شہادت ثالثہ
شہادت ثالثہ، اذان و اقامت میں شہادتین(وحدانیت خدا اور رسالت پیغمبر خداؐ کی گواہی) کے بعد حضرت علیؑ کی ولایت کی گواہی دینے کو کہتے ہیں جسے عام طور پر أشہَدُ أَنّ عَلیاً ولیُّ اللہ یا أشہَدُ أَنّ عَلیاً حُجَّۃُ اللہ جیسے الفاظ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ مذہب امامیہ کے مشہور فقہاء کے مطابق شہادت ثالثہ اذان و اقامہ کا جزء نہیں ہے، اسی وجہ سے بعض شیعہ علما اسے اذان و اقامت میں کہنے کو بدعت سمجھتے ہیں اور اگر اسے شرعی لحاظ سے اذان و اقامت کا جزء قرار دے کر کہا جائے تو یہ حرام عمل ہوگا۔ اس سلسلے میں وارد شدہ روایات کو شیخ صدوق جعلی جبکہ شیخ طوسی انہیں نادر سمجھتے ہیں۔ معاصر امامیہ فقہا کے نزدیک شہادت ثالثہ اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے لیکن اسے اذان و اقامت کا جزء مانے بغیر قصد قربت کے ساتھ کہنا مستحب ہے۔ شیعہ مرجع تقلید سید محسن حکیم کے مطابق شہادت ثالثہ ایمان کی نشانی اور شیعیت کی علامت ہے، اذان و اقامت میں اسے کہنا شرعی لحاظ سے رجحان کا حامل عمل ہے اور کبھی یہ بھی ممکن ہے کہ جزئیت کے قصد کے بغیر اس کا کہنا واجب ہو۔
مفہوم اور اہمیت
شہادتین( توحید و نبوت) کی گواہی دینے کے بعد علی بن ابی طالب کی ولایت کی گواہی دینے کو شہادت ثالثہ کہتے ہیں۔[2] عام طور پر یہ گواہی أشہَدُ أَنّ عَلیاً ولیُّ اللہ یا أشہَدُ أَنّ عَلیاً حُجَّۃُ اللہ جیسے الفاظ کے ساتھ دی جاتی ہے۔ [3]
سید محسن حکیم اور سید تقی طباطبائی قمی شہادت ثالثہ کو شیعیت کی علامت سمجھتے ہیں۔[4] شیعہ روائی کتب میں موجود بعض روایات میں شہادت ثالثہ کی تائید اور ولایت امام علیؑ کے اقرار کے لیے اس کی تائید کی گئی ہے۔[5] مثال کے طور پر طبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج میں امام جعفر صادقؑ سےایک روایت نقل کی ہے جس میں آیا ہے: جب بھی تم میں سے کوئی کہے: «لا إلہ إلَّا اللہ» و «محمّد رسول اللہ»، تو بغیر فاصلہ کے کہے: «علیٌ اَمیرُالمؤمنین»۔[6]
کیا شہادت ثالثہ اذان و اقامت کا جزء ہے؟
فقہائے امامیہ کے درمیان مشہور نظریہ یہ ہے کہ شہادت ثالثہ اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے۔[7] سید محمد موسوی عاملی (946-1009ھ) اور سید محسن حکیم (1306ـ1390ھ) جیسے فقہاء کے مطابق جن فقہاء نے اس مسئلے کو مورد بحث قرار دیا ہے ان کے مابین اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ شہادت ثالثہ اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے۔[8] صاحبْ جواہر کے مطابق بھی شیعہ فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہےکہ شہادت ثالثہ اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے۔[9]
شیخ صدوق (305-381ھ) اور شہید ثانی (911-955 یا 965ھ) جیسے فقہاء کا کہنا ہے کہ اذان وا قامہ میں شہادت ثالثہ کو اضافہ کرنا ایک بدعت پر مبنی عمل ہے۔ یہ دونوں فقہاء اس سلسلے میں وارد شدہ روایات کو «جعلی» سمجھتے ہیں۔[10] نیز شہید ثانی کہتے ہیں کہ شرعی لحاظ سے جزئیت کا قصد کے ساتھ اس کا اذان و اقامت میں اضافہ کرنا اگرچہ نماز کے بطلان کا سبب نہیں لیکن ایک گناہ عمل ہے۔[11]
شیخ طوسی (385-460ھ) نے بھی اذان کی تیسری شہادت سے متعلق روایات کو نادر قرار دیا اور لکھا ہے کہ جس نے اذان میں شہادت ثالثہ کہا اس نے گناہ کیا؛[12] ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کے اضافے سے اذان میں کسی قسم کی فضیلت پیدا نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اذان کے فصول و اجزاء کامل قرار پاتے ہیں۔[13] ایک اور شیعہ فقیہ محمد حسین فیض کاشانی (1007-1091 ھ) نے اذان اور اقامت میں شہادت ثالثہ پڑھنے کو مکروہ سمجھا ہے اور کہا ہے کہ اسے اذان اور اقامت کا جزء ماننا حرام ہے۔[14]
تاہم علامہ باقر مجلسی (1037-1110ھ) کا عقیدہ ہے کہ اس مسئلے کے سلسلے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان کی وجہ سے بعید نہیں کہ شہادت ثالثہ اذان اور اقامت کا ایک مستحب حصہ ہو۔[15] آقا رضا ہمدانی (1250-1322ھ) جیسے فقیہ بھی کہتے ہیں کہ جزئیت کے قصد کے بغیر اذان اور اقامت میں اس کا کہنا جائز ہے۔ سید عبد الاعلی سبزواری اور سید تقی طباطبائی قمی جیسے فقہاء کا کہنا ہے کہ شہادت ثالثہ کو جزئیت کے قصد کے بغیر اذان و اقامت میں کہنا شرعی لحاظ سے رجحان کا حامل عمل ہے۔[16]
بعد کے فقہا، جیسے سید عبد الہادی شیرازی (1305-1382ھ)،[17] سید ابوالقاسم خوئی (1278-1371شمسی)،[18] سید علی حسینی سیستانی[19] (پیدائش: 1309ھ/1349ھ) اور وحید خراسانی[20] (پیدائش 1300شمسی) کا کہنا ہے کہ شہادت ثالثہ اذان و اقامت کا حصہ نہیں ہے البتہ اذان اور اقامت میں اس کا کہنا مستحب ہے۔
سید محسن حکیم کے مطابق خاص طور پر موجودہ دور میں(14ویں اور 15ویں صدی ہجری)، شہادت ثالثہ ایمان کی علامت اور شیعیت کی نشانی ہے اور اسی وجہ سے اس کو شرعی رجحان حاصل ہے، اور بعض اوقات اسے اذان و اقامت کا جزء قرار دیے بغیر اس کا کہنا واجب ہو جاتا ہے۔[21] سید حسین طباطبائی قمی (1282-1366ھ) جیسے علماء نے بھی تبرک و تیمن کی خاطر اسے کہنا جائز سمجھا ہے۔[22]
پانچویں صدی ہجری کے امامیہ فقیہ سَلّار دیلمی نے بھی نماز کے تشہد میں شہادت ثالثہ پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے۔[23]
اذان و اقامت میں شہادت ثالثہ شامل ہونے کا تاریخی پس منظر
شیخ صدوق نے اذان و اقامت کے فصول میں شہادت ثالثہ کے شامل کیے جانے کو غالیوں کی طرف منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ روایتوں کو گھڑ لی ہیں۔[24] بعض مؤرخین کے مطابق شہادت ثالثہ اذان و اقامت میں پانچ صدیوں تک متروک رہی؛ چنانچہ چھٹی صدی ہجری کے شیعہ عالم دین عبد الجلیل قزوینی رازی نے اپنی کتاب "النقض" میں بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اذان میں شہادتین کے بعد شہادت ثالثہ پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے اور اس نے بدعت اور گناہ انجام دیا ہے۔[25]
کہا جاتا ہے کہ کئی صدیوں کے بعد سنہ 907ھ میں شاہ اسماعیل صفوی کے حکم سے اسے دوبارہ اذان میں شامل کیا گیا اور لوگوں میں اس حد تک رائج ہوا کہ اگر کوئی اذان میں شہادت ثالثہ ترک کرتا تو اس پر سنی ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔[26] یہاں تک نقل کیا گیا ہے کہ اس دور میں بعض فقہاء اسے اذان و اقامت کا جزء نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن سنیت کے الزام کے خوف سے وہ تقیہ کرتے ہوئے اپنے عقیدے کو مخفی رکھتے تھے۔[27]
کہا جاتا ہے کہ ایک صدی بعد، یعنی 12ویں صدی ہجری کے وسط میں، شیعوں نے اذان میں دوبارہ شہادت ثالثہ کا ذکر ترک کردیا۔[28] مرزا محمد اخباری نے "شہادۃ علی الولایۃ" نامی اپنے ایک مقالے میں بیان کیا ہے کہ شیخ جعفر کاشف الغطاء نے فتح علی شاہ قاجار کو خط لکھا جس میں شاہ قاجار سے درخواست کی گئی کہ ملکی سطح پر اذان میں شہادت ثالثہ کی ممانعت کا حکم دیا جائے۔[29] البتہ رضا استادی نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ مرزا محمد اخباری نے کاشف الغطاء کی درست اور صحیح بات نقل نہیں کی ہے۔ کاشف الغطاء اذان میں شہادت ثالثہ کے مخالف نہیں تھے؛ بلکہ انہوں نے صرف اذان و اقامت میں اس کے جزء ہونے کا انکار کیا ہے۔[30] رضا استادی مزید لکھتے ہیں کہ رسالہ کاشف الغطاء میں آیا ہے کہ اذان میں «اَشہد آن علیاً ولی اللہ»، کے بجائے برکت کی نیت سے یہ جملہ:«اشہد أن علیاً امیرالمؤمنین» کہے۔[31]
مونوگراف
شہادت ثالثہ کےموضوع پر لکھی گئی کتابوں میں سے کچھ یہ ہیں:
- کتاب موسوعۃُ الْاَذانِ بَین الْاَصالۃِ و التّحریف، اس کتاب کو سید علی شہرستانی نے تین جلدوں میں عربی زبان میں لکھا ہے: اس تصنیف کی تیسری جلد کے ایک حصے میں مصنف نے «اشہد أن علیاً ولی اللہ، بینَ الشَّرعیۃ و الْاِبتداع»، کے عنوان سے اذان میں شہادت ثالثہ کو مورد بحث قرار دیا ہےاس پوری بحث کو تین ابواب میں بیان کیا ہے۔[32] مذکورہ کتاب کے ان تین ابواب کو سید ہادی حسینی نامی ایک مصنف نے ایک مستقل کتاب کی شکل میں جایگاہ اشہد أن علیاً ولی اللہ در اذان کے عنوان سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔
- کتاب اَلشَّہادۃُ بِالْولایۃِ فی الْاذان، یہ کتاب سید علی حسینی میلانی کی تصنیف ہے: اس کتاب میں اذان میں شہادت ثالثہ پڑھنے کے جواز کے دلائل کا تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے۔[33]
- کتاب اَلشَّہادۃُ الثّالثۃ، جسے محمد سند نے تحریر کی ہے: مصنف نے اس کتاب میں تقیے کے زمانے میں امامیہ فقہاء کی روایات اور آراء کی تحقیق کرتے ہوئے اذان و اقامت، نماز کے تشہد اور سلام میں شہادت ثالثہ سے متعلق احکام کا جائزہ لیا ہے۔[34]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ «اشہد ان علیا ولی اللہ»، صفحہ الخطاط محمد المشرفاوی در پینترس۔
- ↑ حسینی میلانی، الشہادۃ بالولایۃ فی الاذان، 1421ھ، ص12۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص290۔
- ↑ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1389ھ، ج5، ص545؛ مؤسسہ سبطین، العروۃ الوثقی و التعلیقات علیہا، 1430ھ، ج6، ص468، پانویس4۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص58؛ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج7، ص404۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص58۔
- ↑ حب اللہ، التعلیقۃ علی منہاج الصالحین (الاذان و الاقامۃ)، الموقع الرسمی لحیدر حب اللہ۔
- ↑ موسوی عاملی، مدارک الاحکام، مؤسسہ آل البیت(ع)، ج3، ص279؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1389ھ، ج5، ص544۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1363شمسی، ج9، ص87۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص290؛ شہید ثانی، روض الجنان، 1422ھ، ج2، ص186۔
- ↑ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ج1، ص240۔
- ↑ شیخ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص69۔
- ↑ شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص99۔
- ↑ فیض کاشانی، مفاتیح الشرایع، 1401ق، ج1، ص118۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج81، ص111۔
- ↑ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج6، ص21-22؛ طباطبایی قمی، مبانی منہاج الصالحین، منشورات قلم الشرق، ج4، ص353۔
- ↑ مؤسسہ سبطین، العروۃ الوثقی و التعلیقات علیہا، 1430ق، ج6، ص468، پانویس5۔
- ↑ خویی، منہاج الصالحین، مؤسسۃ الخوئی الاسلامیۃ، ج1، ص150۔
- ↑ سیستانی، منہاج الصالحین، 1414ھ، ج1، ص191۔
- ↑ وحید خراسانی، منہاج الصالحین، مدرسہ امام باقر(ع)، ج2، ص168۔
- ↑ حکیم، مستمسک العروۃ، 1389ھ، ج5، ص545۔
- ↑ مؤسسہ سبطین، العروۃ الوثقی و التعلیقات علیہا، 1430ق، ج6، ص468، پانویس5۔
- ↑ سلار دیلمی، المراسم، 1414ق، ص72-73۔
- ↑ شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ق، ج1، ص290۔
- ↑ قزوینی، النقض، 1385ش، ص97۔
- ↑ مجلسی، لوامع صاحب قرانی، ج3، ص566۔
- ↑ مجلسی، لوامع صاحبقرانی، 1414ق، ج3، ص566۔
- ↑ مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، 1398شمسی، ص99۔
- ↑ مدرسی طباطبایی، مکتب در فرآیند تکامل، 1398شمسی، ص99۔
- ↑ استادی، «کاشف الغطاء و شہادت بر ولایت در اذان و اقامہ»، ص178۔
- ↑ استادی، «کاشف الغطاء و شہادت بر ولایت در اذان و اقامہ»، ص178۔
- ↑ شہرستانی، موسوعۃ الاذان بین الاصالۃ و التحریف، ج3، ص1۔
- ↑ حسینی میلانی، الشہادۃ بالولایۃ فی الاذان، ص49، فہرست کتاب۔
- ↑ سند، الشہادۃ الثالثۃ، 1385شمسی، ص446، فہرست کتاب۔
مآخذ
- استادی، رضا، «کاشف الغطاء و شہادت بر ولایت در اذان و اقامہ»، کتاب شیعہ، شمارہ 13 و 14، زمستان و بہار 1395ہجری شمسی۔
- «اشہد ان علیا ولی اللہ»، صفحہ الخطاط محمد المشرفاوی در پینترس، تاریخ بازدید: 14 خرداد 1401ہجری شمسی۔
- بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بیتا۔
- حباللہ، حیدر، التعلیقۃ علی منہاج الصالحین (الاذان و الاقامۃ)، الموقع الرسمي لحيدر حب اللہ، تاریخ بازدید: 25 آبان 1403ہجری شمسی۔
- حسینی میلانی، سیدعلی، الشہادۃ بالولایۃ فی الاذان، قم، مركز الأبحاث العقائدیۃ، 1421ھ۔
- حکیم، سید محسن طباطبایی، مستمسک العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ دارالتفسیر، 1416ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، مؤسسۃ الخوئی الاسلامیۃ، بیتا۔
- سبزواری، سید عبدالاعلی، مہذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بیتا۔
- سلار دیلمی، حمزہ بن عبدالعزیز، المراسم العلویۃ فی النبویۃ، قم، المعاونیۃ الثقافیۃ للمجمع العالمی لأہل البیت علیہم السلام، 1414ھ۔
- سند، محمد، الشہادۃ الثالثۃ، تہران، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
- سیستانی، سیدعلی، منہاج الصالحین، قم، انتشارات مہر، 1414ھ۔
- شہرستانی، سیدعلی، موسوعۃ الاذان بین الاصالۃ و الابتداع، قم، نشر الاجتہاد، 1430ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تعلیقہ سیدمحمد کلانتر، قم، انتشارات داوری، 1410ھ۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، روض الجنان، قم، مركز النشر التابع لمکتب الاعلام الاسلامی، 1422ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الإمامیۃ، بہ تصحیح سید محمدتقی کشفی، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، 1387ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاویٰ، بیروت، دارالکتاب العربی، 1400ھ۔
- طباطبایی قمی، سیدتقی، مبانی منہاج الصالحین، قم، منشورات قلم الشرق، بیتا۔
- طبرسی، ابومنصور، الاحتجاج علی اہل اللجاج، تصحیح و تعلیقہ محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
- علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی۔
- فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، مفاتیح الشرایع، قم، مجمع الذخائر الاسلامیۃ، 1401ھ۔
- قزوینی رازی، عبدالجلیل، النقض، تہران، انجمن آثار ملی، 1385ہجری شمسی۔
- مؤسسہ سبطین، العروۃ الوثقی و التعلیقات علیہا، قم، مؤسسۃ السبطین علیہما السلام العالمیۃ، 1430ھ۔
- مجلسی، محمدتقی، لوامع صاحب قرانی، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، 1414ھ۔
- مدرسی طباطبایی، سید حسن، مکتب در فرآیند تکامل، ترجمہ ہاشم ایزدپناہ، تہران، انتشارات کویر، 1398ہجری شمسی۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بہ تحقیق و تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چ7، 1404ھ۔
- وحید خراسانی، حسین، منہاج الصالحین، قم، مدرسہ امام باقر(ع)، بیتا۔
- ہمدانی، آقارضا، مصباح الفقیہ، قم، المؤسسۃ الجعفریۃ لاحیاء التراث، 1430ھ۔