ارتماسی وضو

ویکی شیعہ سے

اِرتِماسی وُضو، وضوکا ایک طریقہ یے کہ جس میں نیت،[1] کے بعد چہرہ اور پھر ہاتھوں کو پانی میں ڈبو کر باہر لایا جاتا ہے۔[2] یہ بھی جائز ہے کہ وضو کرنے والا وضو کے اعضاء کو پانی میں ڈبونے کے بعد پھر نیت کرے اور نیت کے بعد وضو کے اعضاء کو پانی سے باہر نکالے۔[3] ارتماسی وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو پانی میں ڈبونے کے بعد سر اور پاوں کا مسح کیا جاتا ہے۔[4]

ارتماس فقہی اصطلاح ہے جس کا مطلب سر یا دوسرے اعضاء کو پانی میں ڈبونا ہے۔ [5] ارتماسی وضو میں ترتیب غیر ارتماسی وضو کی طرح ہے، کہ پہلے چہرے کو دھویا جاتا یے ، اس کے بعد دایاں ہاتھ اوراس کے بعد بایاں ہاتھ ۔[1]

ارتماسی وضو میں چہرہ اور ہاتھ اوپر سے نیچے کی طرف دھوئے جاتے ہیں؛ چہرہ پیشانی کی طرف سے اور ہاتھ کہنیوں کی طرف سے پانی میں ڈبوئے جاتے ہیں۔لیکن ہاں اگر ہاتھ اور چہرہ کو پانی سے باہر نکالتے وقت وضو کی نیت کی جائے تو ضروری ہے کہ چہرے کو پیشانی کی طرف سے اور ہاتھوں کو کہنیوں کی طرف سے باہر نکالے۔[6]

امام خمینی کے فتوای کےمطابق ارتماسی وضو میں آپ صرف دو بار ہاتھ اور چہرہ کو پانی میں ڈبو سکتے ہیں، پہلی مرتبہ واجب، اور دوسری مرتبہ جائز،ہےاور دو مرتبہ سے زیادہ جائز نہیں ہے۔[7]بعض اعضائے وضو کو ارتماسی طریقہ سےاور بعض کو ترتیبی طریقہ سے دھونا جائز جانا گیا ہے۔[8] بعض فقہاء نے اس لئے کہ سر اور پاوں کا مسح ارتماسی وضو میں وضو کے پانی سے ہو، کچھ شرطیں رکھی ہیں اور ان شرائط کے نہ ہونے کی صورت میں ارتماسی وضو درست نہیں ہے۔

  • اسی لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ تھا کہ سر اور پاوں کا مسح وضو کے پانی سے کیا جائے۔ارتماسی وضو اسی وقت صحہح ہے کہ جب ہاتھوں کو پانی میں ڈبونے کے بعد پھر وضو کی نیت کرےاور اسکے بعد ہاتھوں کو پانی سے باہر نکالے۔[9]
  • سید ابوالقاسم خوئی اور میرزا جواد تبریزی کا نظریہ تھا کہ بائیں ہاتھ کو ارتماسی طریقہ سے نہیں دھو سکتے۔[10]
  • سید علی سیستانی اس گیلے ہاتھ سے جو اارتماسی طریقہ سے دھویا گیا ہے مسح کرنے کو کوئی اشکال نہیں جانتے ہیں،لیکن انہوں نے اسے احتیاط کے خلاف سمجھا ہے۔[11]
  • ناصر مکارم شیرازی کا نظریہ ہے کہ وضو کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ دائیں اور بائیں ہاتھ کا ارتماسی وضو کرتے وقت ارادہ یا نیت کرے کہ ہاتھوں کو پانی سے باہر نکالنے کے بعد جب تک پانی ہاتھوں پر جاری ریے گا وضو کا حصہ ہوگا۔[12]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. 1.0 1.1 میرزای قمی، جامع الشتات، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۳۲۔
  2. بہجت، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۸ھ، ص۵۳۔
  3. امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ھ، ص۶۱۔
  4. خامنہ‌ای، اجوبۃ الاستفتائات، ۱۴۲۴ھ، ص۲۱۔
  5. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ھ، ج۱، ص۳۴۶۔
  6. مکارم شیرازی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۹ھ، ص۶۰۔
  7. امام خمینی، توضیح المسائل‌ (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۱۹۹۔
  8. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۴۲۶ھ، ج۱، ص۳۴۷۔
  9. امام خمینی۔ رسالہ نجاۃ العباد، ۱۳۸۵ش، ص۲۰۔
  10. امام خمینی، توضیح المسائل‌ (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۱۶۰۔َ
  11. امام خمینی، توضیح المسائل‌ (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۱۶۰۔
  12. امام خمینی، توضیح المسائل‌ (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۱۶۱۔

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، توضیح المسائل‌ (محشی)، (ہمراہ با فتاوای فقھای بزرگ)، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۲۴ ہجری قمری۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، توضیح المسائل‌، محقق، مسلم قلی‌پور گیلانی‌، بےجا، بےنا، ۱۴۲۶ ہجری قمری۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، رسالہ نجاۃ العباد، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ دوم، ۱۳۸۵ہجری شمشی۔
  • بہجت، محمدتقی، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات شفق، ۱۴۲۸ہجری قمری۔
  • خامنہ ای، علی، اجوبۃ الاستفتاءات، قم، مرکز نشر آیت اللہ خامنہ‌ای، ۱۴۲۴ہجری قمری۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب، ۱۴۲۹ہجری قمری۔
  • میرزای قمی، ابوالقاسم بن محمدحسن‌، جامع الشتات فی اجوبۃ السؤالات‌، تہران، کیہان‌، ۱۴۱۳ہجری قمری۔
  • ہاشمی شاہرودی، محمود، فرہنگ فقہ مطابق با مذاہب اہل بیت، قم، مؤسسۃ دائرۃ المعارف اسلامی، ۱۴۲۶ہجری قمری۔