نماز لیلۃ الدفن، یا قبر کی پہلی رات کو پڑھی جانے والی نماز، مستحبی نمازوں سے ہے. اس نماز کو، جسے نماز ہدیہ یا نماز وحشت بھی کہا گیا ہے، میت کے لئے قبر کی پہلی رات (رات کے شروع سے لے کر صبح تک) پڑھی جاتی ہے اور اس کا بہترین وقت عشاء کی نماز کے بعد ہے۔

نام

اس نماز کا نام ہدیہ (صلاۃ الھدیۃ)[1] اور شب دفن کی نماز (صلاۃ لیلۃ الدفن)[2]اور نماز وحشت (صلاۃ الوحشۃ) ہے.[3] اس وجہ سے نماز وحشت کہا گیا ہے کہ جو انسان اس دنیا سے گیا ہے ابھی قبر سے انس نہیں رکھتا جس کی وجہ سے خوف اور وحشت رکھتا ہے اور یہ نماز خداوند کے فضل سے وحشت کو اس سے دور کرتی ہے. در حقیقت یہ وحشت کو دور کرنے والی نماز ہے نہ کہ نماز وحشت. [4]

طریقہ

فقہی منابع کے مطابق، نماز وحشت نیچے بیان کی گئی دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں پڑھی جائے:

  • پہلی صورت: پہلی رکعات میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور دو مرتبہ سورہ توحید (قل ھو اللہ) اور دوسری رکعات میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور دو مرتبہ سورہ تکاثر پڑھیں اور نماز کے سلام کے بعد کہیں:

اَللّہُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّدٍ وَ ابْعَثْ ثَوابَہا اِلی قَبرِ فلان بن فلان( فلان بن فلان کی جگہ میت اور اس کے والد کا نام کہے)

  • دوسری صورت: پہلی رکعات میں حمد کے بعد، ایک مرتبہ آیت الکرسی اور دوسری رکعات میں حمد کے بعد، دس مرتبہ سورہ قدر پڑھیں، اور نماز کے سلام کے بعد کہیں:اَللّہُمَّ صَلِّ عَلی مُحمدٍ وَ آلِ مُحمدٍ وَ ابْعَثْ ثَوابَہا اِلی قَبرِ فلان بن فلان» (فلان بن فلان کی جگہ میت اور اس کے والد کا نام لیں) [5]

احکام

  • اگر نماز لیلۃ الدفن کو دونوں طریقوں سے پڑھے تو بہتر ہے.[6]
  • نماز وحشت کو دفن کرنے کے بعد رات کے کسی بھی حصے (رات کے شروع سے صبح تک) میں پڑھ سکتے ہیں، لیکن بہتر یہ ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد پڑھی جائے. [7]
  • اگر میت کو کسی دوسرے شہر میں لے جانا چاہتے ہیں، یا کسی اور وجہ سے اس کے دفن میں دیر ہو، تو نمازوحشت میں بھی دیر ہو گی یعنی نماز وحشت کا وقت قبر کی پہلی رات ہے.[8]
  • ایک بندہ کئی بار اس نماز کو ہدیہ کی نیت سے پڑھ سکتا ہے.[9]
  • اگر کوئی شخص بھول کر نماز وحشت کو اس کیفیت کے علاوہ جو بیان ہوئی ہے کسی اور طریقہ سے پڑھ دے تو اسے چاہیے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے، اگرچہ سورہ قدر ایک آیت یا آیت الکرسی کی ایک آیت بھول گیا ہو تب بھی اسے دوبارہ پڑھے. [10]
  • نماز وحشت اجرت دے کر پڑھانا یا اجرت لے کر پڑھنا جائز ہے اور احتیاط یہ ہے کہ اجرت بخشش اور احسان کے عنوان سے نماز گزار کو دیں اور وہ بھی نماز کو اجرت لینے کی نیت کے بغیر پڑھے.[11]

اس نماز کے پڑھنے کا ثواب

پیغمبر(ص) نے اس نماز کے ثواب میں بارے میں فرمایا ہے:

میت کے لئے قبر کی پہلی رات بہت سخت رات ہے. پس اپنے مردوں پر رحم کرو اور انکے لئے صدقہ دو اور اگر نہ دے سکو تو، اس کے لئے دو رکعات نماز پڑھو.اس وقت خداوند متعال ہزار فرشتوں کو اس کی قبر کی طرف بھیجتا ہے، اور اس کی قبر کو وسعت دیتا ہے اور نماز گزار کے لئے طلوع ہونے تک حسنات لکھے جاتے ہیں اور اس کو چالیس درجہ اوپر لے جایا جاتا ہے.

فشار قبر کی کمی کا سبب

محدث نوری کتاب دارالسلام میں نقل کرتے ہیں: ہمارے استاد، ملا فتح علی سلطان آبادی کہتے ہیں: میری عادت تھی کہ جب بھی اہل بیت(ع) سے محبت کرنے والا کوئی دنیا سے جاتا اور مجھے اس کی خبر ہوتی، تو میں دو رکعت نماز وحشت اس کے لئے پڑھتا، خواہ اسے جانتا تھا یا نہ جانتا تھا۔ کوئی بھی میری اس عادت سے باخبر نہیں تھا، ایک دن راستے میں میری ملاقات ایک دوست سے ہوئی اس نے کہا: کل رات ایک شخص جو کہ کچھ دن پہلے اس دنیا سے رخصت ہوا تھا اسے خواب میں دیکھا، میں نے موت کے بعد کی حالت کے بارے میں اس سے پوچھا، اس نے کہا کہ میں موت کے بعد بہت سختی میں گرفتار تھا اور حساب وکتاب کے وقت مجھے عذاب کی طرف لے جایا گیا، جب کہ اس وقت فلان شخص (آپ کا نام لیا) نے میرے لئے دو رکعت نماز پڑھی، اسی دو رکعت نے مجھے عذاب سے نجات بخشی۔ خدا اس کے والد پر رحم کرے جس نے مجھ پر یہ احسان کیا ہے۔ اس وقت اس شخص نے مجھ سے پوچھا کہ وہ دو رکعت نماز کیسی تھی۔ میں نے نماز وحشت کا طریقہ اس کے لئے بیان کیا.[12]

حوالہ جات

  1. وسائل الشیعہ، ج۷، ص۱۶۸
  2. العروہ الوثقی (المحشی)، ج۳، ص۴۰۱
  3. تحریر الوسیلة (ترجمہ فارسی)، ج۱، ص: ۱۰۸
  4. http://www.islamquest.net/fa/archive/question/fa3624
  5. تحریر الوسیلة (ترجمہ فارسی)، ج۱، ص: ۱۰۸
  6. تحریر الوسیلة (ترجمہ فارسی)، ج۱، ص: ۱۰۹ـ۱۰۸
  7. توضیح المسائل (امام خمینی)، ص۱۰۰، مسئلہ ۶۳۹.
  8. توضیح المسائل (امام خمینی)، ص۱۰۰، مسئلہ ۶۴۰
  9. قمی، شیخ عباس، الغایة القصوی فی ترجمة العروة الوثقی، ج‌۱، ص۲۶۲
  10. قمّی، شیخ عباس، الغایة القصوی فی ترجمة العروة الوثقی، ج‌۱، ص۲۶۲
  11. تحریر الوسیلة (ترجمہ فارسی)، ج۱، ص: ۱۰۹
  12. دارالسلام فی ما یتعلق بالرویا و المنام، ج۲، ص۳۴۸

مآخذ

  • عاملی، حرّ، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، مؤسسہ آل البیت(ع)، قم، ۱۴۰۹ھ۔
  • یزدی، سید محمد کاظم طباطبایی، العروہ الوثقی فیما تم بہ البلوی (المحشی)، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۹ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، الغایہ القصوی فی ترجمہ العروہ الوثقی، صبح پیروزی، قم، ۱۴۲۳ھ۔
  • امام خمینی، تحریر الوسیلة (ترجمہ فارسی)، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، توضیح المسائل حضرت امام خمینی، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
  • گلپایگانی، سید محمد رضا، مجمع المسائل،‌دار القرآن الکریم، قم، ۱۴۰۹ھ۔
  • نوری، حسین بن محمد تقی، دارالسلام فی ما یتعلق بالرویا و المنام، دارالبلاغہ، بیروت، ۱۴۱۲ھ۔