی، احیاء علوم الدین، چاپ محمد محمد تامر، قاہرہ ۲۰۰۴
  • محمد بن شاہ مرتضی فیض کاشانی، تفسیر الصافی، بیروت ۱۴۰۲/۱۹۸۲
  • محمد بن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵
  • مجلسی، بحار الانوار
  • مسلمبن حجاج، الجامع الصحیح، بیروت: دارالفکر، (بی تا)
  • محمد عبد الرووف بن تاج العارفین مُناوی، فیض القدیر: شرح الجامع الصغیر من احادیث البشیر النذیر، چاپ احمد عبد السلام، بیروت ۱۴۱۵/۱۹۹۴
  • احمد بن محمد میبدی، کشف الاسرار و عدہ الابرار، چاپ علی اصغر حکمت، تہران ۱۳۶۱ش
  • یحیی بن شرف نووی، صحیح مسلم بشرح النووی، بیروت ۱۴۰۷/۱۹۸۷
  • احمد بن عبد الوہاب نویری، نہایہ الارب فی فنون الادب، قاہرہ (۱۹۲۳) ـ۱۹۹۰
  • علی بن ابوبکر ہیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸