اوقات نماز

ویکی شیعہ سے

اوقاتِ نماز، یومیہ نمازیں صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک ہے اور یومیہ نمازوں میں سے ہر ایک کو ایک خاص وقت پر پڑھنا ضروری ہے، ورنہ فرض پورا نہیں ہوگا۔ فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق صبح کی نماز کا وقت فجر صادق یا دوسری فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔ نماز ظہر اور عصر کا وقت ظہر شرعی کے آغاز سے غروب آفتاب یا مغرب تک ہے اور اس مسئلہ میں علماء کے فتوے مختلف ہیں۔ مغرب اور عشاء کی نماز کے وقت میں بھی کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اور بعض نے مغرب یا غروب آفتاب کو اوّلِ وقت اور آدھی رات کو آخری وقت سمجھا ہے۔

مشہور فقہاء نماز ظہر، عصر، مغرب اور عشاء میں سے ہر ایک نماز کے لئے مخصوص وقت کے قائل ہیں یعنی اس لحاظ سے اوّلِ وقت سے ظہر اور مغرب کی نماز پڑھنے کے برابر کا وقت ان سے مختص ہے اور اس وقت نماز عصر یا عشاء نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ اس طرح آخری وقت سے عصر اور عشاء کی نماز پڑھنے کے برابر کا وقت ان کا مخصوص وقت ہے۔

نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے جس کی احادیث میں بھی بہت تاکید ہوئی ہے لیکن یومیہ نمازوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک مخصوص وقت، وقتِ فضیلت اور افضل وقت کے عنوان سے مشخص ہوا ہے۔

فقہ میں اہمیت

یومیہ نمازوں کی کچھ شرائط ہیں جن میں سے ایک نماز کے وقت کی پابندی ہے، یعنی مکلف ہر نماز کو اس کے مخصوص وقت میں پڑھے اور اگر ہر نماز کے وقت کی رعایت نہیں کیا تو نماز باطل ہوگی اور اس شخص پر فرض اپنی حالت میں باقی رہے گا۔[1] اسی طرح ‌‌‌‌‌‌‌‌‌قاعدہ لاتُعاد کے مطابق نماز پڑھنے کے بعد کچھ واجبات ساقط ہوجاتی ہیں اور نماز صحیح ہے۔ لیکن قبلہ اور استثنا شدہ وقت، اگر نماز اسی وقت میں نہ ہو تو نماز کو دوبارہ پڑھنا ہوگا۔

نماز کا وقت ثابت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یا تو خود آدمی کو یقین ہو کہ وقت آ گیا ہے یا دو عادل مرد وقت داخل ہونے کی خبر دیں۔[2]

نماز ادا کرنے کا وقت

فقہا میں سے محقق حلی نے شرایع[3] میں اور سید محمد کاظم یزدی نے العروۃ الوثقی[4] میں یومیہ نمازوں کے وقت کے بارے میں یوں کہا ہے:

  • نماز صبح: محقق حلی نے صبح کی نماز کا وقت، صبح صادق اور طلوع آفتاب کے درمیانی وقت کو قرار دیا ہے۔[5]اسی طرح سید یزدی نے دوسری فجر کے بجائے فجر صادق کے لفظ استعمال کر کے محقق کی بات کی تصدیق کی ہے۔[6]
  • ظہر اور عصر کی نماز: سید ابو القاسم خوئی کے مطابق ظہر کی نماز کا وقت ظہر شرعی یا سورج کا ڈھلنے سے شروع ہوتا ہے اور اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔[7] سید یزدی اور امام خمینی جیسے مشہور علماء نے نماز ظہر اور عصر کا آخری وقت مغرب کو قرار دیا ہے[8] جبکہ محقق حلی نے آخری وقت، غروب کو قرار دیا ہے۔[9] محقق اور سید یزدی جیسے بعض علما جو مخصوص اور مشترک وقت کو تسلیم کرتے ہیں[10] انہوں نے سورج کے ڈھلنے کے شروع کے لمحات سے نماز ظہر کی ادائیگی کے برابر وقت کو نماز ظہر کا مخصوص وقت اور آخر سے نماز عصر ادا کرنے کے برابر وقت کو نماز عصر سے مختص کیا ہے جبکہ ان دونوں کے درمیانی اوقات کو نماز ظہر اور عصر کا مشترک وقت قرار دیا ہے۔[11]
  • مغرب اور عشاء کی نماز کا وقت: محقق حلی نے مغرب اور عشاء کی نماز کا وقت غروبِ آفتاب سے آدھی رات تک قرار دیا ہے۔[12] لیکن سید یزدی نے وقت کا آغاز مغرب کو قرار دیا ہے۔[13] سید ابوالقاسم خوئی نے فتویٰ دیا کہ نماز مغرب اور عشاء کے وقت کی ابتدا غروب ہے لیکن غروب کی تفسیر میں اختلاف ہے کہ غروب، سورج کے چھپ جانے سے ثابت ہوتا ہے یا مشرق میں آسمان سے سرخی (عربی میں: الحمراء المشرقیہ) زائل ہو جانے سے ہوتا ہے.[14] محقق حلی اور سید یزدی جیسے وہ فقہا جو مخصوص اور مشترک وقت کو قبول کرتے ہیں ان کے مطابق ابتدا سے نماز مغرب ادا کرنے کے برابر کا وقت نماز مغرب سے مختص ہے اور آخر سے آدھی رات تک کا نماز عشاء ادا کرنے کے برابر کا وقت نماز عشا سے مختص ہے اور ان دونوں کے درمیانی وقت نماز مغرب اور عشاء کا مشترک وقت ہے۔[15]

سید یزدی سمیت بعض فقہاء نے ان لوگوں کے لیے مغرب اور عشاء کی نماز کا وقت بڑھا کر طلوع فجر تک قرار دیا ہے جو نیند یا بھولنے یا حیض کی وجہ سے آدھی رات سے پہلے نماز پڑھنے سے معذور ہیں۔[16]سید یزدی کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز نہ پڑھے تو اگرچہ اس نے گناہ کیا ہے؛ لیکن وہ طلوع فجر تک نماز پڑھ سکتا ہے لیکن احتیاط یہ ہے کہ ادا یا قضا کی نیت نہ کرے۔[17]البتہ بعض دوسرے فقہاء، جیسے سید حسین بروجردی، امام خمینی اور سید احمد خوانساری اس رائے کو قبول نہیں کرتے ہیں اور نماز میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے ما فی الذِّمِہ کی نیت سے پڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔[18]

مخصوص اور مشترک وقت

مخصوص وقت کا مطلب یہ ہے کہ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں میں ان کے وقت کے آغاز میں ظہر اور مغرب کی نمازوں کے برابر کا وقت ان انہی نمازوں کا مخصوص وقت ہے، اور اس وقت عصر یا عشاء کی نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ اور اسی طرح آخری وقت سے عصر اور عشاء کی نماز کے برابر وقت ان کے ساتھ مخصوص ہے۔[19] محقق حلی اور سید یزدی جیسے بعض علماء مخصوص وقت کے قائل ہیں۔[20] آیت اللہ خوئی نے اس نظرئے کو مشہور فقہا کی طرف نسبت دی ہے۔[21] لیکن دوسری طرف سید ابو القاسم خوئی سمیت بعض فقہا نماز کے مخصوص وقت کے بارے میں مشہور فقہاء کی رائے کو قبول نہیں کرتے ہیں اور اس نظرئے کو شیخ صدوق اور دیگر علماء کی طرف منسوب کرتے ہیں۔[22] اس نظرئے کے مطابق نماز کا وقت، اوّل سے آخر تک دونوں نمازوں کے درمیان مشترک ہے لیکن چونکہ نمازوں کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے اس لئے پہلے ظہر کی نماز پڑھی جائے پھر عصر کی اور اسی طرح پہلے مغرب کی نماز پڑھی جائے پھر عشا کی نماز۔[23]

کاشف الغطاء (1373ھ) نے عروۃ الوثقی کے حاشیہ میں بھی مخصوص وقت کے نظریہ سے اختلاف کیا ہے اور اس اختلاف کا نتیجہ یوں بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص نادانستہ طور پر عصر یا مغرب کی نماز پہلے پڑھ لے تو یہ صحیح ہے، لیکن مخصوص وقت والے نظرئے کے مطابق باطل ہے۔[24]

وقت فضلیت نماز

فقہاء کے نزدیک نماز کو اولِ وقت میں پڑھنا مستحب ہے اور اس کی بہت تاکید ہوئی ہے اور جتنا اولِ وقت کے قریب ہو اتنا ہی بہتر ہے، مگر یہ کہ تاخیر کرنا کسی اور جہت سے بہتر ہو، مثال کے طور پر، نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کے لئے تاخیر کرے۔[25] سید یزدی سمیت بعض فقہاء کے فتاوی کے مطابق نماز کے افضل اوقات درج ذیل ہے:

  • نماز صبح: طلوع فجر سے لے کر آسمان کے مشرقی حصے میں سرخی (عربی میں: الحمرۃ المشرقیہ) مائل ہونے تک۔[26]
  • نماز ظہر: سورج کے ڈھلنے سے لے کر شاخص کا سایہ اس کے برابر ہونے تک، اسی طرح نماز عصر کے افضل وقت کی انتہاء شاخص کا سایہ اس کے دو برابر ہونے تک ہے۔[27]
  • نماز عصر: شاخص کا سایہ اس کے برابر ہوجائے تو نماز عصر کا افضل وقت شروع اور سایہ شاخص کے دو برابر ہوجائے تو فضیلت کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔[28]
  • نماز مغرب: مغرب سے شروع ہوکر شَفَق کے ختم ہونے تک افضل وقت ہے، شفق کا مطلب آسمان کے مغرب میں سرخی (عربی میں: الحمرۃ المغربیۃ) ختم ہوجائے۔[29]
  • نماز عشاء: شفق کے ختم ہونے سے رات کے ایک تہائی حصے تک ہے[30]

برخی از احکام وقت نماز

  1. جس نماز کے ادا کا وقت ایک رکعت سے کم پڑھتے ہی ختم ہوجائے تو وہ نماز باطل نہیں ہے کیونکہ قاعدہ مَن اَدْرَک اور اس قاعدے کے تحت مراجع کا فتوا کے مطابق اگر نماز کی ایک رکعت اپنے وقت میں پڑھی جائے تو گویا پوری نماز وقت میں انجام پائی ہے۔[31]
  2. اگر کوئی واجب کام مکلف کے ذمے ہو مثلاً قرض خواہ نے رابطہ کیا ہے تو اس واجب کام کو پہلے انجام دے اور اس کے بعد نماز پڑھے اور اگر جان بوجھ کر پہلے نماز پڑھے اگرچہ اس نے گناہ کیا ہے لیکن اس کی نماز صحیح ہے۔[32]
  3. کسی شخص کو نماز کے لیے جگانا اچھا کام ہے اور بعض صورتوں میں یہ امر بہ معروف کے سبب ضروری ہے لیکن بیمار یا وہ شخص جسے جگانے سے اسے تکلیف پہنچتی ہو تو ایسے شخص کو جگانا جائز نہیں ہے۔[33]

حوالہ جات

  1. حسینی سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1443ھ، ج 1، ص343۔
  2. خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392شمسی، ج1، ص148؛ حسینی سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1443ھ، ج 1، ص390۔
  3. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص51۔
  4. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص250۔
  5. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص51۔
  6. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص250۔
  7. خوئی، موسوعۃ الامام خوئی، 1418شمسی، ج11، ص81۔
  8. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص248؛ خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392شمسی، ج1، ص144۔
  9. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص50۔
  10. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص50؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص248۔
  11. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص50؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص248۔
  12. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص50۔
  13. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص248۔
  14. خوئی، موسوعۃ الامام خوئی، 1418شمسی، ج11، ص112۔
  15. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص50؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص248۔
  16. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص249۔
  17. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص249۔
  18. خمینی و بروجردی و خوانساری، «تعلیقہ» در کتاب العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص249۔
  19. خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392شمسی، ج1، ص145؛ محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص50؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص248۔
  20. محقق حلی، شرائع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص50؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص248۔
  21. خوئی، موسوعۃ الامام خوئی، 1418شمسی، ج11، ص109۔
  22. خوئی، موسوعۃ الامام خوئی، 1418شمسی، ج11، ص104۔
  23. خوئی، موسوعۃ الامام خوئی، 1418شمسی، ج11، ص109۔
  24. کاشف الغطاء، «تعلیقہ» در کتاب العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص248۔
  25. حسینی سیستانی، توضیح المسائل جامع، ج1، ص388۔
  26. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص251۔
  27. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص250۔
  28. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص251۔
  29. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص251۔
  30. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1421ھ، ج2، ص251۔
  31. امام‌خمینی، الخلل فی الصلاۃ، چاپ دوم، ص147۔
  32. حسینی سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1443ھ، ج1، ص394۔
  33. حسینی سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1443ھ، ج1، ص397۔

مآخذ

  • حسینی سیستانی، سید علی، توضیح المسائل جامع، مشہد، دفتر آیت‌اللہ سیستانی، 1443ھ۔
  • خمینی، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، مؤسسۃ تنظیم و نشر آثار الامام الخمینی، 1392ہجری شمسی۔
  • خمینی، سید روح‌اللہ، «تعلیقہ» در کتاب العروۃ الوثقی، تألیف سید محمدکاظم طباطبایی یزدی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، 1421ھ۔
  • امام‌خمینی، سیدروح‌اللہ، الخلل فی الصلاۃ، تہران، مؤسسۃ تنظیم و نشر آثار الامام الخمینی، چاپ دوم، 1384ہجری شمسی۔
  • بروجردی، سید حسین، «تعلیقہ» در کتاب العروۃ الوثقی، تألیف سید محمدکاظم طباطبایی یزدی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، 1421ھ۔
  • خوانساری، سید احمد، «تعلیقہ» در کتاب العروۃ الوثقی، تألیف سید محمدکاظم طباطبایی یزدی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، 1421ھ۔
  • کاشف الغطاء، محمدحسین، «تعلیقہ» در کتاب العروۃ الوثقی، تألیف سید محمدکاظم طباطبایی یزدی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، 1421ھ۔
  • خوئی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الخوئی، مؤسسۃ الخویی الاسلامیۃ.
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، 1421ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔