یومیہ نوافل

ویکی شیعہ سے
دعا و مناجات
حدیثِ قربِ نوافل

راوی امام صادقؑ سے، نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے خداوند متعال سے نقل کرتے ہوئے فرمایا:
"۔۔۔إِنَّہُ لَيَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّافِلَةِ حَتَّى أُحِبَّہُ فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ كُنْتُ إِذاً سَمْعَہُ الَّذِي يَسْمَعُ بِہِ وَبَصَرَہُ الَّذِي يُبْصِرُ بِہِ وَلِسَانَہُ الَّذِي يَنْطِقُ بِہِ وَ يَدَہُ الَّتِى يَبْطِشُ بِہَا إِنْ دَعَانِى أَجَبْتُہُ وَ إِنْ سَأَلَنِى أَعْطَيْتُہُ؛
ترجمہ: ۔۔۔اور میرا بندہ جب نافلے کے ذریعے مجھ سے قربت حاصل کرتا ہے کہ میں اس سے محبت کروں، تو جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بات کرتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کچھ اٹھاتا ہے؛ جب وہ مجھے بلاتا [اور دعا کرتا] ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں۔۔۔

کلینی، الکافی، ج2، ص352۔

یومیہ نوافل وہ مستحب نمازیں ہیں جو ہر روز پڑھی جاتی ہیں۔ واجب نمازوں میں سے ہر ایک کے لئے چند رکعت نوافل بھی قرار دیئے گئے ہیں جو ان نمازوں سے قبل یا ان کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔ یومیہ نوافل کی رکعات کی تعداد ـ بجز روز جمعہ ـ 34 ہے۔

نافلہ کے معنی

نافلہ مستحب اور پسندیدہ اور نیک عمل کو کہا جاتا ہے جو انسان پر واجب نہیں ہے۔ نیز لفظ "نافلہ" پوتے (فرزند زادہ)، غنیمت اور عطاء کے معنی میں بھی آیا ہے۔[1] قرآن میں بیٹے اور پوتے [اولاد] کو نافلہ کہا گیا ہے۔[2] فقہاء کی اصطلاح میں، لفظ نافلہ کا زیادہ تر اطلاق مستحب نمازوں پر ہوتا ہے۔[3]

نوافل کی اہمیت اور فضیلت

دین اسلام میں مستحب نمازوں پر بہت تاکید ہوئی ہے اور ان کے لئے بہت زیادہ اجر و ثواب بیان ہوا ہے۔ مستحب نمازوں کے درمیان نماز شب (تہجد) کی فضیلت دوسرے نوافل سے زیادہ ہے۔

معصومین علیہم السلام سے نافلہ کی اہمیت کے بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں:

  • امام صادقؑ نے فرمایا: إِیّا كُمْ وَالْكَسَل. إِنَّ رَبّكُمْ رَحيمٌ يَشْكُرُ الْقَليلَ. إِنَّ الرَجُلَ ليُصَلّی رَكْعَتَينِ تَطَوُّعاً يُريدُ بِہِما وَجْہَ اللہِ فَيَدْخُلُہُ اللہُ بِہِما الْجَنَّةَ؛
    ترجمہ: تم پر لازم ہے کہ دوری کرو سستی اور کسالت سے، بےشک تمہارا پروردگار بہت مہربان ہے اور مختصر سے عمل کی قدر کرتا ہے۔ بےشک ایک شخص ـ اللہ کی خوشنودی کی خاطر ـ دو رکعت نماز (مستحب) بجا لاتا ہے اور اللہ ان ہی دو رکعتوں کے عوض اس کو جنت میں داخل فرماتا ہے۔[4]
  • امام سجادؑ نے فرمایا: خداوند متعال تمہاری نمازوں کے نقصان کا ازالہ کرتا ہے [تمہارے] نوافل کے ذریعے۔[5]"
  • نوافل کا اہم ترین اثر قرب نوافل نامی حدیث میں بیان ہوا ہے: راوی امام صادقؑ سے اور آپؑ رسول اللہؐ سے نقل کرتے ہیں کہ خداوند عزّ و جلّ نے فرمایا:
"۔۔۔ ہرگاہ میرا بندہ نافلے کے ذریعے مجھ سے قربت حاصل کرتا ہے کہ میں اس سے محبت کروں، تو جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بات کرتا ہے۔۔۔[6]"
  • فضیل بن یسار نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے فرمایا: ۔۔۔الْفَرِیْضَةُ وَالنَّافِلَةُ إِحْدَى وَخَمْسُونَ رَكْعَةً مِنْہَا رَكْعَتَانِ بَعْدَ الْعَتَمَةِ جَالِساً تُعَدّانِ بِرَكْعَةٍ وَہُوَ قائِمٌ الْفَرِیْضَةُ مِنْہَا سَبْعَ عَشَرَةَ رَكْعَةً والنَّافِلَةُ اَرْبَعُ وَثَلاثُوْنَ رَكْعَةً۔۔۔
    ترجمہ:واجب اور نافلہ نمازیں، 51 رکعتوں پر مشتمل ہیں، عشاء کے بعد کی دو ـ بیٹھ کر بجا لائے جانے والی ـ رکعتیں ایک رکعت شمار ہوتی ہے؛ واجب نمازوں کی رکعات کی تعداد 17 ہے جبکہ نافلہ نمازوں کی رکعتیں 34 ہیں۔[7]"

یومیہ نوافل کی رکعتوں کی تعداد اور اوقات

نوافل کی تعداد، بجز یومِ جمعہ، 34 ہے:

  • نمازِ نافلۂ ظہر کی رکعتیں آٹھ ہے اور اس کا وقت نماز ظہر کا واجب وقت ہی ہے اور نافلۂ ظہر کو قبل از نماز ظہر سے قبل پڑھا جاتا ہے۔
  • نماز نافلۂ عصر کی رکعتیں آٹھ ہیں اور اس کا وقت نماز عصر کا واجب وقت ہی ہے اور عصر کی واجب نماز سے قبل ادا بجا لائی جاتی ہے۔
  • نماز نافلۂ مغرب کی رکعتیں چار ہیں۔ نماز نافلۂ مغرب کا وقت نماز مغرب کا واجب وقت ہی ہے اور نماز مغرب کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
  • نماز نافلۂ عشاء کی رکعتیں 2 ہیں اور چونکہ نافلۂ عشاء کی دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھی جاتی ہیں لہذا یہ دو رکعتیں ایک رکعت سمجھی جاتی ہے۔ نماز نافلۂ عشاء نماز عشاء کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
  • نماز نافلۂ شب (نماز شب) کی رکعتیں 11 ہیں؛ جس کی آٹھ رکعتیں نماز شب کے طور پر پڑھی جاتی ہیں، دو رکعتیں نماز شَفع کے عنوان سے اور ایک رکعت بعنوان وَتر، [یا وِتر، یا وُتَیرہ] پڑھی جاتی ہے۔ نماز نافلۂ شب آدھی رات سے اذان صبح تک پڑھی جاتی ہے۔
  • نماز نافلۂ صبح کی رکعتیں دو ہیں اور یہ نماز صبح سے قبل پڑھی جاتی ہے۔

جمعہ کے دن ظہر اور عصر کے نوافل کی 16 رکعتوں میں چار رکعتوں کا اضافہ ہوتا ہے۔[8][9]

نفل نمازِ زمان رکعتیں سفر میں توضیحات
صبح نماز صبح سے پہلے ۲ ۲ --
ظہر نماز ظہر سے پہلے ۸ ۰ سفر میں نہیں پڑھنا چاہئے دو رکعتی چار نمازیں
عصر نماز عصر سے پہلے ۸ ۰ سفر میں نہیں پڑھنا چاہئے دو رکعتی چار نمازیں
مغرب نماز مغرب کے بعد ۴ ۴ دو رکعتی دو نمازیں
عشاء نماز عشاء کے بعد ۲ ۲ دو رکت بیٹھ کر (نماز وُتَیرِہ). سفر میں رجاء کی نیت سے پڑھا جائے۔

یومیہ نوافل پڑھنے کی کیفیت

عام طور پر مستحب نمازیں (نوافل)، دو رکعتوں کی صورت میں ـ ایک تشہد اور سلام کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں، مگر یہ کہ کسی خاص نماز کے لئے کوئی خاص دلیل موجود ہو کہ دوسری صورت میں پڑھی جائے؛ مثلا نماز وتر یک رکعتی ہے یا عید غدیر کی شب کو پڑھی جانے والی نماز 12 رکعتی ہے۔ اس نماز میں ہر دو رکعتوں کے بعد ایک تشہد پڑھا جاتا ہے اور نماز کے آخر میں ایک سلام دیا جاتا ہے۔[10]

روزانہ نافلہ نمازوں کو بھی دو رکعتوں کی صورت میں پڑھا جاتا ہے یعنی ظہر و عصر میں سے ہر ایک کے لئے چار دو رکعتی نوافل پڑھے جاتے ہیں جبکہ تہجد کے پانچ دو رکعتی نوافل اور ایک نماز وتر ہے جو یک رکعتی ہے۔

نوافل کو دیگر مستحب نمازوں کی مانند بیٹھ کر بھی اور کھڑے ہوکر بھی، پڑھا جاتا ہے لیکن بہتر ہے کہ نمازگزار بیٹھ کر پڑھی جانے والی ہر دو رکعتی نماز کو ایک رکعت قرار دے، مثلا اگر کوئی شخص ظہر کی آٹھ رکعتوں کو بیٹھ کر پڑھنا چاہے تو 16 رکعتیں بجا لائے۔[11][12]

یومیہ نوافل، سفر کے دوران

سفر کے دوران چار رکعتی واجب نمازوں کے نوافل ساقط ہیں اور انہیں نہیں بجا لانا چاہئے چنانچہ ظہر، عصر اور عشاء کے نوافل ساقط ہیں اور نافلۂ شب، نافلۂ صبح اور نافلۂ مغرب کو بجا لایا جاسکتا ہے۔[13]

حوالہ جات

  1. لوئس معلوف، المنجد، ج2، ص1986۔
  2. وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً (ترجمہ: اور ہم نے انہیں اسحاق کی سی اولاد عطا کی اور مزید برآں یعقوب۔)[؟–72]
  3. مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، ص528۔
  4. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج4، ص44۔
  5. شیخ عباس قمی، منتہی الآمال، ج1، باب 6، قسمت در مكارم اخلاق امام زين العابدين عليہ السلام، مطلب ہشتم۔
  6. کلینی، اصول کافی، ج4، ص53۔
  7. حر عاملی، وسائل الشیعۃ ج4، ص46۔
  8. توضیح المسائل (المحشی للإمام الخمینی)، ج1، ص425، مسئلہ 746۔
  9. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ج1، ص135-136۔
  10. سید ابن طاؤس، اقبال الاعمال، ص452۔
  11. نجفی، جواہر الکلام، ج7، ص52۔
  12. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، ج1، ص137۔
  13. امام خمینی، تحریر الوسیلہ ج1، ص136۔

مآخذ

  • حر عاملی، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث۔
  • امام خمینی، تحریر الوسیلہ، نجف، مطبعۃ الآداب، الطبعۃ الثانیۃ، 1390ھ ق۔
  • امام خمینی، توضیح المسائل (المحشی للإمام الخمینی)۔
  • سید ابن طاؤس، اقبال الاعمال، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1367ھ ش۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، مترجم: ہاشم رسولی، جواد مصطفوی، تہران، کتابفروشی علمیہ اسلامیہ، 1369ھ ش۔
  • لویس معلوف، المنجد، مترجم: محمّد بندریگی، ایران، ہاتف، چاپ سوم، 1380ش۔
  • مشکینی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، مؤسسہ چاپ الہادی، چاپ دوم، 1379ش۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، تہران،‌دار الكتب الإسلامیۃ، چاپ سوم، 1367ش۔