سجدہ گاہ

ویکی شیعہ سے

سجدہ گاہ پتھر یا مٹی کے اس سخت ٹکڑے کو کہا جاتا ہے جس پر شیعہ حضرات نماز کے دوران سجدہ میں اپنی پیشانی رکھتے ہیں۔ شیعوں کے مطابق سجدہ گاہ پر سجدہ کرنا ضروری نہیں بلکہ مٹی، پتھر یا ہر اس چیز پر سجدہ کرنا صحیح ہے جو زمین سے اگتی ہو اور کھانے پینے یا پہننے میں استعمال نہ کی جاتی ہو۔

شیعہ اپنے اس دعوی کو ثابت کرنے کیلئے رسول اللہ اور اہل بیت کی سیرت کو پیش کرتے ہیں کہ رسول خدا اور اہل بیت کی یہ سیرت رہی کہ وہ سجدے کیلئے ان چیزوں کو استعمال کرتے تھے۔

شیعہ فقہا کے نزدیک کربلا کی خاک پر سجدہ کرنا مستحب ہے۔ لہذا وہ کربلا کی پاک مٹی سے سجدہ گاہ بنا کر اس پر سجدہ کرتے ہیں۔ وہابی حضرات سجدہ گاہ بنانے اور اس پر سجدہ کرنے کو بدعت سمجھتے ہیں لیکن شیعہ عقیدے کے مطابق سجدہ گاہ وہی مٹی ہی ہے۔

خاک کربلا کی بنی ہوئی سجدہ گاہ

تاریخچہ

صدر اسلام میں مسلمان عام طور پر مساجد اور اپنے گھروں کو مٹی، ریت یا کھجور کی بنی ہوئی چٹائیوں کے ذریعے فرش کرتے تھے اور اسی پر سجدہ کرتے تھے کیونکہ ان پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔[حوالہ درکار]

شیعہ و اہل سنت کی متعدد روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اور صحابہ خاک، سنگ‌ ریزوں[1] اور خمره (کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی جانماز)[2] پر سجدہ کرتے تھے۔ اسی طرح شیعہ روایات کے مطابق اہل بیت بھی خاک، جانماز اور کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی حصیر[3] اور خاص طور پر تربت امام حسینؑ[4] پر سجده کرتے تھے۔[5] آہستہ آہستہ شیعہ حضرات نے سجدہ کرنے میں مٹی تک آسان رسائی کی خاطر مٹی اور خاک کا ایک ٹکیہ ینا کر اس پر سجدہ کی حالت میں پیشانی رکھنے لگے جسے اصطلاح میں سجدہ گاہ کہا جانے لگا۔ آہستہ آہستہ اس کا استعمال شیعوں میں رائج ہو گیا اور یہ شیعوں کی ایک علامت بن گیا۔[حوالہ درکار]


شیعہ نقطہ نظر

شیعہ فقہ کے مطابق سجدہ گاہ کو کوئی موضوعیت حاصل نہیں ہے یعنی سجدہ ادا کرنے کیلئے سجدہ گاہ کا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ نماز کے دوران زمین کے اجزا مثلا خاک یا اس کے دیگر ایسے اجزا پر سجدہ کرنا صحیح ہے جو زمین سے اگتے ہوں لیکن وہ پہننے یا کھانے میں استعمال نہ ہوتے ہوں[6]

اسی طرح شیعہ فقہ کے مطابق خاک کربلا پر سجدہ کرنا مستحب ہے اور وہ ان چیزوں میں سے سب سے زیادہ بہتر ہے جن پر سجدہ کرنا صحیح ہوتا ہے [7] اسی وجہ سے شیعہ حضرات امام حسینؑ کے مقتل کی مٹی سے سجدہ گاہ بنا کر اس پر سجدہ کرتے ہیں۔ [8]

سجدہ گاہ کے استعمال کا جائز نہ ہونا

بعض مراجع تقلید بعض شرائط اور مقامات پر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اور اس کے استعمال کو ممنوع کہتے ہیں۔ جیسے مسجد النبی و مسجدالحرام میں اس کے استعمال سے منع کرتے ہیں کیونکہ یہ عمل انگشت نمائی، شیعوں کی توہین کا موجب بننے اور تقیہ کے برخلاف یہ وحدت مسلمان کے مخالف ہے۔[9]

وہابی نقطۂ نظر

سجدہ گاہ پر اللہ اور پنج‌تن کا اسم مبارک

اہل سنت فقہا کے مطابق سجدے میں پیشانی کو خاک پر رکھنا واجب نہیں ہے بلکہ ہر اس چیز پر سجدہ کرنا صحیح ہے جو نجس نہ ہو [10] البتہ اہل سنت حضرات سجدہ گاہ پر سجدہ نہیں کرتے ہیں۔ [11]

وہابی‌ سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کے مخالف ہیں اور اسے بدعت سمجھتے ہیں۔[حوالہ درکار] جبکہ شیعہ عقیدے کے مطابق یہ سجدہ گاہ وہی مٹی ہی ہے۔ [12] نیز پیامبر اور صحابہ ہمیشہ خاک اور سنگریزوں پر سجدہ کرتے تھے۔[13] علامہ امینی اپنی کتاب السجود علی التربۃ الحسینیہ میں سجدہ گاہ بنانے کو بدعت سمجھنے والوں کی رد میں لکھتے ہیں: اہل سنت فقہا میں سے مسروق بن اجدع سجدہ کرنے کے لئے مدینے کی مٹی اپنے ساتھ رکھتا تھا[14] کیوں اس کے اس کام کو بدعت نہیں سمجھتے ہو لیکن شیعوں کی طرف سے کربلا کی مٹی سے مختلف سانچوں میں بنی ہوئی سجدہ گاہوں کو بدعت کہتے ہو؟؟۔[15] اسی طرح بعض مراجع سجدہ گاہ پر سجدے کو سنت اور قالین پر سجدے کو بدعت سمجھتے ہیں۔[16]

اسی طرح وہابی حضرات سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کو شرک سمجھتے ہیں اور وہ شیعوں کی طرف سجدہ گاہ کی پرستش کرنے کی نسبت دیتے ہیں۔ شیعہ وہابیوں کو جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں اگر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنا شرک ہے تو قالین اور لباس پر سجدہ کرنا بھی شرک ہے اور وہ لوگ جو قالین، لباس اور سجادے پر سجدہ کرتے ہیں گویا یہ لوگ ان چیزوں کی پرستش کرتے ہیں۔[17]

مربوط احکام

شیعہ فقہ کے مطابق پیشانی اور سجدہ گاه کے درمیان کسی چیز کا فاصلہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسی بنا پر بعض فقہا کے استفتائات میں آیا ہے کہ ایسی سجدہ گاہ کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح نہیں جس پر اس قدر میل جمی ہوئی ہو کہ اس کی وجہ سے پیشانی اور سجدہ گاہ کے درمیان فاصلہ آ جائے۔[18]

ظاہری خصوصیات

سجدہ گاہ کو مٹی اور پتھر سے مختلف شکلوں اور مختلف اندازوں میں بنایا جاتا ہے۔ شیعہ عام طور پر سجدہ گاہ خاک کربلا یا دیگر مذہبی مقامات جیسے مشہد و قم کی مٹی سے بناتے ہیں اور ان پر خدا، پنج تن یا دیگر ائمہ کے نام لکھے جاتے ہیں۔[حوالہ درکار]


حوالہ جات

  1. ابن تیمیہ، الفتاوی الکبری، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۶۱.
  2. بیہقی، السنن الکبری، دارالفکر، ج۲، ص۱۰۴.
  3. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۳۱، ۳۳۲.
  4. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۳۶۶.
  5. خرسان، السجود علی التربۃ الحسینیہ، ۱۴۲۰ق، ص۱۱۳-۱۱۴.
  6. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۳۴۳؛ علامہ حلی، اجوبۃ المسایل المہنائیہ، ۱۴۰۱ق، ص۹۲؛ بروجردی، تبیان الصلاة، ۱۴۲۶ق، ج۶، ص۶۸؛ قمی، طباطبائی، الدلائل فی شرح المسائل، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۲۷۶.
  7. شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۳۶۷ش، ج۱، ص۲۶۸-۲۶۶؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۳۶۶-۳۶۷.
  8. امینی، السجود علی التربۃ الحسینیہ، ۱۴۲۲ق، ص۶۶-۶۷.
  9. محمودی، مناسک حج(محشی)، ۱۴۲۹ق، ص۶۰۸.
  10. الموسوعہ الفقیہ الکویتیہ، وزارة الاوقاف و الشؤون الاسلامیہ، ج۲۴، ص۲۰۱.
  11. پرسمان، چرا اہل تسنن برای نماز از مہر استفاده نمی‌کنند لکن شیعہ استفاده می‌کند؟ بازبینی: ۷ آبان ۱۳۹۶ش.
  12. پرسمان، چرا اہل تسنن برای نماز از مهر استفاده نمی‌کنند لکن شیعہ استفاده می‌کند؟، بازبینی: ۷ آبان ۱۳۹۶ش.
  13. ابن تیمیہ، الفتاوی الکبری، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۶۱.
  14. ابن ابی‌ شیبہ کوفی، المصنف، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۷۲.
  15. امینی، السجود علی التربۃ الحسینیہ، ۱۴۲۲ق، ص۶۶-۶۷.
  16. خبرگزاری فرہنگ؛ سجده بر مہر بدعت است یا سنت؟ انتشار: ۳ آبان ۱۳۹۲ش، بازبینی: ۸ آبان ۱۳۹۶ش.
  17. سایت ولی‌عصر، آیا پیامبر مثل شیعیان بر مهر سجده می‌کرد، انتشار:۱۹ آبان ۱۳۸۶، بازبینی: ۷ آبان ۱۳۹۶ش.
  18. امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۵۶۷.

مآخذ

  • ابن ابی‌ شیبہ کوفی، المصنف، تحقیق: سعید اللحام، بیروت، دارالفکر للطباعۃ و النشر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.
  • ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، الفتاوی الکبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۷م.
  • امام خمینی، سید روح الله، توضیح المسائل(محشّی)، تصحیح: سید محمدحسین بنی‌ ہاشمی خمینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ۱۴۲۴ق.
  • امینی، عبدالحسین، السجود علی التربۃ الحسینیہ، قم، مجمع جہانی اہل بیت علیہم‌السلام، ۱۴۲۲ق.
  • بروجردی طباطبایی، آقاحسین، تبیان الصلاة، تقریر: علی صافی گلپایگانی، قم، گنج عرفان للطباعۃ و النشر، ۱۴۲۶ق.
  • بیہقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، دارالفکر، بی‌ تا.
  • حر عاملی، محمد بن حسن‌، وسائل الشیعہ، مؤسسہ آل البیت علیہم‌السلام‌، قم، ۱۴۰۹ق.
  • خرسان، محمد مہدی، السجود علی التربۃ الحسینیہ، بیروت، مؤسسہ اعلمی للمطبوعات، ۱۴۲۰ق/۲۰۰۰م.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضره الفقیه، نشر صدوق، ۱۳۶۷ش.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، اجوبۃ المسایل المہنائیہ، قم، خیام، ۱۴۰۱ق.
  • قمی طباطبایی، سید تقی، الدلائل فی شرح المسائل، قم، کتابفروشی محلاتی، ۱۴۲۳ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • محمودی، محمدرضا، مناسک حج(محشی)، تہران، مشعر، ۱۴۲۹ق.