تسبیحات اربعہ

ویکی شیعہ سے
دعا و مناجات

تسبیحات اربعہ چار ذکر ہیں جو یومیہ نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت نیز بعض اذکار میں پڑھے جاتے ہیں۔ یہ چار ذکر درج ذیل ہیں: سُبْحانَ اللہِ، وَ الْحَمْدُ لِلہِ، وَ لا إلہَ إلاّ اللہُ، وَ اللہُ أکْبَرُ» (ترجمہ: خداوند پاک اور منزہ ہے، اور سب تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں، اور خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اور خداوند بہت بڑا ہے۔)

وجہ تسمیہ

تسبیحات اربعہ چار ذکر سُبْحانَ اللہِ(تسبیح)، الْحَمْدُ لِلہِ(تحمید)، لا إلہَ إلاّ اللہُ(تہلیل)، و اللہُ أکْبَرُ(تکبیر) سے تشکیل پاتا ہے۔ اس کے باوجود اس ان چار اذکار کو تسبیحات اربعہ کہا جاتا ہے جبکہ اس کا پہلا حصہ تسبیح ہے۔ شیخ انصاری ان اذکار کو اس نام سے پکارے جانے کی علت کو یا تسبیح کو دوسرے اذکار پر غلبہ دینا ہے یا اس کی علت یہ ہے کہ ان تمام اذکار کا مفہوم خدا کو انسانی صفات سے منزہ قرار دینا ہے اور تسیبح کا مفہوم بھی یہی ہے اس بنا پر یہ اذکار اس نام کے ساتھ مشہور ہوا ہے۔[1]

معنوی اہمیت

ایک حدیث میں خانہ کعبہ کے چار کونوں کو تسبیحات اربعہ سے ربط دی گئی ہے: امام صادقؑ فرماتے ہیں: " كعبہ چارکونہ ہے چونکہ یہ بیت المعمور کے برابر میں بنائی گئی ہے۔ بیت المعمور چارکونہ ہے کیونکہ یہ عرش الہی کے برابر میں ہے۔ عرش الہی چارکونہ ہے کیونکہ دین اسلام جن کلامات پر استوار ہے وہ چار ہیں: ۱ـ سبحان اللہ ۲ـ الحمد للہ ۳ـ لا إلہ إلاّ اللہ ۴ـ اللہ اكبر۔[2]

ثواب اور فضیلت

علامہ مجلسی نے بحار الانوار کی جلد نمبر 90 میں ایک باب کو تسبیحات اربعہ کی فضیلت کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے۔ [3]

اسی طرح ایک حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے تسبیحات اربعہ کو "سید التسابیح" (تسبیحات کا سردار) کے نام سے یاد فرمایا ہے۔ ان تسبیحات کا ہر روز 30 مرتبہ پڑھنے کے بہت سارے آثار ہیں جن میں سے ایک گناہوں کی بخشش ہے۔ [4]

اسی طرح سے خدا سے نزدیک ہونے اور دنیوی بلاؤں سے محفوظ رہنے[یادداشت 1] کے لئے تسبیحات اربعہ پڑھنے کی سفارش ہوئی ہے۔ [5] اور دعاؤں کی استجابت[یادداشت 2] کے لئے تسبیحات اربعہ کی سفارش کی گئی ہے۔[6]

حکم شرعی

یومیہ نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت میں حمد اور سورہ کے بدلے تسبیحات اربعہ پڑھی جاتی ہے۔[7] بعض مراجع تقلید کے مطابق تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ تین بار پڑھی جائے اور بعض کے مطابق ایک بار پڑھنا کافی ہے۔ [8] اسی طرح جب نماز کا وقت تنگ ہو تو نمازی کو تسبیحات اربعہ صرف ایک بار پڑھنا واجب ہے۔ [9]

یومیہ نمازوں کے علاوہ نماز جعفر طیار میں سورہ کے بعد (تین سو مرتبہ) [10]، اور ماہ رمضان کی راتوں میں مشترک نماز میں (سات مرتبہ)[11] اور جمادی الثانی کے اعمال میں مشترک نماز ختم ہونے کے بعد (ستر مرتبہ) تسبیحات اربعہ پڑھی جاتی ہے۔

نوٹ

  1. امام صادق(ع) فرمود: «روزی رسول خدا(ص) بہ اصحابش فرمود: اگر جامہ‌ہا و ظروفی را کہ دارید جمع کنید و روی ہم بگذارید، آیا بہ آسمان می‌رسد؟ عرض کردند: خیر، ای رسول خدا! فرمود: وقتی از خواندن نماز فراغت پیدا کردید، سی بار بگویید: «سبحان اللہ، و الحمد للہ، و لا إلہ إلاّ اللہ، و اللہ أکبر۔» پاک و منزّہ است خداوند، و ستایش مختصّ خداست، و معبودی جز خدا نیست، و خداوند بزرگ‌تر است؛ زیرا این کلمات ویرانی، غرق شدن، سوختن، افتادن در چاہ، خوراک درندگان قرار گرفتن، جان سپردن بہ صورت بد و ہرگونہ نکبت و گرفتاری و مصیبتی را کہ بر بندہ در آن روز فرو می‌آید، دفع می‌کنند و آنہا معقّبات ہستند۔»
  2. حضرت صادق (ع) فرمود: «ہرکس در تعقیب نمازہای واجب پیش از آنکہ آسودہ بنشیند، چہل بار بگوید: «سبحان اللہ، و الحمد للہ، و لا إلہ إلاّ اللہ، و اللہ أکبر» سپس از خداوند درخواست نماید، ہر چہ بخواہد بہ او عطا می‌شود۔»

حوالہ جات

  1. شیخ انصاری، کتاب الصلاۃ، ج۱، ص ۳۴۵۔
  2. من لا یحضرہ الفقیہ،شیخ صدوق‏، ج‏۲، ص ۱۹۱۔
  3. ر۔ک بہ: مجلسی، بحار الأنوار، ۱۹۸۳م، ج۹۰، ص۱۶۶ - ۱۷۵
  4. بحار الانوار، ج۹۰، ص۱۷۳، حدیث۱۹
  5. ابن‌طاووس، ادب حضور، ۱۳۸۰ش، ج۱، ص۲۹۳ و ۲۹۴
  6. ابن طاووس، ادب حضور، ۱۳۸۰ش، ج۱، ص۲۹۳ و ۲۹۴۔
  7. فاضلی، عرفان نماز، ۱۳۸۸ش، ص۸۵
  8. بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۵۵۲
  9. العروہ الوثقی(المحشی)، ج۲، ص ۵۳۵۔
  10. قمی، دستورالعمل و مرواریدہای درخشان، ۱۳۸۱ش، ص۲۶۷
  11. قمی، مفاتیح الجنان، رمضان کی نمازیں، دعای افتتاح کے بعد

مآخذ

  • ابن‌طاووس، علی بن موسی، ادب حضور، مترجم محمد روحی، قم، نشر انصاری، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • بنی ہاشمی خمینی، سید محمدحسن، توضیح المسائل مراجع، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
  • فاضلی، قادر، عرفان نماز، تہران، نشر فضیلت علم، ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، دستور العمل و مرواریدہای درخشان (لئالی منثورہ)، گردآورندہ محمد حسین ربانی، قم، نشر عہد، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار (علیہم السلام)، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء۔