روزے کا کفارہ

wikishia سے
مشہور احکام
رساله عملیه.jpg
واجب عبادات
یومیہ نمازیںنماز جمعہنماز عیدنماز آیاتنماز میتروزہخمسزکاتحججہادامر بالمعروف و نہی عن المنکرتولیتبری
مستحب عبادات
نماز تہجدنماز غفیلہنماز جعفر طیارنماز امام زمانہنماز استسقاءنماز شب قدرنماز وحشتنماز شکرنماز استغاثہدوسری نمازیں
احکام طہارت
وضوغسلتیممنجاساتمطہرات
مدنی احکام
وکالتوصیتضمانتکفالتارث
عائلی احکام
شادی بیاهمتعہتعَدُّدِ اَزواجنشوز
طلاقمہریہرضاعہمبستریاستمتاعخلعمباراتعقد نکاح
عدالتی احکام
قضاوتدیّتحدودقصاصتعزیر
اقتصادی احکام
خرید و فروخت (بیع)اجارہقرضہسود
دوسرے احکام
حجابصدقہنذرتقلیدکھانے پینے کے آدابوقفاعتکاف
متعلقہ موضوعات
بلوغفقہشرعی احکامتوضیح المسائلواجبحراممستحبمباحمکروہ

کَفّارۂ روزہ یعنی ماہ مبارک رمضان کا روزہ، نذر کا روزہ اور کسی وقت معین میں ماہ رمضان کے قضا روزہ کو ظہر کے بعد باطل کرنے کے عوض میں جو جرمانہ مکلف کے ذمہ آتا ہے اسے کَفّارۂ روزہ کہتے ہیں۔ عمدا یعنی ارادہ کے ساتھ روزہ کو باطل کرنے کا کفارہ، دو مہینہ روزہ رکھنا کہ جن میں سے 31 روزہ مسلسل رکھے یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے۔

روزہ کا کفارہ اس صورت میں واجب ہوتا ہے جب روزہ دار یہ جانتا ہو کہ وہ جو کام انجام دے رہا ہے وہ روزہ کو باطل کرتا ہے یعنی مبطلات روزہ میں سے ہے۔ بعض فقہا جیسے صاحب جواہر اور سید ابوالقاسم خوئی اس بات کے معتقد ہیں کہ مبطلات روزہ کو انجام دینے سے نہ صرف روزہ کی قضا بلکہ اس کا کفارہ بھی واجب ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں بعض فقہا کا نظریہ یہ ہے کہ مبطلات روزہ جیسے قے کرنا یا اذان صبح یا اذان مغرب کے اوقات کی غلط تشخیص، کفارہ کا سبب نہیں بنتے۔

فقہائے شیعہ کے نظریہ کے مطابق، اگر کوئی شخص حرام کام جیسے شراب پینے یا زنا کے ذریعہ اپنا روزہ باطل کرے تو اس پر دونوں کفارہ (دو ماہ کا روزہ اور ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا) واجب ہو جاتا ہے۔ اس کے با وجود بعض فقہا ایسی صورت میں دونوں کفاروں کو جمع کرنے کو احتیاط مستحب اور بعض دیگر اسے احتیاط واجب سمجھتے ہیں۔

مفہوم‌

کفارہ وہ مالی یا جسمانی جرمانہ ہوتا ہے جو بعض گناہوں کے انجام دینے کے عوض مکلف کے ذمہ رکھا جاتا ہے۔[1] کفارہ زیادہ تر آخرت کی سزا کے معاف یا کم ہونے کا سبب ہوتا ہے۔[2]

فقہا کا نظریہ یہ ہے کہ کفارہ کچھ روزوں کے باطل کرنے پر دیا جاتا ہے:

  • ماہ مبارک رمضان کا روزہ۔
  • ماہ مبارک رمضان کا وہ قضا روزہ جو ظہر کے بعد باطل ہوتا ہے۔
  • وہ روزہ جس کی نذر کی جائے کہ اسے خاص وقت میں رکھا جائے گا۔[3]

کفارہ کو عرف عام کی زبان میں فدیہ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مُد طعام (750 گرام گیہوں یا اس کے مثل) کو روزہ کا کفارہ کہا جاتا ہے۔[4] جب کہ فدیہ روزہ کا بدل ہوتا ہے جو روزہ نہ رکھ سکنے کی صورت میں دیا جاتا ہے جیسے بیماری کی بنا پر کمزوری آ جائے یا اس کے جیسی دوسری مشکل پیش آ جائے اور اگلے ماہ مبارک رمضان تک گزشتہ روزے کی قضا بجا نہ لانے کی صورت میں کفارہ تأخیر دیا جاتا ہے۔[5]

کفارہ روزہ میں علم و جہل کا اثر

فقہا کی نظر کے مطابق، اگر ایک شخص علم و ارادہ اور شرعی دلیل کے بغیر اپنے روزہ کو توڑ دے تو قضا کے علاوہ اس پر کفارہ بھی واجب ہے۔[6] اس کے علاوہ وجوب کفارہ کے لئے شرط ہے کہ وہ شخص جانتا ہو کہ جس کام کو اس نے انجام دیا ہے وہ مبطلات روزہ میں سے ہے۔[7] اسی لئے کفارہ کا حکم جاہل قاصر کو شامل نہیں ہے۔[8] لیکن جاہل مقصر کے بارے میں اختلاف ہے اور بعض فقہا جیسے سید ابوالقاسم خوئی [8] اور سید علی سیستانی [9] کا نظریہ ہے کہ جاہل مقصر پر بھی کفارہ واجب ہوتا ہے، اس کے مقابلہ میں بعض کا خیال یہ ہے کہ جاہل مقصر بھی ایسا ہی ہے جیسے کہ اسے مبطلات کا علم ہو لہذا ضروری ہے کہ قضا کے علاوہ کفارہ بھی ادا کرے۔[7]

کون سے مبطلات کفارہ کا سبب ہیں؟

صاحب جواہر کا نظریہ ہے کہ روایات کی بنا پر مبطلات روزہ میں سے کسی کو بھی انجام دینے کی وجہ سے قضا کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی واجب ہوتا ہے۔[10] سید ابوالقاسم خوئی کے مطابق اگر کسی بھی چیز سے روزہ باطل ہو جائے یہاں تک کہ خدا و پیغمبر پر جھوٹ ہو یا قے کرنا، یہ سب بھی کفارہ کا سبب ہوتا ہے۔[11]

دوسری طرف، کچھ فقہا کا خیال ہے کہ روزہ باطل کرنے کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ کفارہ واجب ہے۔[12] امام خمینی کے مطابق اگر ایک شخص جان کر قے کرے یا رات میں مُجنِب ہو جائے اور تین مرتبہ بیدار ہو اور پھر سو جائے یہاں تک کہ اذان صبح کے وقت بھی بیدار نہ ہو تو اس کے اوپر صرف اس دن کی قضا واجب ہوگی اور کوئی کفارہ واجب نہ ہوگا۔[13]

حرام یا حلال کے ذریعہ روزہ باطل کرنے میں کفارہ کا فرق

بعض فقہا کا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص حلال مبطلات کے ذریعہ جیسے کھانے اور پانی سے روزہ باطل کرتا ہے تو اسے روزے کے علاوہ کفارہ میں سے بھی ایک ادا کرنا ہوگا۔[14] لیکن اگر حرام جیسے زنا یا شراب کے ذریعہ اپنے روزہ کو باطل کرتا ہے تو تینوں کفارے ادا کرنے ہونگے جسے کفارہ جمع کہتے ہیں۔[15] البتہ بعض مراجع کفارہ جمع کے انجام دینے کو احتیاط مستحب[16] اور بعض دوسرے مراجع احتیاط واجب سمجھتے ہیں۔[17]

مشہور شیعہ فقہا روزے کے کفارے کو مندرجہ ذیل تین مقامات میں سے کسی ایک کو سمجھتے ہیں:

  • دو مہینے کے روزے رکھنا جن میں 31 روزے مسلسل ہوں۔[18]
  • ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا۔
  • ایک غلام آزاد کرنا۔[19] البتہ آج کل غلام آزاد کرنا ممکن نہیں لہذا اس حکم کو اٹھا لیا گیا ہے۔[20]

حوالہ جات

  1. مشکینی، مصطلحات الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۴۶۵۔
  2. مشکینی، مصطلحات‌ الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۴۶۵۔
  3. خوئی، منہاج الصالحین، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۶۹۔
  4. نمونہ کے طور پر دیکھئے: خامنہ‎‌ای، اجوبۃ الاستفتائات، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۱۳۸، س۸۰۲۔
  5. صدر، ماوراءالفقہ، ۱۴۲۰ق، ج۹، ص۱۲۰۔
  6. امام خمینی، استفتائات، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۳۳۰۔
  7. 7.0 7.1 روحانی، منہاج الصالحین، ج۱، ص۳۵۵۔
  8. 8.0 8.1 خوئی، منہاج الصالحین، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۷۰۔
  9. سیستانی، منہاج الصالحین، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۷۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۲۲۶۔
  11. خویی، موسوعۃ الإمام الخوئی، ۱۴۱۸ق، ج۲۱، ص۳۰۵۔
  12. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی مع التعلیقات، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص۳۸۔
  13. امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۳۴۶۔
  14. بہجت، جامع المسائل، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۲۹۔
  15. بہجت، جامع المسائل، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۲۹۔
  16. سیستانی، توضیح المسائل، ۱۳۹۳ش، ص۲۹۸-۲۹۹۔
  17. امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۳۴۴۔
  18. امام خمینی، توضیح المسائل‌، ۱۴۲۶ق، ص۳۴۷۔
  19. ابن بابویہ، مجموعۃ فتاوی ابن بابویہ، قم، ص۷۳۔
  20. مکارم، رسالۃ توضیح المسائل، ۱۴۲۹ق، ص۲۵۳۔

مآخذ

  • ابن بابویہ، علی بن حسین، مجموعۃ فتاوی ابن بابویہ، جامع: عبدالرحیم بروجردی، محقق: علی‌ پناہ اشتہاردی‌، قم، بی‌نا، چاپ اول، بے‌تا۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللّہ، استفتائات، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۲۲ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللّہ، توضیح المسائل، محقق و مصحح: مسلم قلی‌پور گیلانی‌، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، ۱۴۲۶ھ۔
  • بہجت، محمد تقی، جامع المسائل، قم، دفتر آیت‌اللہ بہجت، چاپ دوم، ۱۴۲۶ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الإمام الخوئی، قم، مؤسسۃ إحیاء آثار الإمام الخوئی، چاپ اول، ۱۴۱۸ھ۔
  • روحانی، سید صادق، منہاج الصالحین، بی‌جا، بے‌نا، بے‌تا۔
  • سیستانی، سید علی، توضیح المسائل، مشہد، دفتر حضرت آیت‌اللہ العظمی سیستانی، ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
  • سیستانی، سید علی، منہاج الصالحین، انتشارات دفتر آیۃ اللہ سیستانی، قم، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی مع التعلیقات، تعلیقات: امام خمینی، خویی، سید ابوالقاسم، گلپایگانی، سید محمدرضا، مکارم شیرازی، ناصر، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۸ھ۔
  • مشکینی، میرزا علی، مصطلحات الفقہ، بے‌جا، بے‌نا، ۱۴۱۹ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ پنجاہ ودوم، ۱۴۲۹ھ۔
  • موسوی خویی، سید ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، نشر مدینۃ العلم، چاپ بیست و ہشتم، ۱۴۱۰ھ۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، تصحیح عباس قوچانی، علی آخوندی، ‌بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ھ۔