مندرجات کا رخ کریں

خود کشی

ویکی شیعہ سے

خود کشی اپنے ہاتھوں سے زندگی کو شعوری طور پر خاتمہ دینا ہے۔ اس کام کو ادیان الہی اور اخلاقی و قانونی مکاتب فکر میں ایک ناپسند کام قرار دیا گیا ہے۔

مسلمان علما خودکشی کو گناہ کبیرہ اور حرام سمجھتے ہیں۔ البتہ بعض فقہی منابع میں آیا ہے کہ کسی اضطرار اور مجبوری میں یا مسلمانوں کی جان بچانے جیسی اہم مصلحت کے لئے خودکشی جائز ہے۔ اسی طرح بعض فقہاء کے فتوے کے مطابق اسلام دشمنوں کو ضربہ پہنچانے یا مسلمانوں کے دفاع کے لئے شہادت طلبانہ کاروائی کرنا بھی جائز ہے۔

خودکشی میں شریک ہونے کی صورت میں اس کی سزا اور مُنتحِر (خود کشی کرنے والے) کی وصیت کا قبول نہ ہونا خودکشی سے مربوط احکام میں سے ہیں۔

خود کشی کے مسئلے کی اہمیت

خودکشی کے رجحان نے بہت سے مذہبی اور قانونی مکاتب فکر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔[1] اگرچہ کچھ ماہرین نے آزادی، ارادے اور انسانی اختیار کے حق کی بنیاد پر خودکشی کے حق کو تسلیم کیا ہے؛ لیکن زیادہ تر ادیان الہی اور اخلاقی و حقوقی مکاتب میں خودکشی کو منفور اور ناپسند سمجھا جاتا ہے اور خودکشی کے اقدام کو جرم اور گناہ سمجھا جاتا ہے۔[2]

خود کشی کو ایک منحوس مظہر اور اہم سماجی مشکلات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جس نے مختلف انسانی معاشروں کو اس میں مبتلا کر دیا ہے۔[3] عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے بیشتر ممالک میں خودکشی موت کی دس بڑی وجوہات میں سے ایک[4] اور نوعمروں میں موت کی تیسری وجہ ہے۔[5]

خودکشی کے پھیلانے والے مؤثر عوامل میں ذہنی اور احساساتی تناؤ،[6] اپنی ساکھ کی حفاظت اور سماجی و مذہبی ضابطوں سے آنے والا دباؤ،[7] خاندانی عوامل جیسے طلاق اور خاندانی ٹوٹ پھوٹ،[8] سماجی مشکلات[9] اور کمزور مذہبی عقائد اور روحانیت و معنویت سے دوری[10] جیسے عوامل شامل ہیں۔

مفہوم شناسی

خودکشی (عربی: «انتحار» انگریزی «suicide») عرف اس شعوری عمل کو کہا جاتا ہے جو اپنی جان لینے کے لئے انجام دیا جاتا ہے،[11] فقہی اور قانونی تعریفوں کے مطابق، خودکشی ایک اختیاری عمل ہے جو ایک عاقل اور سمجھ دار شخص اپنی جان لینے اور خود کو مارنے کے لیے کرتا ہے، اور خودکشی میں قتل کے برعکس، مجرم (جرم کا مرتکب ہونے والا) اور جس پر جرم واقع ہوتی ہے (جرم کا شکار) دونوں عنوان ایک فرد میں جمع ہوتے ہیں۔ (یعنی خود قاتل بھی ہے اور مقتول بھی)[12]

اقسام

خودکشی کو اس کے اسباب کے مطابق فعل اور ترک فعل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے یعنی خودکشی کرنے کے لئے کبھی کچھ انجام دیا جاتا ہے؛ جیسے خود کو تلوار، چاقو اور بندوق سے مارنا یا زہر کھانا وغیرہ، اور کبھی خودکشی کے لئے کوئی کام ترک کرتا ہے؛ جیسے کھانا اور پانی سے انکار، اور علاج ترک کرنا۔[13] خودکشی کو ارادے کے اعتبار سے قتل کی طرح دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جان بوجھ کر یا غیر ارادی: جان بوجھ کر خودکشی مصمم ارادے اور قصد سے ہوتی ہے، اور خطائی خودکشی، جس میں شخص بغیر کسی سنجیدہ ارادے کے کچھ کر رہا ہو، اور وہی کام جان لینے کا سبب بنتا ہے۔[14]

اسلام اور دیگر مذاہب میں خودکشی کی ممانعت

مسلم دانشوروں نے خودکشی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے اور خودکشی کرنے والے کو فاسق کہا ہے۔[15] شیعہ فقہا کا خود کشی حرام ہونے پر اجماع ہے۔[16] نیز عقل اور سیرہ عقلا[17] کے مطابق بھی اس کی مذمت ہوئی ہے۔

بعض مفسرین کے مطابق قرآن کریم میں خودکشی سے منع کی گئی ہے۔[18] ان آیات میں سے ایک سورہ نساء کی آیت 29 ہے جس میں کہا گیا ہے کہ «... وَ لَا تَقْتُلُواْ أَنفُسَکمْ؛ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔" محقق اردبیلی[19] اور مکارم شیرازی[20] نے اسے خودکشی سے تفسیر کیا ہے۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 195 میں وَ لَا تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلىَ التهَّْلُكَة؛ اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں مت ڈالو، کا جملہ بھی ان تمام چیزوں کو شامل کرتا ہے جو انسانی جان کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔[21]

قرآن کی دیگر آیات، جیسے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 84 میں اللہ کا بنی اسرائیل کے ساتھ ان کا خون نہ بہانے کا عہد، اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر 32 میں بے گناہ جان کو قتل کرنے کی ممانعت، خودکشی کی ممانعت کے لیے قرآنی دلائل میں سے شمار ہوتی ہے۔[22]

خود کشی حرام ہونے کے بارے میں احادیث میں بھی تذکرہ ہوا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی ایک روایت کے مطابق جو شخص اپنے آپ کو قتل کرے گا اسے قیامت کے دن اسی آلے سے عذاب دیا جائے گا جس سے اپنے آپ کو مارا ہے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔[23] امام صادقؑ سے منقول ایک روایت میں کہا گیا ہے: "جان بوجھ کر کی جان والی خودکشی انسان کو جہنم کے آگ میں مبتلا کرتی ہے۔[24]

دوسرے ادیان و مکاتب میں

تفسیر المیزان میں علامہ طباطبایی نے تمام مذاہب کی تعلیمات اور قوانین الٰہی کے مطابق خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔[25] یہودیت میں بھی خودکشی قابل مذمت چیز قرار دی گئی ہے اور خود کشی کرنے والے کو دوسرے یہودیوں کے ساتھ دفن کرنا ممنوع ہے۔[26] عیسائی کتاب مقدس میں خودکشی کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔[27] عیسائیت میں خودکشی کو بھی قتل قرار دیا گیا ہے اور اس کے مرتکب افراد کو عام تدفین کے رسم کے مطابق دفن کرنے سے محروم کیا جاتا ہے۔[28] قدیم یونان باستان میں بھی خودکشی کو ناروا شمار کیا گیا ہے۔[29]

فقہی احکام

خود کشی سے مربوط اکثر فقہی احکام قتل عمد اور وصیت کے باب میں بیان ہوئے ہیں۔

خود کشی میں شرکت

خودکشی میں شریک ہونے کے بارے میں دو قول پیش کیے گئے ہیں: بعض فقہاء نے نصف دیت ادا کرنے کے بعد شریک پر قصاص ثابت ہونے کا حکم دیا ہے[30] اور دوسرے فقہا کا کہنا ہے کہ مقتول اپنے قتل میں شریک ہونے کی وجہ سے دوسرا شرکت کرنے والا شخص قصاص میں شریک نہیں ہوتا ہے، اور اس پر صرف دیت واجب ہو جاتی ہے۔[31]

یوتھناسیا اور خودکشی

فقہاء کے فتویٰ کے مطابق اگر مریض خود اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے دوائی لے تو یہ خودکشی شمار ہوگی اور حرام ہے۔[32] یوتھناسیا [یادداشت 1] کی ایک قسم یہ ہے کہ مریض کو دوائیں مہیا کی جائیں تاکہ وہ انہیں لے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر سکیں۔[33]

خودکشی کرنے والے کی وصیت پر عمل واجب نہ ہونا

فقہاء خودکشی کرنے والے شخص کی وصیت کو قبول سمجھتے ہیں اگر وصیت خود کو زخمی کرنے سے پہلے کی گئی ہو تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے؛ لیکن اگر کوئی زخم لگنے کے بعد وصیت کرے جس زخم سے موت واقع ہو تو اس کی وصیت پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔[34]

خودکشی جائز ہونے کے موارد

بعض فقہی مآخذ کے مطابق بعض اوقات کسی اضطرار اور مجبوری یا کسی اہم مصلحت؛ جیسے مسلمانوں کی جان بچانے کے لئے، خودکشی کو جائز سمجھا گیا ہے؛[35] مثال کے طور پر بعض فقہاء، جیسے مکارم شیرازی اور حسین علی منتظری نے ایسے مسلمان کے لیے خودکشی کرنا جائز قرار دیا ہے جو دشمن کے ہاتھوں اسیر ہو اور کفار کی طرف سے دی جانے والی اذیت اور تکلیف برداشت کرنے اور مسلمانوں کے اسرار اور راز کو محفوظ رکھنے کی ہمت نہ ہو تو مسلمانوں کو شدید دھچکا لگنے سے روکنے کے لئے خودکشی کو جائز سمجھا ہے۔[36] اسی طرح بعض فقہاء نے شہادت طلبانہ کاروائیوں کو جائز قرار دیا ہے، خواہ اسے خودکشی ہی سمجھا جائے، اگر یہ اسلام کے دشمنوں کو مارنے یا مسلمانوں کا دفاع کرنے جیسے اہم فریضے کے لیے ہو تو اسے جائز سمجھا ہے اور اسے دفاعی جہاد کی صورت میں تحلیل و تجزیہ کیا ہے۔[37]

اس حوالے سے فقها نے اس شخص کا حتی اِکراه کی صورت میں خودکشی پر مجبور نہ ہونے[38] اور سقوط دیہ[39] ہونے پر بھی بحث کی ہے۔

حوالہ جات

  1. شہیدی، «انتحار» ص33۔
  2. دورکیم، خودکشی، 1378شمسی، ص149-159؛ محسنی، جامعہ‌شناسی انحرافات اجتماعی، 1386شمسی، ص202-209؛ گلاب‌بخش و کاظمی، «خودکشی» ص403۔
  3. کی‌نیا، مبانی جرم‌شناسی، 1376شمسی، ج1، ص429-454۔
  4. رضائیان، «پیشگیری از خودکشی در کشورہای در حال توسعہ»، ص441
  5. کرنلسون، درمان مسائل جوانان و نوجوانان، 1376شمسی، ص246۔
  6. شریعتی رودسری، «خودکشی و علل و ...(2)»، ص45؛ احمدزاده، «خودکشی و علل آن»، ص43۔
  7. احمدزاده، «خودکشی و علل آن»، ص43۔
  8. شریعتی رودسری، «خودکشی و علل و ...(3)»، ص 18-19۔
  9. شریعتی رودسری، «خودکشی (1)»، ص44۔
  10. شریعتی رودسری، «خودکشی، علل و ... (3)»، ص 21-22؛ رضائیان، اپیدمیولوٰژی خودکشی، ص1978۔
  11. انوری، فرهنگ بزرگ سخن، ذیل واژه؛ عمید، فرهنگ فارسی عمید، ذیل واژه۔
  12. مشکینی، مصطلحات الفقه، 1419ھ، ص91؛ آقایی نیا، حقوق کیفری اختصاصی‌: جرایم علیه اشخاص، 1389ش، ص26-28؛ نوری، «خودکشی»، ص82-83؛ گلاب بخش و کاظمی، «خودکشی»، ص402-403۔
  13. مشکینی، مصطلحات الفقه، 1419ھ، ص91۔
  14. محقق داماد، فقه پزشکی، 1391ش، ص197-198۔
  15. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1419ھ، ص91۔
  16. نجفی، جواهر الکلام، 1404ھ، ج36، ص370؛ سبحانی، الرسائل الاربع، 1415ھ، ج2، ص167۔
  17. سبحانی، الرسائل الاربع، 1415ھ، ج2، ص198۔
  18. علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج7، ص372۔
  19. اردبیلی، زبدۃ البیان، مکتبۃ المرتضویہ، ص428۔
  20. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج3، ص356۔
  21. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص64؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ش، ج2، ص36۔
  22. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج3، ص591؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج5، ص315؛ میرزاده، «خودکشی»، ص314۔
  23. ابن حنبل، مسند احمد،‌ دار صادر، ج2، ص478؛ دارمی، سنن دارمی، نشر‌ دار الإحیاء السنۃ النبوی، ص192۔
  24. صدوق، من لا یحضره الفقیه، 1413ھ، ج3، ص572۔
  25. علامہ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج7، ص372۔
  26. گلاب‌بخش و کاظمی، «خودکشی» ص403۔
  27. انجیل متی، باب 27۔
  28. محقق داماد، فقہ پزشکی، 1389، ص183؛ شہیدی، «انتحار»، ص34۔
  29. محقق داماد، فقه پزشکی، 1389، ص183۔
  30. علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج5، ص437۔
  31. طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج7، ص22-23۔
  32. ملاحظہ کریں: منتظری، احکام پزشکی، ص123؛ قاسمی، دانشنامه فقه پزشکی، ج3، ص303۔
  33. قاسمی، دانشنامه فقه پزشکی، 1395شمسی، ج3، ص323۔
  34. طوسی، تهذیب الاحکام، 1407ھ، ج9، ص207؛ شهید ثانی، مسالک الافهام، 1413ھ، ج6، ص142؛ نجفی، جواهر الکلام، 1404ھ، ج28، ص275؛ امام خمینی، نجاة العباد، 1409ھ، 311-312۔
  35. اسلامی تبار و الهی منش، مسائل اخلاقی در قتل ترحم آمیز، ص207-209۔
  36. منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ھ، ج2، ص583-584؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج1، ص531-532۔
  37. منتظری، مجازات‌ہای اسلامی و حقوق بشر، 1429ھ، ص92؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج3، ص353؛ فیرحی، «دفاع مشروع، ترور و عملیات شہادت‌طلبانہ در مذہب شیعہ»، ص113-115؛ 123-124؛ ورعی، «مبانی فقہی عملیات شہادت‌طلبانہ»، ص319-321؛ 329-332۔
  38. طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج7، ص43؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج4، 186؛ شهید ثانی، مسالک الافهام، 1413ھ، ج15، ص89۔
  39. طوسی، المبسوط، 1378ھ، ج7، ص178-179 و 195؛ ابن ادریس، السرائر، 1410ھ، ج3، ص400؛ طبرسی، الموتلف، 1410ھ، ج2، ص358۔

نوٹ

  1. یوتھناسیا کا مطلب کسی دوسرے شخص کو ہمدردی کی بنا پر اور ایک لاعلاج اور تکلیف دہ بیماری کی وجہ سے مارنا ہے۔ (یزدانی‌فر، اتانازی از منظر فقه و حقوق، 1393شمسی، ص28۔)

مآخذ

  • کتاب مقدس انجیل متی
  • ابن ادریس، محمد بن منصور، السرائر، قم، جامعہ مدرسین، 1410ھ
  • ابن حنبل، احمد، مسند احمد، بیروت، دارصادر، بی‌تا.
  • ابن قدامہ، عبد اللہ بن احمد، المغنی، بیروت، چاپ افست، بی‌تا.
  • احمد زادہ، ولی و نوید، احد، «خودکشی و علل آن»، در مجلہ دانشگاہ انقلاب، شمارہ 51، 1366ہجری شمسی۔
  • اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃ البیان، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ، بی‌تا.
  • اسلامی تبار، شہریار و الہی منش، محمدرضا، «مسائل اخلاقی در قتل ترحم آمیز، تہران، نشر مجد، 1386ہجری شمسی۔
  • اسلامی‌ نسب، علی،‌ بحران خودکشی (مبانی روانشناختی رفتار خود-تخریبی و تہاجمی)، تہران، نشر فردوس، 1371ہجری شمسی۔
  • آقایی‌نیا، حسین، حقوق کیفری اختصاصی: جرایم علیہ اشخاص (جنایات)، تہران، انتشارات میزان، 1389ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، روح اللہ، نجاۃ العباد، تہران، موسسہ نشر آثار امام خمینی، 1409ھ۔
  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، نشر سخن، 1381ہجری شمسی۔
  • پاد، ابراہیم، حقوق کیفری اختصاصی: جرائم بر ضد اشخاص (صدمات بدنی و صدمات معنوی)، تہران، نشر رہام، 1381ہجری شمسی۔
  • جعفری لنگروی، محمدجعفر، مبسوط در ترمینولوژی حقوق، تہران، گنج دانش، 1378ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، موسسہ آل البیت، 1409ھ۔
  • حسینی تہرانی، سید محمدحسین، نور ملکوت قرآن، ج1، قم، انتشارات علامہ طباطبایی، 1379ہجری شمسی۔
  • دارمی، عبداللہ بن عبدالرحمن، سنن دارمی، بیروت،‌ دار احیا السنۃ النبویہ، بی‌تا.
  • دورکیم، امیل، خودکشی، ترجمہ نادر سالارزادہ، تہران، دانشگاہ علامہ طباطبایی، 1378ہجری شمسی۔
  • ربیعی، ناصر، «خودکشی»، در مجلہ اصلاح و تربیت، شمارہ 15، 1375ہجری شمسی۔
  • رضائیان، محسن، اپیدمیولوژی خودکشی، (در کتاب جامع بہداشت عمومی)، تہران، انتشارات ارجمند، 1385ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، الرسائل الاربع، قم، موسسہ امام صادق علیہ‌السلام، 1415ھ۔
  • ستودہ، ہدایت اللہ، آسیب شناسی اجتماعی (جامعہ شناسی انحرافات)، تہران، آوای نور، 1378ہجری شمسی۔
  • شریعتی رودسری، مصطفی، خودکشی (1)، در مجلہ تربیت، شمارہ 91، 1373ہجری شمسی۔
  • شریعتی رودسری، مصطفی، خودکشی، علل و... (2)، در مجلہ تربیت، شمارہ 92، 1373ہجری شمسی۔
  • شریعتی رودسری، مصطفی، خودکشی، علل و... (3)، در مجلہ تربیت، شمارہ 93، 1373ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام، قم، موسسہ المعارف الاسلامیہ، 1413ھ۔
  • شہیدی، جواد، «انتحار»، در نشریہ کانون وکلا، شمارہ 40، 1333ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، جامعہ مدرسین، 1413ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال، قم،‌ دار الشریف الرضی، 1409ھ۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، الموتلف، مشہد، مرکز البحوث الاسلامیہ، 1410ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الامامیہ، تہران، المکتبۃ المرتضویہ، 1387ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی المذہب الامامیہ، قم، موسسہ امام صادق، 1420ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب فی تحقیق المذہب، مشہد، مرکز البحوث الاسلامیہ، 1412ھ۔
  • عمید، حسن، فرہنگ فارسی عمید، تہران، انتشارات آگاہ، 1390ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، 1420ھ۔
  • فیرحی، داوود، «دفاع مشروع، ترور و عملیات شہادت‌طلبانہ در مذہب شیعہ»، در فصلنامہ تخصصی شیعہ‌شناسی، سال دوم، شمارہ 6، 1383ہجری شمسی۔
  • کرنلسون، لامبرت، درمان مسائل جوانان و نوجوانان، مترجم مجتبی جوادیان، مشہد، آستان قدس رضوی، 1376ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • کی‌نیا، مہدی، مبانی جرم شناسی، تہران، نشر دانشگاہ تہران، 1376ہجری شمسی۔
  • گلاب بخش، مریم و کاظمی افشار، ہاجر، «انتحار» در دانشنامہ جہان اسلام، 1390ہجری شمسی۔
  • محسنی، منوچہر، جامعہ شناسی انحرافات اجتماعی، تہران، انتشارات طہوری، 1386ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، نجم الدین جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، قم، موسسہ اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • محقق داماد، مصطفی، فقہ پزشکی، تہران، نشر حقوقی، 1391ہجری شمسی۔
  • مشکینی، علی،‌ مصطلحات الفقہ، قم، نشر الہادی، 1419ھ۔
  • مطیعی، محمد نجیب، التکملہ الثانیہ، بیروت، دارالفکر، بی‌تا.
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالب، 1427ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1371ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسین علی، دراسات فی ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الاسلامیہ، قم، نشر تفکر، 1409ھ۔
  • منتظری، حسین علی، مجازات‌ہای اسلامی و حقوق بشر، قم، ارغوان دانش، 1429ھ۔
  • میر زادہ، عطاء اللہ، «خودکشی»، در دائرۃ المعارف قرآن کریم، 1393ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، 1404ھ۔
  • نوری، رضا، «خودکشی»، در نشریہ مہنامہ قضایی، شمارہ 148، 1357ہجری شمسی۔
  • ورعی، جواد، «مبانی فقہی عملیات شہادت‌طلبانہ»، در مجلہ حکومت اسلامی، سال ہشتم، شمارہ 1، 1382ہجری شمسی۔