خود کشی
خود کشی اپنے ہاتھوں سے زندگی کا شعوری خاتمہ ہے۔ زیادہ تر اخلاقی اور قانونی مکاتب فکر کے ساتھ ساتھ ادیان الہی میں خودکشی کو ایک ناپسند کام سمجھا گیا ہے اور خودکشی کو جرم اور گناہ قرار دیا گیا ہے اور قیامت کے دن اس کے لیے سخت سزا کا وعدہ دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک میں خودکشی موت کی دس بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ خود کشی کے پھیلاؤ کا تعلق، باطنیت اور گوشہ نشینی، ذہنی عارضے، ساکھ کا تحفظ، خاندانی عوامل، سماجی مشکلات، کمزور مذہبی عقائد اور اسامانیتا جیسے عوامل سے قرار دیا گیا ہے۔
شیعہ اور اہل سنت فقہاء نے خودکشی کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے اور خودکشی کرنے والے کو فاسق قرار دیا ہے۔ خودکشی کی ممانعت کے لیے آیات، روایات، فقہا کا اجماع، عقل اور سیرہ عقلا سے استناد کیا ہے۔ کسی اضطرار اور مجبوری میں یا کسی مسلمان کی جان بچانے جیسی اہم مصلحت کے لئے خودکشی کو جائز سمجھا گیا ہے؛ اگرچہ آسان موت (یوتھناسیا:Euthanasia) جیسے معاملات میں اکثر معاصر فقہاء نے اس کے تمام طریقوں کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔
فقہی منابع میں، قتل عمد اور وصیت جیسے ابواب میں، خودکشی کرنے والے شخص کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ اکراہ کے باوجود خودکشی کرنے میں معذور نہ ہونا، خودکشی کرنے والے کی وصیت قبول نہ ہونا، خودکشی میں مدد کرنے کی سزا، دیت ساقط ہونا وغیرہ ان احکام میں سے ہیں۔
مفہوم شناسی
فقہی اور قانونی تعریفوں کے مطابق، خودکشی ایک اختیاری عمل ہے جو ایک عاقل اور سمجھ دار شخص اپنی جان لینے اور خود کو مارنے کے لیےانجام دیتا ہے، اور خودکشی میں قتل کے برعکس، مجرم (جرم کا مرتکب ہونے والا) اور جس پر جرم واقع ہوتی ہے (جرم کا شکار) دونوں عنوان ایک فرد میں جمع ہوتے ہیں۔ (یعنی خود قاتل بھی ہے اور مقتول بھی)[1] لغت میں خودکشی یا انتحار کسی شخص کے اس شعوری عمل کو کہا جاتا ہے جو اپنی جان لینے کے لئے انجام دیتا ہے،[2] یا خود کو ایسا نقصان پہنچاتا ہے جو موت کا باعث بنتا ہے؛[3] جب کہ زندگی اور موت کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ اخلاقی طور پر اس فعل کا پابند نہیں ہے۔[4] خود کشی کا لفظ بعض اوقات کسی چیز کے حصول میں زیادہ کوشش کرنے یا کسی چیز کو حد سے زیادہ چاہنے کے لئے بھی کنایہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔[5]
دوسروں پر دباؤ ڈالنے، طاقت کا مظاہرہ کرنے یا دوسروں کی توجہ اور مدد مبذول کرنے کے مقصد سے خودکشی یا خود کو تباہ کرنے والے دیگر رویے کا ارتکاب کرنا، نیز خود کو مارنے کے سنجیدہ ارادے کے بغیر جذبات کا اظہار کرنا، دوسرے لفظوں میں، خود کو نقصان پہنچانے کا شعوری عمل جو مرنے کی خواہش کے بغیر ہو تو اسے شبہ خود کشی یا خود کشی کا دکھاوا کہلاتا ہے۔[6]
اقسام
خودکشی کو اس کے اسباب کے مطابق فعل اور ترک فعل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے یعنی خودکشی کرنے کے لئے کبھی کچھ انجام دیتا ہے؛ جیسے خود کو تلوار، چاقو اور بندوق سے مارنا یا زہر کھانا وغیرہ، اور کبھی خودکشی کے لئے کوئی کام ترک کرتا ہے؛ جیسے کھانا اور پانی سے انکار اور علاج ترک کرنا۔[7] خودکشی کو ارادے کے اعتبار سے قتل کی طرح دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جان بوجھ کر یا غیر ارادی: جان بوجھ کر خودکشی مصمم ارادے اور قصد سے ہوتی ہے، اور خطائی خودکشی، جس میں شخص بغیر کسی سنجیدہ ارادے کے کچھ کر رہا ہو، اور وہی کام جان لینے کا سبب بنتا ہے۔[8]
مقام اور اہمیت
خودکشی کے رجحان نے بہت سے مذہبی اور قانونی مکاتب فکر کی توجہ مبذول کرائی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔[9] خود کشی کے اسباب، اس کے پھیلاؤ کا زمینہ اور اس کے اعداد و شمار کا تجزیہ اور تحقیق مختلف علوم جیسے کہ نفسیات، سماجیات، اخلاقیات اور قانون میں کی جاتی ہے اور اگرچہ کچھ ماہرین نے آزادی، ارادے اور انسانی اختیار کے حق کی بنیاد پر خودکشی کے حق کو تسلیم کیا ہے، لیکن زیادہ تر ادیان الہی اور اخلاقی اور قانونی مکاتب میں خودکشی کو مکروہ اور ناپسند سمجھا جاتا ہے اور خودکشی کے اقدام کو جرم اور گناہ سمجھا جاتا ہے۔[10]
خودکشی کے اسباب اور عوامل کے طور پر بیان کی جانے والی کچھ چیزیں یہ ہیں: کمزور مذہبی عقائد، خدا پر یقین کی کمی کے باعث روح میں تلاطم، مذہب اور روحانیت سے روگردانی[11] اور بعض اعتقادی مکاتب اور مسلکوں میں خودکشی کے بارے میں حساسیت اور سختی کا فقدان۔[12] تحقیق کے مطابق بہت سے اسلامی ممالک میں خودکشی کی شرح غیر اسلامی ممالک کی نسبت بہت کم ہے اور مذہبی ممالک میں خودکشی کی شرح سیکولر ممالک کی نسبت کم ہے۔[13] اس بنا پر روحانی عقائد اور مذہبی عقائد ناخوشگوار واقعات کے مقابلے میں صبر و تحمل پیدا کرنے اور مستقبل کے حوالے سے مثبت رویہ رکھنے میں نمایاں اثر ڈالتے ہیں اور نفسیاتی اور سماجی عوامل کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔[14]
خود کشی کو ایک منحوس مظہر اور اہم سماجی مشکلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جس نے مختلف انسانی معاشروں کو اس میں مبتلا کر دیا ہے۔[15] عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک میں خودکشی موت کی دس بڑی وجوہات میں سے ایک[16] اور نوعمروں میں موت کی تیسری وجہ ہے۔[17] ان اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2000ء میں تقریباً آٹھ لاکھ پچاس ہزار مکمل خودکشیاں ریکارڈ کی گئیں اور خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ سنہ 2020ء تک یہ تعداد پندرہ لاکھ سے زیادہ ہو جائے گی۔[18] یہ اس حقیقت کے علاوہ ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق ہر مکمل خودکشی کے مقابلے میں 10 سے 20 خودکشی کی کوششیں بھی واقع ہوتی ہیں، جو معاشرے میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجچان کی وسعت اور گہرائی کا پتہ دیتی ہیں۔[19]
اسلام اور دیگر مذاہب میں خودکشی کی ممانعت
تفسیر المیزان میں علامہ طباطبایی نے تمام مذاہب کی تعلیمات اور قوانین الٰہی کے مطابق خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔[20] شیعہ اور اہل سنت فقہاء نے بھی خودکشی حرام ہونے کی تصریح کرتے ہوئے،،[21] اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے اور خودکشی کرنے والے کو فاسق کہا ہے۔[22] نیز قرآن[23] اور احادیث میں خودکشی کرنے والے کے لیے آخرت میں سخت عذاب بیان کی گئی ہے۔[24] خودکشی کی انتہائی ممانعت اور حرام ہونے کے باوجود فقہا نے خودکشی کرنے والے کے کافر ہونے کے بارے میں کوئی حکم جاری نہیں کیا ہے، لیکن بعض فقہی اصولوں کی بنا پر کبیرہ گناہ کو جائز سمجھنے کو کفر کا باعث سمجھتے ہیں اور اگر کوئی شخص خود کشی کو جائز اور مباح سمجھتا ہے تو اس کو کافر قرار دیا جاتا ہے۔[25]
پیغمبر اکرمؐ کی ایک روایت کے مطابق جو شخص اپنے آپ کو قتل کرے گا اسے قیامت کے دن اسی آلے سے عذاب دیا جائے گا جس سے اپنے آپ کو مارا ہے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔[26] یہودیت میں بھی خودکشی قابل مذمت چیز ہے اور خود کشی کرنے والے کو دوسرے یہودیوں کے ساتھ دفن کرنا ممنوع ہے۔[27] عیسائی بائبل میں خودکشی کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔[28] عیسائیت میں خودکشی کو بھی قتل سمجھا جاتا ہے اور اس کے مرتکب افراد کو عام تدفین کے رسم کے مطابق دفن کرنے سے محروم کیا جاتا ہے۔[29]16ویں اور 17ویں صدی عیسوی کے یورپ میں خودکشی کرنے والوں کی لاشوں کو مذہبی رسومات کے بغیر دفن کیا جاتا تھا اور ان کے ورثاء کو ان کی وراثت سے بھی محروم کر دیا جاتا تھا۔[30]
خودکشی حرام ہونے کے دلائل
خودکشی کی حرمت کے لیے آیات، روایات، اجماع فقہاء[31] و عقل و سیرہ عقلا[32] سے استناد ہوا ہے
آیات
فقہا اور مفسرین نے خودکشی حرام ہونے کو قرآن کی بعض آیات سے استناد کیا ہے:
- سورہ نساء آیت نمبر 29: "... «... وَ لَا تَقْتُلُواْ أَنفُسَکمْ إِنَّ اللَّہَ کاَنَ بِکمْ رَحِیمًا؛ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ بے شک اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔"
چھٹی صدی ہجری کے مفسرین میں سے طبرسی نے اس آیت میں قتل کی ممانعت کو دوسروں کے قتل سے تعبیر کیا ہے [33] اور دیگر مفسرین؛ جیسے محقق اردبیلی[34] اور مکارم شیرازی[35] نے اسے خودکشی سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری طرف علامہ طباطبایی نے اس آیت میں قتل کی ممانعت کو خودکشی اور دوسروں کے قتل دونوں کو شامل سمجھا ہے؛ کیونکہ ان کے نزدیک آیت کے آخر میں اس ممانعت کو خدا کی رحمت سے تعلیل کیا ہے اور اس طرح علت لے آنا اور وضاحت کرنا ممانعت کی عمومیت کے ساتھ سازگار ہے۔[36]
- سورہ بقرہ آیت نمبر 195: «وَ أَنفِقُواْ فی سَبِیلِ اللَّہِ وَ لَا تُلْقُواْ بِأَیدِیکمْ إِلی التَّہْلُکة...؛ اور خدا کی راہ میں (مال و جان) خرچ کرو اور (اپنے آپ) کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو..." اگرچہ یہ آیت اسلامی جہاد میں انفاق ترک کرنے کے بارے میں ہے، لیکن اس کا مفہوم وسیع تر سمجھا گیا ہے کیونکہ اس میں ہر قسم کے افراط اور تفریط سے منع کیا گیا ہے جو انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے اسے تباہی سے دوچار کرتے ہیں۔[37]
- قرآن کی دوسری آیات، جیسے کہ خدا کا بنی اسرائیل سے اپنا خون نہ بہانے کا وعدہ،[38] اسی طرح بےگناہ انسان کے قتل کی ممنوعیت[39] میں خودکشی کو بھی شامل سمجھا گیا ہے۔[40]
احادیث
خود کشی حرام ہونے کے بارے میں جن احادیث سے استناد کیا جاتا ہے ان میں سے ایک حدیث امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: "مومن کسی بھی مصیبت میں مبتلا ہو اور کسی بھی موت سے مرتا ہے لیکن خودکشی نہیں کرتا ہے۔"[41] اسی طرح امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث سے بھی استناد کیا گیا ہے کہ جس میں جان بوجھ کر خودکشی کو جہنم کی آگ میں مبتلا کرنے کا سبب قرار دیا ہے۔[42]
فقہی احکام
فقہی ماخذ میں خودکشی سے متعلق احکام زیادہ تر جان بوجھ کر قتل اور وصیت کے ابواب میں زیر بحث آئے ہیں، اور ان میں خودکشی کرنے میں زبردستی اور اکراہ کا عذر قبول نہ ہونا، خودکشی کرنے والے شخص کی وصیت کی عدم قبولیت، خود کشی کرنے میں مدد کرنے کی سزا اور دیت ساقط ہونے جیسے معاملات شامل ہیں۔
دیت کا ساقط ہونا
خودکشی کرنے والے کے لیے کوئی دیت معین نہیں ہوئی ہے؛ کیونکہ اس شخص نے اپنے خلاف اقدام کیا ہے اور فقہاء کی تعبیر میں اس کا خون رائیگاں ہے۔[43] اس رائے کے برخلاف بعض شافعی اور حنبلی فقہاء کا خیال ہے کہ اس کے قتل کا کفارہ اس کے مال سے دیا جائے اور غیر ارادی خودکشی کی صورت میں اس کی دیت کی ادائیگی کو عاقلہ (قاتل کے رشتہ دار) کے ذمے قرار دیا ہے جو اس کے وارثوں کو ادا کریں گے۔[44]
زبردستی کا عذر قبول نہ ہونا
کسی شخص کو اس کو اپنے آپ کا قتل کرنے پر مجبور اور اکراہ کرنے کو دو صورتوں میں تحقیق کی گئی ہے: فقہاء کی رائے کے مطابق، اگر مُکرَہ اور زبردستی کا شکار شخص محجور ہو (جیسے کہ غیر ممیز بچہ اور پاگل ہو) اور اسے خود کو قتل کرنے پر مجبور کیا جائے تو اس صورت میں مجبور کرنے والے کو قصاص کیا جائے گا کیونکہ دراصل خودکشی نہیں ہوئی ہے اور محجور شخص در حقیقت قتل کا آلہ کار تھا اور اس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ دوسری طرف، اگر مجبور ہونے والا شخص محجور نہ ہو تو گویا اس شخص نے اپنی مرضی سے خودکشی کی ہے اور مجبور کرنے والا ذمہ دار نہیں ہے اور زبردستی اور اجبار واقع نہیں ہوئی ہے؛ کیونکہ اجبار اور زبردستی اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی زیادہ ضرر سے چھٹکارا پانے کے لیے ناپسندیدہ کام کا ارتکاب کرتا ہے، لیکن اس فرض میں قتل سے بڑا کوئی نقصان نہیں ہے۔[45]
خودکشی کرنے والے کی وصیت
بعض روایات کے مطابق،[46] فقہاء خودکشی کرنے والے شخص کی وصیت کو قبول سمجھتے ہیں اگر وہ خود کو زخمی کرنے سے پہلے کی گئی ہو، اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے؛ لیکن اگر کوئی زخم لگنے کے بعد وصیت کرے جس زخم سے موت واقع ہو تو اس کی وصیت کو باطل سمجھا جائے گا اور اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔[47]
خود کشی میں شرکت اور مدد
کسی دوسرے شخص کی خودکشی میں شریک ہونا یا کسی دوسرے شخص کو خودکشی کے لیے ترغیب دینے کی صورت میں، جیسے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے عمدی جراحت اور اور اپنی جراحت اور زخم سے خود کشی کرے، تو اس بارے میں دو قول پیش کیے گئے ہیں؛ بعض فقہاء نصف دیت ادا کرنے کے بعد قصاص ثابت ہونے کا حکم دیا ہے،[48] اور دوسرے فقہا کا کہنا ہے کہ مقتول کے قتل میں شریک ہونے کی وجہ سے وہ قصاص میں شریک نہیں ہوتا، اور صرف دیت اس پر واجب ہو جاتی ہے۔[49]
مستثنیات
خودکشی حرام ہونے اور حدیثی و فقہی منابع میں اس پر تاکید اور اس کے لیے آخرت میں سخت سزا کے تعین کے باوجود بعض فقہی مآخذ کے مطابق بعض اوقات کسی اضطرار اور مجبوری یا کسی اہم مصلحت جیسے مسلمانوں کی جان بچانے کے لئے خودکشی کو جائز سمجھا گیا ہے؛ اگرچہ یوتھناسیا یا آسان موت (فرانسیسی میں Euthanasie، انگریزی میں: Euthanasia) جیسے معاملات میں اکثر فقہاء نے فیصلہ دیا ہے کہ اس کے تمام طریقے جائز نہیں ہیں۔[50]
- علامہ حلی نے اس مسئلہ کو جہاد کے مسائل کے ذیل میں ذکر کیا ہے کہ اگر کفار مسلمانوں کی کشتی کو آگ لگا دیں تو کیا ان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے آپ کو آگ سے بچانے کے لیے سمندر میں کودیں؟ ان کی رائے کے مطابق جان بچانا واجب ہے اور (جان بچانے کے لیے قوی احتمال پر عمل کرنا ضروری ہے) اگر کشتی پر ٹھہرنے سے جل کر موت واقع ہو جاتی ہے تو سمندر کے پانی میں خود کو گرانا جائز ہے۔[51] حسینی طہرانی وہ فقیہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ اس صورت میں اگر کوئی شخص اپنے آپ کو جلتا ہوا دیکھے تو بھی اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو سمندر میں گرادے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو غرق کرے۔[52]
- بعض فقہاء مثلاً مکارم شیرازی اور حسین علی منتظری نے ایسے مسلمان کے لیے خودکشی کرنا جائز قرار دیا ہے جو دشمن کے ہاتھوں اسیر ہو اور کفار کی طرف سے دی جانے والی اذیت اور تکلیف برداشت کرنے اور مسلمانوں کے اسرار اور راز کو محفوظ رکھنے کی ہمت نہ ہو تو مسلمانوں کو شدید دھچکا لگنے سے روکنے کے لئے خودکشی کو جائز سمجھا ہے۔[53]
- بہت سے فقہاء نے شہادت طلبانہ کاروائی کو جائز قرار دیا ہے، خواہ اسے خودکشی ہی سمجھا جائے، اگر یہ اسلام کے دشمنوں کو مارنے یا مسلمانوں کا دفاع کرنے جیسے اہم فریضے کے لیے ہو تو اسے جائز سمجھا ہے اور اسے دفاعی جہاد کی صورت میں تحلیل و تجزیہ کیا ہے۔[54]
حوالہ جات
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1419ق، ص91؛ آقایی نیا، حقوق کیفری اختصاصی: جرایم علیہ اشخاص، 1389ش، ص26-28؛ نوری، «خودکشی»، ص82-83؛ گلاب بخش و کاظمی، «خودکشی»، ص402-403.
- ↑ انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ذیل واژہ؛ عمید، فرہنگ فارسی عمید، ذیل واژہ.
- ↑ رضائیان، اپیدمیولوژی خودکشی، 1385ش، ص1970؛ جعفری لنگرودی، مبسوط در ترمینولوژی حقوق، 1378ش، ج3، ص1838.
- ↑ اسلامی نسب، بحران خودکشی، 1371ش، ص73-74.
- ↑ دہخدا، لغت نامہ دہخدا، ذیل واژہ خودکشی کردن؛ انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ذیل واژہ خودکشی کردن.
- ↑ رضائیان، اپیدمیولوژی خودکشی، 1385ش، ص1971-1972؛ واژہہای مصوب فرہنگستان؛ گلاب بخش و کاظمی، «خودکشی»، ص403.
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1419ق، ص91.
- ↑ محقق داماد، فقہ پزشکی، 1391ش، ص197-198.
- ↑ شہیدی، «انتحار» ص33.
- ↑ دورکیم، خودکشی، 1378ش، ص149-159؛ محسنی، جامعہشناسی انحرافات اجتماعی، 1386ش، ص202-209؛ گلاببخش و کاظمی، «خودکشی» ص403.
- ↑ شریعتی رودسری، «خودکشی، علل و... (3)»، ص21-22.
- ↑ ربیعی، «خودکشی»، ص31.
- ↑ رضائیان، اپیدمیولوٰژی خودکشی، ص1978.
- ↑ رضائیان، اپیدمیولوٰژی خودکشی، ص1978.
- ↑ کینیا، مبانی جرمشناسی، 1376ش، ج1، ص429-454.
- ↑ رضائیان، «پیشگیری از خودکشی در کشورہای در حال توسعہ»، ص441
- ↑ کرنلسون، درمان مسائل جوانان و نوجوانان، 1376ش، ص246.
- ↑ رضائیان، «پیشگیری از خودکشی در کشورہای در حال توسعہ»، ص441
- ↑ رضائیان، «پیشگیری از خودکشی در کشورہای در حال توسعہ»، ص444
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج7، ص372.
- ↑ منتظری، مجازاتہای اسلامی و حقوق بشر، 1429ق، ص91؛ سبحانی، الرسائل الاربع، 1415ق، ج2، ص166؛ الموسوعة الفقہیہ، 1410ق، ج6، ص283.
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1419ق، ص91.
- ↑ سورہ نساء، آیہ 29-30؛ سورہ فرقان، آیہ 68-69.
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ق، ج29، ص24.
- ↑ الموسوعة الفقہیہ، 1410ق، ج6، ص291-292.
- ↑ ابن حنبل، مسند احمد، دار صادر، ج2، ص478؛ دارمی، سنن دارمی، نشر دار الإحیاء السنة النبوی، ص192.
- ↑ گلاببخش و کاظمی، «خودکشی» ص403.
- ↑ انجیل متی، باب 27.
- ↑ محقق داماد، فقہ پزشکی، 1389، ص183؛ شہیدی، «انتحار»، ص34.
- ↑ شہیدی، «انتحار»، ص33-35؛ پاد، حقوق کیفری اختصاصی جرائم علیہ اشخاص، 1381ش، ج1، ص29.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج36، ص370؛ سبحانی، الرسائل الاربع، 1415ق، ج2، ص167.
- ↑ سبحانی، الرسائل الاربع، 1415ق، ج2، ص198.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص59.
- ↑ اردبیلی، زبدة البیان، مکتبة المرتضویہ، ص428.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص356.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج4، ص320.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج2، ص64؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج2، ص36.
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ 84.
- ↑ سورہ مائدہ، آیہ 32؛ سورہ انعام، آیہ 151؛ سورہ اسراء، آیہ 33.
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج3، ص591؛ طباطبایی، المیزان، 1390ق، ج5، ص315؛ میرزادہ، «خودکشی»، ص314.
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ق، ج29، ص24.
- ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ق، ج3، ص572.
- ↑ طوسی، المبسوط، 1378ق، ج7، ص178-179 و 195؛ ابن ادریس، السرائر، 1410ق، ج3، ص400؛ طبرسی، الموتلف، 1410ق، ج2، ص358.
- ↑ ابن قدامہ، المغنی، 1347ق، ج10، ص39؛ ج9، ص509؛ مطیعی، التکملہ الثانیہ، دارالفکر، ج19، ص185 و 145.
- ↑ طوسی، المبسوط، 1387ق، ج7، ص43؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ق، ج4، 186؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ق، ج15، ص89.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج7، ص45.
- ↑ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ق، ج9، ص207؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ق، ج6، ص142؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج28، ص275؛ امام خمینی، نجاة العباد، 1409ق، 311-312.
- ↑ علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ق، ج5، ص437.
- ↑ طوسی، المبسوط، 1387ق، ج7، ص22-23.
- ↑ اسلامی تبار و الہی منش، مسائل اخلاقی در قتل ترحم آمیز، ص207-209.
- ↑ علامہ حلی، منتہی المطلب، 1412ق، ج14، ص81-82.
- ↑ حسینی تہرانی، نور ملکوت قرآن، 1433ق، ج1، ص188.
- ↑ منتظری، دراسات فی ولایة الفقیہ، 1409ق، ج2، ص583-584؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ق، ج1، ص531-532.
- ↑ منتظری، مجازاتہای اسلامی و حقوق بشر، 1429ق، ص92؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ق، ج3، ص353؛ فیرحی، «دفاع مشروع، ترور و عملیات شہادتطلبانہ در مذہب شیعہ»، ص113-115؛ 123-124؛ ورعی، «مبانی فقہی عملیات شہادتطلبانہ»، ص319-321؛ 329-332.
مآخذ
- کتاب مقدس انجیل متی
- ابن ادریس، محمد بن منصور، السرائر، قم، جامعہ مدرسین، 1410ق
- ابن حنبل، احمد، مسند احمد، بیروت، دارصادر، بیتا.
- ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، المغنی، بیروت، چاپ افست، بیتا.
- احمدزادہ، ولی و نوید، احد، «خودکشی و علل آن»، در مجلہ دانشگاہ انقلاب، شمارہ 51، 1366ہجری شمسی۔
- اردبیلی، احمد بن محمد، زبدة البیان، تہران، المکتبة المرتضویة، بیتا.
- اسلامی تبار، شہریار و الہی منش، محمدرضا، «مسائل اخلاقی در قتل ترحم آمیز، تہران، نشر مجد، 1386ہجری شمسی۔
- اسلامینسب، علی، بحران خودکشی (مبانی روانشناختی رفتار خود-تخریبی و تہاجمی)، تہران، نشر فردوس، 1371ہجری شمسی۔
- آقایینیا، حسین، حقوق کیفری اختصاصی: جرایم علیہ اشخاص (جنایات)، تہران، انتشارات میزان، 1389ہجری شمسی۔
- الموسوعة الفقہیہ، کویت، وزارة الاوقاوف و الشئون الاسلامیہ، 1410ھ۔
- امام خمینی، روح اللہ، نجاة العباد، تہران، موسسہ نشر آثار امام خمینی، 1409ھ۔
- انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، نشر سخن، 1381ہجری شمسی۔
- پاد، ابراہیم، حقوق کیفری اختصاصی: جرائم بر ضد اشخاص (صدمات بدنی و صدمات معنوی)، تہران، نشر رہام، 1381ہجری شمسی۔
- جعفری لنگروی، محمدجعفر، مبسوط در ترمینولوژی حقوق، تہران، گنج دانش، 1378ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، موسسہ آل البیت، 1409ھ۔
- حسینی تہرانی، سید محمدحسین، نور ملکوت قرآن، ج1، قم، انتشارات علامہ طباطبایی، 1379ہجری شمسی۔
- دارمی، عبداللہ بن عبدالرحمن، سنن دارمی، بیروت، دار احیا السنة النبویہ، بیتا.
- دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ دہخدا، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی۔
- دورکیم، امیل، خودکشی، ترجمہ نادر سالارزادہ، تہران، دانشگاہ علامہ طباطبایی، 1378ہجری شمسی۔
- ربیعی، ناصر، «خودکشی»، در مجلہ اصلاح و تربیت، شمارہ 15، 1375ہجری شمسی۔
- رضائیان، محسن، «پیشگیری از خودکشی در کشورہای در حال توسعہ: موضوعی در اولویت»، در مجلہ تحقیقات نظام سلامت، سال نہم، شمارہ 5، 1392ہجری شمسی۔
- رضائیان، محسن، اپیدمیولوژی خودکشی، (در کتاب جامع بہداشت عمومی)، تہران، انتشارات ارجمند، 1385ہجری شمسی۔
- سبحانی، جعفر، الرسائل الاربع، قم، موسسہ امام صادق علیہالسلام، 1415ھ۔
- ستودہ، ہدایت اللہ، آسیب شناسی اجتماعی (جامعہ شناسی انحرافات)، تہران، آوای نور، 1378ہجری شمسی۔
- شریعتی رودسری، مصطفی، خودکشی (1)، در مجلہ تربیت، شمارہ 91، 1373ہجری شمسی۔
- شریعتی رودسری، مصطفی، خودکشی، علل و... (2)، در مجلہ تربیت، شمارہ 92، 1373ہجری شمسی۔
- شریعتی رودسری، مصطفی، خودکشی، علل و... (3)، در مجلہ تربیت، شمارہ 93، 1373ہجری شمسی۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، موسسہ المعارف الاسلامیہ، 1413ھ۔
- شہیدی، جواد، «انتحار»، در نشریہ کانون وکلا، شمارہ 40، 1333ہجری شمسی۔
- صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، جامعہ مدرسین، 1413ھ۔
- صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال، قم، دار الشریف الرضی، 1409ھ۔
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، الموتلف، مشہد، مرکز البحوث الاسلامیہ، 1410ق،
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
- طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الامامیہ، تہران، المکتبة المرتضویہ، 1387ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیة علی المذہب الامامیہ، قم، موسسہ امام صادق، 1420ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب فی تحقیق المذہب، مشہد، مرکز البحوث الاسلامیہ، 1412ھ۔
- عمید، حسن، فرہنگ فارسی عمید، تہران، انتشارات آگاہ، 1390ہجری شمسی۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیا التراث العربی، 1420ھ۔
- فیرحی، داوود، «دفاع مشروع، ترور و عملیات شہادتطلبانہ در مذہب شیعہ»، در فصلنامہ تخصصی شیعہشناسی، سال دوم، شمارہ 6، 1383ہجری شمسی۔
- کرنلسون، لامبرت، درمان مسائل جوانان و نوجوانان، مترجم مجتبی جوادیان، مشہد، آستان قدس رضوی، 1376ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- کینیا، مہدی، مبانی جرم شناسی، تہران، نشر دانشگاہ تہران، 1376ہجری شمسی۔
- گلاب بخش، مریم و کاظمی افشار، ہاجر، «انتحار» در دانشنامہ جہان اسلام، 1390ہجری شمسی۔
- محسنی، منوچہر، جامعہ شناسی انحرافات اجتماعی، تہران، انتشارات طہوری، 1386ہجری شمسی۔
- محقق حلی، نجم الدین جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، قم، موسسہ اسماعیلیان، 1408ھ۔
- محقق داماد، مصطفی، فقہ پزشکی، تہران، نشر حقوقی، 1391ہجری شمسی۔
- مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، نشر الہادی، 1419ھ۔
- مطیعی، محمدنجیب، التکملہ الثانیہ، بیروت، دارالفکر، بیتا.
- مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالب، 1427ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1371ہجری شمسی۔
- منتظری، حسینعلی، دراسات فی ولایة الفقیہ و فقہ الدولة الاسلامیہ، قم، نشر تفکر، 1409ھ۔
- منتظری، حسینعلی، مجازاتہای اسلامی و حقوق بشر، قم، ارغوان دانش، 1429ھ۔
- میرزادہ، عطاءاللہ، «خودکشی»، در دائرة المعارف قرآن کریم، 1393ہجری شمسی۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار احیا التراث العربی، 1404ھ۔
- نوری، رضا، «خودکشی»، در نشریہ مہنامہ قضایی، شمارہ 148، 1357ہجری شمسی۔
- ورعی، جواد، «مبانی فقہی عملیات شہادتطلبانہ»، در مجلہ حکومت اسلامی، سال ہشتم، شمارہ 1، 1382ہجری شمسی۔