کثیر الشک
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
کَثیرُ الشک ایک فقہی اصطلاح ہے اور اس شخص کے لیے استعمال ہوتی ہے جو اپنے دینی اعمال میں زیادہ شک کرتا ہے۔ بعض مراجع تقلید نے کثیر الشک کا معیار بیان کیا ہے۔
بعض روایات میں اس حالت کو شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور شک کی پیروی کرنے کو ناپسند سمجھا ہے۔ اسلامی فقہ میں کثیر الشک کے بعض مخصوص اعمال ہیں اور شک پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔
تعریف
شک سے مراد یہ ہے کہ دونوں طرف احتمال برابر ہو اس بنا پر ظن کو شک نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ظن اور گمان میں احتمال 50 فیصد سے زیادہ ہوتا ہے فقہ میں ظن کے لیے بعض مخصوص احکام ہیں اور بعض اوقات ظن کا حکم بھی شک کی طرح ہے۔[1]
کثیر شک کا معیار
اکثر فقہا نے "کثیر الشک" میں شک کی کثرت اور زیادتی کا معیار عرف اور عام لوگوں کو قرار دیتے ہیں، یعنی کسی کی رفتار لوگوں کی نظر میں ایسی ہو کہ اس کے شک کو غیر معمولی اور حد سے زیادہ سمجھتے ہوں۔[2] جبکہ بعض فقہاء نے کثرت اور زیادتی کی پہچان کے لیے بعض معیار بھی بیان کئے ہیں جیسے: تین نمازوں میں مسلسل شک ہو یا ایک نماز میں تین بار شک ہو تو اسے کثیر الشک کہیں گے۔[3]
فقہی حکم
فقہی قاعدہ «لا شَكَّ لِكَثیرِ الشَّک» کے مطابق جس کسی کو زیادہ شک ہوتا ہو تو اسے اپنے شک کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ اس صورت میں بنا اس پر رکھی جائے گی کہ گویا مورد نظر چیز جس کے انجام دینے اور نہ دینے کا شک ہو تو اسے انجام دیا ہوا فرض کریں گے اور اگر اس کا انجام دینے سے نماز باطل ہوتی ہو تو بنا اس پر رکھی جائے گی کہ اسے انجام نہیں دیا ہے۔ مثل کے طور پر اگر کوئی شک کرے کہ رکوع انجام دیا ہے یا نہیں تو بنا رکھے کہ رکوع انجام دیا ہے۔ اور اگر پھر سے شک کرے کہ دو مرتبہ رکوع انجام دیا ہے یا ایک مرتبہ تو بنا رکھیں کہ ایک مرتبہ انجام دیا ہے اور اس کی نماز صحیح ہے۔[4]بعض محدود فقہاء اس قاعدے کو نماز سے مختص قرار دیتے ہیں۔[5]
اگر کوئی شخص کسی خاص مورد میں کثیر الشک ہو تو کیا کثیر الشک کا حکم دوسرے موارد میں بھی جاری ہوتا ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔[6]
جس شخص کو شک ہو کہ کثیرالشک کی حالت ختم ہوئی ہے یا نہیں تو حکم یہ ہے کہ اس کی یہ حالت ابھی تک باقی ہے اور کثیر الشک کے احکام پر عمل کرے۔[7]
بعض مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق شک اور وسواس پر بھروسہ کرنا حرام ہے۔[8]
بعض فقہی قواعد
شیعہ فقہ میں شک کے بعض موارد کے مخصوص احکام ہیں اور تمام افراد خاص کر جو زیادہ شک میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے لیے مفید ہیں ان میں سے بعض فواعد مندرجہ ذیل ہیں:
قاعدہ فراغ
اس قاعدے کے تحت عمل ختم ہونے کے بعد شک کرے کہ صحیح انجام دیا ہے یا نہیں، تو اس شک پر اعتنا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس کا عمل صحیح ہے۔ مثلا اگر نماز ختم ہونے کے بعد کسی کو شک ہوجائے کہ سورہ حمد کو صحیح سے پڑھا ہے یا نہیں، رکوع کیا ہے یا نہیں، تو نماز صحیح ہے اور اس شک کی پرواہ نہ کرے۔[9]
قاعدہ تجاوز
قاعدہ تجاوز یا محل گزرنے کے بعد شک، اگر عمل ختم ہونے سے پہلے، بعض سابقہ اجزاء کے بارے میں شک کریں کہ صحیح سے انجام دیا یا نہیں جبکہ ان کے محل سے گزر چکے ہیں۔ مثلا رکوع میں شک کریں کہ سورہ حمد صحیح طریقے سے پڑھا یا نہیں، یا سجدے میں شک کرے کہ رکوع انجام دیا یا نہیں تو ایسے شک کی بھی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ اور نماز کو ادامہ دینا چاہیے۔[10]
احادیث میں شک کا مقام
امام صادقؑ کی ایک حدیث میں شیطان کی پیروی پر شیطان کی خوشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زیادہ شک کرنے کو شیطان کی پیروی کرنے سے مترادف قرار دیا ہے اور اس پیروی کا نتیجہ یہ ہے کہ اس شخص کی نسبت شیطان کی لالچ زیادہ ہوتی ہے اور شیطان کو مومن کی عبادت میں دخل اندازی کی عادت کراتا ہے۔[یادداشت 1]
وسواس اور کثیرالشک میں فرق
بعض نے کثیر الشک اور وسواس میں فرق ڈالا ہے: وسواس میں شخص کام انجام دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ صحیح انجام نہیں دیا ہے لیکن کثیر الشک والے شخص کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کوئی انجام بھی دیا ہے یا نہیں۔ لیکن شرعی حکم دونوں موارد کا ایک ہی ہے کہ اس شک کی پرواہ نہیں کی جائے۔[11]
وسواس کے علاج کے لیے بہت سے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔[12][13]
نوٹ
- ↑ لاتُعَوِّدُوا الْخَبِیثَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ بِنَقْضِ الصَّلَاۃِ؛ فَتُطْمِعُوہُ؛ فَإِنَّ الشَّیطَانَ خَبِیثٌ یعْتَادُ لِمَا عُوِّد. کافی، چاپ دارالحدیث، ج۶، ص۲۷۸
حوالہ جات
- ↑ جواہر الکلام ج۱۲، ص۳۶۲-۳۶۵
- ↑ مستند العروۃ (الصلاۃ) ج۷، ص۱۷
- ↑ العروۃ الوثقی ج۳، ص۳۰۸، رسالہ توضیح المسائل مراجع، م۱۱۸۴
- ↑ فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ج۴، ص۷۱۲-۷۲۰
- ↑ القواعد الفقہیۃ، ج۲، ص۳۵۵ و ۳۵۶
- ↑ العروۃ الوثقی ج۳، ص۳۰۶-۳۰۷
- ↑ العروۃ الوثقی ج۳، ص۳۰۸
- ↑ سایت آیت اللہ مظاہری
- ↑ فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ولایی، عیسی، ص۲۶۱
- ↑ فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ولایی، عیسی، ص۲۳۳
- ↑ مدرسہ فقاہت
- ↑ سایت آیت اللہ مظاہری
- ↑ سایت حوزہ
مآخذ
- جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، محمد حسن نجفی (م. ۱۲۶۶ ق.)، ہفتم، بیروت،دار احیاء التراث العربی
- مستند العروۃ الوثقی، تقریرات آیۃ اللہ خوئی (م. ۱۴۱۳ ق.)، مرتضی بروجردی، قم، مدرسۃدار العلم، [بی تا].
- العروۃ الوثقی، سید محمد کاظم طباطبایی یزدی، مؤسسۃ النشر الاسلامی، قم
- توضیح المسائل مراجع، دفتر انتشارات اسلامی
- فرہنگ فقہ فارسی، زیر نظر آیت اللہ سید محمود شاہرودی، انتشارات مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی
- فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، عیسی ولایی، نشر نی، تہران، ۱۳۷۴ش
- کافی، محمد بن یعقوب کلینی، انتشارات دارالحدیث