نماز قضا
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
نماز قضا (ادا نماز کے مقابلے میں) سے مراد وہ نماز ہے جسے اپنے مخصوص وقت سے خارج ہونے کے بعد پڑھی جائے۔ جس طرح سے نمازیں واجب اور مستحب میں تقسیم ہوتی ہیں، اس طرح قضا کی بھی دو قسمیں ہیں۔ بعض صورتوں مں نماز کی قضا واجب نہیں ہے؛ جیسے نابالغ یا حائضہ عورت کے لئے قضا نہیں ہے۔ کسی فرد کی وفات کے بعد دوسرا شخص اس کی قضا نمازیں ادا کر سکتا ہے.
نماز قضا کی تعریف
نماز قضا اس نماز کو کہتے ہیں کہ جو اپنے مخصوص وقت میں ادا نہ کی جائے یا یہ کہ صحیح طریقے سے ادا نہ کی گئی ہو.[1]
ادای نماز کا وقت
حتی کہ اگر ایک رکعات نماز بھی اپنے مقرر وقت پر پڑھی جائے وہ نماز، ادا ہے. مقرر کیا گیا وقت صبح کی نماز کے لئے طلوع فجر سے سورج طلوع ہونے تک، ظہر کی نماز کے لئے اذان ظہر سے لے کر اس وقت تک جب مغرب کی اذان ہونے میں پانچ رکعات نماز پڑھنے کا وقت ہو. (آیات عظام امام خمینی، گلپایگانی، اراکی، فاضل، صافی، نوری اور زنجانی کی نظر میں) یا سورج کے غروب ہونے تک (آیات عظام خامنہ ای، خوئی، بہجت، مکارم اور وحید کی نظر میں)، نماز عصر کے لئے نماز ظہر سے لے کر اذان مغرب ہونے میں ایک رکعات کا وقت ہو یا سورج غروب ہونے تک (جو تفصیل بیان ہو چکی ہے) ، نماز مغرب کے لئے اذان مغرب سے لے کر آدھی رات ہونے میں پانچ رکعات نماز پڑھنے کا وقت ہو اور نماز عشاء کے لئے نماز مغرب سے آدھی رات تک ایک رکعات پڑھنے کا وقت ہو.[2]
نماز قضا کی اقسام
نماز قضا کی دو قسمیں ہیں:
- واجب نماز کی قضا جو ممکن ہے روزانہ والی نمازیں ہوں یا دوسری نمازیں جیسے نماز آیات اور نماز طواف
- مستحب نمازوں کی قضا[3]
وہ جگہ جہاں نماز کی قضا واجب نہیں ہے
بعض اشخاص کے لئے جو نمازیں ادا نہیں کیں، انکی قضا کرنا واجب نہیں ہے:
- نابالغ افراد
- حائض اور نفساء عورتیں
- پاگل اور دیوانے افراد
- وہ افراد جو بے اختیار بے ہوش ہو گئے ہیں
- کافر مسلمان ہونے کے بعد.[4]
والدین کی قضا نمازیں
واجب نمازوں میں سے ایک، والد کی قضا نماز ہے جو کہ بڑے بیٹے (والد کی وفات کے وقت سب سے بڑا بیٹآ) پر واجب ہے. بعض مراجع جیسے آغا خامنہ ای، گلپایگانی، اراکی، مکارم، نوری، فاضل، بہجت، صافی کے فتوے کے مطابق والدہ کی قضا نمازیں بھی بڑے بیٹے پر واجب ہیں.[5]
نماز قضا کے بعض احکام
- جس کی کچھ نمازیں قضا ہو جائیں اور انکی تعداد کے بارے میں علم نہ ہو تو، اگرچہ وہ کم مقدار میں بھی قضا کرے کافی ہے.[6]
- قضا نماز کا کوئی معین وقت نہیں ہے اور اسے کسی وقت بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔[7]
- اگر نماز کے بعد پتہ چلے کہ جو نماز پڑھی ہے وہ باطل تھی، تو اس کی قضا بجا لائے.[8]
- جو نمازیں حالت سفر میں چھوٹ گئی ہیں ان کی قضا بھی قصر کی حالت میں پڑھنی ہونگی۔[9]
- وفات سے پہلے ہر شخص اپنی قضا نمازوں کا ذمہ دار خود ہے اور کوئی دوسرا شخص کسی زندہ فرد کی قضا نمازیں نہیں پڑھ سکتا.[10]
حوالہ جات
- ↑ نخعی، نماز قضا، ص۲۱
- ↑ خعی، نماز قضا، ص۲۵-۳۰
- ↑ نخعی، نماز قضا، ص۲۱
- ↑ نخعی، نماز قضا، ص۳۵ و ۳۶
- ↑ نخعی، نماز قضا، ص۱۳۷
- ↑ «نماز قضا»، مرکز مطالعات و پاسخگویی به شبهات حوزه علمیه قم..
- ↑ «نماز قضا»، مرکز مطالعات و پاسخگویی به شبهات حوزه علمیه قم۔
- ↑ «احکام نماز قضا»، سایت تبیان.
- ↑ «آیا می شود تمام نمازهای قضا را دو رکعتی خواند؟»، سایت اسلامکوئست۔
- ↑ «احکام نماز»، سایت شبکه سه۔
مآخذ
- منبع اصلی: نخعی، مهدی و قاضی، محمد، نماز قضا، تهیه اداره پاسخگویی به سؤالات دینی مرکز آستان قدس رضوی، مشهد، آستان قدس رضوی، چاپ اول، ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
- «نماز قضا»، پایگاه اندیشه قم، تاریخ بازدید ۱۲ دی ۱۳۹۶ہجری شمسی۔
- «احکام نماز قضا»، پایگاه تبیان، تاریخ بازدید ۱۲ دی ۱۳۹۶ہجری شمسی۔
- «آیا میشود تمام نمازهای قضا را دو رکعتی خواند؟»، پایگاه اسلام کوئست، تاریخ بازدید ۱۶ اسفند ۱۳۹۴ہجری شمسی۔
- «احکام نماز»، پایگاه احکام وابسته به شبکه سوم سیما، تاریخ مشاهده ۱۶ اسفند ۱۳۹۴ہجری شمسی۔