حی علی خیر العمل

ویکی شیعہ سے

حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل یا حَیعَلَہ اذان اور اقامت کا ایک جملہ ہے جس کے معنی ہیں "بہترین عمل کی طرف جلدی آئیں"۔ روایات کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبارت پیغمبر اکرمؐ کے دور میں اذان اور اقامت کا جزء تھی لیکن دوسرے خلیفہ نے لوگوں کو جہاد کی طرف ترغیب دلانے کے لیے اس جملے کو حذف کردیا۔

شیعہ «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» کو اذان اور اقامت میں پڑھتے ہیں لیکن اہل سنت اسے اذان میں نہیں پڑھتے ہیں۔ اس وجہ سے «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» شیعہ اذان کی پہچان بن گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں، جملہ الصلاۃُ خَیرٌ مِنَ النَّوم (نماز نیند سے بہتر ہے) اہل سنت کی شناخت بن گیا ہے۔ الصلاۃ خیر من النوم کا جملہ دوسرے خلیفہ کے دور میں اذان میں شامل کیا گیا ہے اس لئے شیعہ اسے بدعت سمجھتے ہیں۔

اہمیت

«حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» کے معنی ہیں "بہترین عمل کی طرف جلدی آئیں" اور یہ اذان و اقامت کا جزء ہے۔ اذان کے اس جملے میں شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[1] کبھی اسے «حَیعَلَہ» سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[2]

کیا حی علی خیر العمل اذان کا جزء ہے؟

شیعہ فقہا "حی علی خیر العمل" اس جملے کو اذان اور اقامت کا جزء سمجھتے ہیں اور "حی علی الفلاح" (فلاح و کامیابی کی طرف جلدی کرو) کے بعد پڑھا جاتا ہے۔[3]

لیکن اہل سنت فقہا «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» کو اذان کا جزء نہیں سمجھتے ہیں اور اس کی جگہ صبح کی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کو مستحب سمجھتے ہیں۔[4] ان کی نظر میں اذان میں «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» پڑھنا مکروہ ہے۔[5]

روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے دور میں «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» اذان کا جزء تھا۔[6] اسی طرح بعض تواریخ کے مطابق [عبداللہ بن عمر]]،[7] بلال حبشی[8] و ابومحذورہ[9] جیسے بعض صحابی بھی اذان میں «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» پڑھتے تھے۔

حی علی خیر العمل کا اذان سے ختم کرنا

عمر بن خطاب کے دور میں ان کے حکم سے «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» اذان سے ہٹا دیا گیا۔[10] شیخ صدوق نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ خلیفہ دوم کا اس جملے کو اذان سے ختم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگ نماز کو بہترین عمل سمجھ کر کہیں جہاد سے منصرف نہ ہو جائیں۔[11]

امام کاظمؑ کی ایک حدیث میں اس کام کی واقعی اور باطنی وجہ لوگوں کو ولایت یعنی (بہترین عمل) کی طرف جانے سے روکنا قرار دیا ہے۔ اگرچہ ظاہری وجہ لوگوں کو جہاد سے منصرف ہونے سے روکنا بیان ہوا ہے۔[12] معانی‌الاخبار میں امام صادقؑ نے «حی علیٰ خیرالعمل» کے بارے میں کئے جانے والے ایک سوال کے جواب میں، بہترین عمل کو ولایت ہی قرار دیا ہے۔[13]

حیعلہ شیعہ اذان کی پہچان

«حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» شیعہ اذان کی پہچان ہے اسی لئے شیعہ حکومتوں میں یہ اذان میں رائج ہوا کرتا تھا۔ لیکن اہل سنت حکمران اسے اذان سے ختم کرتے تھے۔

  • سنہ 169ھ میں جب حسین بن علی (شہید فخ) نے مدینہ پر قبضہ کیا اور مٶذن کو اذان میں «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» کہنے پر مجبور کیا تو حاکم اذان میں "حی علی خیر العمل" سنتے ہی فرار ہوگیا۔[14]
  • فاطمیون کی مصر میں حکومت (297ھ -567ھ) کے دوران اذان میں «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» پڑھا جاتا تھا۔[15] سنہ 359ھ کو مسجد ابن‌طوطون میں اذان کے دوران «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» پڑھا گیا۔[16]البتہ صلاح‌الدین ایوبی نے مصر پر اپنا قبضہ جمانے کے بعد «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» کو اذان سے حذف کیا۔[17]
  • حکومت آل‌بویہ کی حکومت (322-448ھ) میں اذان میں «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» کہا جاتا تھا اور جب سلجوقی حکومت پر قابض ہوئے تو انہوں نے اذان سے ختم کیا۔[18]
  • سنہ 441ھ کو بغداد کے محلہ کَرْخ میں ایک مذہبی جھڑپ ہوگئی۔ کیونکہ شیعہ اپنی اذان میں «حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمل» پڑھتے تھے۔[19] سنہ 448ھ میں حاکم کے حکم سے «حی علیٰ خیرالعمل» کو اذان سے ختم کرکے اس کی جگہ «الصلاۃ خیر من النوم» کا اضافہ کیا گیا۔[20]
  • اولجایتو (680-716ھ) نے مذہب تشیع قبول کرنے کے بعد حکم دیا کہ "حی علی خیر العمل" کو اذان میں پڑھاجائے۔[21]

تثویب اہل سنت اذان کی پہچان

کتاب الاذان بحی علی خیر العمل، تالیف: محمد بن علی علوی، زیدی عالم دین

حی علی خیر العمل کے مقابلے میں، الصلاۃ خیر من النوم یا «تثویب» اہل سنت اذان کی پہچان بن گئی۔[22] امامیہ اور زیدیہ کے نظریے کے مطابق تثویب (الصلاۃ خیر من النوم کا اذان میں پڑھنا) بدعت ہے؛[23] کیونکہ صحابہ کا قول اور فعل حجت نہیں ہیں بلکہ صرف قول، فعل اور تقریر معصوم حجت ہیں۔[24]

خیر العمل سے مراد

بعض روایات میں خیر العمل کو نماز سے تفسیر کیا ہے؛[25] لیکن بعض دیگر روایات کے مطابق خیر العمل سے مراد ولایت ہے۔ [26] یا حضرت فاطمہؑ اور ان کی آل سے نیکی[27] کرنا مراد ہے۔

مونوگراف

«حیّ علیٰ خیر العمل» کے بارے میں کچھ کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • «الاذان بحیّ علیٰ خیر العمل» تالیف محمد بن علی بن حسن علوی (367-445ھ)۔ زیدی عالم دین کی اس کتاب میں

«حیّ علیٰ خیر العمل» اذان کا جزء ہونے کے بارے میں بعض روایات لائی گئی ہیں۔ زیدیہ بھی امامیہ کی طرح «حیّ علیٰ خیر العمل» کو اذان کا جزء سمجھتے ہیں۔[28] یہ کتاب انتشارات مرکز بدر العلمی و الثقافی کے توسط 1997ء میں منظر عام پر آگئی۔

  • «حی علیٰ خیر العمل بین الشریعۃ و الابتداع» تالیف محمد سالم عزان۔ یہ 80 صفحوں پر مشتمل کتاب 1419ھ کو یمن میں چھپ گئی۔
  • «جزئیۃ حی علیٰ خیر العمل فی الاذان» تالیف عبدالامیر سلطانی انتشارات مجمع جہانی اہل بیتؑ
  • «الاَذان بين الاَصالۃ والتحريف حيّ علیٰ خير العمل الشَرعيۃ الشعاريۃ» تالیف سیدعلی شہرستانی

حوالہ جات

  1. عاملی، «حی علی خیر العمل فی الأذان»، ص52.
  2. مقدسی، احسن التقاسیم، 1411ھ، ج‌ص40و238.
  3. سید مرتضی، الانتصار فی انفرادات الإمامیۃ، 1415ھ، ص137.
  4. ملاحظہ کریں: جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، 1424ھ، ج1، ص383.
  5. ملاحظہ کریں: نووی، المجموع شرح المہذب، دارالفکر، ج3، ص198.
  6. ملاحظہ کریں: بیہقی، السنن الکبری، 1424ھ، ج۱، ص625.
  7. مالک بن انس، الموطأ، المکتبۃ العلمیۃ، ج1، ص55؛ بیہقی، السنن الکبری، 1424ق، ج1، ص625.
  8. بیہقی، السنن الکبری، 1424ھ، ج1، ص625.
  9. عزان، حی علی خیرالعمل، 1419ھ، ص21.
  10. تفتازانی، شرح‌المقاصد، 1409ھ، ج5، ص283.
  11. صدوق، علل‌الشرائع، 1385شمسی، ج‌2، ص368.
  12. صدوق، علل الشرائع، 1385شمسی، ج2، ص368.
  13. صدوق، معانی الاخبار، 1399ھ، ص41.
  14. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص375.
  15. ابن‌خلدون، دیوان المبتدأ،1408ھ، ج4، ص61.
  16. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج8، ص590.
  17. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج12، ص263.
  18. حلبی، السیرۃ الحلبیہ، دارالکتب العلمیہ، ج2، ص136.
  19. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج‌9، ص561.
  20. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج‌9، ص632.
  21. قاشانی، تاریخ اولجایتو، 1348شمسی، ص100.
  22. ملاحظہ کریں: مالک بن انس، الموطأ، المکتبۃ العلمیۃ، ج1، ص54.
  23. سید مرتضی، السمائل الناصریات، 1417ھ، ص183.
  24. محقق داماد، مباحثی از اصول فقہ، 1362شمسی، ج2، ص45.
  25. شیخ صدوق،‌ عیون اخبار الرضاؑ، 1378ھ، ج2،‌ ص106؛ ابن حیون، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج1،‌ ص142؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص52.
  26. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385شمسی، ج2،‌ ص 368، ح4؛ شیخ صدوق، التوحید، 1398ھ، ص241.
  27. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385شمسی، ج2،‌ ص368، ح5؛ شیخ صدوق، التوحید، 1398ھ، ص241.
  28. خیر، «تثویب او حی علی خیر العمل؟»، ص 108.

ماخذ

  • ابن‌اثیر، علی بن بی‌کرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر - دار بیروت، 1385ھ/1965ء۔
  • ابن حیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام‏، قم، مؤسسۃ آل البیت‏ؑ، چاپ دوم، ۱۳۸۵ھ۔
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الاکبر، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت،دار الفکر، ط الثانیۃ، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸ٍء۔
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ/1986ء۔
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت، دار المعرفۃ، بی‌تا.
  • بیہقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارلکتب العلمیہ، الطبعۃ الثالثۃ، 1442ھ/2003ء۔
  • تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، تحقیق عبدالرحمن عمیرہ، قم، الشریف الرضی، قم، ۱۴۰۹ھ۔
  • جزیری، عبدالرحمن بن محمدعوض، الفقہ علی المذاہب الاربعہ، بیروت، دارلکتب العلمیہ2003ھ/1442ھ
  • حلبی، علی بن ابراہیم، السیرۃ الحلبیۃ، دارالکتب العلمیہ، بی‌جا، بی‌تا.
  • خیر، عبدالرحمن، «التثویب او حی علی خیر العمل؟»، الہادی، سال ہفتم، شمارہ۲، صفر ۱۴۰۱ھ۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ/1993ء۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار فی انفرادات الامامیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۵ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، المسائل الناصریات، تہران، رابطۃ الثقافۃ و العلاقات الاسلامیۃ، ۱۴۱۷ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۳۹۸ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، انتشارات داوری، ۱۳۸۵شمسی ہجری۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تہران، نشر جہان، چاپ اول، ۱۳۷۸ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، بیروت، دار المعرفۃ للطباعۃ و النشر، ۱۳۹۹ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ھ۔
  • عاملی، سید جعفرمرتصی، «حی علی خیر العمل فی الاذان»، الہادی، سال پنجم شمارہ۶، محرم ۱۳۹۸.
  • عزان، محمد سالم، «حی علی خیر العمل بین الشریعۃ و الابتداع»، یمن، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
  • قاشانی، عبداللہ بن محمد، تاریخ اولجایتو، بہ اہتمام مہین ہمبلی، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، ۱۳۴۸شمسی ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتاب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مالک بن انس، موطأ مالک بروایۃ محمد بن الحسن الشیبانی، تحقیق عبدالوہاب عبداللطیف، بی‌جا، المکتبۃ العلمیۃ، چاپ دوم، بی‌نا.
  • مقدسی، محمد بن احمد، احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم، قاہرہ، مکتبۃ مدبولی، چاپ سوم، ۱۴۱۱ھ۔
  • نووی، یحیی بن شرف، المجموع شرح المہذب، دارالفکر، بی‌جا، بی‌تا.