تکبیرۃ الاحرام

ویکی شیعہ سے

تکبیرۃ الاحرام، نماز کے واجب ارکان میں سے ہے جس کے معنی نیت کے بعد "اللہ اکبر" کہنے کے ہیں۔ تکبیرۃ الاحرام کا نہ پڑھنا خواہ عمدا ہو یا فراموشی کی حالت میں یا اس میں کسی قسم کا خلل نماز کے بطلان کا باعث بنتا ہے اور اس صورت میں نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ ہر نماز میں "تکبیرۃ الاحرام" کو صحیح عربی میں تلفظ کرنا واجب ہے۔

وجہ تسمیہ

نماز کی ابتدا میں اس تکبیر کے کہنے کی وجہ سے نماز کے ساتھ منافات رکھنے والے تمام کام نمازی پر حرام ہو جاتے ہیں اسی وجہ سے اس تکبیر کو تکبیرۃ الاحرام کہا جاتا ہے۔[1] اسی مناسبت سے اسے تحریمہ بھی کہا جاتا ہے۔[2] احادیث میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے[3] نیز اسے تکبیرہ الافتتاح[4] اور انف الصلاۃ[5] سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

واجبات نماز میں سے ہے

اگرچہ اہلسنت کے فقہی مآخذوں میں اوزاعی اور سعید بن مسیب جیسے بعض تابعین سے تکبیرۃ الاحرام کا مستحب ہونا منقول ہے[6] لیکن امامیہ اور اہل سنت کی فقہی مآخذ میں تکبیرۃ الاحرام کے واجب ہونے پر اتفاق ہے۔[7]

البتہ تکبیرۃ الاحرام کے جزو نماز یا شرط نماز ہونے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[8] اکثر مسلمان فقہاء اسے نماز کا پہلا جز مانتے ہیں۔[9] اس بنا پر نماز کے تمام اجزاء کے لئے لازم تمام شرائط جیسے رو بہ قبلہ ہونا، لباس کا پاک ہونا وغیرہ کو تکبیرہ الاحرام میں بھی واجب سمجھتے ہیں۔[10] البتہ حنفی فقہا تکبیرۃ الاحرام کو نماز کے صحیح ہونے شرائط میں سے قرار دیتے ہیں جیسے نماز میں نمازی کے لباس کا پاک ہونا نماز کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے اسی طرح تکبیرۃ الاحرام بھی نماز کے صحیح ہونے کیلئے شرط ہے نہ کہ نماز کا جزء۔[11]

بہت سے فقہا تکبیرۃ الاحرام کو واجبات نماز کے ساتھ ساتھ نماز کے ارکان میں سے بھی قرار دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے مشہور فقہا کی نگاہ میں تکبیرۃ الاحرام کا چھٹ جانا جاہے عمدا نہ پڑھے یا بھولے سے نہ پڑھے، یا اس میں کسی قسم کا خلل پیش آئے نماز کے باطل ہونے کا سبب بنتا ہے اس صورت میں نماز کو دوبارہ نئے سرے سے ادا کرنا واجب ہے۔[12]

تکرار کرنے کا حکم

تکبیرۃ الاحرام کی تکرار سے نماز کے باطل ہونے کے متعلق امامیہ فقہا میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ تکبیرۃ الاحرام کا ارکان نماز میں سے ہونا ہے۔ مشہور فقہا کے مطابق چونکہ تکبیرۃ الاحرام نماز کا رکن ہے اور رکن کے زیادہ ہونے سے بھی نماز باطل ہو جاتی ہے جس طرح رکن کے کم ہونے سے نماز باطل ہوتی ہے۔ لہذا نماز کی ابتداء میں نماز کی قصد سے تکبیرۃ الاحرام کہنے کے بعد جب اسے تکرار کرے تو رکن میں اضافے کی وجہ سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں تیسری مرتبہ تکبیر کہنا ہو گی۔[13]

غیر مشہور کے مطابق اس تکبیر کا تکرار نماز کے بطلان کا سبب نہیں ہے۔ اس نظریے کی دلیل مبطلات نماز میں اس تکبیر کے تکرار کا ذکر نہ ہونا ہے نیز ان کے نزدیک رکن کی اصطلاح قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہے۔[14]

صحیح ہونے کی شرائط

تکبیرۃ الاحرام کے صحیح ہونے کی اہم ترین شرائط یہ ہیں :

  • نماز کی نیت کے ساتھ تکبیر کہی جائے۔[15]،
  • تکبیر کے وقت حالت قیام میں ہونا۔[16] ،
  • کسی دوسری زبان میں اس کے معادل الفاظ کافی نہیں بلکہ بسا اوقات نماز کے باطل ہونے کا سبب بنتے ہیں۔[17]

ابو حنیفہ کے نزدیک الحمد للہ اور اللہ اعظم جیسے خدا کی تعظیم و تجلیل بیان کرنے والے الفاظ بھی جائز ہیں اور انہیں اللہ اکبر کی جگہ کہا جا سکتا ہے۔[18]

اسی طرح ابو حنیفہ کے علاوہ جو تکبیرۃ الاحرام کو عربی کے علاوہ دوسری زبان جیسے فارسی میں کہنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں،[19] اکثر فقہا نے لازمی طور پر اس کے عربی میں کہے کو واجب قرار دیا ہے۔[20] شافعی اور حنبلی اللہ اکبر صحیح عربی میں کہنے کی قدرت نہ رکھنے کی صورت میں کسی دوسری زبان میں کہنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔[21]

امامیہ فقہاء "اللہ اکبر" کو صحیح عربی میں ادا کرنے سے قاصر شخص پر عربی سیکھنا واجب قرار دیتے ہیں اور ایسے شخص کی نماز جو عربی سیکھ سکتا ہو اور وقت بھی تنک نہ ہو، عربی میں تکبیر الاحرام کے بغیر باطل سمحھتے ہیں۔ امامیہ فقہاء کے مطابق وقت تنگ ہونے یا عربی سیکھنا ممکن نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ کسی شخص کی پیروی کرتے ہوئے تکبیرۃ الاحرام کو ادا کرے اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اس کو جس طرح ادا کر سکتا ہو اگرچہ غلط ہی کیوں نہ ہو جسے عرفا تکبیر کہا جا سکتا ہو، اس کے ترجمے پر مقدم ہے۔[22]

مستحبات

اس مقام پر چند امور مستحب مذکور ہیں:

  • تکبیر کہتے وقت ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھانا[23]۔سید مرتضیٰ اسے واجب سمجھتے ہیں۔[24]
  • سات تکبیروں کا کہنا جن میں سے ایک تکبیرۃ الاحرام ہو گی۔ مشہور کے نزدیک ان میں سے کسی ایک کو بھی تکبیرۃ الاحرام قرار دے سکتا ہے۔[25]
  • امام جماعت کیلئے تکبیرۃ الاحرام کو بلند اور دوسری مستحب چھ تکبیروں کوآہستہ کہنا مستحب ہے۔[26]

حوالہ جات

  1. ابن ادریس حلّی، ج ۱، ص۲۱۶؛ طباطبائی، ج ۳، ص۱۱۶ـ۱۱۷؛ جزیری، ج ۱، ص۲۱۹
  2. دیکھیں: ابن فَہد حِلّی، ج ۱، ص۳۵۹؛ زُحَیلی، ج ۲، ص۸۱۵
  3. رجوع کریں: ابن حنبل، ج ۱، ص۱۲۳؛ حرّعاملی، ج ۶، ص۹ـ۱۲
  4. رجوع کریں: حرّعاملی، ج ۶، ص۱۶
  5. ایضا، ج ۶، ص۱۰
  6. رجوع کریں: قرطبی، ج ۱، ص۱۷۵؛ عینی، ج ۲، ص۱۸۶
  7. مراجعہ کریں: مقدس اردبیلی، ج ۲، ص۱۹۳؛ جزیری، ایضا۔
  8. مقدس اردبیلی، ج ۲، ص۱۹۳۔
  9. ابن قدامہ، ج ۱، ص۴۶۴؛ نجفی، ج ۹، ص۲۰۱؛ طباطبائی یزدی، ج ۱، ص۶۲۶؛ جزیری، ج ۱، ص۲۱۸
  10. بحرانی، ج ۸، ص۳۲؛ طباطبائی، ج ۳، ص۱۲۰؛ الموسوعۃ الفقهیۃ، ج ۱۳، ص۲۱۸
  11. جزیری، ج ۱، ص۲۱۹؛ زحیلی، ج ۲، ص۸۱۷؛ تفصیل جاننے کیلئے : عینی، ج ۲، ص۱۸۹
  12. نَوَوی، ج ۳، ص۲۸۹ـ۲۹۱؛ علامہ حلّی، ج ۱، ص۲۷۱؛ بحرانی، ج ۸، ص۳۲؛ زحیلی، ج ۲، ص۸۱۵؛ نیز دیکھیں: حرّعاملی، ج ۶، ص۱۳ـ۱۴
  13. محقق کرکی، ج ۱، ص۴۳۳؛ شہید ثانی، ص۲۵۸؛ طباطبائی یزدی، ج ۱، ص۶۲۶؛ امام خمینی، ج ۱، ص۱۴۶؛ «رکن» کے مفہوم کی توضیح کیلئے دیکھیں: ابن فہد حلّی، ج ۱، ص۳۵۶ـ۳۵۷؛ نراقی، ۱۳۷۵ ش، ص۷۸۴ـ۷۸۹ و فقہ اہل سنّت کیلئے دیکھیں:الموسوعۃ الفقہیۃ، ج ۲۳، ص۱۰۹ـ۱۲۰
  14. مقدس اردبیلی، ج ۲، ص۱۹۵؛ نراقی، ۱۳۷۵ ش، ص۷۸۸ـ۷۸۹؛ بروجردی، ج ۳، ص۱۰۴
  15. نراقی، ۱۴۱۷، ج ۱۱، ص۲۵۶؛ نجفی، ج ۹، ص۱۷۴؛ الموسوعۃ الفقہیۃ، ج ۱۳، ص۲۱۹
  16. ابن قدامہ، ج ۱، ص۴۶۳؛ نووی، ج ۳، ص۲۹۶؛ موسوی عاملی، ج ۳، ص۳۲۲؛ طباطبائی یزدی، ج ۱، ص۶۲۸
  17. مالک بن انس، ج ۱، ص۶۲ـ۶۳؛ طوسی، ج ۱، ص۱۰۲؛ نجفی، ج ۹، ص۲۰۵ـ ۲۰۶؛ جزیری، ج ۱، ص۲۲۶؛ شافعی، ج ۱، ص۱۰۰
  18. عینی، ج ۲، ص۱۹۷؛ جزیری، ج ۱، ص۲۲۰؛ زحیلی، ج ۲، ص۸۱۵ ـ ۸۱۸؛ ابن ادریس حلّی، ج ۱، ص۱۱۶؛ ابن قدامہ، ج ۱، ص۴۶۱؛ طباطبائی، ج ۳، ص۱۱۷؛ نجفی، ج ۹، ص۲۱۳؛ طباطبائی یزدی، ج ۱، ص۶۲۷
  19. عینی، ج ۲، ص۲۰۲؛ ابن عابدین، ج ۱، ص۴۵۲ـ۴۵۳؛ زحیلی، ج ۲، ص۸۱۸
  20. طوسی، ج ۱، ص۱۰۲؛ ابن قدامہ، ج ۱، ص۴۶۲؛ نووی، ج ۳، ص۳۰۱؛ طباطبائی یزدی، ج ۱، ص۶۲۷
  21. الموسوعہ الفقہیہ، ج ۱۳، ص۲۲۰ـ۲۲۱
  22. انصاری، ج ۱، ص۲۸۸ـ۲۸۹؛ طباطبائی یزدی، ج ۱، ص۶۲۸؛ برای حکم فرد اَخْرَس یا گنگ رجوع کنید به انصاری، ج ۱، ص۲۹۰ـ۲۹۳؛ زحیلی، ج ۲، ص۸۱۶
  23. نووی، ج ۳، ص۳۰۴ـ ۳۰۵؛ عینی، ج ۲، ص۱۹۳؛ موسوی عاملی، ج ۳، ص۳۲۴؛ نجفی، ج ۹، ص۲۲۹
  24. سید مرتضی، ص۱۴۷ـ ۱۴۸
  25. موسوی عاملی، ج ۳، ص۳۲۱؛ طباطبائی، ج ۳، ص۱۲۲
  26. ابن قدامہ، ج ۱، ص۴۶۰؛ بحرانی، ج ۸، ص۳۶؛ زحیلی، ج ۲، ص۸۷۱، ۹۳۶؛ امام خمینی، ج ۱، ص۱۴۷۔ حرّعاملی، ج ۶، ص۳۳

مآخذ

  • ابن ادریس حلّی، کتاب السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم ۱۴۱۰ـ۱۴۱۱۔
  • ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، بیروت : دارصادر، بےتا۔
  • ابن عابدین، حاشیہ ردّالمحتار علی الدّر المختار: شرح تنویر الابصار، چاپ افست بیروت ۱۳۹۹/۱۹۷۹۔
  • ابن فہد حلّی، المہذب البارع فی شرح المختصر النافع، چاپ مجتبی عراقی، قم ۱۴۰۷ـ۱۴۱۳۔
  • ابن قدامہ، المغنی، بیروت : عالم الکتب، بےتا۔
  • مرتضی بن محمد امین انصاری، کتاب الصلاة، ج ۱، قم ۱۴۱۵۔
  • یوسف بن احمدبحرانی، الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاہرۃ، قم ۱۳۶۳ـ۱۳۶۷ ہجری شمسی۔
  • مرتضی بروجردی، مستندالعروة الوثقی، تقریرات آیت اللّه خوئی، ج ۳، قم ۱۴۱۳۔
  • عبدالرحمان جزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، استانبول ۱۴۰۴/ ۱۹۸۴۔
  • حرّعاملی، محمدبن حسن، تفصيل وسائل‌الشيعۃ الى تحصيل مسائل‌الشريعۃ، قم ۱۴۰۹ـ۱۴۱۲۔
  • روح اللّه خمینی، تحریرالوسیلہ، بیروت ۱۴۰۷/ ۱۹۸۷۔
  • وہبه مصطفی زحیلی، الفقہ الاسلامی و ادلّتہ، دمشق ۱۴۱۸/۱۹۹۷۔
  • محمدبن ادریس شافعی، الاُمّ، چاپ محمد زہری نجار، بیروت، بےتا۔
  • زین الدین بن علی شہیدثانی، روض الجنان فی شرح ارشاد الاذہان، چاپ سنگی تہران ۱۳۰۳، قم ۱۴۰۴۔
  • علی بن محمدعلی طباطبائی، ریاض المسائل فی تحقیق الاحکام بالدلائل، قم ۱۴۱۸ـ۱۴۲۱۔
  • محمدکاظم بن عبدالعظیم طباطبائی یزدی، العروة الوثقی، بیروت ۱۴۰۴/۱۹۸۴۔
  • محمدبن حسن طوسی، المبسوط فی فقہ الامامیہ، ج ۱، چاپ محمدتقی کشفی، تہران ۱۳۸۷۔
  • حسن بن یوسف علامہ حلّی، قواعدالاحکام، قم ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹۔
  • علی بن حسین علم الہدی، الانتصار، قم ۱۴۱۵؛ محمودبن احمد عینی، البنایہ فی شرح الہدایہ، بیروت ۱۴۱۱/۱۹۹۰۔
  • الفقہ المنسوب للامام الرضا علیه‌السلام، و المشتہر ب فقه الرضا، مشہد: موسسہ آل البیت، ۱۴۰۶۔
  • محمدبن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵۔
  • محمدعلی کاظمی خراسانی، کتاب الصلاة، تقریرات درس آیت اللّه نائینی، قم ۱۴۱۱۔
  • مالک بن انس، المدونہ الکبری، قاہره ۱۳۲۳، چاپ افست بیروت، بےتا۔
  • مجلسی، محمدباقربن محمدتقى، بحارالانوار، بيروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
  • علی بن حسین محقق کرکی، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم ۱۴۰۸ـ۱۴۱۱۔
  • احمدبن محمد مقدس اردبیلی، مجمع الفائدة والبرہان فی شرح ارشادالاذہان، چاپ مجتبی عراقی، علی پناه اشتہاردی، و حسین یزدی اصفہانی، ج ۲، قم ۱۳۶۲ ہجری شمسی۔
  • الموسوعہ الفقہیہ، کویت : وزارت الاوقاف و الشئون الاسلامیہ، ج ۱۳، ۱۴۰۸/ ۱۹۸۸، ج ۲۳، ۱۴۱۰/ ۱۹۹۰۔
  • محمدبن علی موسوی عاملی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الاسلام، قم ۱۴۱۰۔
  • محمدحسن بن باقرنجفی، جواہرالکلام فی شرح شرائع الاسلام، ج ۹، چاپ عباس قوچانی، بیروت ۱۹۸۱۔
  • احمدبن محمدمہدی نراقی، عوائد الایام، قم ۱۳۷۵ ہجری شمسی۔
  • ایضا، مستندالشیعہ فی احکام الشریعہ، ج ۱۱، قم ۱۴۱۷۔
  • یحیی بن شرف نووی، المجموع : شرح المہذب، بیروت: دارالفکر، بےتا۔

بیرونی رابط