تلقین میت

ویکی شیعہ سے

میت کی تلقین، اسلامی عقیدے کے مطابق ایسا ذکر ہے جو میت کو دفن کرنے پہلے خاص آداب کے ساتھ میت کے لئے پڑھا جاتا ہے. تلقین میت کے دفن کے وقت مستحب عمل ہے اور اسلامی شریعت کے مطابق بہتر ہے کہ قبر بند کرنے سے پہلے اور قبر بند کرنے کے بعد پڑھی جائے. [1] احتضار(روح نکلتے وقت) کی حالت میں بھی تلقین پڑھنا مستحب ہے. مفاتیح الجنان میں تلقین کے لئے جو الفاظ بیان ہوئے ہیں انہیں روایات سے ہی لیا گیا ہے. اور اس عبارت میں عورتوں اور مردوں کے لئے تھوڑا فرق ہے.

تاریخچہ

تلقین پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے سے ہی رائج تھی. اور پیغمبر(ص) کے بعد، ائمہ معصومین(ع) کا یہی شیوہ رہا ہے اور وہ شیعوں کے لئے تلقین کا فائدہ بتاتے رہے ہیں جس کا ذکر متعدد روایات میں بیان ہوا ہے. رسول خدا(ص) نے فرمایا: اپنے مردوں کو موت سے پہلے سے لا الہ الا اللہ کی تلقین کریں، جس کی زندگی کا آخری کلمہ لا الہ الا اللہ ہو گا وہ اہل بہشت ہے.[2] شیعہ مآخذ میں توحید اور رسول اکرم(ص) کی نبوت کی گواہی کے بعد، ائمہ معصومین(ع) کی حقانیت کی گواہی بھی تلقین میں آئی ہے. [3]

تلقین کرنے کا طریقہ

علامہ مجلسی نے ان تمام روایات کو جمع کیا ہے جو بحارالانوار میں نقل ہوئی ہیں جن میں تلقین پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور شیخ عباس قمی نے اسی مضمون کو مفاتیح الجنان کے ملحقات میں لکھا ہے.[4] اس تلقین کا طریقہ یہ ہے کہ: جب میت کو قبر میں رکھ لیں تو، اس کے کفن کے گرہ کو کھول دیں اور میت کی صورت کو خاک پر رکھ دیں اور اس کے سر کے نیچے خاک کا تکیہ بنا دیں اور میت کی کمر کے پیچھے تھوڑی مقدار میں مٹی اکٹھی کر کے سہارا دے دیں تا کہ میت پشت کی طرف نہ پلٹ سکے، اور اس سے پہلے کے قبر کو بند کریں، میت کے کاندھوں پر اپنا ہاتھ رکھیں اور اپنے منہ کو اس کے کانوں کے نزدیک لے جا کر اس کو ہلا کر تین بار کہیں:

مرد کی تلقین

نیچے والے متن میں فلان بن فلان کی جگہ میت اور اس کے والد کا نام لیا جائے، مثلاً اگر اس کا نام محمد اور اس کے والد کا نام علی ہے تو تین مرتبہ کہیں: اسْمَعْ افْهَمْ یا مُحَمَّدَ بْنَ عَلی

تلقین میت
متن ترجمه
هَلْ انْتَ عَلَی الْعَهْدِ الَّذِی فَارَقْتَنا عَلَیهِ مِنْ شَهَادَةِ انْ لٰا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَریکَ لَهُ وَ انَّ مُحَمَّداً صَلّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ وَ سَیدُ النَّبِیینَ وَ خاتَمُ الْمُرْسَلِینَ و انَّ عَلِیاً أَمیرُ الْمُؤمِنینَ وَ سَیدُ الْوصِیینَ وَ امامٌ افْتَرَضَ اللّٰهُ طاعَتَهُ عَلَی الْعٰالَمِینَ وَ انَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَینَ وَ عَلِی بْنَ الْحُسَینِ وَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی وَ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ وَ مُوسَی بْنَ جَعْفَرٍ وَ عَلِی بن مُوسیٰ وَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی وَ عَلی بْنَ مُحَمَّدٍ وَ الْحَسَنَ بْنَ عَلی وَ الْقٰائِمَ الْحُجَّةَ الْمَهْدِی صَلَواتُ اللّٰهِ عَلَیهِمْ ائِمَّةُ الْمُؤمِنینَ وَ حُجَجُ اللّٰهِ عَلَی الْخَلْقِ أَجْمَعِینَ وَ ائِمَّتُکَ ائِمَّةُ هُدی بِکَ ابْرارٌ

یا فُلانَ بْنَ فُلانٍ

اذا اتٰاکَ الْمَلَکٰانِ الْمُقَرَّبٰانِ رَسُولَینِ مِنْ عِندِ اللّٰهِ تَبٰارَکَ وَ تَعٰالَی وَ سَأَلاکَ عَنْ رَبِّکَ وَ عَنْ نَبِیکَ وَ عَنْ دِینکَ وَ عَنْ کِتابِکَ وَ عَنْ قِبْلَتِکَ وَ عَنْ ائِمَّتِکَ فَلا تَخَفْ وَ لا تَحْزَنْ وَ قُلْ فِی جَوابِهِما اللّٰهُ رَبّی وَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ نَبِیی وَ الإِسْلامُ دِینِی وَ الْقُرْآنُ کِتٰابِی وَ الْکَعْبَةُ قِبْلَتِی وَ امیرُ الْمُؤمِنینَ عَلِی بْنُ أبی طٰالِبٍ امٰامی وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِی الُمجْتَبیٰ امٰامی وَ الْحُسَینُ بْنُ عَلِی الشَّهیدُ بِکَرْبَلاءَ امٰامِی وَ عَلِی زَینُ الْعٰابِدِینَ امَامِی وَ مُحَمَّدٌ البِاقِرُ امَامِی وَ جَعْفَرٌ الصّادِقُ امَامِی وَ مُوسَی الکاظِمُ إِمامی وَ عَلِی الرِّضٰا إِمامی و مُحَمَّدٌ الجَوادُ إِمامی و عَلی الْهَادِی امَامِی وَ الْحَسَنُ الْعَسْکَری امَامِی وَ الْحُجَّةُ الْمُنْتَظَرُ امٰامی هٰؤُلٰاءِ صَلَواتُ اللّٰهِ عَلَیهِمْ أَجْمَعِینَ ائِمَّتِی وَ سَادَتِی وَ قَادَتِی وَ شُفَعَائِی بِهِمْ أَتَولَّی وَ مِنْ اعدائِهِمْ أَتَبَرَّأُ فِی الدُّنْیا وَ الآخِرَةِ

ثُمَّ اعْلَمْ یا فُلانَ بْنَ فُلان

انَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی نِعْمَ الرَّبُّ وَ انَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ نِعْمَ الرَّسُولُ وَ انَّ عَلِی بْنَ أَبِی طالِبٍ وَ اوْلادَهُ الْمَعْصُومینَ الْأَئِمَّةَ الْاثْنَی عَشَرَ نِعْمَ الْأئِمَّةُ وَ انَّ مٰا جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ حَقٌ وَ انَّ الْمَوْتَ حَقٌ وَ سُؤٰالَ مُنْکَرٍ وَ نَکیرٍ فِی القَبْرِ حَقٌّ وَ الْبَعْثَ حَقٌّ‌ النُّشُورَ حَقٌّ وَ الصِّرٰاطَ حَقٌّ وَ الْمِیزٰانَ حَقٌّ وَ تَطٰایرَ الْکُتُبِ حَقٌّ وَ انَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النّٰارَ حَقُّ وَ انَّ السَّاعَةَ آتِیةٌ لا رَیبَ فِیهَا وَ انَّ اللّٰهَ یبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ

أَ فَهِمْتَ یا فُلانُ ثَبَّتَکَ اللّٰهُ بِالْقَولِ الثَّابِتِ وَ هَداک اللّٰهُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ عَرَّفَ اللّٰهُ بَینَکَ وَ بَینَ اوْلیٰائِکَ فی مُسْتَقَرٍّ مِنْ رَحْمَتِهِ. اللّٰهُمَّ جَافِ الْأَرْضَ عَنْ جَنْبَیهِ وَ اصْعَدْ بِرُوحِهِ الَیکَ وَ لَقِّهِ مِنکَ بُرهَاناً اللّٰهُمَّ عَفوَکَ عَفْوَک

تو سن اور سمجھ اے فلان ابن فلان (یہاں میت اور اس کے والد کا نام لیں)

آیا تو اسی عہد پر قائم ہے جس پر تو ہمیں چھوڑ کرآیا ہے؟ یعنی یہ گواہی کہ نہیں ہے کوئی معبود مگر اللہ جو یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ کہ حضرت محمد(ص) اس کے بندے اور رسول ہیں، وہ نبیوں کے سردار اور پیغمبروں کے خاتم ہیں اور یہ کہ حضرت علی(ع) مومنوں کے امیراوصیاء کے سردار اور ایسے امام ہیں کہ اللہ نے ان کی اطاعت تمام جہانوں پر فرض کر دی ہے، نیز حسن وحسین، علی زین العابدین، محمد باقر، جعفر صادق، موسیٰ کاظم، علی رضا، محمد تقی، علی نقی، حسن عسکری، اور حجت القائم مہدی(عج) کہ ان سب پر خدا کی رحمت ہو، یہ مومنوں کے امام اور اللہ کی ساری مخلوق پر اس کی حجتیں ہیں، تیرے یہ امام ہدایت والے خوش کردار ہیں.

اے فلاں بن فلاں ..

جب تیرے پاس دو مقرب فرشتے دو پیام بر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آئیں اور تجھ سے پوچھیں تیرے رب، تیرے نبی، تیرے دین، تیری کتاب، تیرے قبلے اور تیرے آئمہ کے متعلق تو ڈر مت اور ان کے جواب میں کہہ کہ اللہ جل وجلالہ میرا رب ہے. حضرت محمد(ص) میرے نبی ہیں. اسلام میرا دین ہے. قرآن میری کتاب ہے. کعبہ میرا قبلا ہے. اور امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) میرے امام ہیں، ان کے بعد حسن مجتبیٰ(ع) میرے امام ہیں اور حسین بن علی(ع) جو کربلا میں شہید ہوئے میرے امام ہیں، علی زین العابدین(ع) میرے امام ہیں نبیوں کے علم پھیلانے والے اور محمد باقر(ع) میرے امام ہیں اور جعفر صادق(ع) میرے امام ہیں اور موسیٰ کاظم(ع) میرے امام ہیں اور علی رضا(ع) میرے امام ہیں اور محمد تقی جواد(ع) میرے امام ہیں اور علی نقی ہادی(ع) میرے امام ہیں اور حسن عسکری(ع) میرے امام ہیں اور حجت منتظر مہدی(عج) میرے امام ہیں. ان سب پر خدا کی رحمت ہو کہ یہی میرے امام میرے سردار، میرے پیشوا اور میرے شفیع ہیں میں ان سے محبت کرتا ہوں، ان کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہوں، دنیا و آخرت میں

پس جان لے اے فلاں بن فلاں

یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بہترین رب ہے اور حضرت محمد(ص) بہترین رسول ہیں، اور امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) اور انکی اولاد سے گیارہ امام بہترین آئمہ(ع) ہیں اور یہ کہ جس چیز کو حضرت محمد(ص) لے کر آئے وہ حق ہے، موت حق ہے، قبر میں منکر و نکیر کا سوال کرنا حق ہے، قبروں سے اٹھنا حق ہے، حشر و نشر حق ہے، صراط حق ہے، میزان عمل حق ہے، نامہ اعمال کا کھولا جانا حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے، اور یقیناً قیامت آ کر رہے گی اس میں شک نہیں اور خدا انہیں اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں. اس کے بعد کہے:

اے فلاں کیا تو نے سمجھ لیا ہے؟

خدا تجھے اس مضبوط قول پر قائم رکھے خدا تجھے صراط مستقیم کی ہدایت کرے خدا اپنی رحمت کی قرار گاہ میں تیرے اور تیرے اولیاء کے درمیان جان پہچان کرائے. اے معبود! اس کی قبر کی دونوں اطراف کو کشادہ کر اس کی روح کو اپنی طرف اٹھا لے اور اسے دلیل و برہان عطا فرما. اے معبود اسے معاف فرما معاف فرما.


عورتوں کی تلقین

اور اگر میت عورت ہو تو، نام اور ضمیر مونث کی صورت میں ہونے چاہئے اس کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے. یہاں بھی فُلٰانَةَ ابْنَةَ فُلٰانٍ کی جگہ میت اور اس کے والد کا نام آتا ہے.

تلقین میت
متن ترجمه
اِسْمَعِی، اِفْهَمِی یٰا فُلٰانَةَ ابْنَةَ فُلٰانٍ

هَلْ أنْتِ عَلَی الْعَهْدِ الَّذِی فَارَقْتِنا عَلَیهِ مِنْ شَهَادَةِ انْ لٰا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَریکَ لَهُ وَ انَّ مُحَمَّداً صَلّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ وَ سَیدُ النَّبِیینَ وَ خاتَمُ الْمُرْسَلِینَ و انَّ عَلِیاً أَمیرُ الْمُؤمِنینَ وَ سَیدُ الْوصِیینَ وَ امامٌ افْتَرَضَ اللّٰهُ طاعَتَهُ عَلَی الْعٰالَمِینَ وَ انَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَینَ وَ عَلِی بْنَ الْحُسَینِ وَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی وَ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ وَ مُوسَی بْنَ جَعْفَرٍ وَ عَلِی بن مُوسیٰ وَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی وَ عَلی بْنَ مُحَمَّدٍ وَ الْحَسَنَ بْنَ عَلی وَ الْقٰائِمَ الْحُجَّةَ الْمَهْدِی صَلَواتُ اللّٰهِ عَلَیهِمْ ائِمَّةُ الْمُؤمِنینَ وَ حُجَجُ اللّٰهِ عَلَی الْخَلْقِ أَجْمَعِینَ وَ ائِمَّتُکِ ائِمَّةُ هُدی بِکَ ابْرارٌ

یا فُلانَةَ بِنتَ فُلانٍ

اذا اتٰاکِ الْمَلَکٰانِ الْمُقَرَّبٰانِ رَسُولَینِ مِنْ عِندِ اللّٰهِ تَبٰارَکَ وَ تَعٰالَی وَ سَأَلاکِ عَنْ رَبِّکِ وَ عَنْ نَبِیکِ وَ عَنْ دِینِکِ وَ عَنْ کِتابِکِ وَ عَنْ قِبْلَتِکِ وَ عَنْ ائِمَّتِکِ فَلا تَخَافی وَ لا تَحْزَنی وَ قُولی فِی جَوابِهِما اللّٰهُ رَبّی وَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ نَبِیی وَ الإِسْلامُ دِینِی وَ الْقُرْآنُ کِتٰابِی وَ الْکَعْبَةُ قِبْلَتِی وَ امیرُ الْمُؤمِنینَ عَلِی بْنُ أبی طٰالِبٍ امٰامی وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِی الُمجْتَبیٰ امٰامی وَ الْحُسَینُ بْنُ عَلِی الشَّهیدُ بِکَرْبَلاءَ امٰامِی وَ عَلِی زَینُ الْعٰابِدِینَ امَامِی وَ مُحَمَّدٌ البِاقِرُ امَامِی وَ جَعْفَرٌ الصّادِقُ امَامِی وَ مُوسَی الکاظِمُ إِمامی وَ عَلِی الرِّضٰا إِمامی و مُحَمَّدٌ الجَوادُ إِمامی و عَلی الْهَادِی امَامِی وَ الْحَسَنُ الْعَسْکَری امَامِی وَ الْحُجَّةُ الْمُنْتَظَرُ امٰامی هٰؤُلٰاءِ صَلَواتُ اللّٰهِ عَلَیهِمْ أَجْمَعِینَ ائِمَّتِی وَ سَادَتِی وَ قَادَتِی وَ شُفَعَائِی بِهِمْ أَتَولَّی وَ مِنْ اعدائِهِمْ أَتَبَرَّأُ فِی الدُّنْیا وَ الآخِرَةِ

ثُمَّ اعْلَمی یا فُلانَةَ بْنَ فُلان

انَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی نِعْمَ الرَّبُّ وَ انَّ مُحَمَّداً صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ نِعْمَ الرَّسُولُ وَ انَّ عَلِی بْنَ أَبِی طالِبٍ وَ اوْلادَهُ الْمَعْصُومینَ الْأَئِمَّةَ الْاثْنَی عَشَرَ نِعْمَ الْأئِمَّةُ وَ انَّ مٰا جَاءَ بِهِ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ حَقٌ وَ انَّ الْمَوْتَ حَقٌ وَ سُؤٰالَ مُنْکَرٍ وَ نَکیرٍ فِی القَبْرِ حَقٌّ وَ الْبَعْثَ حَقٌّ‌ النُّشُورَ حَقٌّ وَ الصِّرٰاطَ حَقٌّ وَ الْمِیزٰانَ حَقٌّ وَ تَطٰایرَ الْکُتُبِ حَقٌّ وَ انَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النّٰارَ حَقُّ وَ انَّ السَّاعَةَ آتِیةٌ لا رَیبَ فِیهَا وَ انَّ اللّٰهَ یبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ

أَ فَهِمْتِ یا فُلانَةُ ثَبَّتَکِ اللّٰهُ بِالْقَولِ الثَّابِتِ وَ هَداکِ اللّٰهُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ عَرَّفَ اللّٰهُ بَینَکِ وَ بَینَ اوْلیٰائِکِ فی مُسْتَقَرٍّ مِنْ رَحْمَتِهِ اللّٰهُمَّ جَافِ الْأَرْضَ عَنْ جَنْبَیها وَ اصْعَدْ بِرُوحِها الَیکَ وَ لَقِّها مِنکَ بُرهَاناً اللّٰهُمَّ عَفوَکَ عَفْوَک.[5]

تلقین کا اثر

روایات کے مطابق، تلقین اور دوسرے آداب، موت کے بعد انسان کی مدد کرتے ہیں لیکن میت کی سر نوشت میں اصلی اور قطعی نقش نہیں رکھتے. موت کے بعد کی زندگی کی اصلی چیز انسان کے اعمال اور عقائد ہیں جو اس نے دنیا کی زندگی میں انجام دئیے ہیں اور بعض اعمال تلقین کے اثر میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، جیسے کہ امام صادق(ع) سے نقل ہوا ہے: رسول خدا(ص) کے زمانے میں اہل مدینہ کا ایک مرد ایک بیماری میں مبتلا ہوا اور پھر اسی بیماری سے اس دنیا سے چلا گیا، اس بیماری میں اس کی زبان بند ہو گئی تھی. رسول خدا(ص) اس کے سرہانے آئے اور فرمایا: کہو لا الہ الا اللہ وہ مرد نہ کہہ سکا.... ایک عورت مرد کے سرہانے کھڑی تھی پیغمبر(ص) نے اس سے پوچھا: کہا اس مرد کی ماں زندہ ہے؟ اس عورت نے کہا: میں اس کی ماں ہوں. رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا: آیا تو اس سے راضی ہے؟ اس نے کہا نہیں. آپ(ص) نے اس عورت سے کہا کہ اپنے بیٹے کو معاف کر دو اس نے یہی کیا. اس کے بعد پیغمبر(ص) نے بیمار سے فرمایا: کہو لا الہ الا اللہ تو اس نے کہا.[6]

حوالہ جات

  1. لعروة الوثقی، ج ۱، ص ۴۴۲ ۴۴۳
  2. من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص: ۱۳۲
  3. من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص: ۱۳۴، حدیث ۳۵۶
  4. http://www.erfan.ir/farsi/mafatih593
  5. توضیح المسائل (محشّٰی - امام خمینی)، ج‌۱، ص ۳۴۴.
  6. من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص: ۱۳۲.

مآخذ

  • قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ.
  • طباطبائی یزدی، سیدمحمدکاظم، العروة الوثقی، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ.
  • امام خمینی، سید روح اللّٰه، توضیح المسائل (محشّٰی - امام خمینی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ھ.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضره الفقیہ، تہران، نشر صدوق، ۱۳۶۷ہجری شمسی.