مُؤَذِّن، جو شخص مسلمانوں کے نماز کا وقت داخل ہونے پر اذان دیتا ہے مؤذن کہلاتا ہے۔ عموما موذن کسی بلند مقام جس کو منارہ کہا جاتا ہے، پر کھڑے ہو کر اذان دیتا ہے تاکہ مسلمانوں کو نماز کا وقت داخل ہونے کی طرف متوجہ جا سکے۔ اسلامی تعلمیاتت میں اذان دینے کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسلامی مآخذ میں اس کام کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔

تعریف

مؤذّن اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی بات کو بلند آواز سے اعلان کرے۔ قرآن کریم میں بھی اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔[1] سیبویہ عربی زبان کے مشہور ادیب اور لغت شناس سے نقل ہوا ہے کہ اذان کے معنی کسی مطلب کو بلند آواز کے ساتھ اعلان کرنے کو کہا جاتا ہے۔[2] اسلامی اصطلاح میں مؤذّن اس شخص کو کہا جاتا ہے جو یومیہ نمازوں کے مخصوص اوقات کی ابتداء میں اذان دیتا دینے کے ذریعے لوگوں کو نماز کا وقت داخل ہونے کی طرف متوجہ اور آگاہ کرتا ہے۔[حوالہ درکار]


تاریخچہ

بلال حبشی، ابومحذورہ اور عمرو بن ام مکتوم کو پیغمبر اسلامؐ کے مؤذن کے طور پر نام لئے جاتے ہیں۔[3] شیعہ احادیث کے مطابق جب پیغمبر اکرمؐ معراج پر تشریف لے گئے تو پہلی بار جبرئیل نے اذان دی تھی اور جب آپؐ معراج سے واپس تشریف لائے تو آپؐ نے حضرت علیؑ کو حکم دیا کہ بلال کو اذان کی تعلیم دی جائے اس بنا پر بلال اسلام کا پہلا مؤذن ہے۔[4]

پرانے زمانے میں مؤذن ایک بلند مقام (عموما مسجد کی چھت یا مینار) پر جا کر اذان دیتا تھا۔ معاصر ادوار میں مؤذن کی آواز لاؤڈسپیکرز کے ذریعے جو مساجد کے چھتوں پر رکھے جاتے ہیں، کے ذریعے دور دراز تک سنائی دیتی ہے۔[حوالہ درکار]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سورہ اعراف، آیہ ۴۴۔
  2. طوسی، التبیان، ج۴، ص۴۰۶۔
  3. الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۳۴
  4. نک: کلینی، کافی، ج۳، ص۳۰۲؛ ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۸۳؛ طوسی، تہذیب، ج۲، ص۲۷۷ و الاستبصار، ج۱، ص۳۰۵-۳۰۶۔

مآخذ

  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر۔
  • طوسى، محمد بن حسن‏،التبيان فى تفسير القرآن‏، بيروت‏، دار احياء التراث العربى‏، اول‏۔