نماز استیجاری
نماز استیجاری یا نماز اجارہ ای، ایسی نماز جو کچھ رقم وصول کر کے کسی مسلمان کی نیابت میں پڑھی جائے. نماز استیجاری، واجب نماز بھی ہو سکتی ہے جیسے کہ روزانہ کی نماز جو قضا ہو چکی ہے اور مستحب نماز بھی ہو سکتی ہے جیسے کہ نماز زیارت. جو شخص استیجاری نماز پڑھتا ہے اسے اجیر کہا جاتا ہے. اکثر شیعہ فقہاء، استیجاری نماز کو صرف اموات کی نیابت میں جائز سمجھتے ہیں.
تعریف
نماز استیجاری، ایسی واجب یا مستحب نماز جو کچھ رقم لے کر کسی کی طرف سے پڑھی جاتی ہے. اگر کوئی کسی سے رقم لئے بغیر کسی کے لئے نماز پڑھے تو اسے "نماز نیابتی" کہتے ہیں. [1] فقہی ادبیات میں، جو کسی دوسرے کی طرف سے نماز پڑھتا ہے اسے "اجیر" یا "نائب" کہتے ہیں اور جس شخص کی نیابت میں نماز ادا کی جا رہی ہوتی ہے، اسے "منوب عنہ" کہا جاتا ہے. [2]
فقہی حکم
فقہاء نے نماز استیجاری اور اس کے احکام کو طہارت، [3] نماز، [4] خمس، [5] اور اجارہ[6] کے باب میں بیان کیا ہے.
شیعہ مذہب میں، استیجاری نماز زندہ شخص کی نیابت میں صحیح نہیں ہے.[7] البتہ کہا گیا ہے کہ ابن متوج نے استیجاری نماز کو زندہ شخص کی نیابت میں جائز قرار دیا ہے. [8]
سارے شیعہ فقہاء معتقد ہیں کہ نیابت تبرعی (رقم دریافت کئے بغیر)، واجب اور مستحب نمازوں میں اور اسی طرح نیابت استیجاری مستحب نمازوں میں میت کی طرف سے صحیح ہے، لیکن میت کی طرف سے واجب نمازوں کے لئے اجیر ہونے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے. مشہور علماء، اموات کی نیابت میں نماز استیجاری کو جائز سمجھتے ہیں.[9]
متعلقہ احکام
- استیجاری نماز میں، نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے درمیان ترتیب کی رعایت کرنا ضروری ہے. [10]
- نماز استیجاری میں جو مستحبات عام طور پر بجا لائے جاتے ہیں، انہیں بجا لایا جائے. [11]
- استیجاری نماز میں نیت ضروری ہے کہ اس خاص شخص کے لئے یہ نماز پڑھ رہا ہوں اگرچہ اس کا نام معلوم نہ ہو. [12]
حوالہ جات
- ↑ بنیہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع-احکام نماز استیجاری، پورتال انہار.
- ↑ سیستانی، توضیح المسائل، مسئلہ۱۸۸۷، پایگاه رسمی دفتر آیت الله العظمی سیستانی.
- ↑ حکیم، مستمسک العروة الوثقی، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۴۸۷.
- ↑ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیہ، ۱۴۱۰ق، ص۴۳؛ بحرانی، الحدائق الناظره، ج۱۱، ص۴۴؛ نراقی، مستندالشیعہ، ج۷، ص۳۴۰.
- ↑ کاشانی، منتقد المنافع، ۱۴۲۳ق، ص۱۶۸.
- ↑ رشتی، کتاب الاجاره، ۱۳۱۱ق، ص۲۷۱؛ عاملی، مفتاح الکرامہ، داراحیاء التراث العربی، ج۷، ص۱۶۴.
- ↑ سید یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۷۴۳.
- ↑ عاملی، مفتاح الکرامہ، داراحیاء التراث العربی، ج۷، ص۱۶۴؛ ۱۴۱۹ق، ج۱۹، ص۵۱۱-۵۱۲.
- ↑ الزبده الفقہیہ، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۳۰۸؛ نراقی، مستندالشیعہ، ۱۴۱۵ق، ج۷، ص۳۴۰؛ بحرانی، الحدائق الناظره، ج۱۱، ص۴۴.
- ↑ سیستانی، توضیح المسائل، مسئلہ ۱۹۰۳، پایگاه رسمی دفتر آیت الله العظمی سیستانی..
- ↑ خامنہ ای، اجوبۃ الاستفتائات، سؤال ۷۱۰، پایگاه اینترنتی دفتر حفظ و نشر آیت الله العظمی خامنہ ای.
- ↑ بنیہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع؛احکام نماز استیجاری-مسأله ۱۵۳۶، پورتال انہار.
مآخذ
- بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناظره فی احکام العترة الطاہره، تحقیق: محمدتقی ایروانی و سید عبدالرزاق مقرم، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۵ق.
- بنیہاشمی خمینی، سیدمحمدحسن، توضیح المسائل مراجع-احکام نماز استیجاری، پورتال انہار، تاریخ بازدید: ۲۱ تیر ۱۳۹۶ش.
- ترحینی عاملی، سید محمدحسن، الزبدة الفقہیہ فی شرح الروضۃ البہیہ، قم، دارالطباعہ و النشر، ۱۴۲۷ق.
- حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، قم، مؤسسۃ دارالتفسیر، ۱۴۱۶ق.
- خامنہ ای،سیدعلی، اجوبۃ الاستفتائات، سؤال ۷۱۰، پایگاه اینترنتی دفتر حفظ ونشر آیت الله العظمی خامنہ ای، تاریخ بازدید: ۲۱ تیر ۱۳۹۶.
- رشتی، میرزا حبیب الله، کتاب الاجاره، بیجا، بینا، ۱۳۱۱ق.
- سید یزدی، محمدکاظم طباطبائی، العروة الوثقی فیما تعم بہ البلوی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۹ق.
- سیستانی، سیدعلی، توضیح المسائل، مسئلہ ۱۸۸۷، پایگاه رسمی دفتر آیت الله سیستانی، تاریخ بازدید: ۲۱ تیر ۱۳۹۶ش.
- شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ فی فقہ الامامیۃ، تصحیح: محمدتقی و علی اصغر مروارید، بیروت، دارالتراث الدارالاسلامیہ، ۱۴۱۰ق.
- عاملی، سید جواد بن محمد، مفتاح الکرامہ فی شرح قواعد العلامہ، تحقیق: محمدباقر خالصی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۹ق.
- عاملی، سید جواد بن محمد، مفتاح الکرامہ فی شرح قواعد العلامہ، تحقیق: محمدباقر حسینی شہیدی، بیروت، داراحیاءالتراث العربی، بیتا.
- کاشانی، ملا حبیب الله، منتقد المنافع فی شرح المختصر النافع- کتاب الخمس، قم، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی، ۱۴۲۳ق.
- نراقی، ملااحمد، مستندالشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت، ۱۴۱۵ق.