مستحب

ویکی شیعہ سے
(مستحبات سے رجوع مکرر)

مستحب اسلامی تعلیمات میں ایسے عمل کیلئے استعمال ہوتا ہے جس کا بجالانا ترک کرنے کی نسبت بہتر ہوتا ہے اگر چہ اس کا انجام دینا ضروری نہیں ہوتا ہے ۔جیسے روزانہ نمازوں نافلہ ،نمازتہجد وغیرہ ہیں ۔مستحب کو انجام دینے والا جزا کا مستحق ہوتا ہے جبکہ اسے ترک کرنے والا سزا کا مستحق نہیں ہوتا ہے ۔اسی بنا پر مستحب چھوڑنے والا گنہگار نہیں کہلاتا ہے ۔

معنی

لغوی اعتبار سے یہ کلمہ حبب سے نکلا ہے جس کا معنی دوست رکھنا اور چیز پسندیدہ ہونا ہے ۔قرآن کریم اور احادیث معصومین میں اسی معنی کے لحاظ سے استعمال ہوا ہے ۔

فقہی اصطلاح میں اسلام کے پانچ احکام میں ایک حکم کا نام استحباب ہے ۔ جو ایسے اعمال کیلئے استعمال ہوتا ہے جنہیں انجام دینا ان کئ ترک کرنے سے بہتر ہوتا ہے جبکہ ان کا انجام دینا واجب اور ضروری نہیں ہوتا ہے اور اگر انہیں ترک بھی کر دیا جائے تو انسان کسی قسم کے گناہ کا مرتکب قرار نہیں پاتا ہے ۔

ندب ،نفل،سنت اور تطوع بھی اسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔

احکامِ پنجگانہ

تفصیلی مضمون: شرعی احکام

اسلام کے تمام اعمال جنہیں اعضاء و جوارح سے انجام دیا جائے وہ وجوب،حرمت،استحباب، کراہت، یا اباحہ کے حکم میں سے کسی ایک کی وجہ سے واجب ،حرام،مستحب ،مکروہ اور مباح قرار پاتے ہیں ۔انہیں مجموعی طور پر احکام پنجگانہ کہا جاتا ہے۔حکم کی تقسیم کرتے ہوئے کہا جاتا ہے :

  • وجوب:کسی عمل کے بجا لانے کیلئے شارع کی جانب سے الزام آور حکم ہو تو اسے وجوب کہتے ہیں۔ یعنی اس کا انجام دینا ضروری ہو اور اسے انجام نہ دینے کی صورت میں انسان گناہگار اور سزا کا مستحق ہوتا ہے ۔جیسے نماز روزہ زکات وغیرہ۔جس فعل کیلئے یہ حکم آتا ہے اسے واجب کہتے ہیں۔
  • حرمت:شارع کی جانب سے کسی عمل کا ترک کرنے کا ضروری اور الزامی حکم ہو ۔ جیسے شراب پینا ،مردار کو گوشت کھانا وغیرہ۔جس چیز کیلئے اسے بیان کیا جاتا ہے اسے حرام کہتے ہیں۔
  • استحباب:کسی عمل کے انجام دینے کو شارع کسی الزام اور ضرورت کے بغیر چاہتا ہے ۔جس عمل کیلئے ہوتا ہے اسے مستحب کہتے ہیں۔
  • کراہت:کسی عمل کو انجام نہ دینے کو شارع کسی الزام اور ضرورت کے بغیر چاہتا ہو ۔جس عمل کیلئے یہ حکم ہوتا ہے اسے مکروہ کہتے ہیں۔
  • اباحہ:کسی عمل کے انجام دینے یا انجام نہ دینے میں شارع مکلف کو اختیار دیتا ہے۔جس فعل کیلئے یہ اختیار ہوتا ہے اسے مباح کہتے ہیں۔[1][2]

اقسام

  • مستحب نفسی یا مستحب ذاتی:جس کا انجام دینا کسی دوسرے عمل کی وجہ سے مستحب نہ ہو بلکہ وہ خود مستحب ہو جیسے مستحب نمازیں یا روزے ۔
  • مستحب غیری:جو خود مستحب نہیں ہے لیکن کسی دوسرے عمل کی وجہ سے مستحب ہوتا ہے ۔زیارت کیلئے غسل کرنا۔
  • مستحب عینی:ہر مکلف کیلئے علیحدہ علیحدہ مستحب ہو یعنی کسی دوسرے کے انجام دینے دوسروں سے اس کا استحباب ساقط نہیں ہوتا ہے ۔جیسے نماز یومیہ کے نوافل ۔
  • مستحب کفائی:ایک شخص کے انجام دینے سے دوسروں سے اس کا استحباب ساقط ہو جاتا ہے ۔ جیسے مسجد میں اعلام وقت کی غرض سے کسی ایک شخص کا اذان دینا۔[3]
  • مستحب مؤکد:جس کے انجام کیلئے شارع کی جانب سے زیادہ تاکید بیان کی گئی ہو ۔غسل جمعہ۔[4]

مخصوص احکام

  • بعض فقہا کی نگاہ میں مستحب کو انجام نہ دینا یا ترک کرنا مکروہ ہے[5] ۔اگرچہ اکثر اسے مکروہ نہیں سمجھتے ہیں۔[6]
  • کسی مستحب کے انجام دینے کیلئے ابتدائی امور کا انجام دینا بعض کے نزدیک مستحب ہیں۔جیسے مستحب وضو کیلئے پانی کا مہیا کرناوغیرہ۔[7]
  • مستحب عمل کو دوران انجام دہی چھوڑ دینا مکروہ ہے ۔مثلا مستحب روزے کو مکمل کئے بغیر ظہر کے بعد توڑنا۔

جبکہ بعض اعمال کو شروع کرنے کرنے کے بعد مکمل نہ کرنا حرام ہے ۔جیسے مشہور کے فتوے کے مطابق حج اور عمرہ مکمل نہ کرنااسی طرح اعتکاف کو پہلے دو دن کے بعد پورا نہ کرنا۔[8]

مشہور مستحبات

مستحب نمازیں

نوافل یومیہ،نماز شب( تہجد)،نماز استسقا، غیبت ِامام زمانہ کے دور میں نماز عید فطراور نماز عید قربان،ہر مہینے کے شروع کی نماز۔

مستحب روزے

  • واجب،مکروہ اور حرام دنوں کے علاوہ پورے سال کے روزے رکھنا۔
  • قمری مہینے کی پہلی اور آخری جعرات کا روزہ۔
  • 4شوال سے لے کر 9شوال تک کے روزے۔
  • محرم کی پہلی،تیسری،ساتویں کا روزہ۔
  • 25 اور 29 ذیقعدہ کا روزہ۔
  • 17 ربیع الاول کا روزہ۔
  • 27 رجب یوم مبعث کا روزہ۔
  • قمری مہینے کی 13،14،15 کے روزے۔
  • پہلی سے نہم ذی الحج کے روزے۔
  • 18ذی الحج کا روزہ۔
  • 15جمادی الثانی۔
  • تمام رجب کے روزے۔
  • تمام شعبان کے روزے۔
  • 24ذی الحج روز مباہلہ۔

مستحب دعائیں

دیگر مستحبات

روایات میں دیگر بیان ہونے والے چند اعمال اور مستحبات:

حوالہ جات

  1. سید محمد تقی ، الاصول العامہ للفقہ المقارن
  2. سید محمد باقر الصدر،دروس فی علم الاصول
  3. نجفی، جواہر الکلام، ج۹، ص۷۴
  4. حکیم، محمد تقی، اصول العامه للفقه المقارن، ص۶۳
  5. محقق حلی، المعتبر، ج۲، ص۲۵۷
  6. نجفی، ج۱۳، ص۲۶۶
  7. آخوند خراسانی، ص۱۲۸
  8. شہید اول، القواعد و الفوائد، ج۱، ص۹۹؛ قاعده۳۹

مآخذ

  • فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، قم، مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی، ۱۴۲۶ق.
  • خوئی، سید ابوالقاسم، اجود التقریرات، تقریرات درس محمد حسین نائینی، قم، مطبعہ العرفان، ۱۳۵۲ش.
  • آخوند خراسانی، ملاکاظم، کفایہ الاصول، قم، موسسہ آل البیت، ۱۴۰۹ق.
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، تصحیح: عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم.
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، موسسہ سید الشہداء، ۱۴۰۷ق.
  • شہید اول (عاملی)، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، تصحیح: سید عبدالہادی حکیم، قم، کتابفروشی مفید، افست نجف.