سجدہ سہو
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
سجدہ سہو، ان دو سجدوں کو کہا جاتا ہے جنہیں واجب نماز کے بعد ان میں واقع ہونے والی غلطیوں کے ازالے کے لئے انجام دیا جاتا ہے۔ سجدہ سہو نماز کے سلام کے فورا بعد بجا لانا چاہیے اور دوسرا سجدہ بجا لانے کے بعد تشہد اور سلام کا پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ سجدہ سہو کا ذکر دوسرے سجدوں کے ذکر سے مختلف ہے۔
کن کن چیزوں میں سجدہ سہو واجب ہوتا ہے اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ نماز میں غلطی سے بات کرنا، ایک سجدے کو بھول جانا اور بھولے سے بے جا سلام پھیرنا ان موارد میں سے ہیں جن کے لئے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے۔
تعریف
فقہاء کے مطابق واجب نماز میں واقع ہونے والی بعض غلطیوں کے ازالے کے لیے مذکورہ نماز کے فوراً بعد دو سجدے انجام دئے جاتے ہیں انہیں سجدہ سہو (غیرعمدی اشتباہات کا سجدہ) کہا جاتا ہے۔[1] شیعہ فقہاء سجدہ سہو اور اس کے احکام کے بارے میں شکیات نماز اور نماز میں سہو کے احکام میں بحث کرتے ہیں۔[2]
طریقہ
سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ نماز کے فوراً بعد سجدہ سہو کی نیت سے دو سجدے انجام دئے جاتے ہیں جن کا مخصوص ذکر ہے اور دوسرے سجدے کے بعد تشہد اور سلام کو دوبارہ پڑھا جاتا ہے۔[3]اکثر شیعہ فقہاء کا کہنا ہے کہ سجدہ سہو تکبیر (الله اکبر کہنے) سے شروع نہیں ہوتا ہے؛[4]لیکن شیخ طوسی کے فتوے کے مطابق سجدہ سہو سے پہلے تکبیر پڑھنا ضروری ہے۔[5] صاحب جواہر نے شیخ طوسی کے اس نظرئے کو کمزور قرار دیتے ہوئے[6] تکبیر کہنے کو مستحب قرار دیا ہے۔[7]
سجدہ سہو کا ذکر
سجدہ سہو کا ذکر نماز کے دوسرے سجدوں کے ذکر سے مختلف ہے اور سجدہ سہو میں مندرجہ ذیل اذکار میں سے کسی ایک کو پڑھا جاتا ہے:
سجدہ سہو کا وقت
مشہور شیعہ فقہا کے مطابق سجدہ سہو کو نماز میں سلام پھیرنے کے بعد انجام دیا جاتا ہے۔[10] البتہ شیخ طوسی کا کہنا ہے کہ اگر سجدہ سہو نماز میں کسی کمی کو ازالہ کرنے کے لیے ہو تو بعض امامیہ فقہاء اس کو انجام دینے کا وقت نماز کے سلام سے پہلے قرار دیتے ہیں۔[11] چوتھی صدی ہجری کے فقیہ ابن جُنَید اِسکافی نے بھی اس نظرئے کو مان لیا ہے۔[12]
اسباب وجوب
شیعہ فقہا کے ہاں سجدہ سہو واجب ہونے کے موارد کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[13]مختلف فتاوی کے مطابق سجدہ سہو چار، پانچ یا چھ موارد میں واجب ہوتا ہے۔[14]مشہور فقہا کے مطابق پانج موارد میں سجدہ سہو واجب ہوتا ہے یا احتیاط واجب کے طور پر انجام دیا جائے:
- بھول کر نماز کے دوران کلام کرنا۔
- ایک سجدہ بھول جانا۔
- چار رکعتی نماز میں دوسرے سجدے کے بعد چار اور پانچ رکعت پڑھنے کے متعلق شک کرے۔
- جہاں سلام نہ پڑھنا ہو وہاں بھول کر سلام پڑھے؛ مثلا چار رکعتی نماز کی دوسری رکعت میں تشہد کے بعد غلطی سے سلام پھیرے۔
- تشہد کا بھول جانا۔[15]
بعض فقہا نے غیر عمدی طور پر جہاں قیام کرنا تھا وہاں بیٹھ جائے یا جہاں بیٹھنا تھا وہاں قیام کرے تو ایسے مورد کو بھی سجدہ سہو کے موارد میں سے شمار کیا ہے۔[16]شیخ طوسی کے بقول بعض شیعہ فقہا نماز میں ہر کم اور زیادہ میں سجدہ سہو کو لازم سمجھتے ہیں۔[17] علامہ حلی نے بھی اس نظرئے کو مان لیا ہے۔[18]جبکہ بعض فقہا نے اس مورد میں سجدہ سہو کو مستحب قرار دیا ہے۔[19]
احکام
- سجدہ سہو میں سجدے کے ساتوں اعضا زمین پر رکھنا ضروری ہے۔[20]
- طہارت اور قبلہ رخ ہونا بھی سجدہ سہو میں شرط ہونے کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف نظر ہے۔[21]
- ارکان نماز میں سے کسی ایک کو بھول جائے تو سجدہ سہو سے اس کمی کو پورا نہیں کیا جاسکتا ہے۔[22]
- سجدہ سہو کو فوراً انجام دینا واجب ہے؛ یعنی نماز کے فورا بعد انجام دیا جائے؛[23]لیکن جس نے سجدہ سہو انجام نہیں دیا ہے اسے نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف سجدہ سہو کو بجا لائے تو کافی ہے۔ نیز نماز اور سجدہ سہو کے درمیان وقت زیادہ گزرنے سے سجدہ سہو کا وجوب ساقط نہیں ہوتا ہے۔[24]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۲۳.
- ↑ نمونہ کے طور پر مراجعہ کریں: ابن ادریس، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۵۷.
- ↑ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۲۵.
- ↑ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ص۳۰۷-۳۰۸؛ بنیہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۶۷۴؛ مکارم شیرازی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۳۹۵ش، ص۲۰۹؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۴۴۷.
- ↑ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۲۵.
- ↑ نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۴۴۸.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۴۴۲.
- ↑ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ص۳۰۸؛ بنیہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۶۷۵-۶۷۴.
- ↑ ابن ادریس، اجوبۃ مسائل و رسائل فی مختلف فنون المعرفۃ، ۱۴۲۹ق، ص۱۷۴.
- ↑ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۰۸؛ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۲۵؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۴۴۱.
- ↑ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۲۵.
- ↑ ابن جنید، مجموعۃ فتاوی ابن جنید، ۱۴۱۶ق، ص۷۹.
- ↑ علامہ حلی، مختلف الشیعہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۲۳؛ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۲۳-۱۲۵.
- ↑ ابن ادریس، اجوبۃ مسائل و رسائل فی مختلف فنون المعرفۃ، ۱۴۲۹ق، ص۱۷۳.
- ↑ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۲۳؛ بنیہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۶۶۹-۶۷۴.
- ↑ مراجعہ کریں: ابن ادریس، اجوبۃ مسائل و رسائل فی مختلف فنون المعرفۃ، ۱۴۲۹ق، ص۱۷۳-۱۷۴؛ مکارم شیرازی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۳۹۵ش، ص۲۰۸.
- ↑ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۲۴-۱۲۵.
- ↑ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ص۳۰۷-۳۰۸.
- ↑ مراجعہ کریں: مکارم شیرازی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۳۹۵ش، ص۲۰۸؛ بنیہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۶۶۹-۶۷۲.
- ↑ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ص۳۰۸.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۴۴۹.
- ↑ طبرسی، المؤتلف من المختلف، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۵۳.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۴۵۵.
- ↑ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۲۳؛ بنیہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۶۷۳.
مآخذ
- ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، اجوبۃ مسائل و رسائل فی مختلف فنون المعرفۃ، تصحیح: سید محمدمہدی موسوی خرسان، قم، دلیل ما، ۱۴۲۹قمری ہجری۔
- ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۰قمری ہجری۔
- ابن جنید اسکافی، محمد بن احمد، مجموعۃ فتاوی ابن جنید، تصحیح: علیپناہ اشتہاردی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۶قمری ہجری۔
- بنیہاشمی خمینی، سید محمدحسن، توضیح المسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
- طبرسی، فضل بن حسن، المؤتلف من المختلف بن ائمۃ السلف، تصحیح: مدیرشانہ، سید مہدی رجائی و دیگران، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیہ، ۱۴۱۰قمری ہجری۔
- طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تصحیح: سید محمدتقی کشفی، تہران، الکتبۃ المرتضویہ لاحیاء الآثار الجعفریہ، ۱۳۸۷قمری ہجری۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳قمری ہجری۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳قمری ہجری۔
- محقق حلی، جعفر بن حسین، المختصر النافع فی فقہ الامامیہ، قم، مؤسسہ المطبوعات الدینیہ، ۱۴۱۸قمری ہجری۔
- مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات امام علی بن ابی طالب، ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح: عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴قمری ہجری۔