اصحاب یمین یا اصحاب المیمنہ، ایسا گروہ ہے جو قیامت والے دن، اپنے نامہ اعمال کو سیدھے ہاتھ میں لیں گے اور انکی جگہ جنت میں ہے۔ قرآن نے ان کو اصحاب شمال کے مقابل میں ذکر کیا ہے۔ قرآن کی آیات کے مطابق، خدا پر ایمان رکھنا، قیامت کی حساب رسی پر یقین رکھنا، یتیموں اور حاجت مندوں کو کھانا کھلانا اور غلاموں کو آزاد کرنا، ان کی خصوصیات میں سے ہیں۔ بعض شیعہ روایات کے مطابق، یمین سے مراد امام علیؑ اور اصحاب یمین سے مراد ان کے چاہنے والے ہیں۔

نام کی وجہ

اصحاب یمین قرآنی اصطلاح ہے جس کا معنی "سیدھے دوست" اور اس کے مقابلے میں اصحاب شمال ہیں جس کا معنی "الٹے دوست" ہے۔ [1] مفسرین کی نگاہ میں، اصحاب یمین وہ ہیں جو دنیا میں نیک کام کرتے ہیں اور آخرت میں اپنے نامہ اعمال کو دائیں ہاتھ سے دریافت کریں گے۔ [2] ان کے مقابلے میں اصحاب شمال ہیں جو اپنے نامہ اعمال کو بائیں ہاتھ سے دریافت کریں گے۔ [3] قرآن کریم میں یہ اصطلاح چھ بار ذکر ہوئی ہے اور بعض آیات میں اس کے لئے "اصحاب میمنہ" کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔ [4] مفسرین معتقد ہیں کہ "میمنہ" کا معنی خیر اور نیک بختی ہے اور اصحاب میمنہ سے مراد (جو کہ اصحاب مشئمہ کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے) وہی اصحاب یمین ہیں۔ [5]

اصحاب یمین کی وجہ تسمیہ، اختلاف نظر کے باوجود ان کے بعض صفات یہ ہیں:

  • خیر اور یمن کے خواہاں ہیں۔[6]
  • اپنے نامہ اعمال کو دائیں ہاتھ میں لیں گے۔ [7]
  • قیامت کے دن، یہ دائیں طرف اور اصحاب شمال بائیں طرف قرار دئیے جائیں گے۔ [8]

شیعہ اماموں سے نقل کی گئی بعض روایات کے مطابق، یمین سے مراد، امام علی(ع) اور اصحاب یمین سے مراد ان کے ماننے والے ہیں۔ [9]

خصوصیات

قرآن کریم نے، سورہ واقعہ، انشقاق، بلد اور حاقہ، میں "اصحاب یمین" یا "اصحاب میمنہ" کی خصوصیات بیان کی ہیں، جو درج ذیل ہیں: [10]

اصحاب میمنہ، دنیا میں اللہ تعالی پر اور قیامت کے حساب کتاب پر ایمان رکھتے ہیں، ایک دوسرے کو صبر اور ترحم کی دعوت دیتے ہیں، یتیموں، حاجت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرتے ہیں۔ [11]

موت کے وقت، فرشتے ان پر سلام و تحیت بھیجیں گے۔ [12] قیامت میں ان کا حساب آسان ہو گا اور حساب کے بعد، خوشی خوشی اپنوں کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔ [13]

جنت میں، ان کا عالی مقام ہو گا اور اپنی زندگی سے راضی ہوں گے۔ [14] سورہ واقعہ کی آیات میں ان کا مقام جنت کہا گیا ہے جو کہ پانی کی نہروں کے ساتھ، میوے دار درختوں کے سائے تلے اور کئی قسم کی دوسری جنتی نعمتوں کے ہمراہ ہے۔[15]

حوالہ جات

  1. فرہنگ بزرگ سخن، اصحاب یمین کے ذیل میں
  2. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۹، ص۱۲۳.
  3. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۹، ص۱۲۳.
  4. دایرةالمعارف قرآن کریم، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۳۷۰.
  5. دایرةالمعارف قرآن کریم، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۳۷۰.
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۳، ص۲۰۳.
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۳، ص۲۰۳.
  8. دایرة المعارف قرآن کریم، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۳۷۱.
  9. قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۳۴۸.
  10. ر.ک خرمشاہی، دانشنامہ قرآنی، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۲۳۹و ۲۴۰؛ دایرةالمعارف قرآن کریم، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۳۷۱.
  11. سوره بلد، آیہ۱۳-۱۸؛ سوره حاقہ، آیہ ۱۹و۲۰.
  12. سوره واقعہ، آیہ۹۰و ۹۱.
  13. سوره انشقاق، آیہ۷-۹.
  14. سوره حاقہ، آیہ۲۱-۲۴.
  15. سوره واقعہ، آیہ۲۷-۴۰.

ماخذ

  • قرآن کریم
  • خرم شاہی، بہاء الدین، دانش نامہ قرآنی، تہران، نشر دوستان و ناہید، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • دایرة المعارف قرآن کریم، تدوین مرکز فرہنگ و معارف قرآن، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ھ
  • فرہنگ بزرگ سخن، بہ سرپرستی حسن انوری، تہران، انتشارات سخن، ۱۳۹۰ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق و تصحیح: موسوی جزایری، قم، نشر دار الکتاب، ۱۴۰۴ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔