موالات

ویکی شیعہ سے

مُوالات کسی کام کے اجزاء کے درمیان فاصلہ ڈالے بغیر پے در پے انجام دینے کو کہا جاتا ہے۔ وضو اور نماز کے اجزاء میں موالات کی رعایت کرنا واجب ہے لیکن غسل میں موالات کی رعایت کرنا واجب نہیں۔ بعض فقہاء شرعی عقود(ایجاب و قبول) کے صیغوں میں بھی موالات کی رعایت کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ موالات کی تشخیص کا معیار عرف ہے۔

تعریف

موالات دو چیزوں کا پے در پے اور ایک دوسرے کے پیچھے آنے کو کہتے ہیں۔[1] فقہی اصطلاح میں نماز اور وضو جیسے عبادتوں کے اجزاء کو فاصلے کے بغیر انجام دینے کو موالات کہا جاتا ہے۔[2] فقہاء موالات کی تشخیص کا معیار عرف کو قرار دیتے ہیں۔[3]

موارد وجوب

موالات کی رعایت کرنا بعض عبادات کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ہیں من جملہ وہ عبادات درج ذیل ہیں:

  • نماز: نماز کے اجزاء جیسے قرائت، رکوع اور سجود کو بغیر فاصلہ کے ایک دوسرے کے پیچھے انجام دینا واجب ہے۔ موالات کی رعایت نہ کرنا یہاں تک کہ عرف میں یہ نہ کہا جائے کہ مذکورہ شخص نماز پڑھ رہا ہے، نماز کے باطل ہونے کا سبب ہے۔[4] البتہ رکوع اور سجدوں کو طول دینا یا طولانی سورتوں کا پڑھنا موالات کے منافی نہیں ہے۔[5]
  • وضو: وضو کرتے وقت اعضائے وضو کے دھونے اور مسح کے درمیان اس طرح فاصلہ نہیں ڈالنا چاہئے کہ اگلا عضو دھوتے یا مسح کرتے وقت پچھلا عضو خشک ہو جائے۔[6]
  • اذان و اقامہ: شیعہ فقہاء کے مطابق اذان و اقامہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک ان کے جملوں کے ادا کرنے میں موالات کی رعایت کرنا ہے۔[7]
  • شرعی عقود: بعض فقہاء کے مطابق شرعی عقود کے صیغوں کے اجزاء میں بھی موالات کی رعایت ضروری ہے۔ جیسے خرید و فروخت یا شادی وغیرہ جو دو جزء یعنی ایجاب و قبول پر مشتمل ہوتے ہیں اور طرفین کی رضایت ایک خاص صیغے کے جاری کرنے کے ذریعے انجام پاتی ہے۔[8]

غسل میں موالات

فیض کاشانی کے مطابق شیعہ فقہاء غسل میں موالات کو واجب نہیں سمجھتے؛[9] اگرچہ غسل میں بھی اس کی رعایت کرنا مستحب قرار دیتے ہیں۔[10]

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۱۵، ص۴۱۲(ذیل واژہ ولی)۔
  2. بصمہ‌جی، معجم مصطلحات الفاظ الفقہ الاسلامی، ۲۰۰۹م، ص۵۵۶۔
  3. مشکینی، مصطلحات الفقہ، ۱۴۲۸ق، ص۵۱۸۔
  4. کاشف الغطاء، سؤال و جواب، مؤسسہ کاشف الغطاء، ص۷۶؛ بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۶۰۲، م۱۱۱۴۔
  5. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۶۰۳، م۱۱۱۶۔
  6. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۱۷۳، م۲۸۳ و ۲۸۴۔
  7. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۲، ص۴۲۵۔
  8. شیخ انصاری، کتاب المکاسب، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۱۵۷-۱۶۱۔
  9. فیض کاشانی، معتصم الشیعہ، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۴۲۳۔
  10. فیض کاشانی، معتصم الشیعہ، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۴۲۳۔

مآخذ

  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، تصحیح احمد فارس، بیروت، دارالفکر للطباعہ، ۱۴۱۴ھ۔
  • بصمہ‌جی، سایر، معجم مصطلحات الفاظ الفقہ الاسلامی، دمشق، صفحات للدراسات و النشر، ۲۰۰۹ء۔
  • بنی‌ہاشمی خمینی، سید محمدحسن، توضیح المسائل مراجع، تہران، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۳۸۳ش۔
  • شیخ انصاری، مرتضی بن محمدامین، کتاب المکاسب و البیع و الخیارات، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ھ۔
  • طباطبایی حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی (محشی)، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۱۹ھ۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن بن شاہ‌مرتضی، معتصم الشیعہ فی احکام الشریعہ، تہران، مدرسہ عالی شہید مطہری، ۱۴۲۹ھ۔
  • کاشف الغطاء، محمدحسین بن علی، سؤال و جواب، مؤسسہ کاشف الغطاء، بی‎تا۔
  • مشکینی، میرزاعلی، مصطلحات‌الفقہ، قم، الہادی، ۱۴۲۸ھ۔