میزان

ویکی شیعہ سے



میزان قرآن کے مفاہیم اور قیامت کے مواقف میں سے ایک ہے اور اس سے مراد قیامت میں انسان اور اس کے اعمال کی پیمایش ہے۔ روایات کے مطابق قیامت کے دن انسان اور اس کے اعمال کا موازنہ انبیاء و ائمہ اور ان کے اعمال سے کیا جائے گا۔ بعض لوگ اعمال کے وزن کرنے کو مجاز سمجھتے ہوئے اسے قیامت کے دن اللہ کی عدالت کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ قیامت کے دن انسان کے اعمال کو حقیقی طور پر کسی پیمانے میں اس کو تولا جاتا ہے جو اعمال کی پیمائش سے مناسب ہے۔

احادیث میں توحیدی عقائد، اہل بیت کی محبت، گناہوں سے اجتناب، محمد و آل محمدؐ پر درود، خالص نیت، نقصان نہ پہنچانا اور لوگوں کے لیے خیر خواہی کو قیامت کے دن اعمال کا وزن بھاری ہونے کے اہم ترین عوامل کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

مفہوم شناسی

میزان عربی زبان میں پیمائش کا آلہ اور ترازو ہے[1] اور "اعمال کا میزان" وہ چیز ہے جس سے انسانی اعمال اور عقائد کی پیمائش کی جاتی ہے۔[2] یہ لفظ اور اس کی جمع (موازین) قرآن مجید میں 16 مرتبہ ذکر ہوا ہے[3] جو بعض صورتوں میں معاملات میں پیمائش کے آلے کے طور پر استعمال ہوا ہے اور بعض صورتوں میں یہ تکوین اور تخلیق کے قوانین کی طرف اشارہ کرتا ہےسانچہ:یاد اور بعض صورتوں میں تشریع کے قانون کی طرف اشارہ کرتا ہے۔[4][یادداشت 1]

میزان، قیامت کا موقف

میزان قیامت کے مواقف میں سے ایک ہے جہاں انسان کے تمام اعمال اور عقائد کی پیمائش کی جاتی ہے[5] اور انسان کے جنت یا جہنم کے درجات اس کے متناسب ہوں گے۔ سورہ اعراف کی آیات 8-9 سانچہ:یاد کے مطابق، نیکیاں اعمال کے پیمانے کو بھاری اور گناہ اس پیمانے کو ہلکا کر دیتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ نیکیوں کو ترازو کے ایک پلڑے پر اور گناہوں کو دوسرے پلڑے رکھتے ہوں۔[6] ہر عمل کے لیے بھی ایک الگ پیمائش کا معیار ہے، اور ہر عمل کو اسی عمل کے کامل مصداق سے ناپا جاتا ہے، انسان کی نماز کو کامل نماز سے ناپا جاتا ہے، اور روزہ کامل روزے سے ناپا جاتا ہے؛ دوسرے لفظوں میں، ہر انسان کی پیمائش کامل انسان کے ذریعہ کی جاتی ہے اور ہر عمل کو کامل انسان کے انجام دیئے گئے عمل سے ماپا جاتا ہے۔ اس بنا پر قیامت کے دن "پیمانہ" انسانِ کامل ہو گا۔[7]

احادیث اور آیہ «وَ نَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ...» (ترجمہ: ما ترازوہای عدل را در روز قیامت برپا می کنیء...)[8] انبیاء علیہم السلام اور ان کے جانشین کو "میزان قسط" کے مصداق کے طور پر متعارف کرائے گئے ہیں۔[9] زیارت مطلقہ میں حضرت علیؑ اعمال کا میزان اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔«السّلامُ علَی میزانِ الأعمالِ».[10] اس کی بنیاد پر، ہر قوم کے اعمال کی کسوٹی انہی کے انبیاءؑ اور ان کے جانشین ہوں گے.[11]

علامہ طباطبایی آیہ «وَ أَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتَابَ وَ الْمِیزَانَ» میں میزان کو دین کے معنی میں لیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دین کو میزان اس لئے کہا گیا ہے کہ انسانی عقائد اور اعمال اسی کے مطابق ماپے جاتے ہیں اور قیامت کے دن اسی حساب سے سزا و جزا دی جائے گی۔[12]

میزان میں اعمال کا وزن

قرآن انسانی اعمال کو وزن دار سمجھتا ہے[13] اور عمل کے وزن سے مراد اجر اور ثواب کے مطابق اس کی قدر و قیمت سمجھا جاتا ہے۔[14] اعمال کی قدر و قیمت اور اس کے وزن کے بارے میں چند نظریات بیان ہوئے ہیں:

  • شیخ مفید[15] جیسے بعض علما نے اسے استعاراتی معنی میں لیا ہے اور اس کا مطلب اللہ تعالی کا انصاف، اعمال صالحہ کا اجر اور گناہوں کی سزا سمجھا ہے۔[16]
  • بعض علما اعمال کی پیمائش کو حقیقت سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ صرف نیک اعمال کا وزن ہے اور گناہوں کا کوئی وزن ہی نہیں ہے اور قیامت کے دن ترازو کا ہلکا ہونے سے مراد نیک اعمال کی کمی ہے[17] علامہ طباطبایی کی طرح ایک گروہ کا کہنا ہے کہ نیک اعمال میزان بھاری ہونے اور گناہ ترازو ہلکا ہونے کا سبب بنتے ہیں اور حتمی وزن ان اضافے اور گھٹاؤ کا مجموعہ ہے[18]

میزان ہلکا یا بھاری ہونے کے عوامل

قیامت میں اعمال کی قدر و قیمت جسے "اعمال کے وزن" سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اس کے کچھ مؤثر عوامل ہیں: دین میں اس عمل کا مقام و اہمیت، انسان کا ایمان و یقین کا درجہ، عمل کرنے میں اس کا اخلاص۔

قیامت کے دن میزان بھاری ہونے کے درج عوامل قابل ذکر ہیں:

در روایات عواملی ہمچون نیز باعث سبک شدن ترازوی اعمال در قیامت معرفی شدہ اند.

قیامت کے دن اعمال کا ترازو ہلکا ہونے کے اسباب میں حسد[یادداشت 10] جیسے عوامل بھی متعارف کرائے گئے ہیں۔

حوالہ جات

  1. التحقیق فی الکلمات القرآن الکریم، 1374ش، ج13، ص98۔
  2. قاموس قرآن، تہران، ج7، ص208۔
  3. احمدزادہ، میزان، دانشنامہ موضوعی قرآن۔
  4. منشور جاوید، بی تا، ج5، ص464۔
  5. طہرانی، معادشناسی، ج8، ص157۔
  6. طباطبایی، المیزان، 1393ق، ج8، ص11۔
  7. طہرانی، سیدمحمدحسین، معادشناسی، ج8، ص165-175۔
  8. سورہ انبیاء، آیہ47۔
  9. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج7، ص249۔
  10. بحارالانوار، 1403ق، ج97، ص287۔
  11. منشور جاوید، بی تا، ج5، ص468۔
  12. طباطبایی، المیزان، 1393ق، ج18، ص54۔
  13. سورہ اعراف، آیات9-8۔
  14. شیخ مفید، تصحیح اعتقادات امامیہ، ج1، ص114۔
  15. مفید، محمد بن نعمان، تصحیح الاعتقاد، ص114.۔
  16. لاہیجی، ملا عبدالرزاق، گوہرمراد، ص656۔
  17. طہرانی، معادشناسی، ج8، ص158۔
  18. طباطبایی، المیزان، 1393ق، ج8، ص11.۔
  19. بحارالانوار، 1403ق، ج92، ص465۔
  20. بحارالانوار، 1403ق، ج92، ص465۔
  21. بحارالانوار، 1403ق، ج92، ص465۔
  22. بحارالانوار، 1403ق، ج92، ص465۔

نوٹ

  1. لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَینَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتَابَ وَ الْمِیزَانَ لِیقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ...» (ترجمہ: ما رسولان خود را با دلایل روشن فرستادیم، و با آنہا کتاب (آسمانی) و میزان (شناسائی حق از باطل و قوانین عادلانہ) نازل کردیم تا مردم قیام بہ عدالت کنند...) سورہ حدید، آیہ25
  2. پیغمبر اکرمؐ لا الہ الاّ اللہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: «بِوَحْدانِیۃِ لایقْبَل اللہُ الاَعمالَ الاّبِہا وہِی كَلِمَۃُ التَقْوی یثْقِلُ اللہُ بِہا اَلْموازینَ یوْمَ القِیامَۃِ» (ترجمہ: "لا الہ الا اللہ" اللہ کی وحدانیت کی طرف اشارہ ہے اور اس کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہے اور یہی تقوی ہے جو قیامت کے دن اعمال کا ترازو بھاری ہونے کا باعث بنتا ہے۔) تفسیر نورالثقلین، 1373ش، ج5، ص659.
  3. إِنَّ وَزْنَ عَلِی ثَقِیلٌ [وَ] مَا وُضِعَ حُبُّ عَلِی فِی مِیزَانِ أَحَدٍ إِلَّا رَجَحَ عَلَی سَیئَاتِہِ، وَ لاوُضِعَ بُغْضُہُ فِی مِیزَانِ أَحَدٍ إِلَّا رَجَحَ عَلَی حَسَنَاتِہِ. التفسیر المنسوب إلی الإمام الحسن العسكری علیہ السلام، 1409ق، ص21.
  4. «ما یوضَعُ فی میزانِ امْرِی یوْمَ القیامَۃِ اَفْضَلُ مِنْ حُسْنِ الخُلْقِ» (ترجمہ: قیامت کے دن انسان کے اعمال میں کوئی بھی اچھے اخلاق سے اچھا نہیں۔) بحارالانوار، 1403ق، ج7، ص250.
  5. امام باقرؑ فرماتے ہیں: «ما فِی الْمیزانِ شَیء اَثقَلُ مِن الصَلوۃِ علی مُحمّدٍ و آل محمّدٍ» (ترجمہ: ترازو میں محمد و آل محمدؐ پر درود بھیجنے سے زیادہ بھاری نہیں ہے۔) تفسیر نورالثقلین،1373ش، ج5، ص659.
  6. مَا یثْقُلُ فِی الْمِیزَانِ إِلَّا النِّیۃُ الصَّادِقَۃُ وَ الْأَعْمَالُ الطَّاہِرَۃُ وَ كَفُّ الْأَذَی وَ النَّصِیحَۃُ لِجَمِیعِ الْوَرَی وَ اجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ وَ الْہَرَبُ مِنَ الْمَآثِء. بحارالانوار، 1403ق، ج92، ص465.
  7. خَمْسٌ مَا أَثْقَلَہُنَّ فِی الْمِیزَانِ سُبْحَانَ اللَّہِ وَ الْحَمْدُ لِلَّہِ وَ لاإِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَ اللَّہُ أَكْبَرُ وَ الْوَلَدُ الصَّالِحُ یتَوَفَّی لِمُسْلِمٍ فَیصْبِرُ وَ یحْتَسِب. خصال، 1362ش، ج1، ص267
  8. قَالَ(ص) لِأَبِی ذَرٍّ أَ لاأَدُلُّكَ عَلَی خَصْلَتَینِ ہُمَا أَخَفُّ عَلَی الظَّہْرِ وَ أَثْقَلُ فِی الْمِیزَانِ؟ فَقَالَ بَلَی یا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ عَلَیكَ بِحُسْنِ الْخُلُقِ وَ طُولِ الصَّمْت.کراجکی، معدن الجواہر و ریاضۃ الخواطر، 1353ش، ص26
  9. قَالَ رَسُولُ اللَّہِ(ص) مَنْ عَلَّمَ وَلَدَہُ الْقُرْآنَ فَكَأَنَّمَا حَجَّ الْبَیتَعَشَرَۃَ ألف... وَ یكُونُ مَعَہُ فِی قَبْرِہِ حَتَّی یبْعَثَ وَ یثَقَّلُ مِیزَانُہ بحارالانوار، 1403ق، ج89، ص189.
  10. امام صادق(ع): فَإِنَّ مِیزَانَ الْحَاسِدِ أَبَداً خَفِیفٌ بِثِقْلِ مِیزَانِ الْمَحْسُود. بحارالانوار، 1403ق، ج70، ص255.

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، چاپ اول، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، تہران، 1374ہجری شمسی۔
  • احمدزادہ، کاظم، «میزان»، در دانشنامہ موضوعی قرآن
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، چاپ سوم، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1403 ھ۔
  • كراجكی، محمد بن علی، معدن الجواہر و ریاضۃ الخواطر، محقق: احمدحسینی، چاپ دوم، المكتبۃ المرتضویۃ، تہران، 1353ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کتاب الخصال، بہ کوشش علی اکبر غفاری، پنجم، قم، نشر اسلامی، 1416 ھ۔
  • عروسی حویزی، ابن جمعہ، تفسیر نورالثقلین، بہ کوشش رسولی محلاتی، چہارم، اسماعیلیان، 1373ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، سوم، بیروت، اعلمی، افست، قم، انتشارات اسلامی، 1393ھ۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید (تفسیر موضوعی)، اول، قم، مؤسسہ امام صادق(علیہ السلام)، [بی تا].
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، تصحیح اعتقادات الامامیۃ، تحقیق حسین درگاہی، چاپ اول، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، قم، 1413ھ۔