شہادتین

ویکی شیعہ سے

شہادتین اللہ تعالی کی وحدانیت و یکتائی اور حضرت محمدؐ کی رسالت کی گواہی دینے اور اصول دین میں سے توحید اور نبوت پر ایمان لانے کو کہا جاتا ہے۔ شہادتیں اسلام اور کفر کا معیار ہے جو شخص شہادتین اپنی زبان پر جاری کرے وہ مسلمان کہلاتا ہے اور اسلامی احکام اس پر نافذ ہونگے۔ مسلمانان ہر نماز کی تشہد اور اذان و اقامت میں شہادتین کا اقرار کرتے ہیں۔

شیعہ فقہا فقہ کے مختلف ابواب میں شہادتین کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ فقہاء کے مطابق نماز میت میں پہلی تکبیر کے بعد شہادتیں واجب ہے اسی طرح احتضار کی حالت میں شہادتین کی تلقین کرنا نیز میت کے کفن پر لکھنا مستحب ہے۔

تعریف

شہادتین اللہ تعالی کی وحدانیت اور حضرت محمدؐ کی رسالت کی گواہی دینا ہے۔[1] فقہاء کا کہنا ہے کہ أشْهَدُ أنْ لا الهَ الاّ اللّه‌ وأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله"۔(ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں اور محمد رسول اللہ کے سوا کوئی اللہ کا نبی نہیں۔) کہنے سے شہادتین محقق ہوتی ہے۔[2] شیخ صدوق کا کہنا ہے کہ شہادتین، اصول دین میں سے دو اصل یعنی توحید اور نبوت کا اقرار کرنا ہے۔[3]

فقہی اور حقوقی حیثیت

مسلمانوں کے ہاں شہادتین کا اقرار اسلام اور کفر کے درمیان حد ہے۔ یعنی جو شخص اپنی زبان پر جارتا ہے اس پر اسلام کے احکام جاری ہوتے ہیں۔[4] اس کا بدن پاک ہے، اس کی جان اور اس کی جان اور مال محترم ہوتے ہیں۔[5]

شیخ صدوق کے مطابق بعض روایات میں ایمان سے مراد شہادتین لیا ہے۔[6]علامہ طباطبایی (1281-1360شمسی ہجری) کے مطابق ایمان کے کچھ مراتب ہیں ان میں سے پہلا مرتبہ شہادتین کے مفہوم پر دل سے عقیدہ رکھنا ہے جس سے اسلام کے فرعی احکام پر عمل کرنے کا باعث بنتا ہے۔[7]

فقہی کتابوں میں شہادتین کے بارے میں باب طہارت کے احکام میت،[8] باب تجارت،[9] نماز[10] اور جہاد[11] میں بحث ہوئی ہے۔

آداب اور احکام

اسلامی ثقافت میں شہادتین کا استعمال

اسلامی معماری میں شہادتین کا استعمال

اسلامی دعاؤں اور مناسک میں شہادتین کا استعمال بہت زیادہ ہے۔[17] مثال کے طور پر مسلمان نماز کے ہر تشہد[18]نیز اذان اور اقامت[19]میں شہادتین پڑھتے ہیں۔ اسلامی معماری، خوشنویسی اور سکّوں پر شہادتین لکھنا مرسوم ہے۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۶۳۰.
  2. مراجعہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۶۳۰.
  3. مراجعہ کریں: شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۹۹.
  4. دیکھیں: نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۴۱، ص۶۳۰؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۰۱-۳۰۳.
  5. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۲۱، ص۱۴۳.
  6. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۹۹-۳۰۰.
  7. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۰۱، ۳۰۳.
  8. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۲، ص۴۰؛ یزدی طباطبایی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۱۷.
  9. مراجعہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۲۲، ص۴۵۲.
  10. مراجعہ کریں:‌ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۲۴۵، ۲۴۶، ۲۶۴.
  11. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۶۳۰.
  12. نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، ج12، ص40۔
  13. نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، ج4، ص14۔
  14. نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، ج9، ص224۔
  15. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۱، ص۲۱۶؛ نجفی، کشف الغطاء، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۲۵۵.
  16. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج22، ص452۔
  17. دیکھیں: شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۵، ۱۶، ۴۹.
  18. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۲۴۵، ۲۴۶.
  19. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۹؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۹، ص۸۱، ۸۲.

مآخذ

  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد و سلاح المتعبد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعہ، ۱۴۱۱ھ.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ھ۔
  • نجفی، جعفر بن خضر، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعہ الغرّاء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۴۲۲ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔
  • یزدی طباطبایی، سید محمدکاظم، العروہ الوثقی فیما تعم بہ البلوی، بيروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۹ھ۔