نماز شب
إِذَا قَامَ الْعَبْدُ مِنْ لَذِيذِ مَضْجَعِہِ وَالنُّعَاسُ فِي عَيْنَيْہِ لِيُرْضِيَ رَبَّہُ بِصَلَاۃِ لَيْلِہِ بَاہَى اللَّہُ بِہِ الْمَلَائِكَۃَ وَقَالَ أَ مَا تَرَوْنَ عَبْدِي ہَذَا قَدْ قَامَ مِنْ لَذِيذِ مَضْجَعِہِ لِصَلَاۃٍ لَمْ أَفْرِضْہَا عَلَيْہِ اشْہَدُوا أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَہُ (ترجمہ: جب انسان اپنے پرلطف بستر سے اٹھتا ہے جبکہ اس کی آنکھیں خواب آلود ہیں، اس لئے کہ اپنے تہجد [نماز شب] سے اپنے پروردگار کو خوشنود کرے، خداوند متعال فرشتوں کے آگے اس پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کیا تم میرے بندے کو نہیں دیکھ رہے ہو جو اپنے بسترِ لطیف سے اٹھا ہے ایسی نماز کے لئے جو میں نے اس پر واجب نہیں کی ہے، گواہ رہو کہ میں نے اس کو بخش دیا۔)
حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج8، ص،157
نماز شب اہم مستحب نمازوں میں سے ہے جس کا وقت آدھی رات سے طلوع فجر تک ہے۔ نماز شب حضرت محمدؐ پر واجب تھی اور دیگر مسلمانوں کے لئے مستحب ہے۔ البتہ پڑھنے کی بہت تاکید ہوئی ہے۔ نماز شب کی فضیلت اور اس کے آثار اور خواص کے بارے میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں۔ نماز شب سب سے افضل مستحب اور شیعوں کی علامت اور نشانی قرار دی گئی ہے۔ نماز شب 11 رکعت ہے جسے دو دو رکعت کی پانچ اور ایک رکعت کی ایک نماز پڑھی جاتی ہے۔ آخری تین رکعتوں کی فضیلت باقی رکعتوں سے زیادہ ہے جن میں دو رکعت نماز شَفع اور ایک رکعت نماز وَتر ہیں۔
نماز شب پڑھنے کی تاکید
نماز شب ان مستحب نمازوں میں سے ایک ہے جسے پڑھنے کی روایات میں بہت تاکید ہوئی ہے۔ حضرت محمدؐ اپنی وصیت میں امام علیؑ کو تین مرتبہ نماز شب کی تاکید کرتے ہیں۔[1] اسی طرح آپ مسلمانوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: تم پر لازم ہے نماز شب ادا کرنا، خواہ وہ ایک رکعت ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ نماز شب انسان کو گناہ سے باز رکھتی ہے اور انسان کی نسبت اللہ کے غضب کو بجھا دیتی ہے اور قیامت میں آگ کی جلن کو دور کردیتی ہے۔[2] احادیث کی کتابوں میں «صلاۃ اللَّیل» کے نام سے ایک باب ذکر ہوا ہے جس میں نماز شب سے مربوط احادیث نقل ہوئی ہیں۔[3]
شیعہ محدث شیخ صدوق (متوفی381ھ) کا کہنا ہے کہ نماز شب پیغمبر اکرمؐ پر واجب تھی جبکہ دوسرے مؤمنین پر مستحب ہے۔[4] شیخ مفید نماز شب کو سنت مؤکدہ (جس کو بجا لانے کی بہت تاکید ہوئی ہے) سمجھتے ہیں۔[5]
پڑھنے کا طریقہ
«میرے بیٹے، اگر دنیا چاہتے ہو تو نماز شب پڑھو اور اگر آخرت کے طلبگار ہو تب بھی نماز شب پڑھو۔»[6]
نماز شب کی گیارہ رکعتیں ہیں جنہیں چار عدد دو رکعتی نماز نافلہ شب کی نیت سے، دو رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھی جاتی ہیں۔[7]
البتہ نماز شفع کی پہلی رکعت میں سورہ حمد اور الناس، اور دوسری رکعت میں حمد اور فلق پڑھنا مستحب ہے۔ اسی طرح نماز وتر میں سورہ حمد کے بعد تین مرتبہ سورہ توحید اور ایک ایک مرتبہ فلق اور الناس، پڑھی جائیں۔[8]
مستحب ہے کہ وتر کی قنوت میں 40 مؤمنین کے لئے دعا یا طلب مغفرت کی جائے۔[9]اسی طرح 70 مرتبہ ذکر "اَسْتَغْفِرُاللّہَ رَبّی وَاَتُوبُ اِلَیہِ"، سات مرتبہ "(ہذا مَقامُ الْعائِذِ بِكَ مِنَ النّارِ (ترجمہ: یہ اس شخص کا مقام [کھڑے ہونے کی جگہ] ہے جو تیری آگ سے تیری بارگاہ میں پناہ لایا ہے)"، 300 مرتبہ " اَلعَفو" ، اور پھر یہ دعا پڑھے: "رَبِّ اغْفِرْلی وَارْحَمْنی وَتُبْ عَلی اِنَّكَ اَنْتَ التَّوّابُ الْغَفُورُ الرَّحیمُ (ترجمہ: اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما اور میری توبہ قبول کر، یقینا تو بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے)۔"[10]
شیخ طوسی نے مِصْباحُ الْمُتَہَجِّد، میں نماز شب کے بعد دعائے حزین پڑھنے کی تاکید کی ہے۔[11]
نماز شب کے آثار اور فضائل
رسول اللہ فرماتے ہیں: مَا اتَّخَذَّ اللّہُ اِبْراہِیمَ خَلیلاً اِلاّ لاِطْعامِہِ الطَّعامَ، وَصَلاْتِہِ بِاللَّیلِ وَالنَّاسُ نِیامٌ؛
صدوق، علل الشرائع، منشورات المکتبۃ الحیدریہ، ج1، ص35.
احادیث میں نماز شب کی بہت ساری فضیلتیں اور آثار ذکر ہوئی ہیں؛ جیسا کہ بحار الاَنوار میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ نماز شب اللہ کی خوشنودی، اس کی معرفت، گھر کی نورانیت، بدن کی آرامش اور سکو، شیطان سے نفرت، دعا کی استجابت، اعمال کی قبولیت، قبر میں نورانیت اور دشمن کے مقابلے میں مسلح ہونے کا باعث بنتی ہے۔[12] امام صادقؑ کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ نماز شب انسان کو خوبصورت، خوش اخلاق اور خوشبو بناتی ہے اور رزق میں اضافہ، قرضوں کو ادا، غموں کو زائل اور بصارت کو روشن اور نورانی کردیتی ہے۔[13] امام صادقؑ کی ایک اور حدیث میں ذکر ہوتا ہے کہ: «مال اور اولاد زندگی کی زینت ہیں۔ رات کے آخری پہر میں 8 رکعت نماز شب اور ایک رکعت نماز وتر آخرت کی زینت ہیں۔»[14]
نماز شب کی دیگر فضائل میں سے بعض درج ذیل ہیں:
شیخ صدوق کی عِلَلُ الشرائع میں شیعہ ائمہؑ سے منقول روایات میں گناہ نماز شب سے محرومی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔[19]
احکام
شَرَفُ الْمُؤْمِنِ صَلاتُہُ بِاللَّیلِ، وَعِزُّہُ کفُّ الاَذی عَنِ النّاسِ (ترجمہ: صاحب ایمان شخص کی شرافت کا دارومدار، "نماز شب پر اس کے ایمان"، پر ہے اور اس کی عزت و عظمت کا معیار لوگوں کو اذیت و آزار پہنچانے سے پرہیز ہے۔)
حر عاملی، الخصال، ج1، ص: 6
فقہی کتابوں میں مذکور نماز شب کے فقہی احکام میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- نماز شب کی نماز میں نماز شَفْع اور نماز وَتر کو باقی نماز پر فضیلت ہے۔ اور نماز وتر کو نماز شفع پر فضیلت ہے۔ نماز شب کی جگہ صرف نماز شفع اور وتر ہی پر اکتفا کیا جاسکتا ہے۔[20]
- نماز شب کا وقت شرعی نصف شب سے فجر صادق تک ہے اور سحر کا وقت دوسرے اوقات سے زیادہ بہتر ہے۔[21] شیعہ مراجع تقلید میں سے سید علی سیستانی نماز شب کا وقت رات کے آغاز سے ہی شروع ہوتا ہے۔[22]
- اگر نماز شب بیٹھ کر پڑھے تو بہتر یہ ہے کہ بیٹھ کر پڑھی جانے والی دو رکعتوں کو کھڑے ہو کر بجالانے والی ایک رکعت شمار کرے۔[23]
- مسافر اور وہ شخص، جس کے لئے نصف شب کے بعد نافلۂ شب پڑھنا دشوار ہے، تو وہ اولِ شب، نماز شب ادا کرسکتا ہے۔[24]
- در صورت نخواندن نماز شب، میتوان قضای آن را بہ جا آورد.[25]
- نماز شب کو آدھی رات سے پہلے پڑھنے سے بہتر ہے اسے قضا ہونے کے بعد قضا بجالائی جائے۔[26]
مونوگراف
نماز شب کے بارے میں مختلف زبانوں میں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ نماز شب کے بارے میں لکھے جانے والے مقالہ «کتابشناسی نماز شب» میں عربی اور فارسی زبان میں لکھی جانے والی 70 کتابوں کا ذکر کیا ہے۔[27] ان میں سے بعض درج ذیل ہیں
- آدابُ صَلاۃِ اللَّیل، تالیف محمدباقر فشارکی (متوفی: 1315ق)؛
- صَلاۃُ اللَّیل؛ فَضلُہا و وَقتُہا و عَدَدُہا و کِیفیَتُہا و الخُصوصیاتُ الرّاجعۃُ اِلَیہا مِنَ الکِتابِ و السُّنۃ، تالیف، غلامرضا عرفانیان (متوفی: 1382ش) عربی زبان میں؛
- آدابُ صَلاۃِ اللَّیل و فَضلِہا، تالیف: سید محمدباقر شَفتی (متوفی: 1260ق).[28]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ صدوھ، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص481 و ج4، ص179.
- ↑ متقی ہندی، کنز العمال، 1410ھ، ج7، ص791، ح21431.
- ↑ ملاحظہ کریں: صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص484.
- ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص484.
- ↑ مفید، المقنعہ، 1413ھ، ص120.
- ↑ «نماز شب کا گناہ کے آثار ختم کرنے کے بارے میں درس خارج کے ابتدا میں بیان»، دفتر حفظ و نشر آثار آیتاللہ العظمی خامنہای.
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص245؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، 1434ھ، ج1، ص143.
- ↑ قمی، مفاتیح الجنان، 1384شمسی، ص949.
- ↑ قمی، مفاتیح الجنان، 1384شمسی، ص949.
- ↑ قمی، مفاتیح الجنان، 1384شمسی، ص950.
- ↑ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ھ، ص163-164.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج87، ص161.
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج5، ص272.
- ↑ صدوق، معانی الاخبار، دارالمعرفہ، ص324.
- ↑ متقی ہندی، کنز العمال، 1410ھ، ج7، ص791، 21397.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج87، ص140.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج87، ص156.
- ↑ مفید، المقنعہ، 1413ھ، ص119-120.
- ↑ صدوق، علل الشرائع، منشورات المکتبۃ الحیدریہ، ج2، ص362.
- ↑ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، 1434ھ، ج1، ص143.
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص265-266.
- ↑ پرسش و پاسخ نماز شب، سایت رسمی دفتر آیتاللہ سیستانی.
- ↑ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، 1434ھ، ج1، ص144.
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص266.
- ↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص266.
- ↑ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص266.
- ↑ انصاری قمی، «کتابشناسی نماز شب»، ص170.
- ↑ انصاری قمی، «کتابشناسی نماز شب»، ص170-186.
مآخذ
- امام خمینی، سید روحاللہ، تحریر الوسیلۃ (موسوعۃ الإمام الخمینی 22 و 23)، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، چاپ سوم، 1434ھ۔
- انصاری قمی، ناصرالدین، «کتابشناسی نماز»، مشکوۃ، زمستان 1372ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہمالسلام، 1409ھ۔
- «درس خارج میں بیان ہوا کہ گناہ سے نماز شب کی توفیق سلب ہوتی ہے»، دفتر حفظ و نشر آثار آیتاللہ العظمی خامنہای، درج مطلب 2 بہمن 1397شمسی، مشاہدہ 1 شہریور 1402ہجری شمسی۔
- «پرسش و پاسخ نماز شب»، سایت رسمی دفتر آیت اللہ سیستانی، مشاہدہ 1 شہریور 1402ہجری شمسی۔
- صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علیاکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، 1362ہجری شمسی۔
- صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، نجف، منشورات المکتبۃ الحیدریہ.
- صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، معانی الاخبار، دارالمعرفہ، بی تا.
- صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، مؤسسۃ النشر الاسلامی، الطبعۃ الاولی، 1419ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعہ، الطبعۃ الاولی، 1411ق/1991ء۔
- فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، قم، انتشارات رضی، چاپ اول، 1375ہجری شمسی۔
- قمی، شیخ عباس، کلیات مفاتیح الجنان، قم، مطبوعات دینی، چاپ دوم، 1384ہجری شمسی۔
- متقی ہندی، علی بن حسامالدین، کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال، تحقیق بکری حیانی - صفوۃ السقا، مؤسسۃ الرسالۃ، الطبعۃ الخامسۃ، 1401ق/1981ء۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔