اجل مسمی

ویکی شیعہ سے

اَجَل مُسَمَّی ایک قرآنی اصطلاح ہے جو کسی چیز کے یقینی اور حتمی اختتام کو کہا جاتا ہے۔ اجل مسمی اجل مُعَلَّق کے مقابلے میں ہے جو کسی چیز کے ایسے خاتمے کو کہا جاتا کے جس میں کمی بیشی کا امکان ہو۔

قرآن میں اجل مسمی انسانوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جس کے بارے میں مفسرین نے مختلف نظریات پیش کئے ہیں؛ من جملہ یہ کہ: اجل مسمی سے مراد انسان کی یقینی موت ہے۔ اسی طرح بعض اس سے آخرت مراد لیتے ہیں۔

مفہوم‌شناسی

اَجَلِ مُسَمّیٰ دو لفظ اَجَل اور مُسَمّیٰ سے مرکب ہے، اجل کسی چیز کی انتہاء اور اختتام کو کہا جاتا ہے؛[1] اور مُسَمی کے معنی معین اور مشخص کے ہیں۔[2]

اس بنا پر اجل مسمی کسی چیز کے معین اور مشخص اختتام اور انتہاء کو کہا جاتا ہے جس میں کمی بیشی کا امکان نہیں۔ اس کے مقابلے میں اجل مُعَلَّق ہے جس کے معنی کسی چیز کا غیر معین اختتام ہے جس میں کمی بیشی کا امکان پایا ہے۔[3]

مختلف تفسیریں

اجل مسمی ایک قرآنی اصطلاح ہے اور قرآن مجید میں 21 مرتبہ یہ لفظ ذکر ہوا ہے۔[4] مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی آیت 282 میں قرض کی بحث میں اس کا ذکر آیا ہے جس کے معنی قرض کی مدت کی تعیین ہے۔[5]

قرآن میں اجل مسمی کا لفظ انسان کے بارے میں بھی آیا ہے؛ مثلا:‌ ہُوَ الَّذِى خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضىَ أَجَلًا وَ أَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَہُ (ترجمہ: وہ(خدا) وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر (زندگی کی) ایک مدت مقرر کی اور ایک مقررہ مدت اور بھی ہے...۔)[؟؟][6]

اس طرح کی آیتوں میں اجل مسمی کے معانی سے متعلق مفسرین کے درمیان کئی نظریات موجود ہیں:[7]

  • ایک گروہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد انسان کی موت سے لے کر قیامت برپا ہونے تک کا زمانہ ہے اس کے مقابلے میں انسان کی دنیاوی زندگی اجل غیرمسمی ہے۔[8]
  • بعض اجل مسمی سے عالم آخرت مراد لیتے ہیں۔[9]
  • بعض مفسرین کے مطابق اجل مسمی زندہ انسانوں کی زندگی کے خاتمے کو کہا جاتا ہے مردہ انسانوں کی زندگی کے خاتمے کی مقابلے میں۔[10]
  • بعض کے نزدیک اجل مسمی انسان کی موت ہے۔[11]
  • علامہ طباطبایی کے مطابق اجل مسمی اور اجل غیرمسمی (معلَّق) دونوں انسانی زندگی کے خاتمے سے مربوط ہے اس فرق کے ساتھ کہ اجل مسمی سے مراد وہ وقت ہے جس میں انسان کی حتمی موت واقع ہوتی ہے جس کا علم صرف خدا کے پاس ہوتا ہے؛ جبکہ اجل معلّق انسان کی اس موت کو کہا جاتا ہے جو اس کے جسمانی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پر طاری ہوتی ہے جس میں بیرونی عوامل (دعا اور صدقہ وغیرہ) کی وجہ سے کمی بیشی کا امکان ہوتا ہے۔[12]

اجل معلق کے ساتھ فرق

بعض مفسرین من جملہ علامہ طباطبائی کے مطابق اجل مسمی اور اجل معلق میں فرق یہ ہے کہ اجل مسمی حتمی ہے اور اس میں بَداء کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی؛ لیکن اجل معلق میں بداء حاصل ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اجل مسمی میں دعا، صدقہ اور ہر وہ کام جو اجل معلق میں مؤثر ہے، مؤثر نہیں ہے۔[13] اسی طرح قرآنی آیات خاص کر سورہ انعام کی آیت نمبر 2 کے مطابق کہ اجل مسمی کا علم خدا کے پاس ہے، سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اجل مسمی کا علم خدا کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہوتا۔[14]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن‌منظور، لسان‌العرب، ۱۴۱۴ق، ج۱۱، ص۱۱؛ ابن‌فارس، معجم مقاییس اللغۃ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۶۵؛ قرشی بنایی، قاموس قرآن، ج۲، ص۳۰۹۔
  2. ابن‌منظور، لسان‌العرب، ۱۴۱۴ق، ج۱۴، ص۴۰۰؛ جوہری، الصحاح، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۲۳۸۴۔
  3. بیات، «اجل معلق و اجل مسمی از منظر آیات و تجلی آن در روایات»، ص۱۰۔
  4. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ج۲، ص۴۱۰
  5. مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۳۸۳۔
  6. سورہ انعام، آیت نمر2۔
  7. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۴۲۳و۴۲۴۔
  8. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۴۲۳۔
  9. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۴۲۴۔
  10. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۴۲۴۔
  11. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۴۲۴۔
  12. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۹و۱۰۔
  13. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۹۔
  14. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۸۔

مآخذ

  • ابن‌فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، قم، مکتب اعلام الاسلامی، ۱۴۰۴ق۔
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان‌العرب،‌ دار صادر، بیروت، چاپ چہارم، ۱۴۱۴ق۔
  • [بیات، محمدحسین، «اجل معلق و اجل مسمی از منظر آیات و تجلی آن در روایات»، سراج منیر، ش۲۲، ۱۳۹۵ش۔
  • جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح، بیروت،‌ دار العلم للملایین، ۱۴۰۴ق۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامىِ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، ۱۳۸۳ش۔
  • قرشی بنابی، علی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران،‌ دار الکتب اسلامیہ، چاپ ششم، ۱۳۷۱ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔