سماع موتی
سَماع مَوتیٰ یا سماع اَموات (زندہ اشخاص کا مردوں کی گفتگو سننے کی قدرت رکھنا) اور زندہ اشخاص کے عالم برزخ کے ساتھ ارتباط کو کہا جاتا ہے۔ مسلمان اور وہابیوں کے درمیان ایک اختلافی موضوع ہے کہ جو مُردوں سے توسل کرنے جیسے اعتقادات سے مربوط ہے۔ روایات میں مُردوں کی برزخی زندگی اور زندہ افراد کے ان کے ساتھ ارتباط کی برقراری اور ان کی آواز سننے کی قدرت کی جانب اشارہ موجود ہے۔ یہ روایات اہل سنت مآخذ میں مذکور ہوئی ہیں اور سلفی اہل سنت میں سے ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے بزرگ علما اسے قبول کرتے ہیں۔
معنا
لغوی لحاظ سے سماع موتی مردوں (کی بات سننا) یا ان کے کانوں تک (اپنی بات) پہچانا ہے اور اس سے مراد مُردوں کی آواز سننے کی قدرت و صلاحیت رکھنا اور عالم برزخ (موت کے بعد سے لے کر قیامت سے پہلے تک کی حیات) میں ان سے رابطہ برقرار کرنا کی قدرت رکھنا ہے۔ سماع موتی کی بنیاد برزخ کی زندگی کی کو قبول کرنا ہے۔ برزخی زندگی کو قبول نہ کرنا زندوں کا مُردوں سے رابطہ برقرار کرنے کے امکان کی نفی کرنا ہے۔
دلائل
قرآنی شواہد
حضرت صالح اور حضرت شعیبؑ کا اپنی ہلاک شدہ امت سے بات چیت کرنا[1] پہلے انبیا کا نبی اکرم کے ساتھ گفتگو کرنے کا قرآن کا حکم[2] اس کے قرآنی شواہد میں سے ہے۔ علمائے اہل سنت میں سے ابن حجر اور قاضی تقی الدین سبکی نے آیت ۱۶۹ سورہ آل عمران ولاتحسَبَنَّ الَّذینَ قُتِلُوا فی سَبیلِ اللهِ أموَاتا بَل أحیَاءٌ عِندَ رَبّهِم یُرزقُونَ شہدا کے زندہ ہونے اور سماع موتیٰ پر استدلال کیا ہے۔ [3] [4]
روایات
کچھ روایات میں زندوں کا مردوں سے رابطے اور ان کی آواز سننے کے متعلق اشارہ مذکور ہے۔ان روایات میں سے اہل سنت کے مآخذوں میں سے چند ایک روایات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
- مرده اپنے تشییع کرنے والوں کی صدائیں سنتا ہے۔[5] اور وہ زندوں کو جواب دیتے ہیں۔[6]
- پیغمبر ؐ اپنے وصال کے بعد اپنی امت کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔[7]
- پیامبر اکرمؐ جنگ بدر کے بعد گڑھے میں پڑے ہوئے کفار کے مردہ جسدوں سے باتیں کر رہے تھے کہ عمر بن خطاب نے رسول اللہ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: یہ تو مر چکے ہیں آپ کی باتیں نہیں سن رہے۔ پیغمبر گرامی نے ارشاد فرمایا: تم میری باتوں کو ان سے بہتر نہیں سنتے ہو وہ تو صرف جواب دینے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔[8]
- رسول اکرم ص کی زیارت قبور کرنے کی سفارش کرنے والی روایات میں آیا ہے : مردہ تمہاری آواز سنتا ہے اور تمہارے سلام کا جواب دیتا ہے۔ [9] آپ ص جب جنت البقیع میں داخل ہوتے تو اہل قبور سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے :السلام علیکم دار قوم مؤمنین و أتاکم ما توعدون غداً مؤجلون و إنا إن شاء الله بکُم لاحِقون.[10]
شیعہ ماخذوں میں مذکورہ مقامات کے علاوہ دیگر شواہد جیسے حضرت علیؑ کا جنگ جمل میں قتل ہونے والوں سے گفتگو نقل ہوئی ہے۔[11]
دفن کے موقع پر میت کے سرہانے تلقین پڑھنے کا حکم بھی اسی پر دلالت کرتا ہے اگر سماع موتی کا امکان نہ ہو تو خدا کی طرف سے اس حکم کے دینے کی لغویت لازم آتی ہے۔
وہابی نقطہ نظر
بعض وہابی قرآن پاک کی درج ذیل آیات:
- فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ۔۵۲روم(اے رسولؐ) آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ ہی بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیرے چلے جا رہے ہیں۔
کی بنا پر سماع موتیٰ کا انکار کرتے ہیں۔[12] اور وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ مرنے کے بعد زندوں کا مردوں سے رابطہ قطع ہو جاتا ہے اور مردہ زندہ شخص کی آواز سننے کا امکان نہیں رکھتا ہے۔[13] لیکن سلفیوں میں سے ابن تیمیہ[14] اور ابن قیم[15] سماع موتی کو قبول کرتے ہیں۔
منکرین سماع موتی کے منکرین جنگ بدر کے موقع پر رسول کی مردوں سے بات کرنے کی حضرت عائشہ بنت ابی بکر کی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے اس: انهم لیسمعون الآن ما اقولمقتولین کفار وہ سنتے ہیں جو میں کہتا ہوں) کی بجائے یہ:انهم لیعلمون الآن ما اقول( کفار کے مقتولین وہ جانتے ہیں جو میں کہتا ہوں) فرمایا تھا۔[16] البتہ اکثر اہل سنت علما حضرت عائشہ کی اس بات کو قبول نہیں کرتے ہیں۔[17]
جواب
سماع موتی کے قائلین کا کہنا ہے کہ قرآن میں سورہ نمل ۸۰ویں، سورہ روم کی۵۲ویں اور سورہ فاطر کی ۲۲ویں آیت میں موتیٰ سے ظاہری طور پر مرنے والے کفار مراد ہیں؛ وہ علما قرآن کے سورہ نمل کی ۸۱ویں آیت:
- وَمَا أَنْتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ ۖ إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ
- (ترجمہ:اور نہ ہی آپ (دل کے) اندھوں کو ان کی گمراہی سے (ہٹا کر) راستہ دکھا سکتے ہیں۔ آپ صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ بس یہی لوگ ماننے والے ہیں)
سے استناد کرتے ہیں اور وہ اس آیت میں کافروں کو نابیناؤں کے ساتھ تشبیہ دینے کو اس بات پر قرینہ قرار دیتے ہیں کہ سورہ نمل کی 80ویں آیت میں مردوں سے مراد کفار ہیں۔ نیز اس آیت میں سماع(سننا) سے قبول کرنا مراد لیتے ہیں اور وہ استدلال کرتے ہیں کہ کفار نبی اکرم ؐ کی آواز سننے اور رسول اللہ اپنی آواز انکے کانوں تک پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن وہ رسول اللہ کی بات قبول نہیں کرتے ہیں۔[18] اسی طرح سورہ نمل کی ۸۱ویں آیت کے اِس حصے(إِلَّا مَنْ یُؤْمِنُ بِآیَاتِنَا ) کہ جس میں مؤمنین کو اس حکم سے جدا کیا گیا ہے، سے استناد کرتے ہوئے سماع کو قبول کرنے اور موتیٰ کو کفار کے معنا میں سمجھتے ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ سوره اعراف، آیت ۷۸–۷۹، ۹۱–۹۳
- ↑ سوره زخرف، آیت ۴۵
- ↑ فتح الباری ج۶، ص۴۸۷
- ↑ سبکی، تقی الدین، شفاء السقام فی زیارة خیر الانام، الباب التاسع، حیاة الانبیاء و الشہدا و سائر الموتی، ص۳۱۸-۳۶۵.
- ↑ بخاری، صحیح، ۱۴۰۱ق، ج۲، ص۹۲.
- ↑ شنقیطی، اضواء البیان، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۳۶؛ ابن کثیر، تفسیر، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۴۴۷.
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۶ق، ج۱۰، ص۲۱۹.
- ↑ صحیح بخارى، ج۵، ص۹۷
- ↑ نمری قرطبی، ابنعاصم، الاستذکار، ج۱، ص۱۸۵
- ↑ مسلم بنحجاج، صحیح مسلم، ج۲، ص۶۴، باب ما یقال عند دخول القبر
- ↑ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۳۹۲
- ↑ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۱، ص۵۵.
- ↑ دویش، فتاوی اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ و الافتاء، ج۹، ص۸۲.
- ↑ ابن تیمیہ، مجموعۃالفتاوی، شیخ عبدالرحمن بن قاسم، ج۲۴، ص۳۶۴.
- ↑ ابن قیم، الروح فی الکلام علی ارواح الاموات و الاحیاء بالدلائل من الکتاب و السنہ، ص۵-۱۷.
- ↑ بخاری، صحیح، ۱۴۰۱ق، ج۵، ص۹.
- ↑ شنقیطی، اضواء البیان، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۳۶.
- ↑ ابن تیمیہ، مجموعۃالفتاوی، شیخ عبدالرحمن بن قاسم، ج۲۴، ص۳۶۴.
مآخذ
- آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق.
- ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مجموعۃالفتاوی، الطبعہ: شیخ عبدالرحمن بن قاسم، نسخه نرم افزار کتابخانہاہل بیتؑ
- ابن قیم جوزیہ، محمد بن ابی بکر بن ایوب، الروح فی الکلام علی ارواح الاموات و الاحیاء بالدلائل من الکتاب و السنہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ.
- واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق: مارسدن جونس، مؤسسہ الاعلمی، بیروت، ۱۹۸۹م-۱۴۰۹ق.
- شیخ مفید، الجمل و النصرة لسید العترة فی حرب البصرة، کنگره شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ق.
- بخاری، محمد، صحیح البخاری، دارالفکر للطباعہ و النشر و التوزیع، بیروت، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م.
- شنقیطی، محمد امین، اضواء البیان، تحقیق: مکتب البحوث و الدراسات، دارالفکر للطباعہ و النشر، بیروت، ۱۴۱۵ق-۱۹۹۵م.
- ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: یوسف عبدالرحمن المرعشلی، دارالمعرفة للطباعہ و النشر و التوزیع، بیروت، ۱۴۱۲ق-۱۹۹۲م.
- طبرانی، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالمجید السلفی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۶ق-۱۹۸۵م.
- دویش، احمد بن عبدالرزاق، فتاوی اللجنہ الدائمہ للبحوث العلمیہ و الافتاء، دار العاصمہ، ریاض.