برزخ دنیا اور آخرت کے درمیانی عالم کو کہا جاتا ہے جسے قیامت صغری، عالم مثال یا عالم قبر بھی کہتے ہیں۔ موت کے بعد جب روح انسان کے بدن سے جدا ہو جاتی ہے تو انسان برزخ میں داخل ہو جاتا ہے جس کا پہلا مرحلہ سوال قبر ہے جس کے بارے میں متفکرین کا خیال ہے کہ یہ سوالات بدن مثالی سے ہوگا جبکہ دوسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ قبر میں سوال و جواب قبر میں موجود اسی مادی بدن سے ہوگا۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق عالم برزخ مومن اور غیر مومن دونوں کے لئے ہے اس تفاوت کے ساتھ کہ مؤمن کے لئے برزخ بہشت کی طرح ہے جبکہ کافر کے لئے برزخ جہنم کی مانند ہے۔

برزخ میں اختیاری امور کے ذریعے انسان کی ترقی اور تکامل کا امکان نہیں ہوتا سوائے بچوں کے۔ اگرچہ دنیا میں انجام دیئے گئے سابقہ اعمال کے آثار کے ذریعے یہ امکان موجود ہوتا ہے۔

برزخ میں شفاعت کے امکان اور عدم امکان کے بارے میں بھی محققین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے: بعض شفاعت کے دائرہ کار کو قیامت اور برزخ دونوں قرار دیتے ہیں؛ جبکہ بعض اسے صرف قیامت کے دن منحصر سمجھتے ہیں۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

برزخ دو چیزوں کے درمیانی فاصلے اور حائل کو کہا جاتا ہے[1] اور اصطلاح میں دنیا اور قیامت کے درمیانی فاصلے کو برزخ کہا جاتا ہے جس کا آغاز موت اور قبض روح سے ہوتا ہے اور قیامت برپا ہونے تک باقی رہتا ہے۔[2]

برزخ کا لفظ قرآن کریم میں تین بار تکرار ہوا ہے[3] لیکن صرف سورہ مومنون کی آیت نمبر 100 میں اس کے اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے[4]۔ اس آیت میں موت کے وقت بعض افراد کی طرف سے دنیا میں دوبارہ پلٹائے جانے کے درخواست کے جواب میں خدا کا ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ قیامت تک برزخ میں رہیں گے۔[5]

احادیث میں لفظ برزخ دنیا اور آخرت کے درمیانی فاصلے کے معنی میں آیا ہے؛ چنانچہ امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث میں قیامت کے دن تمام حقیقی شیعوں کے لئے بہشت کی بشارت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: واللہِ اَتَخَوفُ علیکم فی‌البرزخ (ترجمہ: خدا کی قسم برزخ میں تمہارے لئے کوئی خوف نہیں ہے)۔ اس کے بعد راوی کے برزخ سے متعلق کئے گئے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: القبرُ منذُ حین موتہ الی یوم القیامۃ (ترجمہ: (برزخ) وہی قبر ہے جو موت سے لے کر قیامت تک ہے۔)[6]

اس کی علاوہ دوسری احادیث میں میں اس حوالے سے جو کچھ آیا ہے اس کے مطابق قبر یا بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑوں میں سے ایک گڑا ہے؛[7] نہ یہ خاکی قبر جس میں انسان کا بدن رکھا گیا ہے۔[8]

احادیث میں آیا ہے کہ "جو بھی مر جاتا ہے اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے"؛[9] اسی لئے عالَم برزخ کو "قیامت صغری" بھی کہا جاتا ہے۔[10] اسی طرح برزخ اور قیامت میں موجود شباہت کی وجہ سے اسے عالَم مثال بھی کہا جاتا ہے۔[11] اسی طرح چونکہ برزخ قبر کی طرح دنیوی زندگی کے فورا بعد آتا ہے اس لئے اسے "عالم قبر" بھی کہا جاتا ہے۔[12]

برزخی بدن

انسان کی روح موت کے بعد جب مادی بدن سے جدا ہو جاتی ہے تو برزخی بدن میں داخل ہو کر عالم برزخ میں برزخی زندگی گزارتی ہے۔[13] برزخی بدن کی کیفیت کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[14] ایک گروہ کا ماننا ہے کہ برزخی بدن مادیت سے خالی ہوتا ہے۔ البتہ اس کی شکل و شمائل مادی بدن کی طرح ہوتی ہے اسی وجہ سے اسے بدن مثالی بھی کہا جاتا ہے۔[15] جبکہ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ برزخی بدن یہی قبر میں موجود بدن ہے جس سے سوال و جواب کیا جائے گا اور جسے برزخ کے ثواب و عذاب کا استحقاق ہوگا۔[16]

سوال قبر

سوال قبر کو حیات برزخی کا پہلا مرحلہ قرار دیا جاتا ہے۔ قبر کی پہلی رات ہر انسان سے اس کے اعتقادات اور دنیا میں انجام دیئے گئے اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔[17] یہ سوال و جواب اسی مادی بدن سے کیا جائے گا یا بدن مثالی سے اس بارے میں دو نظریات پائے جاتے ہیں۔[18]

فشار قبر

بہت ساری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فشار قبر صرف کفار اور مشرکین تک منحصر نہیں ہے بلکہ مؤمن بھی دنیا میں اس کے اعمال اور کردار[19] اور گناہوں کے تناسب سے فشار قبر میں مبتلاء ہو گا تاکہ اس طرح وہ گناہوں سے پاک ہو اور بہشت برزخی میں جانے کے قابل ہو۔ ابو بصیر کہتے ہیں: "امام صادقؑ سے عرض کیا: آیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جو فشار قبر سے نجات پیدا کرے؟ فرمایا: فشار قبر سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں، کتنے کم لوگ ہیں جو فشار قبر سے نجات پیدا کریں گے۔"[20]

برزخی بہشت و جہنم

برزخ میں ہر انسان دنیا میں انجام دیئے گئے اعمال کا مزہ چکھے گا، اس بنا پر بعض لوگ بہشتی اور بعض جہنمی ہونگے۔[21]
بہشت برزخی پر پیش کئے جانے والے دلائل میں سے ایک سورہ نحل کی یہ آیت ہے جس کے مطابق ملائکہ جب مؤمنین کی روح قبض کریں گے تو انسے کہیں گے: "آپ پر درود و سلام ہو جو کچھ دنیا میں انجام دیا کرتے تھے اس کے بدلے میں بہشت میں داخل ہو جائیں"۔[22] اسی طرح سورہ آل عمران میں آیا ہے کہ شہداء زندہ اور خوشی سے اپنے پروردگار کے یہاں روزی پاتے ہیں۔[23] شیعہ اور سنی محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ مؤمنین اور شہداء موت کے بعد اور قیامت سے پہلے زندہ‌ ہیں اور برزخی بہشت میں اپنے پروردگار کے نعمات سے مستفید ہوتے ہیں۔[24]
برزخی جہنم کے بارے میں بھی سورہ نساء میں آیا ہے کہ جب ملائکہ ظالمین کی روح قبض کرتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں: تمہارا ٹھکانا جہنم ہے۔[25] محققین کے مطابق گفتگو اس بات کے اوپر دلالت کرتی ہے کہ یہ موت کے بعد اور قیامت سے پہلے زندہ ہیں اور برزخی جہنم میں موجود ہیں۔[26]
اسی طرح سورہ غافر میں فرعونیوں کے عذاب[27] کے ذریعے بھی استدلال کیا جاتا ہے موت کے بعد خدا فرعونیوں پر دو مرحلے میں عذاب نازل کرتا ہے: ایک قیامت سے پہلے اور دوسرا قیامت کے بعد۔[28]
احادیث میں بار بار برزخی بہشت و جہنم کے اوپر تصریح کی گئی ہے۔[29]

برزخ قرآن میں

برزخ کا لفظ قرآن کریم میں، تین بار آیا ہے (فرقان: ٥٣، الرحمن: ٢٠، مومنون: ١٠٠) لیکن صرف سورہ مومنون میں مذکور معنی میں استعمال ہوا ہے: حَتَّى إِذَا جَاء أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّی أَعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى یوْمِ یبْعَثُونَ ترجمہ: یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے۔ (مومنون ١٠٠)

اس آیت میں، قرآن بعض افراد کی نا بجا درخواست جو کہ موت کے وقت کرتے ہیں، اور دنیا میں لوٹنے کی خواہش کرتے ہیں، اعلان کرتا ہے کہ قیامت کے دن تک ایک سبب حائل ہے اور یہ عبارت "الی یوم یبعثون" اس چیز کی حکایت کرتی ہے کہ برزخ سے مراد، دنیا اور آخرت کے درمیان والا عالم ہے کہ جسے قیامت سے پہلے ہر افراد دیکھے گا۔

قرآن میں برزخ کا اثبات

سورہ مومنون کی آیت نمبر ١٠٠ کے علاوہ جو کہ برزخ کے وجود کو بیان کرتی ہے، بعض اور آیات لفظ برزخ کے ذکر کئے بغیر اس کو ثابت کرتیں ہیں۔ یہ آیات شہیدوں کے زندہ ہونے کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ جو درج ذیل ہیں:

  • وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ترجمہ: اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں۔ [آل عمران-١٦٩]
  • وَ لَا تَقُولُوا لِمَن یُقتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ أموَاتٌ بَل أحیَاءٌ وَ لَکِن لَا تَشعُرُون ترجمہ: اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔ [بقرہ-١٥٤]

قرآنی آیات کے مطابق، برزخ صرف شہیدوں کے لئے نہیں بلکہ یہ عالم حتی کافروں، ستمگروں جیسے فرعون اور اس کے چاہنے والوں کے لئے بھی ہے، جیسا کہ سورہ مومنون میں فرماتا ہے:"النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْها غُدُوًّا وَ عَشِيًّا وَ يَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ ترجمہ: وہ جہّنم جس کے سامنے یہ ہر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو فرشتوں کو حکم ہوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کر دو۔ [مومنون-٤٦][30]

برزخ روایات میں

بعض روایات میں، لفظ برزخ کو دنیا اور آخرت کے درمیان والا مرحلہ کہا گیا ہے. مثال کے طور پر، امام صادق(ع) کی حدیث میں اس مطلب کے بعد کے تمام حقیقی شیعہ آخرت میں بہشت میں داخل ہوں گے، یہ بیان ہوا ہے:واللهِ اَتَخَوفُ علیكم فی‌البرزخ[31] ترجمہ: خدا کی قسم تمہارے برزخ کا خوف کھاتا ہوں.

اس کے بعد اس راوی کے جواب میں جس نے برزخ کے بارے میں پوچھا، فرمایا:القبرُ منذُ حین موته الی یوم القیامة ترجمہ: (برزخ) وہی قبر ہے موت سے لے کر قیامت کے دن تک۔

امام (ع) کی دوسری عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم قبر سے مراد وہی عالم برزخ ہے اور بعض روایات کے مطابق قبر سے مراد یہ ایک خاکی گودال کہ جس میں میت کو رکھتے ہیں وہ نہیں، بلکہ اس قبر کا باطنی معنی یعنی وہی برزخ ہے اور یہ خاکی قبر، انسان کے جسمانی بدن کو رکھنے والی جگہ ہے اور عالم برزخ انسان کی روح کی جگہ ہے اور عالم برزخ کو عالم قبر بھی کہا جاتا ہے۔[32]

حوالہ جات

  1. راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، ذیل مادہ «برزخ»؛ النہایۃ فی غریب الحدیث، ۱۳۶۷ش، ج۱، ص۱۱۸۔
  2. سبحانی، الإلہيات على ہدى الكتاب و السنۃ و العقل‏، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۲۳۳-۲۳۴؛ محسنی دایکندی، برزخ و معاد از دیدگاہ قرآن و روایات، انتشارات مجمع جہانی شیعہ شناسی، ص۳۲۔
  3. سورہ فرقان، آیہ۵۳؛ سورہ الرحمن، آیہ۲۰؛ سورہ مؤمنون، آیہ۱۰۰۔
  4. حَتَّى إِذَا جَاء أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّی أَعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّہَا كَلِمَۃٌ ہُوَ قَائِلُہَا وَمِن وَرَائِہِم بَرْزَخٌ إِلَى یوْمِ یبْعَثُونَ۔
  5. محسنی دایکندی، برزخ و معاد از دیدگاہ قرآن و روایات، انتشارات مجمع جہانی شیعہ شناسی، ص۳۳۔
  6. کلینی، الکافی، ۱۳۶۷ش، ج۳، ص۲۴۲۔
  7. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۷۵۔
  8. سبحانی، الإلہيات على ہدى الكتاب و السنۃ و العقل‏، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۲۳۸۔
  9. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۱، ص۷۔
  10. قیصری، شرح مقدمہ قیصری بر فصوص الحکم، ۱۳۷۰ش، ص۷۷۳-۷۷۴
  11. علی زادہ موسوی، سلفی‌ گری و وہابیت، ۱۳۹۳ش، ص۴۲۲۔
  12. حسینی تہرانی، معاد شناسی، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۱۷۰۔
  13. محسنی دایکندی، برزخ و معاد از دیدگاه قرآن و روایات، انتشارات مجمع جهانی شیعہ شناسی، ص۲۹-۳۰؛ مکارم، یکصد و هشتاد پرسش و پاسخ، دار الکتب الاسلامیة، ص۳۶۱-۳۶۲.
  14. برای مطالعہ بیشتر، رک: ملایری، «نظریہ های بدن برزخی»، ۱۳۸۹ش.
  15. ملا صدرا، الحکمة المتعالیة فی الأسفار العقلیة الأربعة، ۱۹۸۱م، ج۹، ص۱۹۷-۱۹۸؛ محسنی دایکندی، برزخ و معاد از دیدگاه قرآن و روایات، انتشارات مجمع جهانی شیعہ شناسی، ص۴۲-۴۳.
  16. لاهيجي، گوهر مرا،د ۱۳۸۳ش، ص۶۵۰-۶۵۱.
  17. محسنی دایکندی، برزخ و معاد از دیدگاہ قرآن و روایات، انتشارات مجمع جہانی شیعہ شناسی، ص۲۰۵۔
  18. علامہ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶، ص۲۷۰؛ جوادی آملی، معاد شناسی، انتشارات اسراء، ج ۲۱، ص۲۲۲۔
  19. امام خمینی، چہل حدیث، حدیث ششم، ص۱۲۴۔
  20. کلینی، الکافی، ۱۳۶۷ش، ج۳، ص۲۳۶۔
  21. محسنی دایکندی، برزخ و معاد از دیدگاہ قرآن و روایات، انتشارات مجمع جہانی شیعہ شناسی، ص۲۹۸-۳۱۴۔
  22. سورہ نحل، آیہ۳۲۔
  23. آل عمران، آیات ۱۶۹-۱۷۰۔
  24. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان،دار المعرفۀ للطباعۀ و النشر، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۴۳۳؛ زمخشری، ابوالقاسم، الکشاف، ج۱، ص۳۴۷
  25. سورہ نساء، آیہ۹۷۔
  26. محسنی دایکندی، برزخ و معاد از دیدگاہ قرآن و روایات، انتشارات مجمع جہانی شیعہ شناسی، ص۳۱۶۔
  27. سورہ غافر: ۴۵-۴۶۔
  28. محسنی دایکندی، برزخ و معاد از دیدگاہ قرآن و روایات، انتشارات مجمع جہانی شیعہ شناسی، ص۳۱۳-۳۱۴۔
  29. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۷۵؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۱، ص۹۰۔
  30. تفسير الميزان ، ج۱۴، ص ۳۱۵
  31. الکافی، ج۳، ص۲۴۲
  32. سبحانی، جنب الدحیات، ج ۴، ص ۲۳۸

مآخذ

  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد؛ المفردات فی غریب القرآن، تحقیق صفوان عدنان داودی، دمشق: دارالعلم الدار الشامیۃ، ۱۴۱۲ق.
  • جزری، ابن اثیر، النہایۃ فی غریب الحدیث، قم: اسماعیلیان، ۱۳۶۷ش.
  • قیصری، شرح فصوص‌ الحکم، تہران: انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۷۵ش.
  • طباطبائی، محمد حسین، تفسیر المیزان، ترجمہ: سید محمد باقر موسوی ہمدانی، قم: دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ۱۳۷۴ ش.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، انتشارات دارالکتب الاسلامیہ، چاپخانہ حیدری،۱۳۷۲ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران: دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۵ش.
  • دیلمی، حسن بن ابی الحسن، ارشاد القلوب، قم: شریف رضی، ۱۴۱۲ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، یک صد و ہشتاد پرسش و پاسخ،‌ دار الکتب الاسلامیۃ.