اجل

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


اَجَل ایک قرآنی اصطلاح ہے جو کسی چیز کی مدت کی انتہاء کو کہا جاتا ہے۔ جب اس کی نسبت انسان کی طرف دی جاتی ہے تو اس سے انسان کی موت مراد ہے۔ قرآن میں مختلف موضوعات کے ضمن میں 56 مرتبہ اجل اور اس کے مشتقات کا ذکر آیا ہے۔ مثلا ایک جگہ پر آیا ہے کہ ہر امت کی اجل معین ہے جس میں کسی قسم کی کمی بیشی کا امکان نہیں ہے۔

بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن کے مطابق انسان کے دو قسم کے اجل ہیں: اجل مُسَمّیٰ یا حتمی موت، اجل مُعَلَّق یا تغییر پذیر موت۔

مسلمان متکلمین جبر و اختیار کے مسئلے میں اس سے بحث کرتے ہیں۔

مفہوم‌ شناسی اور اہمیت

ہر چیز کی مدت کی انتہاء کو اجل کہا جاتا ہے؛[1] یہ لفظ جب انسان کے بارے میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد انسان کی زندگی کا خاتمہ اور موت ہے۔[2]

قرآن کریم میں مختلف موضوعات کے ضمن میں 56 مرتبہ لفظ اجل اور اس کے مشتقات کا ذکر آیا ہے؛[3] من جملہ ان میں درج ذیل موراد شامل ہیں:

  • زمین اور آسمان کی خلقت ایک معینہ مدت (اجل مُسَمّیٰ) کیلئے ہے جس کے بعد ان کی مدت ختم ہو جائے گی۔[4]
  • سورج اور چاند کی گردش ایک معینہ مدیت تک جاری رہے گی۔[5]
  • خدا گناہوں کی سزا کو ایک معینہ مدت جو کہ موت یا قیامت ہے، تک مؤخر کرتا ہے۔[6]
  • جنین ایک معینہ مدت کیلئے رحم مادر میں رہتا ہے۔[7]
  • ہر امت ایک معینہ مدت تک کے لئے ہے جب وہ وقت آجائے تو اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہوتی۔[8]
  • خدا نے ہر انسان کے لئے ایک مشخص عمر اور معین اجل قرار دیا ہے۔[9]

اقسام

تفصیلی مضمون: اجل مسمی اور اجل معلق

بعض مفسرین سورہ انعام کی آیت نمبر 2: هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ  (ترجمہ: سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا پھر بھی جو کافر ہیں وہ دوسروں کو اپنے پروردگار کے برابر ٹھراتے ہیں۔)[؟؟] سے استناد کرتے ہوئے انسان کے لئے دو قسم کے اجل کے قائل ہیں: اجل مُسَمَّیٰ اور اجل مُعَلَّق۔[10]

اجل مُسَمّیٰ، انسان کی حتمی اور تغییر ناپذیر موت کو کہا جاتا ہے جس کے بارے میں صرف خدا جانتا ہے۔ اجل مُعَلَّق، انسان کی طبیعی موت کو کہا جاتا ہے جس میں بیرونی عوامل کے سبب کمی بیشی کا امکان ہے۔[11] علامہ طباطبائی ان دو اجلوں کی وضاحت میں لکھتے ہیں: اجل معلق، ہر انسان کی جسمانی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی طبیعی موت کو کہا جاتا ہے۔ اجل مسمی اس معین زمانے کو کہا جاتا ہے جس میں اس شخص کی موت حتمی واقع ہوتی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ مثلا ایک شخص اس کے جسمانی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر 100 سال تک زندہ رہنے کا امکان ہے تو یہ اس کا اجل معلق ہے جس میں یہ احتمال ہے کہ مختلف علل و اسباب کی بنا پر اس کی موت پہلے یعنی 90 سال کی عمر میں واقع ہو یا اس میں تأخیر ہو اور وہ شخص 120 سال کی عمر میں وفات پا جائے جو اس شخص کا اجل مسمی کہلائے گا۔[12]

علم کلام میں

مسلمان متکلمین جبر اور اختیار سے مربوط مسائل میں اجل سے گفتگو کرتے ہیں۔[13] کہا جاتا ہے کہ پہلی مرتبہ اشاعرہ نے معتزلہ جو انسان کے مختار ہونے کے قائل ہیں، پر اعتراض کرنے کیلئے اجل سے مربوط آیات سے استناد کیا۔[14] وہ کہتے ہیں کہ چونکہ ان آیات کے مطابق ہر چیز مدت خدا کی طرف سے معین شدہ ہے، تمام کاموں کو بھی خدا ہی کی طرف نسبت دینا چاہئے۔ مثال کے طور پر کسی انسان کا قتل ہو جاتا ہے تو اس میں قاتل کے ارادہ اور اختیار کا کوئی دخل نہیں ہے کیونکہ مقتول کی موت خدا کی طرف سے تعیین شدہ ہے۔[15]

ان کے مقابلے میں معتزلہ کہتے ہیں: انسان برے اعمال کا بھی مرتکب ہوتا ہے اور چونکہ برے کاموں کو خدا کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی، پس ان کاموں کو خود انسان کی طرف نسبت دینا پڑے گا۔[16]

حوالہ جات

  1. قرشی، قاموس قرآن، ذیل واژہ «اجل»۔
  2. ابوطالبی، «اجل»، ص۱۶۱۔
  3. ابوطالبی، «اجل»، ص۱۶۱۔
  4. روم، آیہ ۸۔
  5. رعد، آیہ ۲۔
  6. طہ، آیہ۱۲۹۔
  7. حج، آیہ ۵۔
  8. اعراف، آیہ ۳۴؛ یونس، آیہ۴۹۔
  9. انعام، ۲؛ زمر، ۴۲۔
  10. بیات، «اجل معلق و اجل مسمی از منظر آیات و تجلی آن در روایات»، ص۸۔
  11. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۱۰۔
  12. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۱۰۔
  13. مجتہد شبستری، «اجل»، ص۶۱۴۔
  14. مجتہد شبستری، «اجل»، ص۶۱۴۔
  15. مجتہد شبستری، «اجل»، ص۶۱۴۔
  16. مجتہد شبستری، «اجل»، ص۶۱۴۔

مآخذ

  • قرآن۔
  • ابو طالبی، «اجل»، دایرۃ المعارف قرآن کریم، ج۱، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش۔
  • بیات، محمد حسین، «اجل معلق و اجل مسمی از منظر آیات و تجلی آن در روایات»، سراج منیر، ش۲۲، ۱۳۹۵ش۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامىِ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق۔
  • قرشی بنابی، علی‌ اکبر، قاموس قرآن، تہران،‌ دار الکتب اسلامیہ، چاپ ششم، ۱۳۷۱ش۔
  • مجتہد شبستری، محمد، «اجل»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۲، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۳ش۔