اشراط الساعہ

ویکی شیعہ سے

اشراط الساعہیا قیامت کی نشانیاں، قرآنی اور حدیثی اصطلاح ہے اور ایسے واقعات کو کہا جاتا ہے جو قیامت سے پہلے پیش آئیں گے. بعض مآخذ میں قیامت کی نشانیاں ظہور اور آخری زمانے کے واقعات کئے گئے ہیں۔

واقعیت یا اصل

اشراط شرط کی جمع ہے جس کا معنی علامت ہے. "اشراط الساعہ" وہ واقعات ہیں جو قیامت سے پہلے [1] یا اس کے نزدیک [2] رونما ہوں گے. بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اشراط کا معنی قیامت کے واضح دلائل بھی ہو سکتا ہے. [3]

قرآن میں

"اشراط الساعہ" ایک بار قرآن میں سورہ محمد آیت ١٨ میں استعمال ہوا ہے. "فَهَلْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَ‌اطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَ‌اهُمْ" ترجمہ:"پھر کیا یہ لوگ قیامت کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ اچانک ان کے پاس آجائے جب کہ اس کی علامتیں ظاہر ہوگئی ہیں تو اگر وہ آبھی گئی تو یہ کیا نصیحت حاصل کریں گے".

علامہ طباطبائی کے مطابق، بعض مفسرین کی نظر میں "جَاءَ أَشْرَ‌اطُهَا" (اس کی علامتیں ظاہر ہو گئیں ہیں) سے مراد، پیغمبر اکرم(ص) کا ظہور ہے اور کہتے ہیں کہ "شق القمر" اور "نزول قرآن" بھی وہ نشانیاں ہیں جو آپ(ص)کے زمانے میں رونما ہوئی ہیں.

قرآن نے عام طور پر قیامت کے اوصاف بیان کرتے وقت، اس کی علامتیں ظاہر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کس طرح دنیوی نظام درہم برہم ہو جائے گا. قیامت کی نشانیاں اور علامتیں اکثر مکی سورتوں میں بیان ہوئی ہیں، مثال کے طور پر نباء، نازعات، تکویر، انفطار، انشقاق، فجر اور قارعہ اور بعض نشانیاں مدنی سورتوں میں ملتی ہیں جیسے کہ سورہ زلزال میں. ان سورتوں میں "اشراط الساعہ" کی جو نشانیاں بیان ہوئی ہیں وہ درج ذیل ہیں:

  • آسمان کا پھٹ جانا۔
  • ستاروں کا پھیل جانا اور گرنا۔[4]
  • سورج اور ستاروں کا خاموش ہو جانا۔[5]
  • زمین کا پھٹ جانا اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس کا باہر آ جانا۔[6]
  • زمین پر شدید زلزلہ آنا۔[7]
  • زمین ایسی خبریں سنائے گی جو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی ہو گی۔[8]
  • دریا ایک دوسرے سے مل جائیں گے اور قبریں پھٹ جائیں گی۔ [9]
  • پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت کریں گے [10] اور ختم ہو جائیں گے۔ [11]
  • پرندوں کی طرح لوگوں کا ہر طرف پھیل جانا۔ [12]

اشراط الساعہ کو قرآن میں بیان کرنے کی وجہ

بعض کے عقیدے کے مطابق، ان نشانیوں کو قرآن میں بیان کرنے کی وجہ، غافل افراد کی بیداری، اور ان کا توبہ کی طرف مائل کرنا ہے. [13] بعض محققین کے مطابق ان آیات کا مقصد مسلمانوں کے قیامت کے بارے میں سوال کا جواب دینا ہے.[14]

احادیث میں

شیعہ روائی مآخذ میں جو احادیث آئی ہیں، ان میں قیامت بپا ہونے کی کچھ دیگر علامتیں بیان ہوئی ہیں، جو درج ذیل ہیں: سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، مشرق، مغرب اور جزیرۃ العرب میں چاند گرہن لگنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا ظاہر ہونا، دابۃ الارض، عدن سے آگ ظاہر ہو گی جو لوگوں کو محشر کی طرف ہدایت کرے گی. [15] حضرت عیسیٰ(ع) کا آنا [16] البتہ یہ علامتیں اہل سنت کے روائی مآخذ میں بھی ذکر ہوئی ہیں. [17]

بعض روائی منابع میں، امام مہدی(عج) کا ظہور بھی قیامت بپا ہونے کی نشانی ہے. قمی تفسیر میں، اشراط الساعہ کے بارے میں حضرت پیغمبر اکرم(ص) کی روایت، نقل ہوئی ہے کہ جس میں ظہور سے پہلے جو فساد دنیا میں ظاہر ہوں گے جیسے کہ، نماز کی اہمیت کم ہو جانا، شہوات کی پیروی کرنا، رشوت کا عام ہو جانا، ربا خواری، ہمجنس بازی، زنا، طلاق و... یہ قیامت کی نشانیاں ہیں. [18] البتہ یہی موارد بعض دوسری جگہوں پر آخری زمانے کی نشانیوں کے عنوان سے یا قیامت کے نزدیک ہونے کے عنوان سے بیان ہوئے ہیں.

اسی طرح پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت، حضرت مہدی(عج) کا قیام، [19] اور صور میں پھونکنا بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں. بعض نے پیغمبر اکرم(ص) کی بعثت کو قیامت کی پہلی نشانی قرار دیا ہے. [20]

دوسرے ادیان میں

اشراط الساعہ کا موضوع دوسرے ادیان میں بھی ذکر ہوا ہے. مثال کے طور پر، انجیل، مرقس اور متی میں آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ(ع) کے چاہنے والے آپ سے دنیا کے ختم ہونے کے دن اور وقت کے بارے میں سوال کرتے ہیں حضرت عیسیٰ(ع) ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اس بارے میں وہ اور فرشتے کچھ علم نہیں رکھتے اور فقط خداوند آگاہ ہے. انجیل میں دنیا ختم ہونے سے پہلے کچھ نشانیاں ذکر ہوئی ہیں جو درج ذیل ہیں:

  • سورج کا تاریک ہو جانا.
  • ستاروں کا آسمان سے گرنا.
  • قوای افلاک کا متزلزل ہونا.
  • تمام اقوام کے درمیان جنگ اور ناامنی.
  • دریاؤں کا فریاد بلند کرنا.
  • قطحی اور اغتشاش کا ظاہر ہونا.
  • بھائی بھائی کو قتل کرے گا، اور باپ اولاد کو.
  • اولاد کا والدین کے خلاف آواز اٹھانا.
  • دجال کا ظاہر ہونا. [21]

حوالہ جات

  1. ↑ راغب، مفردات، ۱۹۸۶م، ص۳۷۹؛ طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۳ق-۱۹۷۳م، ج۱۸، ص۲۳۶.
  2. مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۱، ص۴۴۹.
  3. فخررازی، التفسیر الکبیر، بیروت، ج۲۸، ص۶۰.
  4. سوره انشقاق، آیہ۸۴؛ سوره انفطار، ۱و۲.
  5. سوره تکویر، ۱و۲.
  6. سوره انشقاق،۳-۵؛ سوره فجر، ۲۱.
  7. سوره زلزال، ۱-۲.
  8. سوره زلزال، ۴-۵.
  9. انفطار، ۳-۵.
  10. سوره تکویر، ۳
  11. سوره قارعہ، ۵.
  12. سوره قارعہ، ۴.
  13. ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، بیروت، ج۱۱، ص۳۵۰: بہ نقل از اصغری، اشراط الساعہ در دانشنامہ کلام اسلامی، ج۱، ص۴۷.
  14. [١٤]گذشتہ، اشراط الساعہدر دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۹، ص۱۹.
  15. شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ص۴۳۱-۴۳۲.
  16. شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ص۴۳۱-۴۳۲.
  17. ابن ماجہ، سنن، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م، ج۲، ص۱۳۶۳-۱۳۴۲؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م.، ج۱، ص۴۰۵؛ دارمی، سنن، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م، ص۱۲۳.
  18. ↑ قمی، تفسیر، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۳۰۴-۳۰۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶، ص۳۰۹.
  19. صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۰۳.
  20. اصغری، اشراط الساعہ در دانشنامہ کلام اسلامی، ج۱، ص۴۷.
  21. مرقس، باب ۱۳، متی، ۲۰، ۲۱-۲۳؛‌ دانشنامہ...1»، ؛ I/136 I/321-323 , ER

مآخذ

  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، دارالمعرفہ، بیروت.
  • ابن حنبل، احمد، مسند، استانبول، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م.
  • ابن ماجہ، محمد، سنن، استانبول، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م.
  • جمعی از محققان، دانشنامہ کلام اسلامی.
  • دارمی، عبدالله، سنن، استانبول، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م.
  • راغب اصفہانی، حسین، مفردات، استانبول، ۱۹۸۶م.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح: علی اکبر غفاری، جامعہ مدرسین، قم، ۱۳۶۲ش
  • شیخ صدوق، محمد بن علی،کمال الدین و تمام النعمہ، انتشارات اسلامیہ، تہران، ۱۳۹۵ق.
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان، بیروت، ۱۳۹۳ق-۱۹۷۳م.
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، تصحیح: جمعی از محققان، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • فخررازی، التفسیر الکبیر، بیروت، داراحیاء، بیروت.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح: طیب موسوی جزایری، دارالکتب، قم، ۱۴۰۴ق.
  • گذشتہ، ناصر، اشراط الساعہ، دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج۹.
  • مسلم بن حجاج، صحیح، محمد فؤاد عبدالباقی کی کوشش، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۳۷۴ش.