نماز غفیلہ
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
نماز غُفَیلہ مشہور مستحب نمازوں میں سے ہے جسے نماز مغرب اور عِشا کے درمیان پڑھی جاتی ہے۔ احادیث کی روشنی میں یہ نماز حاجت روائی اور گناہوں کی مغفرت کیلئے نہایت مؤثر ہے۔ اکثر مساجد میں مؤمنین نماز مغرب اور عشا کے درمیان نماز غفیلہ کے عنوان سے دو رکعت نماز پڑھتے ہیں۔
غفیلہ کے معنی
غُفَیلَہ عربی زبان میں مادہ "غفلت" سے اسم مُصَغَّر ہے جس کے معنی چھوٹی غفلت کے ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) سے منقول ایک حدیث کے مطابق مغرب اور عشا کا درمیانی فاصلہ خدا کی یاد سے غفلت کا مقام ہے[1] اسی مناسبت سے اس وقت کے اندر پڑھی جانے والی نماز کو "نماز غُفَیلہ»" کا نام دیا گیا ہے۔ امام صادق(ع) نے اس مستحب نماز کو ادا کرنے کا بہترین طریقہ ہشام بن سالم کو تعلیم دیا ہے جسے شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں ذکر کیا ہے۔
بعض مراجع تقلید نے مشہور نماز غفیلہ کو روزانہ کی نوافل سے مستقل ایک الگ نماز قرار دیتے ہوئے فتوا دیا ہے کہ اسے مغرب کی دو رکعت نافلہ کے ساتھ ادغام کرکے ایک دو رکعتی نماز کو دونوں کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں۔[2][3]
کیفیت
اس دو رکعتی نماز کا وقت نماز مغرب کے بعد سے مغرب کی جانب آسمان میں موجود سرخی کے زائل ہونے تک ہے۔[4] نماز غفیلہ پڑھنے کی کیفیت کچھ یوں ہے:
- پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد: وَ ذَا النُّونِ إِذْ ذَہبَ مُغَاضِباً فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَیہ فَنَادَی فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لاَ إِلَہ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَک إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ فَاسْتَجَبْنَا لَہ وَ نَجَّینَاہ مِنَ الْغَمِّ وَ کذَلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِینَ (ترجمہ: اور یونس علیھ السّلامکو یاد کرو کہ جب وہ غصّہ میں آکر چلے اور یہ خیال کیا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے اور پھر تاریکیوں میں جاکر آواز دی کہ پروردگار تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔ تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اور انہیں غم سے نجات دلادی کہ ہم اسی طرح صاحبان هایمان کو نجات دلاتے رہتے ہیں۔)[5]
- دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد: وَ عِنْدَہ مَفَاتِحُ الْغَیبِ لایعْلَمُہا إِلاَّ ہوَ وَ یعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلاَّ یعْلَمُہا وَ لا حَبَّةٍ فِی ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَ لا رَطْبٍ وَ لا یابِسٍ إِلاَّ فِی کتَابٍ مُبِینٍ (ترجمہ: اور اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے -کوئی پتہ بھی گرتا ہے تو اسے اس کا علم ہے زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب همبین کے اندر محفوظ نہ ہو ۔)[6]
- قنوت میں شروع میں یہ دعا پڑھی جاتی ہے: اَللَّہمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِمَفَاتِحِ الْغَیبِ الَّتِی لایَعْلَمُہا إِلاَّ أَنْتَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِہ وَ أَنْ تَفْعَلَ بی...[7] پھر اپنی اپنی حاجت بیان کرنے کے بعد یہ دعا پڑھی جاتی ہے: اَللَّہمَّ أَنْتَ وَلِیُّ نِعْمَتِی وَ الْقَادِرُ عَلَی طَلِبَتِی تَعْلَمُ حَاجَتِی فَأَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِہ عَلَیہ وَ عَلَیہمُ السَّلاَمُ لَمَّا قَضَیتَہا لِی[8]
ثواب اور آثار
امام صادق(ع) نے پیغمبر اکرم(ص) سے نقل فرمایا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: نماز مغرب اور عشا کے درمیان نماز غفیلہ کو ترک نہ کی جائے۔لا تَتْرُکُوا رَکْعَتَی الْغُفَیلَةِ وَ هما بَینَ الْعِشائَینِ [9] اس نماز کی پہلی رکعت میں پڑھنے والے ذکر کا ایک حصہ ذکر یونسیہ کے نام سے معروف ہے یہ وہ دعا جسے کے ذریعے حضرت یونس(ع) نے دریا میں مچھلی کے پیٹ کے اندر رہ کر خدا سے مدد کی درخواست کی۔ اس نماز کی دوسری رکعت میں پڑھنے والے ذکر میں اسرار غیب اور خدا کے علم، قدرت اور حکم خداوندی کے دائرہ کار کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔
ہشام بن سالم نے امام صادق(ع) سے اس نماز کے پڑھنے کی کیفیت کے ضمن میں نقل کی ہے: جو بھی نماز مغرب اور عشاء کے درمیان اس نماز کو پڑھے اور اس دعا کے ذریعے خدا سے اپنی حاجت طلب کرے تو خدا اس کی حاجت پوری کرے گا اور اس پر اپنا لطف و کرم نازل فرمائے گا۔[10] اس حدیث کی سند کو علم رجال کے ماہرین نے صحیح قرار دئے ہیں۔ [11]
نماز غفیلہ اور یزید کی توبہ
بعض مؤرخین اس بات کے مدعی ہیں کہ:
- یزید بن معاویہ نے امام حسین(ع) کی شہادت پر رائے عامہ کو اپنے خلاف دیکھنے کے بعد امام سجاد(ع) سے سؤال کیا کہ آیا اس کے لئے اس کام سے توبہ اور نجات کا کوئی راستہ ہے یا نہیں؟ امام سجاد(ع) نے فرمایا اگر تم نماز غفیلہ پڑھو تو خدا تمہیں نجات دے گا۔ حضرت زینب(س) نے امام سجاد(ع) سے عرض کیا آیا اپنے بابا کے قاتل کو توبہ کرنے کا طریقہ سکھا رہے ہو؟ اس موقع پر امام نے فرمایا پھوپھی اماں! وہ اس نماز کو ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو گا۔
یہ نقل معتبر جوامع حدیثی میں موجود نہیں ہے اور اس کا مضمون بھی قابل اعتراض ہے۔ [12][13]
حوالہ جات
- ↑ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، حسن زادہ، صادق، ص ۱۱۵، ح ۱
- ↑ رسالہ توضیح المسائل مراجع
- ↑ سایت آیت اللہ میرزا جواد تبریزی
- ↑ رسالہ توضیح المسائل مراجع
- ↑ سورہ انبیاء،آیت نمبر ۸۷-۸۸
- ↑ سورہ انعام،آیت نمبر 59
- ↑ سورہ انعام،آیت نمبر 59
- ↑ سورہ انعام،آیت نمبر 59
- ↑ فلاح السائل، سید بن طاووس، چاپ دفتر تبلیغات اسلامی، ص۲۴۶
- ↑ وَ فِی الْمِصْبَاحِ عَنْ ہشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّہ ع قَالَ: مَنْ صَلَّی بَینَ الْعِشَاءَینِ رَکعَتَینِ یقْرَأُ فِی الْأُولَی الْحَمْدَ وَ ذَا النُّونِ إِذْ ذَہبَ مُغاضِباً - إِلَی قَوْلِہ وَ کذلِک نُنْجِی الْمُؤْمِنِینَ- وَ فِی الثَّانِیةِ الْحَمْدَ وَ قَوْلَہ وَ عِنْدَہ مَفاتِحُ الْغَیبِ لا یعْلَمُہا إِلَّا ہوَ إِلَی آخِرِ الْآیةِ فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ رَفَعَ یدَیہ وَ قَالَ اللَّہمَّ إِنِّی أَسْأَلُک بِمَفَاتِحِ الْغَیبِ الَّتِی لَا یعْلَمُہا إِلَّا أَنْتَ أَنْ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ- وَ أَنْ تَفْعَلَ بیکذَا وَ کذَا- وَ تَقُولُ اللَّہمَّ أَنْتَ وَلِی نِعْمَتِی وَ الْقَادِرُ عَلَی طَلِبَتِی تَعْلَمُ حَاجَتِی فَأَسْأَلُک بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِہ لَمَّا قَضَیتَہا لِی- وَ سَأَلَ اللَّہ حَاجَتَہ أَعْطَاہ اللَّہ مَا سَأَلَ. وسائل الشیعہ، ج۸، ص۱۲۱ و بہایی، منہاج النجاح فی ترجمة مفتاح الفلاح، بسطامی، علی بن طیفور، ص ۳۰۹
- ↑ سایت آیت اللہ میرزا جواد تبریزی
- ↑ اسلام کوئست
- ↑ استاد فاطمی نیا
مآخذ
- وسائل الشیعۃ، شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۹ھ۔
- ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، شیخ صدوق، ترجمہ صادق حسن زادہ، انتشارات طوبی۔